کربلا : صفحہ 48
بہت سے آدمی مسجد میں گھُس پڑتے ہیں۔
بس حضر مسلم ۔ زبان بند کیجئے۔
آپ کے لئے اب یہی مناسب ہے کہ بہ یک بینئی دوگوش مدینہ کی راہ لیں۔ یزید ہمارا خلیفہ ہے اور زیاد ہمارا امام۔
سلیمان: مجھے معلوم ہے کہ زیاد نے تمہاری پیٹھ پر آج خوب ہاتھ پھیرے ہیں اور ہری ہری گھاس دکھائی ہے۔ پر یاد رکھو اس ہریالی کے نیچے خندق ہے۔
(باہر سے اینٹ اور پتھر کی بارش ہونے لگتی ہے)
مارو، مارو! یہ قوم کا دشمن ہے۔
سلیمان: ظالمو! یہ خانہء خداوند ہے۔ اس کی حُرمت کا تو خیال رکھو۔
خانہ خدا نہیں۔ دشمنانِ اسلام کا مسکن کہو۔ اُس کی زبان تالو سے کھینچ لو۔
مسلم: اے بدنصیب قوم! اگر تو اتنی جلد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایتوں کو فراموش کر سکتی ہے ۔ اور تجھ میں نیک و بد کی تمیز نہیں رہی ۔ تو تو دنیا میں کبھی فروغ نہ پائے گی۔
ایک آواز: یہ اسلام کا دشمن ہے۔
دوسری آواز: نہیں نہیں - یہ حضرت حسین علیہ السلام کے چچرے بھائی ہیں ان کی توہین مت کرو۔
تیسری آواز: انہیں پکڑ کر شہر کی کسی اندھیری گلی میں چھوڑ دو۔ ہم ان کے خون سے ہاتھ نہ رنگیں گے۔ کئی آدمی مسلم پہ ٹوٹ پڑتے ہیں اور انہیں کھینچتے ہوئے مسجد کے باہر لے جاتے ہیں۔