کتا ب و سنت ڈاٹ کام کی لائیبریری سے...

عبد المعز

محفلین
کتاب کا نام
تحریک ختم نبوت
مصنف
ڈاکٹر محمد بہاؤ الدین
ناشر
مکتبہ قدوسیہ،لاہور

TitlePages--Tahreek-Khatm-e-Nabuwwat.jpg

تبصرہ
تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں۔ اور وہ یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر موت نہیں آئی، وہ زندہ اٹھا لیے گئے تھے اور قرب قیامت وہ دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔ لیکن مرزا غلام احمد قادیانی نے دعویٰ کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت واقع ہو چکی ہے اور جس عیسیٰ کے لوگوں کو آنے کا انتظار ہے وہ عیسیٰ یامثیل وہ خود ہیں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد انھوں نے یہ دعویٰ بھی فرما دیا کہ وہ اللہ کے نبی ہیں۔ اس کے رد عمل کے طور پر ہندوستان کے طول و عرض میں تحریک ختم نبوت کا آغاز ہوا جس میں مرزا کے دعاوی کی تردید اور مسلمہ عقائد مسلمین کی تائید کا کام شروع ہوا۔ کتاب ہذا ان مضامین کا مجموعہ ہے جو 1995ء کے آخر سے تحریک ختم نبوت کے عنوان سے ’صراط مستقیم‘ برمنگھم میں سلسلہ وار شائع ہوتے رہے۔ ڈاکٹر محمد بہاؤ الدین مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس قدر قیمتی کام کو یکجا صورت میں پیش کرنے کی سعی کی۔ (ع۔م)
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد1 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد2 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد3 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد4 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد5 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد6 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد7 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد8 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد9 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد10 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد11 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد12 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد13 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد14 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتابتحریک ختم نبوت جلد15 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد16 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد17 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد18 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد19 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد20 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد21 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد22 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد23 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد 24 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد 25 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد 26 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد 27 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد 28 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد 29 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد 30 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد 31 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد 32 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
اس کتاب تحریک ختم نبوت جلد 33 کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
 

عبد المعز

محفلین
سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ سے محبت وعقیدت مسلمان کے ایمان کا بنیادی حزو ہے ۔ اور اللہ رب العزت کی نعمتوں میں ایک بہت بڑی نعمت او ر دولت ہے۔ حب ِنبوی دنیا کی تمام محبتوں میں بالکل منفرد اور ان میں سب سے ممتاز ہے ۔یہ کوئی حادثاتی اور اتفاقی محبت نہیں کہ اچانک قائم کر لی جائے او راچانک سے ختم کردی جائے یا پھر کبھی کرلی جائے اور کبھی نہ بھی کی جائے تو کو ئی حرج نہ ہو۔ بلکہ رسول اللہ ﷺ سے محبت ہی صرف وہ چیز ہے جو دنیااور آخرت میں کامیابی کی ضمانت اور اللہ رب العزت کی محبت پانے کاذریعہ ہے ۔اور اسی طرح کسی بھی شخص کاایمان اس وقت تک مکمل قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک رسول اللہ ﷺ کو تمام رشتوں سے بڑھ کر محبوب ومقرب نہ جانا جائے۔فرمانِ نبویﷺ ہے تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک اسے رسول اللہﷺ کے ساتھ ماں،باپ ،اولاد اور باقی سب اشخاص سے بڑھ کر محبت نہ ہو۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق اسلام میں حرمت اور ناموس کے اعتبار سے کسی نبی میں کوئی فرق نہیں ۔ تمام انبیاء میں سی کسی بھی نبی پر کوئی دشنام طرازی کی جاتی ہے تو اس کی سزا قتل کے علاوہ کوئی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کاشروع دن سے ہی یہ عقیدہ ہےکہ نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی سے محبت وتعلق کےبغیر ایمان کا دعویٰ باطل اور غلط ہے۔ہر دو ر میں اہل ایمان نے آپ ﷺ کی شخصیت کے ساتھ تعلق ومحبت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔اور اگر تاریخ کے کسی موڑ پرکسی بد بخت نے آپﷺ کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کرنے کی کوشش کی تو مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے شتم رسولﷺ کے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ چند سال قبل ڈنمارک ناروے وغیرہ کے بعض آرٹسٹوں نے جوآپ ﷺ کی ذات گرامی کے بارے میں خاکے بنا کر آپﷺ کامذاق اڑایا۔جس سے پورا عالم اسلام مضطرب اور دل گرفتہ ہواتونبی کریم ﷺ سے عقیدت ومحبت کے تقاضا کو سامنے رکھتے ہوئےاہل ایما ن سراپا احتجاج بن گئے اور سعودی عرب نے جن ملکوں میں یہ نازیبا حرکت ہوئی ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا ۔ زیرتبصرہ کتاب'' فداہ ﷺ ابی وامی '' اس سلسلے کی کڑی ہے جو کہ امیر جماعۃ الدعوۃ حافظ محمد سعید ﷾ کے صاحبزادہ حافظ طلحہ سعید ﷾ کی کاوش ہے ۔ جس میں انہوں نے موجودہ دو ر میں اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کےپس پردہ محرکات کو بیان کرنے کے بعد تحفظ حرمت رسولﷺ کے علمی اور تحقیقی پہلو اور نبی کریم ﷺ سے محبت اور صحابہ کرام کے طرز ِ عمل کو بڑے احسن انداز میں سپرد قلم کیا ہے ۔ اللہ تعالی ان کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے (آمین) (م۔ا)
 

عبد المعز

محفلین
فہرست مضامین
پس پردہ محرکات
تحفظ حرمت رسول ﷺ کے علمی اور تحقیقی پہلو
نبی کریمﷺ سے محبت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز عمل
 

