پاکستان، موجودہ حالات اور میڈیا کا کردار

پاکستان میں ذرائع ابلاغ (خصوصاً ٹی وی چینلز اور ایف ایم ریڈیوز) کا کردار:

  • مثبت ہے

    Votes: 0 0.0%
  • منفی ہے

    Votes: 18 85.7%
  • مناسب ہے

    Votes: 2 9.5%
  • کچھ اندازہ نہیں ہے۔

    Votes: 1 4.8%

  • Total voters
    21
  • رائے شماری کا اختتام ہو چکا ہے۔ .

حاتم راجپوت

لائبریرین
سوال یہ ہے کہ میڈیا کا اصل کام کیا ہے۔۔ کام ان کا یہ ہےکہ خبریں مہیا کریں جو ملکی مفاد میں ہوں ، جس سےعوامی بیداری بڑھے ، ملکی سطح پر ایک تعلیمی شعور پیدا ہو اور خبریں مہیا کرتے وقت ملک کے کسی حصہ سے بے توجہی نہ برتی جائے۔ لیکن بڑے افسوس کے ساتھ یہاں پر زیادہ تر چینلز پر صرف وہ خبر پیش کی جاتی ہے جو زیادہ چٹ پٹی ہو اور جسے خوب مرچ مصالحہ لگایا جا سکے۔ اسی خبر کو پھر ٹاک شوز میں چلایا جاتا ہے جہاں پاکستان کے نام نہاد لیڈر بحث کے نام پر اخلاق اور شرافت کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ جب نوجوان نسل جو ابھی سیکھنے کے مراحل میں ہے وہ انہیں سن کر ان کی تقلید نہیں کرے گی تو اور کیا کرے گی۔جب انہیں کچھ اور دکھایا ہی نہیں جا رہا تو موجودہ آپشنز میں سے ہی کسی کا انتخاب کرنا پڑے گا نا انہیں۔ معدودے چند لوگوں کے باقی کسی کو قوم سے ہرگز کوئی ہمدردی نہیں اور ان وطن پرست لوگوں کے بیانات کو بھی میڈیا لوگوں سے کوسوں دور رکھتا ہے۔ جو چند ایک چینل کچھ سچ بتانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں کیبل پر یا تو نچلے نمبرات میں دھکیل دیا جاتا ہے یا دکھایا ہی نہیں جاتا ۔ میں نے حال ہی میں ایک بات نوٹ کی اور دم بخود رہ گیا کہ پاکستان کے ایک ”ہردلعزیز“ چینل نے بانی پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کی برسی کے موقع پر دن کے پہلے حصہ میں ان کے بارے سکرول بھی نہیں چلائی۔ شہ سرخی تو دور کی بات ٹھہری۔
رہی ایف ایم ریڈیو کی بات تو وہاں صرف موسیقی کی چیخم دھاڑ کے علاوہ کچھ ہوتا ہی نہیں۔میں پچھلے دنوں رمضان میں غلطی سے ریڈیو ٹیون کر بیٹھا، پاکستان کے ہی ایک ایف ایم چینل پر ایک صاحب بیٹھے ہمیں سونو نگم کے عواقب سے آگاہ کرنے میں مصروف تھے۔ اور لوگوں سے رائے لے رہے تھے کہ آپ کو سونو نگم کے کونسے گانے پسند ہیں۔لاحول ولا
فی الوقت ہمیں تو کوئی چینل ایسا نظر نہیں آتا جومشکل وقت میں لوگوں کی ذہن سازی کا حق ادا کر سکے۔۔ ہاں البتہ لوگوں کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے میں بہت سے چینل آگے ہیں۔
 

عؔلی خان

محفلین

ویسے عینی شاہ جی! میری بات کا برا نہ منائیے گا۔ آپ ماشاءاللہ پاکستانی ہیں اور پاکستان میں رہتی ہیں اور مقامی زبانیں (اردو، سرائیکی وغیرہ) بولنے والوں کے درمیان رہتی ہیں- میں مغرب میں تقریباً گزشتہ ربع صدی سے مقیم ہوں۔ اور پاکستانی نژاد امریکی شہری ہوں۔ لیکن اس کے باوجود الحمداللہ میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ جہاں اردو بولنے یا سمجھنے والے ہوں میں وہاں اردو استعمال کروں۔ میں آپ سے بھی یہی درخواست کروں گا کہ ازراہِ مہربانی یہ دیسی انگریز یا براؤن صاحبہ بننے کے شوق کو چھوڑیں اور حتی الامکان اردو کو زیادہ سے زیادہ اور انگریزی الفاظ کو کم سے کم استعمال کرنے کی کوشش کیا کریں۔ آپ ماشاءاللہ بی بی اے کر چکی ہیں اور تحقیق کے لوازمات سے بخوبی واقف ہیں۔ آپ کو انٹرنیٹ پر نہ صرف بالکل مفت برقی لغات مل جائیں گی بلکہ کئی اورمفید ذرائع بھی مل جائیں گے جن کو استعمال کرکے نہ صرف آپ اپنی اردو کو بہتر کر سکتی ہیں بلکہ اپنے اردو الفاظ کا ذخیرہ بھی بڑھا سکتی ہیں۔ شکریہ- :)
 
