سیما علی

لائبریرین
جز خط کے خیال اس کے کچھ کام نہیں ہم کو
سبزی پیے ہم اکثر رہتے ہیں مگن بیٹھے!!!!!!!!؟؟
میر تقی میر

”سبزی“ کے ایک معنی ایسی خمارآور شے کے ہیں جس کا ذکر اوپر کیاگیا ہے اور جسے گھوٹ کر پیالوں میں پیا جاتا ہے۔یقین نہ آئے تو دیکھ لیجیے”فرہنگِ آصفیہ“(جلد دوم)صفحہ نمبر24۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
وہ لوگ پاتے ہیں عزت زیادہ
جو کرتے ہیں دنیا میں محنت زیادہ

اسی میں ہے عزت خبردار رہنا
بڑا دکھ ہے دنیا میں بےکار رہنا
 

سیما علی

لائبریرین
روایات کساد و کاہلی چمکائی جائیں گی!!!!!!؟؟؟؟
جواں مردوں کی زلفیں پاؤں تک لٹکائی جائیں گی

ظمیر جعفری
 
سخت گیر آقا
٭
آج بستر ہی میں ہُوں
کر دِیا ہے آج
میرے مضمحل اعضا نے اِظہارِ بغاوت برملا
واقعی معلوم ہوتا ہے تھکا ہارا ہُوا
اور میں
ایک سخت گیر آقا (زمانے کا غلام)
کِس قدر مجبُور ہُوں
پیٹ پُوجا کے لیے
دو قدم بھی، اُٹھ کے جا سکتا نہیں
میرے چاکر پاؤں شل ہیں
جُھک گیا ہُوں اِن کمینوں کی رضا کے سامنے
سر اُٹھا سکتا نہیں
آج بستر ہی میں ہُوں
٭٭٭
ابو الاثر حفیظؔ جالندھری
 

سیما علی

لائبریرین
کیا ہے ترک دنیا کاہلی سے
ہمیں حاصل نہیں بے حاصلی سے

خراج دیہہ ویراں یک کف خاک
بیاباں خوش ہوں تیری عاملی سے

پر افشاں ہو گئے شعلے ہزاروں
رہے ہم داغ اپنی کاہلی سے

خدا یعنی پدر سے مہرباں تر
پھرے ہم در بدر ناقابلی سے

اسدؔ قربان لطف جور بیدل
خبر لیتے ہیں لیکن بیدلی سے

اسد اللّہ خاں غالب
 

سیما علی

لائبریرین
عیاشیاں جو کیجیئے تو آپ ہیں عزیز
اے قوم کاہلی ہے تری گھر کی اب کنیز

اچھی بری کا جب تو نہیں امتیاز ہے
بے مائیگی پر اپنی فقط تجھ کو ناز ہے

ہشیار کوئی لاکھ کرے تو ہے بے خبر
اس درجہ بے حیا کہ نہیں دل پہ کچھ اثر

نازاں ہیں صرف باپ کے دادا کے نام پر
قرضے میں ہو رہی ہے مگر زندگی بسر

دیکھو تو غیر ہنستے ہیں ہشیار ہو ذرا

للہ اب تو خواب سے بیدار ہو ذرا
پھولو پھلو الٰہی رہو شاد سر بسر

ہو نخل اتحاد ہمیشہ یہ بارور
وہ دن خدا دکھائے کہ لے آئے یہ ثمر

آنا ہے تم کو منزل مقصود تک اگر
ڈالی ہے اتحاد کی تم نے جو داغ بیل

ہمت نہ ہارو جان کے بچوں کا ایک کھیل
دیکھو تو اور قوموں میں کیا اتحاد ہے

دولت سے اور علم سے ہر ایک شاد ہے
تم میں بھی آج ایسا کوئی خوش نہاد ہے

محمود کا یہ قول ہمیں اب تو یاد ہے
دو دن رہے جو آ کے جہاں میں تو کھل گئے

آخر کو مثل خار چمن سے نکل گئے
اے ساکنان موضع جگور السلام

دنیا ہے آج تم کو ہر اک بات کا پیام
اب تو نکالو اپنی دلوں سے خیال خام

اچھا نہیں جو غیر کے بن جاؤ تم غلام

اچھی نصیحتوں پہ عمل پھر ضرور ہے
کوئی نہ یہ کہے کہ سراسر قصور ہے

اپنے امور میں نہ کرو غیر کو شریک
شر کو نہ ڈھونڈھو اور کرو خیر کو شریک

اچھے نہیں سفر جو کریں سیر کو شریک
کعبہ کے ذکر میں نہ کرو دیر کو شریک

تم خود رہے ہو صاحب اقبال دہر میں
کیوں ڈھونڈتے ہو ذائقہ شہد زہر میں

اخلاق کا چراغ بجھانا نہ چاہئے
ظلمت کدہ میں غیر کے جانا نہ چاہئے

سچی نصیحتوں کو بھلانا نہ چاہئے
تم کو کسی فریب میں آنا نہ چاہئے

اللہ کے بھروسہ پہ ہر کام تم کرو
دشمن بھی جس کو مان لیں وہ نام تم کر

مرزا الطاف حسین عالم لکھنوی
 
Top