عبد المعز

محفلین
خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ایک قادر الکلام خطیب اور شاندار مقرر مختصر وقت میں ہزاروں ،لاکھوں افراد تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے اوراپنے عقائد ونظریات ان تک منتقل کرسکتا ہے۔خطابت صرف فن ہی نہیں ہے بلکہ اسلام میں خطابت اعلیٰ درجہ کی عبادت اورعظیم الشان سعادت ہے ۔خوش نصیب ہیں وہ ہستیاں جن کومیدانِ خطابت کے لیے پسند کیا جاتا ہے۔شعلہ نوا خطباء حالات کادھارا بدل دیتے ہیں،ہواؤں کےرخ تبدیل کردیتے ،معاشروں میں انقلاب بپا کردیتے ہیں ۔تاریخ کےہر دورمیں خطابت کو مہتم بالشان اور قابل فخر فن کی حیثیت حاصل رہی ہے اور اقوام وملل او رقبائل کے امراء وزعما کے لیے فصیح اللسان خطیب ہونا لازمی امرتھا۔قبل از اسلام زمانہ جاہلیت کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالیں تو اس دور میں بھی ہمیں کئی معروف ِ زمانہ فصیح اللسان اور سحر بیان خطباء اس فن کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے نظرآتے ہیں۔دورِ اسلام میں فنِ خطابت اپنے اوج کمال تک پہنچ گیا تھا ۔نبی کریم ﷺ خود سحرآفرین اور دلنشیں اندازِ خطابت اور حسنِ خطابت کی تمام خوبیوں سے متصف تھے ۔اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں وراثتِ نبوی کے تحفظ اور تبلیغِ دین کےلیے ایسی نابغۂ روز گار اور فرید العصر شخصیات کو پیدا فرمایا کہ جنہوں نے اللہ تعالی کی عطا کردہ صلاحیتوں اور اس کے ودیعت کردہ ملکۂ خطابت سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے پر زور انداز میں دعوت حق کوپیش کیا اور لوگوں کے قلوب واذہان کو کتاب وسنت کے نور سے منور کیا ۔ ماضی قریب میں امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد، سیدابو بکر غزنوی، آغا شورش کاشمیری، سید عطاء اللہ بخاری ، حافظ محمد اسماعیل روپڑی،مولانا محمد جونا گڑھی ﷭ وغیرہم کا شمار میدان خطابت کے شہسواروں میں ہوتا ہے ۔اور خطیبِ ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید﷫ میدان ِ خطابت کے وہ شہسوار ہیں جنہوں نے اللہ کی توفیق سے ایک نیا طرزِ خطابت ایجاد کیا ۔اور شیخ القرآن مولانا محمدحسین شیخوپوری گلستانِ کتاب وسنت کے وہ بلبل شیدا ہیں کہ دنیا انہیں خطیبِ پاکستان کے لقب سے یاد کرتی ہے۔خطباء ومبلغین اور دعاۃِ اسلام کےلیے زادِراہ ،علمی مواد اور منہج سلف صالحین کےمطابق معلومات کاذخیرہ فراہم کرنا یقیناً عظیم عمل اوردینِ حق کی بہت بڑی خدمت ہے اور واعظین ومبلغین کا بطریق احسن علمی تعاون ہے ۔اس لیے علماء نے ہر دور میں یہ رزیں کارنامہ سرانجام دینے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ خطباء ودعاۃ جن کے پاس مصادر ومراجع میسر نہیں یا جن کے پاس وقت کی قلت ہے ان کے لیے خطباء کی تیاری کےلیے آسانی ہوسکے ۔ماضی قریب میں اردوزبان میں خطبات کے مجموعہ جات میں اسلامی خطبات از مولانا عبدالسلام بستوی  ، خطباتِ محمدی از مولانا محمد جونا گڑھی ،خطبات ِنبوی از مولانا محمد داؤد راز اور بعض اہل علم کے ذاتی نام سے (خطبات آزاد ،خطبات علامہ احسان الٰہی ظہیر ، خطبات یزدانی ،مواعظ طارق وغیرہ ) خطبات کے مجموعات قابلِ ذکر ہیں ۔اور عربی زبان میں خطباء واعظین حضرات کے لیے 12 ضخیم مجلدات پر مشتمل ''نضرۃ النعیم ''انتہائی عمدہ کتاب ہے ۔زیر نظر کتاب ''زاد الخطیب''ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد ﷾( فاضل وسابق استاذِ حدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ،لاہور؍فاضل مدینہ یونیورسٹی ) کی وہ عظیم الشان تصنیف ہے جو اپنی جملہ خوبیوں(ہر خطبہ کے آغاز میں متعین موضوع کے اہم عناصر کا ذکر۔متعین موضوع اور مواد کے لیے صر ف صحیح احادیث کا انتخاب او رضعیف ،خود ساختہ اور بناوٹی احادیث سے قطعی اجتناب۔ خطبات کی ترتیب میں ترتیبی پہلو۔خطبہ کے شروع میں تمہید کابیان ۔خطبات میں علمی ثقاہت اورجلالت ِبیان کی نمایاں جھلک ۔آیات واحادیث کےمکمل حوالہ جات او رہر دعوی ٰ دلیل سے مزین۔انداز ِ بیان سادہ مگر انتہائی پر مغز ۔آسان محاورات اورسہل عبارات سے اپنا مدعا بیان کر نے کی بھر پور کوشش) کی بناپر تین مجلدات میں 75 علمی موضوعات پر مشتمل خطباتِ جمعہ اپنی نوعیت کا منفرد مجموعہ ہے ۔جس کا دار مدار اورانحصار موضوع ،من گھڑت روایات اور قصہ گوئی کےبجاے کتاب وسنت کی صحیح نصوص پر ہے ۔ فاضل مصنف نے ایسا امتیازی اور منفرد اندازِ نگارش اختیار کیا ہے جو اسے تمام دیگر مجموعہ ہائے خطبات سے ممتاز کرتا ہے ۔یہ خطبات جامع بھی ہیں او رمفصل بھی۔ہر موضوع کا مناسب حق ادا کیا گیا ہے ،ان میں کوئی اہم پہلو تشنہ نہیں چھوڑا گیا ۔ایک ایک موضوع پر اتنا علمی مواد مناسب ترتیب کے ساتھ جمع کردیا ہے گیا ہے کہ ایک موضوع دودو تین تین خطبوں کےلیے کافی ہے۔ان اعتبارات سے یہ مجموعۂ خطبات علماء وخطباء اور اہل علم کےلیے بلاشبہ بیش قیمت علمی تحفہ او رآیاتِ قرآنیہ اور احادیث ِصحیحہ کا ایک خزینہ ہے ۔اس کتاب کی جلد اول اور دو م جمعیۃ احیاء التراث الاسلامی کویت کی جانب سے 2008ء میں سب سے پہلے پاکستان میں طبع ہوئیں اور پھر ہندوستان میں ۔برصغیر پاک وہندکے ہزاروں خطباء اور واعظین حضرات میں اس کو تقسیم کیاگیا۔ جمعیت احیاء الترث کی اشاعت کے علاوہ پاک وہند کے بعض اہم مکتبات نے بھی اس کتاب کو شائع کیا اب تک کئی ایڈیشن شائع ہوکر ہزاروں دعاۃ ،واعظین اوراہل علم کےہاتھوں میں پہنچ چکے ہیں جن سے وہ مستفید ہور ہے ہیں ۔دورِ حاضر میں عالمِ اسلام میں اردو زبان میں سلفی منہج وفکرپر مرتب کے جانے والے خطبات میں سب سے زیادہ جن خطبات سے استفادہ کیا جاتا ہے وہ اعزاز ماشاء اللہ زاد الخطیب کو حاصل ہے (اللهم زد فزد)الحمد للہ زاد الخطیب کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس کی افادیت کے پیش نظر اس کے مختلف زبانوں میں ترجمہ کا کام بڑی تیزی سے جاری ہے ۔ پہلی دو جلدوں کا سندھی زبان میں ترجمہ مکمل ہوچکا ہے ۔فارسی اور پشتو زبان میں بھی ترجمہ ہورہا ہے ۔اسی طرح ہندوستان کی بعض علاقائی زبانوں اور بنگالی زبان میں بھی ترجمہ کروانےکا منصوبہ ہے۔فاضل مصنف استاد محترم ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد﷾ زاد الخطیب کے علاوہ تقریبا ایک درجن چھوٹی بڑی کتب کے مصنف ومترجم ہیں ۔محترم حافظ صاحب دینی تعلیم کے حصول کے لیے 1982میں جامعہ لاہور الاسلامیہ،لاہور ( جامعہ رحمانیہ )میں داخل ہوئے اور یہاں ثانوی کے امتحان میں امتیازی نمبر حاصل کرکے اول آنے پر انہیں1986 میں مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ کا شرف حاصل ہوا۔مدینہ یونیورسٹی کے کلیۃ الحدیث سے فراغت سے کے بعد 1991ء میں اپنے مادرِ علمی جامعہ لاہور الاسلامیہ میں تدریس کا آغازکیا اور پھر کچھ عرصہ بعدکویت تشریف لے گے قیامِ کویت کے دوران 2007ء میں جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔پی ایچ ڈی میں تحقیقی مقالہ کاعنوان ’’ حدیثِ مو ضو ع ، تا ر یخ ، اسباب،علامت اورمشہور موضوع احادیث کاتحقیقی جائزہ‘‘ ہے مقالہ نگار نے یہ مقالہ عربی زبان میں پیش کیا۔موصوف کی تدریسی وتصنیفی خدمات اور مزید تعارف کےلیے زاد الخطیب جلد3 ص5۔10 ملاحظہ فرمائیں۔ زاد االخطیب کی تینوں جلدیں پہلے بھی کتاب وسنت ویب سائٹ موجود ہیں لیکن زیر تبصرہ نئے ایڈیشن میں اس کی پہلی دوجلدوں میں تیسری جلدکی طرح مواد کی سیٹنگ اورحوالہ جات کوجدید اسلوب کے مطابق درج کیا گیا ہے اس لیے جلد اول اور دو م کو دوبارہ کتاب وسنت ویب سائٹ پر اپ ڈیٹ کیا گیا ہے ۔اشاعتِ دین کے لیے اللہ تعالیٰ محترم حافظ صاحب کی تمام مساعی جمیلہ کوشرفِ قبولیت سے نوازے اورزاد الخطیب کی مقبولیت میں مزید اضافہ فرمائے ۔خطباء ومبلغین کو اس نادر علمی ذخیرہ سے مستفید ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے اور مصنف موصوف کے علم وعمل میں برکت اور زورِقلم میں اضافہ فرمائے (آمین)(م۔ا)
 

