پھر اسی آنکھ کا نظارا ہے۔۔۔۔ آصف شفیع

آصف شفیع

محفلین
ایک غزل احباب کی نذر:

پھر اسی آنکھ کا نظارا ہے
جس کا نشہ ابھی اتارا ہے

راز یہ دل پہ آشکارا ہے
تو محبت کا استعارا ہے

اک طرف ہجر کی مسافت ہے
اک طرف درد کا کنارا ہے

کس طرح میں جدا کروں تجھ کو
تو مجھے جان سے بھی پیارا ہے

دلِ بےتاب روٹھ مت جانا
تو مرا آخری سہارا ہے

زندگانی کا پوچھتے ہو کیا
ایک اڑتا ہوا غبارہ ہے

پھر جنوں کی نمود ہے مجھ میں
پھر مجھے دشت نے پکارا ہے

بازئ عشق میں نہیں‌کھلتا
کون جیتا ہے کون ہارا ہے

مجھ کو طوفاں سے کچھ نہیں‌آصف
میرے پیشِ نظر کنارا ہے


(آصف شفیع)
 

مغزل

محفلین
آپ کی غزل نظر نواز ہوئی ماشا اللہ ، بہت خوب آصف شفیع صاحب، مالک و مولیٰ سلامت رکھے ، آمین
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھی غزل ہے آصف صاحب

دلِ بےتاب روٹھ مت جانا
تو مرا آخری سہارا ہے

پھر جنوں کی نمود ہے مجھ میں
پھر مجھے دشت نے پکارا ہے

مجھ کو طوفاں سے کچھ نہیں‌آصف
میرے پیشِ نظر کنارا ہے

واہ واہ، بہت خوب، لاجواب
 

محمداحمد

لائبریرین
پھر اسی آنکھ کا نظارا ہے
جس کا نشہ ابھی اتارا ہے

پھر جنوں کی نمود ہے مجھ میں
پھر مجھے دشت نے پکارا ہے

بازئ عشق میں نہیں‌کھلتا
کون جیتا ہے کون ہارا ہے


سبحان اللہ آصف شفیع صاحب،

بہت اچھی غزل ہے۔ نذرانۂ تحسین پیشِ خدمت ہے۔

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ (آمین)
 

آصف شفیع

محفلین
اچھی غزل ہے آصف صاحب

دلِ بےتاب روٹھ مت جانا
تو مرا آخری سہارا ہے

پھر جنوں کی نمود ہے مجھ میں
پھر مجھے دشت نے پکارا ہے

مجھ کو طوفاں سے کچھ نہیں‌آصف
میرے پیشِ نظر کنارا ہے

واہ واہ، بہت خوب، لاجواب

وارث صاحب! بے حد شکریہ، نوازش۔
 
Top