فراز کسی کی یاد میں اِتنا نہ رو، ہُوا سو ہُوا --- احمد فراز

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
احمد فراز

کسی کی یاد میں اِتنا نہ رو، ہُوا سو ہُوا
کہ دل گنوا کے اب آنکھیں نہ کھو، ہُوا سو ہُوا

کوئی اُسے نہ سُنائے ہمارا حالِ خراب
مبادہ اس کو بھی افسوس ہو، ہُوا سو ہُوا

جدائیوں کے زمانوں کا پوچھتے کیا ہو
گزرگئی جو گزرنی تھی، جو ہُوا سو ہُوا

محبتوں میں عجب تو نہیں اجڑ جانا
سو مجھ کو دیکھ کے حیراں نہ ہو، ہُوا سو ہُوا

ہزار اور بھی دُکھ دل نے پال رکھے ہیں
چلو یہ عشق کا آزار تو ہُوا سو ہُوا

وفا میں ایسے کہاں ہم بھی خوش معاملہ تھے
فقط اُسی سے گِلہ کیوں کرو ہُوا سو ہُوا

فراز! خوش ہو متاعِ ہُنر سلامت ہے
بلا سےعشق کی بازی میں جو ہُوا سو ہُوا
فراز
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا خوبصورت غزل ہے۔ سودا کی زمین بہت اچھے طریقے سے استعمال کی ہے فراز نے، لاجواب۔

شکریہ جناب ارسال فرمانے کیلیے۔
 

طارق شاہ

محفلین
کیا خوبصورت غزل ہے۔ سودا کی زمین بہت اچھے طریقے سے استعمال کی ہے فراز نے، لاجواب۔

شکریہ جناب ارسال فرمانے کیلیے۔
بلا کشان محبت پہ جو ہوا سو ہوا
بالکل درست فرمایا آپ نے

فراز صاحب کی بھی کیا بات ہے
اظہار خیال کے لئے ممنون ہوں خوشی ہوئی کے انتخاب پسند آیا

تشکّر
بہت خوش رہیں
 

مہ جبین

محفلین
وفا میں ایسے کہاں ہم بھی خوش معاملہ تھے
فقط اُسی سے گِلہ کیوں کرو ہُوا سو ہُوا


بہت عمدہ غزل ہے

شیئر کرنے کے لئے بہت شکریہ طارق شاہ بھائی
 

طارق شاہ

محفلین
وفا میں ایسے کہاں ہم بھی خوش معاملہ تھے
فقط اُسی سے گِلہ کیوں کرو ہُوا سو ہُوا

بہت عمدہ غزل ہے

شیئر کرنے کے لئے بہت شکریہ طارق شاہ بھائی

باعثِ مسّرت ہوا پیش کرنا!
اظہار خیال کے لئے آپ کا منوں ہوں ، خوشی ہوئی کہ انتخاب آپ کو پسند آیا

تشکّر
 
Top