عبد المعز

محفلین
فہرست مضامین جلد اول و دوم
جمعیۃ احیاء التراث الاسلامی ( کویت ) کا پیغام دعاۃ ومبلغین حضرات کے نام
تقاریظ
مقدمہ
پیش لفظ
محرم ۔ ماہ محرم اور یوم عاشوراء
فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم
ہجرت مدینہ
صفر ۔ ماہ صفر اور بدشگونی
ربیع الاول ۔ رسول اللہ ﷺ کے فضائل و معجزات اور خصوصیات
جشن میلاد کی شرعی حیثیت
امت پر رسول اکرمﷺ کے حقوق
رسول اکرمﷺ کا اعلی اخلاق
رجب ۔ ماہ رجب کی بدعات
اسراء و معراج
تحفہ معراج نماز ، آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون
شعبان ۔ ماہ شعبان فضائل و احکام
انفاق فی سبیل اللہ اور زکاۃ
رمضان ۔ رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار
فضائل قرآن مجید
توبہ و استغفار
رمضان المبارک کا آخری عشرہ
شوال ۔ خطبہ عید الفطر
ذو القعدہ ۔ فضائل حرمین شریفین
احکام و آداب حج1
احکام و آداب حج2
ذو الحجہ ۔ فضائل عشرہ ذوالحجہ اور قربانی کے احکام و مسائل
خطبہ عید الاضحیٰ
خطبہ حجۃ الوداع1
خطبہ حجۃ الوداع 2
جلد دوم
توحید باری تعالیٰ
شرک سب سے بڑا گناہ
اسلامی بھائی چارہ
سچ کے فوائد اور جھوٹ کے نقصانات
نبی کریمﷺ کی پشین گوئیاں اور ہمارے اعمال
اسلام میں عورت کا مقام اور پردہ
نکاح کے مقاصد اور کامیاب ازدواجی زندگی
حقوق الزوجین
برا الوالدین
تربیت اولاد
صلہ رحمی کے فضائل و فوائد
ذکر اللہ کے فضائل و ثمرات
شکر کے فضائل و فوائد
صبر کے فوائد و ثمرات
نماز نفل 1
نماز نفل 2
یوم جمعہ اہمیت ، فضائل اور احکام و آداب
موت ایک اٹل حقیقت
قبر آخرت کی سب سے پہلی منزل
روز قیامت نشانیاں اور ہولناکیاں1
روز قیامت کی ہولناکیاں 2
روز قیامت کی ہولناکیاں 3
جنت کی نعمتیں اور اس کا راستہ
جہنم اور اس کا عذاب
خوشگوار زندگی کے راہنما اصول
 

عبد المعز

محفلین
رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے جوکہ بہت ہی عظمت اور برکتوں والا مہینہ ہے ۔ اس عظیم الشان مہینے کا پانا یقیناً اللہ تعالی کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے۔جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتا تو رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کو اس کے آنے کی بشارت سناتے اور انہیں مبارکباد دیتے۔ا س ماہ مبارک کی قدر منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سلف صالحین  چھ ماہ تک یہ دعا کرتے تھے کہ یا اللہ! ہمیں رمضان المبارک کا مہینہ نصیب فرما ۔پھر جب یہ ماہ مبارک گزر جاتا تو یہ دعا کرتے کہ اے اللہ ! ہم نے اس مہینے میں جو عبادات کیں تو انہیں قبول فرمالے۔ رمضان المبارک وہی وہ مہینہ ہےکہ جس میں اللہ تعالیٰ کی آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کا نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ہوا۔ ماہ رمضان میں اللہ تعالی جنت کے دروازے کھول دیتا ہے او رجہنم کے دروازے بند کردیتا ہے اور شیطان کوجکڑ دیتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندے کو اس طرح گمراہ نہ کر سکے جس طرح عام دنوں میں کرتا ہے اور یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی خصوصی طور پر اپنے بندوں کی مغفرت کرتا ہے اور سب سے زیاد ہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی کا انعام عطا کرتا ہے۔رمضان المبارک کے روضے رکھنا اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے نبی کریم ﷺ نے ماہ رمضان اور اس میں کی جانے والی عبادات ( روزہ ،قیام ، تلاوت قرآن ،صدقہ خیرات ،اعتکاف ،عبادت لیلۃ القدر وغیرہ )کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ۔ کتبِ احادیث میں ائمہ محدثین نے کتاب الصیام کے نام سے باقاعدہ عنوان قائم کیے ۔ اور کئی علماء اور اہل علم نے رمضان المبارک کے احکام ومسائل وفضائل کے حوالے سے کتب تصنیف کی ہیں ۔زیر تبصرہ کتاب ’’ رمضان مبارک روح کی ترقی کا مہینہ‘‘ ڈاکٹر ام کلثوم صاحبہ کی تصنیف ہے جسے انہوں نے عام فہم انداز میں مرتب کیا او ر رمضان المبارک میں کرنے والے کام اور رمضان المبارک کے جملہ احکام ومسائل کو بیان کرنے کے بعد بعض اہم مسائل کو سوالات کی صورت میں بھی بیان کر دیا ہے ۔اللہ تعالی مصنفہ کی اس کاوش کو قبول فرمائے او راس کتاب کو عوام الناس کے لیے مفید بنائے (آمین) (م۔ا)
 

عبد المعز

محفلین
فہرست مضامین
ڈاکٹر کا حلف
چاند دیکھنے کی دعا
روزہ روحانی بالیدگی کا ذریعہ
روح کی ترقی انضباطی خواہش
ضبط طعام
ضبط کلام
ضبط منام
روزے کے ضروری اجزا
ایمان
روزہ کے ثمرات
روزہ اور رمضان
ماہ صیام
رمضان میں کرنے کے کام
احتساب
اپنا جائزہ لیجیے
رمضان سے پہلے اور رمضان کے بعد
اصطلاحات
روزے میں معالج کی رہنمائی
امراض گردہ
روزے کے احکام
سفر کی وجہ سے روزوں کی تعداد کا فرق
رمضان میں عمرے کی ادائیگی اور روزہ
رمضان المبارک میں تفریح
عید کے دن کا روزہ
انتہائی شمالی علاقوں میں روزہ کیسے رکھیں
رمضان المبارک یا شب قدر میں انتقال کی اہمیت
عید مبارک
ہمارا نصب العین
 

عبد المعز

محفلین
رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے یہ مہینہ اپنی عظمتوں اور برکتوں کے لحاظ سے دیگر مہینوں سے ممتاز ہے ۔رمضان المبارک وہی وہ مہینہ ہےکہ جس میں اللہ تعالیٰ کی آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کا نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ہوا۔ ماہ رمضان میں اللہ تعالی جنت کے دروازے کھول دیتا ہے او رجہنم کے دروازے بند کردیتا ہے اور شیطان کوجکڑ دیتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندے کو اس طر ح گمراہ نہ کرسکے جس طرح عام دنوں میں کرتا ہے اور یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی خصوصی طور پر اپنے بندوں کی مغفرت کرتا ہے اور سب سے زیاد ہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی کا انعام عطا کرتا ہے۔رمضان المبارک کے روضے رکھنا اسلام کےبنیادی ارکان میں سے ہے نبی کریم ﷺ نے ماہ رمضان اور اس میں کی جانے والی عبادات ( روزہ ،قیام ، تلاوت قرآن ،صدقہ خیرات ،اعتکاف ،عبادت لیلۃ القدر وغیرہ )کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ۔ کتب احادیث میں ائمہ محدثین نے کتاب الصیام کے نام سے باقاعدہ عنوان قائم کیے ۔ اور کئی علماء اور اہل علم نے رمضان المبارک کے احکام ومسائل وفضائل کے حوالے سے کتب تصنیف کی ہیں ۔زیر تبصرہ کتاب ’’تحفۂ رمضان ‘‘مولانا عبد الغفور اثری  کے سیالکوٹ کی ایک مسجد میں رمضان المبارک میں دیئے گئے دروس کا مجموعہ ہے جس میں انہو ں ماہ رمضان کے فضائل وبرکات ،صوم رمضان کی فرضیت، قیام رمضان ، شب قدرآخری عشرہ میں عبادت اور نفلی روزوں کی فضیلت کو بڑے احسن انداز میں دلائل کےساتھ بیان کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ ان کی مساعی جمیلہ کوقبول فرمائےاور تمام اہل اسلام کو رمضان المبارک کی تعظیم اور قدر کی توفیق عطافرمائے (آمین)(م۔ا)
 

