کھوگیا تیری چاہ میں ، مٹ گیا تیری راہ میں - شباب بدایونی

کاشفی

محفلین
غزل
(شباب، بدایونی)

کھوگیا تیری چاہ میں ، مٹ گیا تیری راہ میں
پھر بھی ہوئی نہ قدر کچھ دل کی تری نگاہ میں

دل نے یہ کہہ کے بارہا ہوش ہمارے کھو دئے
کہئے تو کیا نظر پڑا یار کی جلوہ گاہ میں

پرسش حال سے غرض؟ عذرِ ستم سے فائدہ؟
اب کوئی آرزو بھی ہو میرے دل تباہ میں

دیکھ فریبِ التفات پرسشِ مدعا نہ کر
اب دلِ ناامید کو ڈال نہ اشتباہ میں

صدمہء شامِ بیکسی پوچھئے اس غریب سے
میری طرح سے تھک کے جو بیٹھ گیا ہو راہ میں

ضبطِ ملال و غم سے بھی کام چلا نہ اے شباب
خاک ہی اُڑ کے رہ گئی آہ دل تباہ میں
 
Top