کون ہوں ، کیوں ہوں اور کیا ہوں میں : غزل براہ اصلاح

اشرف علی

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
آداب !

آپ اساتذۂ کرام سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے _

غزل

کون ہوں ، کیوں ہوں اور کیا ہوں میں
خود سے ہر روز پوچھتا ہوں میں

جسم سے روح کا جو رشتہ ہے
تجھ سے کچھ اس طرح جُڑا ہوں میں

ناپ مت میرا سایہ اے ناداں !
اپنے سایے سے بھی بڑا ہوں میں

میری نظروں میں ، بے وفا ہے وہ
اُس کی نظروں میں ، بے وفا ہوں میں

وہ مجھے یاد کر رہا ہے کیا ؟
وہ جسے یاد کر رہا ہوں میں

عرش سے پہلے کیسے رک جاؤں
ایک مظلوم کی دعا ہوں میں

بس مِرا دل ہی جانتا ہے یہ
آپ کو کتنا چاہتا ہوں میں

آل ڈی بیسٹ تو کہو مجھ کو
اس سے ملنے جو جا رہا ہوں میں

میں بھی ایمان والا ہوں یعنی
ایک مومن کا آئنہ ہوں میں

اب کسے سوچتا ہے وہ دن بھر
رات بھر ، اب یہ سوچتا ہوں میں

خود سے آگے نکلنے کی خاطر
خود سے پیچھا چھُڑا رہا ہوں میں

دھڑکنیں تیز ہونے لگتی ہیں
آپ کو جب بھی دیکھتا ہوں میں

لوگ کہتے ہیں مجھ سے اے اشرف !
آج کا جونؔ ایلیا ہوں میں
 
وہ مجھے یاد کر رہا ہے کیا ؟
وہ جسے یاد کر رہا ہوں میں
وہ کی تکرار اچھی نہیں لگ رہی۔ پہلے مصرعے کو یوں سوچ کر دیکھیں
کیا کبھی مجھ کو یاد کرتا ہے؟

آل ڈی بیسٹ تو کہو مجھ کو
اس سے ملنے جو جا رہا ہوں میں
یہ شعر نکال دیں ۔۔۔ کسی کالج وغیرہ میں مشاعرہ ہو تو وہاں سنایا جاسکتا ہے :)

اب کسے سوچتا ہے وہ دن بھر
رات بھر ، اب یہ سوچتا ہوں میں
’’کسے سوچتا‘‘ کے بجائے کس کے بارے میں سوچتا کہنا قرین محاورہ ہوگا، میرے خیال میں۔

لوگ کہتے ہیں مجھ سے اے اشرف !
آج کا جونؔ ایلیا ہوں میں
شاعرانہ تعلی ایک طرف ۔۔۔ جب پہلے مصرعے میں ’’اے اشرفؔ‘‘ آ گیا تو دوسرے مصرعے میں لوگوں کے قول کو مقتبس کیا جائے گا ۔۔۔ اب ظاہر ہے لوگ آپ ’’ہوں میں‘‘ کے بجائے ’’ہے تو‘‘ ہی کہیں گے ۔۔۔ ورنہ ایسے لوگوں کے قول کا کیا اعتبار جن کو بنیادی گرامر کی آگہی نہیں :)
سنجیدہ مشورہ یہ ہے کہ اس طرح کی شاعرانہ تعلی ایک آدھ دفعہ ہی گوارا کی جاسکتی ہے ۔۔۔ ہر غزل میں میرؔ و غالبؔ کی ہمسری کا دعویٰ یا تمنا اچھی نہیں ۔۔۔ اس طرح آپ کا کلام یکسانیت کا شکار ہوجائے گا۔

باقی اشعار مجھے تو ٹھیک لگ رہے ہیں۔
 

اشرف علی

محفلین
وہ کی تکرار اچھی نہیں لگ رہی۔ پہلے مصرعے کو یوں سوچ کر دیکھیں
کیا کبھی مجھ کو یاد کرتا ہے؟
بہت بہت شکریہ سر
اللّٰہ آپ کو خوش رکھے ، آمین _

اب دیکھیں ...