عبد المعز

محفلین
شاید ہی اسلام کاکوئی حکم اور مسئلہ ہو کہ جومختلف مسالک کے فلسفیانہ اور تخیلاتی بھنور میں پھنس کر اپنے اصل حلیے کو نہ کھو چکا ہو انہی مسائل میں سے ایک مسئلہ عذاب قبر کا مسئلہ ہے جس کے بارے میں لوگ افراد وتفریط کا شکار ہیں اور منکرین حدیث کی طرح منکرین عذابِ قبر کے عقیدہ کے حاملین بھی موجود ہیں جس کی کوئی بھی معقول دلیل موجود نہیں اس کے برعکس اثبات قبر پر بہت سی آیات قرآنیہ اور سینکڑوں احادیث موجود ہیں۔فرمانِ نبوی ﷺ کے مطابق موت کے بعدکا مرحلہ آخرت کی ہی پہلی سیڑھی اور زینہ ہے اس مرحلہ میں موت سے لے کر یوم البعث کے قائم ہونےتک جو کچھ قرآن کریم اور صحیح احادیث میں ثابت ہے اس پرایمان لانالازمی ہے ۔عذاب ِ قبر دین اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک اہم عقیدہ ہے عقلی وعلمی گمراہیوں میں غرق ہونے والے اور بے دین افراد اگرچہ عذاب قبر کا انکار کرتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس کے برحق ہونے پر کتاب وسنت میں دلائل کے انبار موجود ہیں اسی لیے جملہ اہل اسلام کا اس پر اجماع ہے اور وہ اسے برحق مانتے ہوئے اس پرایمان رکھتے ہیں ۔اس مسئلے پر امام بیہقی ،امام ابن قیم ، اما م جلال الدین سیوطی ، اورامام ابن رجب  جیسے کبار محدثین اور آئمہ کرام نے باقاعدہ کتب تالیف فرمائی ہیں ۔ زیر نظر کتابچہ’’عذاب قبر ‘‘معروف عالم دین مو لانا صفی الرحمن مباکپوری  اور مولانا ابو عبد اللہ جابر دامانوی ﷾ کی مسئلہ اثبات عذاب قبر پر اہم تحریر یں ہیں۔جس میں انہوں نے عذاب قبر کے متعلق جو مختلف شکوک شبہات ونظریات محض عقلی بنیادوں پر پائے جاتے ہیں کتاب وسنت کی روشنی میں منکرین عذاب قبر کا کافی وشافی جواب دیا گیا ہے اور دلائل وبراہین سے ثابت کیا گیا ہے کہ عذاب قبر برحق ہے ۔ محمد یٰسین راہی ﷾ (مدیر اداہ تبلیغ اسلام، جام پور) نے ان دونوں تحریروں کو یکجا کرکے شائع کیا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں حق کے اتباع کی توفیق عطا فرمائے او رباطل سےمکمل طور پر اجتناب کی توفیق دے ( آمین ) ( م۔ا)
 

عبد المعز

محفلین
عہد رسالت اور عہد صحابہ وتابعین ،یہ تینوں دور رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی رو سےخیر القرون (بہترین زمانے ) ہیں اسلام کے ان بہترین زمانوں میں شادی بیاہ کا مسئلہ بالکل سادہ اور نہایت آسان تھا ۔رشتہ طے ہونے کےبعد کے جب نکاح کاپروگرام بنتا تو تاریخ تعین کرکے لڑکے والے گھر کے چند افراد کو ساتھ لے کر لڑکی والوں کے گھر جاتے اورنکاح پڑھ کر لڑکی کو اپنے گھر لے آتے ۔ اس کے لیے نہ برات کا کوئی سلسلہ تھا اور نہ جہیز ،بری اور زیورات کا اور نہ دیگر تکلفات ۔ اس سے نہ لڑکے والوں پر کوئی بوجھ پڑتا اور نہ لڑکی والوں پر ۔دونو ہی سکھی رہتے۔ یہی اسلامی تعلیمات اور اسوۂ رسول کا تقاضا تھا جس پر خیر القرون کےمسلمانوں نے عمل کر کے دنیا کو اسلامی تمدن ومعاشرت کا بہترین نمونہ دکھلایا اور اپنی عظمت کا سکہ منوایا۔آج اس کےبرعکس ہم اپنے اسلام اوراس کی تعلیمات سے دور ہوگئے تو ہماری عظمت بھی ایک قصہ پارینہ بن گئی ہے اور رسوم ورواج کی وہ بیڑیاں بھی ہم نے اپنے گلوں کا ہار بنا لی ہیں جن کو ہمارے پیارے نبیﷺ نے کاٹ کر پھینک دیا تھا ۔نتیجۃً ہماری شادیاں بھی ایک عذاب بن گئی ہیں ۔زیر نظر ’’کتابچہ ‘‘بارات اور جہیز کا تصور مفاسد اور حل‘‘ مفسر قرآن مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ﷾ کی مذکورہ موضوع پر نہایت عمدہ تحریر ہے جس میں انہوں نے دور حاضر میں شادی نکاح کے مواقع پر پائے جانے والے رسم ورواج بالخصوص بارات اور جہیز کے نقصانات اور ان کی شرعی حیثیت کو قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کیا ہے ۔ جوکہ تمام اہل اسلام کے لیے انتہائی مفید اور قابل مطالعہ اور ایک دوسرے کو بطور تحفہ دینے کےلائق ہے ۔تاکہ اس سے معاشرہ میں رواج پا جانے والے رسم ورواج کا خاتمہ ہوسکے او ر شادی بیاہ کی تقریبات کو سنت نبوی کے مطابق ادا کیا جاسکے ۔اللہ تعالی حافظ صاحب کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے لوگوں کی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین) (م۔ا)
 

عبد المعز

محفلین
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے،اور قراء کرام کا تجربہ گواہ ہے کہ اگر بچپن میں ہی تلفظ کے ساتھ قاعدہ پڑھا دیا جائے تو بڑی عمر میں تلفظ کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔انہی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے شیخ القراء استاد محترم جناب قاری محمد ابراہیم میر محمدی صاحب﷾نے بچوں کے لئے قاری قاعدہ اور تجویدی قاعدہ دو قاعدے مرتب کئے ہیں۔ ان میں سے ایک قاعدہ یہی "بچوں کے لئے قاری قاعدہ" ہے ،جو آڈیو اور ویڈیو سہولت کے ساتھ موجود ہے۔اگر کوئی استاد میسر نہ ہوتو کیسٹ کے ذریعے بھی اسے پڑھا جا سکتا ہے،اور اپنے تلفظ کی درستگی کی جا سکتی ہے۔اس میں حروف مفردہ،حروف مستعلیہ ،متشابہ الصوت حروف،حروف قلقلہ ،حروف مدہ اور حرکات وغیرہ کی ادائیگی کی انتہائی آسان اور سہل انداز میں پہچان کروائی گئی ہے۔ اگرچہ یہ قاعدہ بچوں کے لئے لکھا گیا ہے ،مگر بچوں اور بڑوں سب کے انتہائی مفید اور شاندار ثابت ہوا ہے۔اللہ تعالی استادمحترم قاری صاحب کی ان خدمات کو قبول ومنظور فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
 

عبد المعز

محفلین
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے،اور قراء کرام کا تجربہ گواہ ہے کہ اگر بچپن میں ہی تلفظ کے ساتھ قاعدہ پڑھا دیا جائے تو بڑی عمر میں تلفظ کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔انہی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے شیخ القراء استاد محترم جناب قاری محمد ابراہیم میر محمدی صاحب﷾نے بچوں کے لئے قاری قاعدہ اور تجویدی قاعدہ دو قاعدے مرتب کئے ہیں۔ ان میں سے ایک قاعدہ یہی’’ بچوں کے لئے تجویدی قاعدہ ‘‘ہے ۔ اس میں حروف مفردہ،حروف مستعلیہ ،ملتی جلتی آوازوں والے حروف،حروف قلقلہ ،حروف مدہ اور حرکات وغیرہ کی ادائیگی کی انتہائی آسان اور سہل انداز میں پہچان کروائی گئی ہے۔اگرچہ یہ قاعدہ بچوں کے لئے لکھا گیا ہے ،مگر بچوں اور بڑوں سب کے انتہائی مفید اور شاندار ثابت ہوا ہے۔اللہ تعالی استادمحترم قاری صاحب کی ان خدمات کو قبول ومنظور فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
 

