کاشفی

محفلین
کلامِ امانی
(میر امانی مرشد آبادی)

تعارف شاعر:
امانی تخلص، میر امانی نام، خلف ہیں یہ خواجہ آثمی کے۔ 1181ھ گیارہ سو ایکاسی ہجری میں‌وارد مرشد آباد کے ہوئے، اور جناب سید الشہداء کی تعزیہ داری کا شغل ہمیشہ رکھتے تھے۔ مرثیہء‌ہندی اپنے کہےہوئے اکثر ممبر پر کھڑے ہو کر پڑھتے، اور مؤمنین کے تئیں سعادتِ گریہ کی دولت سے داخل ثواب کرتے۔ ایک شب جناب سید الشہدا علیہ السلام کی عین تعزیہ داری میں ، کہ 1187ھ گیارہ سو ستاسی ہجری تھے، بیہوش ہو کرسیر کرنے والے روضہء رضوان کے ہوئے۔ حق سبحانہ تعالٰی مغفرت کرے۔ عجب مرد خوش اعتقاد اور دیندار تھا۔ نشہء محبت میں اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سرشار تھا۔ یہ اشعار یادگار اُسی کردار کے ہیں۔

اُس کے کوچہ سے غبار اُٹھا
کون سا واں سے خاکسار اُٹھا

عندلیبوں بساؤ اب صحرا
باغ سے موسمِ بہار اُٹھا

ہچکیاں لے گلابیاں روئیں
بزم سے جب وہ مے گسار اُٹھا

عزمِ رخصت ہوا جب ہی اُس کا
میرے دل سے وہیں قرار اُٹھا

نہیں جو قدرِ اشک ، عالم سے
موتیوں کا مگر وقار اُٹھا

شمع سے سوز امانی پوچھا تیرا
اک دھواں اسکے دل سے یار اُٹھا

--------------------------------
راہ تکتے تکتے آخر جیسے آیا تنگ دل
آنکھیں تو پتھرا گئیں، پر وہ نہ آیا سنگدل

--------------------------------
صدمے جو پڑے ہیں دل پہ غم کے
آنسو نہیں تھمتے چشمِ نم کے

خوش خواب میں ہیں، مگر جو اب تک
جاگے نہیں خفتگاں عدم کے

--------------------------------

نامہ بر کہیو‌زمانے کی تڑپ تھی تجھ بن
شمعِ شب دیکھ مجھے صبح تلک روئی ہے

بارہا منع کیا چھوڑ دے بے رحم کی چاہ
باز نہیں آتا، امانی بھی عجب کوئی ہے

--------------------------------
سیر گلشن کو میں جاتا تھا جو صیاد مجھے
دیکھ کر دور سے بولا کہ "شکار آتا ہے"
 
Top