کیا کبھی مجھ کو یاد کرتا ہے ؟
وہ جسے یاد کر رہا ہوں میں
یہ شعر نکال دیں ۔۔۔ کسی کالج وغیرہ میں مشاعرہ ہو تو وہاں سنایا جاسکتا ہے
ٹھیک ہے سر
شکریہ
’’کسے سوچتا‘‘ کے بجائے کس کے بارے میں سوچتا کہنا قرین محاورہ ہوگا، میرے خیال میں۔
اب دیکھیں سر ...
کس کے بارے میں سوچتا ہے وہ
رات بھر اب یہ سوچتا ہوں میں
شاعرانہ تعلی ایک طرف ۔۔۔ جب پہلے مصرعے میں ’’اے اشرفؔ‘‘ آ گیا تو دوسرے مصرعے میں لوگوں کے قول کو مقتبس کیا جائے گا ۔۔۔ اب ظاہر ہے لوگ آپ ’’ہوں میں‘‘ کے بجائے ’’ہے تو‘‘ ہی کہیں گے ۔۔۔ ورنہ ایسے لوگوں کے قول کا کیا اعتبار جن کو بنیادی گرامر کی آگہی نہیں
جی سر میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ وہاں 'ہے تو' ہونا چاہیے لیکن پھر میں نے سوچا کہ میں اشرف سے اپنے بارے میں کہہ رہا ہوں اس لیے 'ہوں میں' شاید چل جائے _
رہنمائی فرمانے کا بہت شکریہ سر
سنجیدہ مشورہ یہ ہے کہ اس طرح کی شاعرانہ تعلی ایک آدھ دفعہ ہی گوارا کی جاسکتی ہے ۔۔۔ ہر غزل میں میرؔ و غالبؔ کی ہمسری کا دعویٰ یا تمنا اچھی نہیں ۔۔۔ اس طرح آپ کا کلام یکسانیت کا شکار ہوجائے گا۔
جی سر ! آئندہ سے خیال رکھوں گا

بس اس مقطع کو رکھنے کی اجازت دے دیں سر اگر اصلاح کی کوئی صورت نکل آئے تو
 

اشرف علی

محفلین
غزل (اصلاح کے بعد)

کون ہوں ، کیوں ہوں اور کیا ہوں میں
خود سے ہر روز پوچھتا ہوں میں

جسم سے روح کا جو رشتہ ہے
تجھ سے کچھ اس طرح جُڑا ہوں میں

ناپ مت میرا سایہ اے ناداں !
اپنے سایے سے بھی بڑا ہوں میں

میری نظروں میں ، بے وفا ہے وہ
اُس کی نظروں میں ، بے وفا ہوں میں

کیا کبھی مجھ کو یاد کرتا ہے ؟
وہ جسے یاد کر رہا ہوں میں

عرش سے پہلے کیسے رک جاؤں
ایک مظلوم کی دعا ہوں میں

بس مِرا دل ہی جانتا ہے یہ
آپ کو کتنا چاہتا ہوں میں

میں بھی ایمان والا ہوں یعنی
ایک مومن کا آئنہ ہوں میں

کس کے بارے میں سوچتا ہے وہ
رات بھر اب یہ سوچتا ہوں میں

خود سے آگے نکلنے کی خاطر
خود سے پیچھا چھُڑا رہا ہوں میں

دھڑکنیں تیز ہونے لگتی ہیں
آپ کو جب بھی دیکھتا ہوں میں

مجھ سے کہتے ہیں لوگ اب ، اشرف
آج کا جونؔ ایلیا ہوں میں
 

اشرف علی

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
آداب !

آپ اساتذۂ کرام سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے _

غزل

کون ہوں ، کیوں ہوں اور کیا ہوں میں
خود سے ہر روز پوچھتا ہوں میں

جسم سے روح کا جو رشتہ ہے
تجھ سے کچھ اس طرح جُڑا ہوں میں

ناپ مت میرا سایہ اے ناداں !
اپنے سایے سے بھی بڑا ہوں میں

میری نظروں میں ، بے وفا ہے وہ
اُس کی نظروں میں ، بے وفا ہوں میں

وہ مجھے یاد کر رہا ہے کیا ؟
وہ جسے یاد کر رہا ہوں میں

عرش سے پہلے کیسے رک جاؤں
ایک مظلوم کی دعا ہوں میں

بس مِرا دل ہی جانتا ہے یہ
آپ کو کتنا چاہتا ہوں میں

آل ڈی بیسٹ تو کہو مجھ کو
اس سے ملنے جو جا رہا ہوں میں

میں بھی ایمان والا ہوں یعنی
ایک مومن کا آئنہ ہوں میں

اب کسے سوچتا ہے وہ دن بھر
رات بھر ، اب یہ سوچتا ہوں میں

خود سے آگے نکلنے کی خاطر
خود سے پیچھا چھُڑا رہا ہوں میں

دھڑکنیں تیز ہونے لگتی ہیں
آپ کو جب بھی دیکھتا ہوں میں

لوگ کہتے ہیں مجھ سے اے اشرف !
آج کا جونؔ ایلیا ہوں میں
بہت بہت شکریہ سر سید عاطف علی
جزاک اللّٰہ خیراً
 
Top