عبد المعز

محفلین
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع ِ انسان کی رشد وہدایت کے لیے انبیاء ورسل کو اس کائنات میں مبعوث کیا،تاکہ ان کی راہنمائی کی بدولت اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا جاسکے۔انسان اپنے تیئں کتنی ہی کوشش اور محنت کیوں نہ کرلے ، اسے اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہوسکتی جب تک وہ زندگی گزارنے کے لیے اسی منہج کو اختیار نہ کرے جس کی انبیاء﷩ نے تعلیم دی ہے ،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہر رسول کی بعثت کا مقصد صرف اس کی اطاعت قراردیا ہے ۔جو بندہ بھی نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کرے گا تو اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جو انسان آپ کی مخالفت کرے گا ،اس نے اللہ تعالی کے حکم سے روگردانی کی ۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا(الحشر:7)اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ِعالی شان کی بدولت صحابہ کرام ،تابعین عظام اور ائمہ دین رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو قرآنی حکم سمجھا کرتے تھے اور قرآن وحدیث دونوں کی اطاعت کویکساں اہمیت وحیثیت دیا کرتے تھے ،کیونکہ دونوں کا منبع ومرکز وحی الٰہی ہے ۔عمل بالحدیث کی تاکید اورتلقین کے باوجود کچھ گمراہ لوگوں نےعہد صحابہ ہی میں احادیث نبویہ سےمتعلق اپنےشکوک وشبہات کااظہارکرناشروع کردیا تھا ،جن کوپروان چڑہانےمیں خوارج ، رافضہ،جہمیہ،معتزلہ، اہل الرائے اور اس دور کے دیگر فرق ضالہ نےبھر پور کردار ادا کیا۔ لیکن اس دور میں کسی نے بھی حدیث وسنت کی حجیت سے کلیتاً انکار نہیں کیا تھا،تاآنکہ یہ شقاوت متحدہ ہندوستان کے چند حرماں نصیبوں کے حصے میں آئی،جنہوں نے نہ صرف حجیت حدیث سے کلیتاً انکار کردیا بلکہ اطاعت رسولﷺ سے روگردانی کرنے لگے اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو عہد نبوی تک ہی قرار دینے کی سعی نامشکور کرنے لگے ۔تو اس فتنہ انکار حدیث کے رد میں برصغیر پاک وہند میں جہاں علمائے اہل حدیث نے عمل بالحدیث اورردِّ تقلید کے باب میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں وہیں فتنہ انکار حدیث کی تردید میں بھی اپنی تمام تر کوششیں صرف کردیں۔اس سلسلے میں سید نواب صدیق حسن خان، سید نذیر حسین محدث دہلوی،مولانا شمس الحق عظیم آبادی ،مولانا محمد حسین بٹالوی ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی،حافظ عبداللہ محدث روپڑی، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی ،مولانا داؤد راز شارح بخاری، مولانا اسماعیل سلفی ، محدث العصر حافظ محمدگوندلوی  وغیرہم کی خدمات قابل تحسین ہیں۔اور اسی طرح ماہنامہ محدث، ماہنامہ ترجمان الحدیث ،ہفت روہ الاعتصام،لاہور ،پندرہ روزہ صحیفہ اہل حدیث ،کراچی وغیرہ کی فتنہ انکار حدیث کے رد میں صحافتی خدمات بھی قابل قدر ہیں ۔اللہ تعالیٰ علماءاور رسائل وجرائد کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے (آمین)زیر نظرکتاب ’’دوامِ حدیث‘‘ بھی علمائے اہل حدیث کی دفاع ِ حدیث کے باب میں سرانجام دی جانے والی خدمات جلیلہ ہی کا ایک سنہری باب ہے جو محدث العصر حافظ محمد گوندلوی  کے تحقیق آفریں قلم سے رقم کیا گیا ہے۔یہ کتاب در اصل منکرینِ حدیث وسنت کی ان تحریرات کاجواب ہے جن کوغلام احمد پرویز نے ’’مقام حدیث‘‘ کے نام سے 1953ء میں شائع کیا تھا۔اس کتاب کے پہلے حصے میں ’’مقام حدیث‘‘ کے تمام مغالطات کا تفصیلی جواب دیا ہے او ردو سرے حصے میں ڈاکٹر غلام برق جیلانی کی انکار حدیث پر مبنی کتاب’’دواسلام‘‘ کا مکمل جواب تحریر کیا ہے۔ حضرت حافظ محدث گوندلوی نے 1953ءمیں جواب کومکمل کرلیا تھا ۔جو کہ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘،ماہنامہ رحیق‘‘اور ترجمان الحدیث ،لاہور میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔ پہلی بار حافظ شاہد محمود﷾ (فاضل مدینہ یونیورسٹی ) نے اس کتاب پر تحقیق وتخریج کا کام کر کے کتابی صورت میں حسن طباعت سے آراستہ کیا ہے ۔یہ کتاب حجیت حدیث پر منفرد انداز میں لکھی گئی ایک تحقیقی کتاب ہے ۔پانچ سال قبل اس کا طبع اول دو الگ جلدوں میں شائع ہواتھا ۔موجودہ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن میں دونوں جلدوں کویکجا کردیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ محدث گوندلوی کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور ان کی مرقد پر اپنی رحمتوں کانزول فرمائے ،اور فاضل نوجوان جید عالمِ دین حافظ شاہد محمود ﷾ کی علمی وتحقیقی خدمات بھی انتہائی قابل قدر ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کےعلم وعمل اورزورِ قلم میں برکت فرمائے (آمین)(م۔ا)
 

عبد المعز

محفلین
اللہ تعالیٰ نے قرآن وسنت کی شکل میں دینِ اسلام کو قیامت تک کے لیے محفوظ فرماکر معیار ہدایت مقرر کردیا ہے اور قرآن وسنت کے احکام میں اتنی وسعت اور لچک رکھی ہے کہ یہ تاقیامت پیش آنے والے مسائل میں امت ِ مسلمہ کی رہنمائی کرسکیں۔یہی وجہ ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کے لیے کھلا رکھا گیا ہے۔ عصر حاضر میں امت مسلمہ کو بے شمار نئے مسائل کا سامنا ہے ان پیدا ہونے والے نئے مسا ئل کے حل کےلیے قرآن وسنت سے براہِ راست اجتہاد کے حوالے سے اہل علم افراط وتفریط کا شکار ہیں ۔جدید فقہی مسائل کے حوالے سے مختلف اہل علم اوربالخصوص فقہ اکیڈمی انڈیا کی کتب قابل ذکر ہیں ۔زیر نظر کتاب ’’جدید فقہی مسائل ‘‘ ڈاکٹر حافظ مبشر حسین لاہوری﷾ (ریسرچ سکالر ادارہ تحقیقات اسلامی ،اسلام آباد) کی تالیف ہے ۔جس میں انہوں نے جدید فقہی مسائل کے حل کےلیے تمام فقہی مسالک کے فقہی ذخیرے استفادہ کرتے ہوئے اس کتاب میں پانچ ابواب قائم کرکے پندرہ اہم مسائل کوزیر بحث لائے ہیں جبکہ ضمنی طور پر ا ن کے تحت کئی مزید مسائل پر بھی بحث کی گئی ہے ۔ہر اہم میں پہلے اس کی واقعاتی صورت حال کوبیان کرنے کے بعد اس مسئلہ کے ایک ایک جز پر قرآن وسنت کی روشنی میں بحث کرنے کے بعد اس مسئلہ کی مزید توضیح اور تائید کےلیے عرب وعجم کے ممتاز علماء کی آراء وفتاویٰ کو بھی اس میں جمع کردیا گیا ہے ۔ اس کتاب کے فاضل مؤلف کتاب ہذا کے علاوہ بھی کئی علمی واصلاحی کتب کے مؤلف ومترجم ہیں ۔اللہ تعالی ان کی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے (آمین) (م۔ا)
 

عبد المعز

محفلین
عوام الناس میں یہ بات م مشہور کہ اہل سنت ہی سچا مذہب ہے ۔اور مقلدین حنفیہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ہی اہل سنت ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت ہے ۔بڑے بڑے بادشاہ ،اکابر، وزراء حکام ،علماء ،اولیاء ،خاص وعام سب اس مذہب میں داخل ہیں اور تمام ممالک میں یہ مذہب پھیلا ہوا ہے ۔حالانکہ یہ نظریہ اور دعویٰ باطل اور بالکل لغو ہے کیونکہ مذہب اہل سنت عہدنبوی او رعہد صحابہ سے شروع ہوا اور اب تک چلا آرہا ہے ۔اور حقیقت میں اہل سنت والجماعت وہ لوگ ہیں جن کاطریقہ وعمل وہی ہے جوطریقہ رسول اللہﷺ او رآپ ﷺکے صحابہ کرام کاتھا ۔اس لیے عوام جہلاء طبقہ جن کو سنن نبویہ کا علم نہیں اور وہ آباء واجداد کی رسومات کے پابند ہیں اور مختلف رسم ورواج اور بدعات کی دلدل میں گھیرے ہوئے یہ کسی عالم او رعقل مند کے نزدیک اہل سنت نہیں ہوسکتے ۔زیر نظر کتاب ’’اسلام میں اصلی اہل سنت کی پہچان‘‘معروف اہل حدیث عالم دین مولانا عبد لقادر حصاری کی کاوش ہے جس میں انہوں نے سنت کی تعریف او ر سنت کی تعلیم عہد نبوی میں ،سنت پر عمل کرنے کی فضلیت ، ترک سنت پر وعید وغیرہ جیسے اہم موضوعات کو بیان کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ اہل سنت سے مراد خرافات وبدعات میں گھیرے ہوئے لوگ نہیں بلکہ اہل سنت وہ ہیں جو تقلید اور بدعات وخرافات کو چھوڑ کر فرمان الٰہی اور فرمان نبویﷺکی اس طرح اتباع کرتے ہیں کہ جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اتباع کی ۔اللہ تعالی ا ہل ایمان کو قرآن وحدیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین) (م۔ا)
 

عبد المعز

محفلین
شریعتِ اسلامیہ میں دعا کو اایک خاص مقام حاصل ہے اورتمام سابقہ شرائع ومذاہب میں بھی دعا کا تصور موجود رہا ہے ۔صرف دعا ہی میں ایسی قوت ہے کہ جو تقدیر کو بدل سکتی ہے ۔دعا ایک ایسی عبادت ہے جو انسا ن ہر لمحہ کرسکتا ہے اور اپنے خالق ومالق اللہ رب العزت سے اپنی حاجات پوری کرواسکتا ہے۔اورجس طرح جسم کی بقا کے لیے خوراک ضروری ہے،اسی طرح روح کی حیات کا انحصار تلاوتِ قرآن ،ذکر واذکار اور ادعیہ ماثورہ کے اہتمام پر ہے ۔ کتاب وسنت میں مختلف مقامات پراللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔اذکاراور دعاؤں کااہتمام کرنے کے ایسے بے شمار فوائد ہیں جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا ۔مگر یہ یاد رہے انسان کی دعا اسے تب ہی فائدہ دیتی ہے جب وہ دعا کرتے وقت دعا کےآداب وشرائط کوبھی ملحوظ رکھے۔ امت مسلمہ کے لیے مسنون دعاؤں تک بآسانی رسائی کےلیے علماء ومحدثین نے دعاؤں کے موضوع پر کئی کتب تحریر کی ہیں ۔ جن میں مفصل بھی ہیں اور مختصر بھی ہیں۔مختصر کتابوں میں سے شیخ سعیدبن علی القحطانی ﷾ کی ’’حصن المسلم‘‘جامعیت واختصار کے لحاظ سے عمدہ ترین کتاب ہے جسے قبول عام حاصل ہے۔اس کی افادیت کے پیش نظر اردو زبان میں اس کے متعدد تراجم شائع ہوچکے ہیں۔لیکن تحقیق وتخریج کے اعتبارسے ان میں کافی سقم باقی تھا۔زیر نظر’’ حِصن المسلم ‘‘ کا نسخہ مولانا فا روق رفیع﷾ (مدرس جامعہ لاہور الاسلامیہ) کا ترجمہ ،تحقیق وتخریج شدہ ہے ۔مترجم موصوف نے اس کتاب میں مکمل تحقیق وتخریج کے علاوہ مفید اضافے بھی کیے ہیں۔فنِ حدیث،جرح وتعدیل کے ماہر مولانا ابو سیف حافظ جمیل احمد ﷾(مدرس جامعہ الدعوہ الاسلامیہ ،مریدکے ،فاضل مدینہ یونیورسٹی ) کی کتاب ہذا پر نظر ثانی سے اس کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ اللہ تعالی ٰ اس کتاب کو عوام الناس کے لیے مفید بنائے اور مترجم ومحقق کے علم وعمل میں اضافہ فرمائے (آمین)(م۔ا)
 

عبد المعز

محفلین
حافظ عبد المنان نور پور ی(1941ء۔26فروری2012؍1360ھ ۔3ربیع الثانی 1433ھ) کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ۔آپ زہد ورع اورعلم وفضل کی جامعیت کے اعتبار سے اپنے اقران معاصر میں ممتاز تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم وتقویٰ کی خوبیوں اور اخلاق وکردار کی رفعتوں سے نوازا تھا ۔ آپ کا شمار جید اکابر علماء اہل حدیث میں ہوتاہے حافظ صاحب بلند پایا کے عالمِ دین اور مدرس تھے ۔ حافظ صاحب 1941ءکو ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے اور پرائمری کرنے کے بعد دینی تعلیم جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ سے حاصل کی ۔ حافظ صاحب کوحافظ عبد اللہ محدث روپڑی ،حافظ محمد گوندلوی ، مولانا اسماعیل سلفی وغیرہ جیسے عظیم اساتذہ سے شرفِ تلمذ کا اعزاز حاصل ہے۔ جامعہ محمدیہ سے فراغت کے بعد آپ مستقل طور پر جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں مسند تدریس پر فائز ہوئے او ر درس وتدریس سے وابسطہ رہے اور طویل عرصہ جامعہ میں بطور شیخ الحدیث خدمات سرانجام دیتے رہے ۔ اوائل عمرہی سے مسند تدریس پر جلوہ افروز ہونےکی وجہ سےآپ کو علوم وفنون میں جامعیت عبور اور دسترس حاصل تھی چنانچہ علماء فضلاء ،اصحا ب منبرومحراب اہل تحقیق واہل فتویٰ بھی مسائل کی تحقیق کے لیے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے ۔ بے شمار طالبانِ علومِ نبوت نے آپ سے استفادہ کیا حافظ صاحب علوم وفنون کے اچھے کامیاب مدرس ہونےکے ساتھ ساتھ اچھے خطیب ،واعظ ، محقق ،ناقد اور محدثانہ بصیرت اور فقاہت رکھنے و الے مفتی ومؤلف بھی تھے عربی اردو زبان میں آپ نے علمی و تحقیقی مسائل پر کئی کتب تصنیف کیں۔آپ انتہائی مختصر اور جامع ومانع الفاظ میں اپنا مدعا بیان کرنے کےماہر،اندازِ بیان ایسا پر اثر کہ ہزاروں سوالوں کاجواب انکے ایک مختصر سےجملہ میں پنہاں ہوتا ،رعب وجلال ایسا کہ بڑے بڑے علماء ،مناظر او رقادر الکلام افراد کی زبانیں بھی گویا قوت گویائی کھو بیٹھتیں۔حافظ صاحب واقعی محدث العصر حافظ محمدگوندلوی کی علمی مسند کے صحیح وارث اورحقیقی جانشین ہونے کا حق ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے(آمین)زیر نظر کتاب حافظ عبد لمنان نورپوری کی حیات وخدمات پر جامع کتاب ہے ۔جسے ان کے تلمیذِ خاص مولانا محمد طیب محمدی (مدیر ادارہ تحقیات سلفیہ،گوجرانوالہ ) نےمرتب کیا ہے ۔اس کتاب میں مرتب موصوف نے طویل مقدمہ تحریر کرنے کے بعد 42 ابواب قائم کیے ہیں جن میں انہوں نے حافظ نوری کا تعارف ،تعلیم وتعلم ،تدریس وتصنیف ،خطابت ،اساتذہ وتلامذہ کے علاوہ حافظ صاحب مرحوم کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے ۔یہ کتاب حافظ صاحب مرحوم کے تفصیلی تعارف اور حیات وخدمات کے حوالے سے گراں قدر علمی تحفہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ حافظ صاحب کے درجات بلند فرمائے اور ان کی مرقد پر اپنے رحمتوں کانزول فرمائے اور کتاب ہذا کے مرتب کےعلم وعمل میں اضافہ اور ان کی تمام مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے (آمین) (م۔ا)
 

عبد المعز

محفلین
دینی مدارس کے طلباء ،اساتذہ ،علمائے کرام ،مشائخ عظام اصحاب صفہ او رعلوم نبویﷺ کے وارث اور امین ہیں ۔ یہی مدارس دینِ اسلام کے وہ قلعے ہیں جہاں سے قال اللہ قال الرسول ﷺکی پاکیزہ صدائیں دن رات گونجتی ہیں ۔ روزِ اول سے دینِ اسلام کا تعلق تعلیم وتعلم اور درس وتدریس سے رہا ہے ۔نبی کریم ﷺ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ تعلیم سے متعلق تھی۔ اس وحی کے ساتھ ہی رسول اللہﷺ نےایک صحابی ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں دار ارقم کے نام سے ایک مخفی مدرسہ قائم کیا ۔صبح وشام کے اوقات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہاں مخفی انداز میں آتے اور قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے یہ اسلام کی سب سے پہلی درس گاہ تھی۔ہجرت کے بعدمدینہ منورہ میں جب اسلامی ریاست کاقیام عمل میں آیا تو وہاں سب سے پہلے آپﷺ نے مسجد تعمیر کی جو مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہے ۔اس کے ایک جانب آپ نے ایک چبوترا(صفہ) بھی تعمیر کرایا ۔ یہاں بیٹھ کر آپﷺ مقامی وبیرونی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآن مجید اور دین کی تعلیم دیتے تھے ۔یہ اسلام کاپہلا باقاعدہ اقامتی مدرسہ تھا جو تاریخ میں اصحاب صفہ کے نام سے معروف ہے ۔ یہاں سے مسجد اور مدرسہ کا ایسا تلازمہ قائم ہواکہ پھر جہاں جہاں مسجد یں قائم ہوتی گئیں وہاں ساتھ ہی مدرسے بھی قائم ہوتے گئے ۔اسلامی تاریخ ایسے مدارس اور حلقات ِحدیث سے بھری پڑی ہے کہ غلبۂ اسلام ،ترویج دین اور تعلیمات اسلامیہ کو عام کرنے میں جن کی خدمات نے نمایاں کردار ادا کیا۔ برصغیر پاک وہند میں بھی اسلام کی ترویج اور تبلیغ کے سلسلے میں مدارس دینیہ اور مَسندوں کی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں کہ جہاں سے وہ شخصیا ت پیدا ہوئیں جنہوں نے معاشرے کی قیادت کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو عام کیا اور یہ شخصیات عوام الناس کے لیے منارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ زیرنظر کتاب ’’ تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ ،دہلی ‘‘ دہلی کی اس عظیم الشان معیا ری درس گاہ کے تعارف پر مشتمل ہے کہ جس سے پاک وہند کے بے شمار جید علماء نے فیض پایا ۔مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ کو شیخ عبد الرحمن اور شیخ عطاء الرحمن نے 1921ء میں قائم کیا کہ جس کی صرف ستائیس سالہ مختصر مدت کارکردگی میں مدارس کے اندر کوئی دوسر ی مثال نہیں ۔مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی  او ر مولانا احمدللہ پرتاب گڑھی وغیرہ اس مدرسہ کے اولین اساتذہ اور محدث العصر حافظ عبداللہ روپڑی اس کے اولین ممتحن اورمدیر تعلیم مقررہوئے او ر اس مدرسہ کے آخری وجودقیام ِپاکستان تک اس منصب پر فائز رہے ۔ مدرسے کے مہتم تعلیمی معاملات میں موصوف پر ہی اعتماد کرتے او ران کی بات اور فیصلے کو حرف آخر میں سمجھتے تھے (لیکن ناجانے کیوں صاحب کتاب نے حافظ عبد اللہ روپڑی ا ور ان کےخاندان کی مدرسہ کے لیے تعلیمی خدمات کو بطور خاص اہتمام سے بیان کیوں نہیں کیا ) 1947ء تک یہ مدرسہ قائم رہا ۔ملک کی آزادی اور تقسیم کے بعد پیش آنے والے حوادث وفسادات کی وجہ سے یہ مدرسہ بند ہوگیا ۔ شیخ عطاء الرحمن کے صاحبزادے شیخ عبدالوہاب اور ان کاخاندان ہجرت کر کے کراچی منتقل ہوگیا۔کتاب کے مرتب شیخ اسعد اعظمی نے اس کتاب میں مدرسہ کی تعمیر،اس کے قواعد وضوابط، نصاب ِتعلیم، نظام امتحان، اساتذہ ، فاضلین اور مدرسہ کے متعلق علماء کے تاثرات اور بانیانِ مدرسہ کے حالات واقعات کو تفصیل سے بیان کیا ہےجوکہ قابل مطالعہ ہیں ۔ مدرسہ کے بانی شیخ حاجی عبد الرحمن  انتہائی سخی اور فیاض انسان تھے روزانہ شام کو مدرسہ آتے .. طلباء کے لیے سیر وتفریح او ر ہرجمعہ کو مدرسہ کے اساتذہ کی دعوت کا خاص اہتمام کرتے لیکن مدرسہ کے نظم و نسق کے معاملہ بڑے سخت اور اصولوں کے پابند تھے ۔مدرسہ کے نظم وضبط کی خلاف ورزی اور کتاہی کرنے والے طلباء سے ناراض ہوتے ۔مدرسہ کے قیام کےایک سال بعد ہی وفات پاگئے ۔ان کے بعد شیخ عطاء الرحمن  نے مدرسہ کا انتظام سنبھالہ ۔یہ اگرچہ بذات خود عالمِ دین نہ تھے مگر انہیں علم اور علماء سے گہرا قلبی تعلق تھا ۔ ہر روز ڈیڑھ میل کا سفر طے کر کے نمازِ فجر سے قبل مدرسہ میں آتے طلباء کو نماز کے لیے خود اٹھاتے جماعت سے پیچھے رہنے والوں کوسزا دیتے ۔مدرسہ میں طلباء کےلیے تیار ہونے والے کھانے کی خود نگرانی کرتے ۔ کبھی کبھی اچانک کھانا منگوا کر کھانے کا معیار چیک کرتے ۔ دار الحدیث رحمانیہ میں تعلیم وتربیت ،دعوت وتبلیغ کے علاوہ نشر واشاعت کا بھی انتظام تھاجس کے تحت دینی کتب کی اشاعت کے علاوہ ایک ماہوار علمی رسالہ ’’محدث ‘‘بھی شائع ہوتا تھا جس کا آغاز مئی 1933 میں ہوا۔ مدرسہ کا تعلیمی معیار بھی بہت بلند تھاجس میں بنیادی کردار و ہ سالانہ امتحان تھا جوکہ روپڑی خاندان کے سالارِ اول حافظ عبداللہ محدث روپڑی  اور مولانا محمدحسین روپڑی  (والد گرامی حافظ عبدالرحمن مدنی مدیر جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور) لیا کرتے اور امتحان کی نگرانی خطیبِ ملت حافظ اسماعیل روپڑی اور مناظر اسلام عبد القادر روپڑی کیا کرتے۔اس لیے مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ کاخاص علمی تعلق اس امرتسری روپڑی خاندان سےتھا۔ اسی مناسبت سے حافظ عبد الرحمن مدنی نے اپنے رفقاء(شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی ،مولاناعبدالسلام کیلانی) کی مشاورت سے لاہور میں مدرسہ رحمانیہ کے نام سے دینی درس گاہ قائم کی جو اب بین الاقوامی طور پر جامعہ لاہور الاسلامیہ کے نام سے معروف ہے۔ اور 1970 میں مجلس التحقیق الاسلامی ،لاہور کی طرف سے ماہوار علمی رسالہ ’’محدث ‘‘جاری کیا جس کو علمی وفکری حلقوں میں بہت قبول عام حاصل ہوا۔ یہ رسالہ اب بھی جاری وساری ہے ۔ دار الحدیث رحمانیہ ،دہلی کے بانیان ومنتظمین کی مدرسہ کے طلبا ،اساتذہ، علماء سے شفقت ومحبت اور امور مدرسہ سے وابستگی اور دلچسپی آج کے مدارس کے منتظمین اور مہتمم حضرات کےلیے قابلِ اتباع نمونہ ہے ۔ اللہ دین اسلام کے لیے کام کرنے والے تمام مدارس دینیہ اورعلماء کی حفاظت فرمائے (آمین)( م۔ا )
 

عبد المعز

محفلین
دینی مدارس کے طلباء ،اساتذہ ،علمائے کرام ،مشائخ عظام اصحاب صفہ او رعلوم نبویﷺ کے وارث اور امین ہیں ۔ یہی مدارس دینِ اسلام کے وہ قلعے ہیں جہاں سے قال اللہ قال الرسول ﷺکی پاکیزہ صدائیں دن رات گونجتی ہیں ۔ روزِ اول سے دینِ اسلام کا تعلق تعلیم وتعلم اور درس وتدریس سے رہا ہے ۔نبی کریم ﷺ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ تعلیم سے متعلق تھی۔ اس وحی کے ساتھ ہی رسول اللہﷺ نےایک صحابی ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں دار ارقم کے نام سے ایک مخفی مدرسہ قائم کیا ۔صبح وشام کے اوقات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہاں مخفی انداز میں آتے اور قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے یہ اسلام کی سب سے پہلی درس گاہ تھی۔ہجرت کے بعدمدینہ منورہ میں جب اسلامی ریاست کاقیام عمل میں آیا تو وہاں سب سے پہلے آپﷺ نے مسجد تعمیر کی جو مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہے ۔اس کے ایک جانب آپ نے ایک چبوترا(صفہ) بھی تعمیر کرایا ۔ یہاں بیٹھ کر آپﷺ مقامی وبیرونی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآن مجید اور دین کی تعلیم دیتے تھے ۔یہ اسلام کاپہلا باقاعدہ اقامتی مدرسہ تھا جو تاریخ میں اصحاب صفہ کے نام سے معروف ہے ۔ یہاں سے مسجد اور مدرسہ کا ایسا تلازمہ قائم ہواکہ پھر جہاں جہاں مسجد یں قائم ہوتی گئیں وہاں ساتھ ہی مدرسے بھی قائم ہوتے گئے ۔اسلامی تاریخ ایسے مدارس اور حلقات ِحدیث سے بھری پڑی ہے کہ غلبۂ اسلام ،ترویج دین اور تعلیمات اسلامیہ کو عام کرنے میں جن کی خدمات نے نمایاں کردار ادا کیا۔ برصغیر پاک وہند میں بھی اسلام کی ترویج اور تبلیغ کے سلسلے میں مدارس دینیہ اور مَسندوں کی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں کہ جہاں سے وہ شخصیا ت پیدا ہوئیں جنہوں نے معاشرے کی قیادت کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو عام کیا اور یہ شخصیات عوام الناس کے لیے منارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ زیرنظر کتاب ’’ تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ ،دہلی ‘‘ دہلی کی اس عظیم الشان معیا ری درس گاہ کے تعارف پر مشتمل ہے کہ جس سے پاک وہند کے بے شمار جید علماء نے فیض پایا ۔مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ کو شیخ عبد الرحمن اور شیخ عطاء الرحمن نے 1921ء میں قائم کیا کہ جس کی صرف ستائیس سالہ مختصر مدت کارکردگی میں مدارس کے اندر کوئی دوسر ی مثال نہیں ۔مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی  او ر مولانا احمدللہ پرتاب گڑھی وغیرہ اس مدرسہ کے اولین اساتذہ اور محدث العصر حافظ عبداللہ روپڑی اس کے اولین ممتحن اورمدیر تعلیم مقررہوئے او ر اس مدرسہ کے آخری وجودقیام ِپاکستان تک اس منصب پر فائز رہے ۔ مدرسے کے مہتم تعلیمی معاملات میں موصوف پر ہی اعتماد کرتے او ران کی بات اور فیصلے کو حرف آخر میں سمجھتے تھے (لیکن ناجانے کیوں صاحب کتاب نے حافظ عبد اللہ روپڑی ا ور ان کےخاندان کی مدرسہ کے لیے تعلیمی خدمات کو بطور خاص اہتمام سے بیان کیوں نہیں کیا ) 1947ء تک یہ مدرسہ قائم رہا ۔ملک کی آزادی اور تقسیم کے بعد پیش آنے والے حوادث وفسادات کی وجہ سے یہ مدرسہ بند ہوگیا ۔ شیخ عطاء الرحمن کے صاحبزادے شیخ عبدالوہاب اور ان کاخاندان ہجرت کر کے کراچی منتقل ہوگیا۔کتاب کے مرتب شیخ اسعد اعظمی نے اس کتاب میں مدرسہ کی تعمیر،اس کے قواعد وضوابط، نصاب ِتعلیم، نظام امتحان، اساتذہ ، فاضلین اور مدرسہ کے متعلق علماء کے تاثرات اور بانیانِ مدرسہ کے حالات واقعات کو تفصیل سے بیان کیا ہےجوکہ قابل مطالعہ ہیں ۔ مدرسہ کے بانی شیخ حاجی عبد الرحمن  انتہائی سخی اور فیاض انسان تھے روزانہ شام کو مدرسہ آتے .. طلباء کے لیے سیر وتفریح او ر ہرجمعہ کو مدرسہ کے اساتذہ کی دعوت کا خاص اہتمام کرتے لیکن مدرسہ کے نظم و نسق کے معاملہ بڑے سخت اور اصولوں کے پابند تھے ۔مدرسہ کے نظم وضبط کی خلاف ورزی اور کتاہی کرنے والے طلباء سے ناراض ہوتے ۔مدرسہ کے قیام کےایک سال بعد ہی وفات پاگئے ۔ان کے بعد شیخ عطاء الرحمن  نے مدرسہ کا انتظام سنبھالہ ۔یہ اگرچہ بذات خود عالمِ دین نہ تھے مگر انہیں علم اور علماء سے گہرا قلبی تعلق تھا ۔ ہر روز ڈیڑھ میل کا سفر طے کر کے نمازِ فجر سے قبل مدرسہ میں آتے طلباء کو نماز کے لیے خود اٹھاتے جماعت سے پیچھے رہنے والوں کوسزا دیتے ۔مدرسہ میں طلباء کےلیے تیار ہونے والے کھانے کی خود نگرانی کرتے ۔ کبھی کبھی اچانک کھانا منگوا کر کھانے کا معیار چیک کرتے ۔ دار الحدیث رحمانیہ میں تعلیم وتربیت ،دعوت وتبلیغ کے علاوہ نشر واشاعت کا بھی انتظام تھاجس کے تحت دینی کتب کی اشاعت کے علاوہ ایک ماہوار علمی رسالہ ’’محدث ‘‘بھی شائع ہوتا تھا جس کا آغاز مئی 1933 میں ہوا۔ مدرسہ کا تعلیمی معیار بھی بہت بلند تھاجس میں بنیادی کردار و ہ سالانہ امتحان تھا جوکہ روپڑی خاندان کے سالارِ اول حافظ عبداللہ محدث روپڑی  اور مولانا محمدحسین روپڑی  (والد گرامی حافظ عبدالرحمن مدنی مدیر جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور) لیا کرتے اور امتحان کی نگرانی خطیبِ ملت حافظ اسماعیل روپڑی اور مناظر اسلام عبد القادر روپڑی کیا کرتے۔اس لیے مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ کاخاص علمی تعلق اس امرتسری روپڑی خاندان سےتھا۔ اسی مناسبت سے حافظ عبد الرحمن مدنی نے اپنے رفقاء(شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی ،مولاناعبدالسلام کیلانی) کی مشاورت سے لاہور میں مدرسہ رحمانیہ کے نام سے دینی درس گاہ قائم کی جو اب بین الاقوامی طور پر جامعہ لاہور الاسلامیہ کے نام سے معروف ہے۔ اور 1970 میں مجلس التحقیق الاسلامی ،لاہور کی طرف سے ماہوار علمی رسالہ ’’محدث ‘‘جاری کیا جس کو علمی وفکری حلقوں میں بہت قبول عام حاصل ہوا۔ یہ رسالہ اب بھی جاری وساری ہے ۔ دار الحدیث رحمانیہ ،دہلی کے بانیان ومنتظمین کی مدرسہ کے طلبا ،اساتذہ، علماء سے شفقت ومحبت اور امور مدرسہ سے وابستگی اور دلچسپی آج کے مدارس کے منتظمین اور مہتمم حضرات کےلیے قابلِ اتباع نمونہ ہے ۔ اللہ دین اسلام کے لیے کام کرنے والے تمام مدارس دینیہ اورعلماء کی حفاظت فرمائے (آمین)( م۔ا )
 
Top