آخری تدوین:

زبیر مرزا

محفلین
میڈیا اور بلخصوص الیکٹرانک میڈیا جو کچھ پیش کررہا ہے اسے اینٹی پاکستانی اور منفی ہی کہا جاسکتاہے
ٹی وی پروگراموں میں بیٹھ کر ملک کے خلاف جی بھرکے بولنے والے حقائق پر نظر رکھنے والے دانشورکہلائے
جاتے ہیں اورجی بھر کے مایوسی پھیلاتے ہیں مسائل کے نشاندہی کے نام پر ملک وقوم کا تمسخراُڑاتے ہیں
پڑوسی ملک میں ارون دھتی رائے کو عام آدمی سے دوررکھا جاتا ہے میڈیا پر پیش نہیں کیا جاتا اورپاکستانی ایجنٹ
کا نام دیا جاتا ہے(بین الاقوامی طورپر شہرت رکھنے والی مصنفہ اورتجزیہ نگار) - ہمارے ہاں معاملہ برعکس
جو ملک کے خلاف اس کو توڑنے کی باتیں کرے اور جسے بات کرنے تک کی تمیز نہ ہو وہ ٹی وی پر لایا جاتاہے
خبروں میں موسیقی اور ڈرامائی انداز کو شامل اس طرح کردیا گیا ہے کہ سنجیدگی ان میں سے جاتی رہی اور یہ محض
تفریح فراہم کرنے لگیں
 

محمداحمد

لائبریرین
عجیب قوم ہے۔۔۔ بھارتی فوج دن رات مسلسل تمہاری سرحدوں پر فائرنگ کر رہی ہے ، انکا میڈیا تمہارے خلاف مسلسل زہر اگل رہا ہے۔۔لیکن تمہارے سب دیکھے جانے والے چینلز پر ہر گھنٹے بعد تمہیں بھارتی فلم انڈسٹری کی مصالحے دارخبریں سنائی جارہی ہیں اور انکے اداکاروں اداکاراؤں کی سرگرمیوں کو بھرپور کوریج دی جارہی ہے۔۔۔ لیکن تم اور تمہاری سیاسی وغیر سیاسی جماعتوں میں سے کسی کو اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ ان چینلز کے دفاتر کے سامنے کوئی رسمی سا احتجاج یا مذمت ہی کردی جائے۔۔۔ ۔حمیت نام تھا جسکا، گئی تیمور کے گھر سے

ویسے کیا ہمیں ٹوئٹر یا فیس بک پر کوئی مہم (campaign) چلا سکتے ہیں اس سلسلے میں؟

اور کیا واقعی ہماری اکثریت بھارتی پروگرامز کی دلدادہ نہیں ہے؟ میڈیا والے یہ کہتے ہیں کہ ہم تو وہی دکھاتے ہیں جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یعنی وہ رہبر و رہنما بننے کے بجائے پیروکار بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
میڈیا کسی بھی ملک کے لیئے ایک آئینہ کی طرح ہوتا ہے جس میں اس ملک کا عکس دکھائی دیتا ہے ۔۔بدقسمتی سے ہمارے ملک کا میڈیا ایسا کردار پیش کر رہا ہے کہ کبھی کبھی میں اپنی آنکھوں کو ملنے بیٹھ جاتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ کیا واقعی یہ اپنے ملک کی عکاسی کر رہے ہیں۔۔۔!
بے حیائی،فحاشی،بدتمیزی ،بدتہذیبی کا مجموعہ ہے ہمارا میڈیا جسے دیکھ کر آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔۔۔۔انتہا پسندی ۔۔۔مایوسی اور صرف منفی خبریں پھیلانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے ۔۔۔۔۔
ہم اگر خبروں کو لیں تو ہر چینل پر قتل و غارت ،اور مختلف جرائم کی خبروں کو بار بار مختلف زاویوں سے دکھایا جاتا ہے اور بھی اس قدر کثرت سے کہ دلوں سے برائی کا احساس جاتا رہے اور یہ تمام جرائم ہمارے لیئے معمول کی بات بن جائیں ۔۔۔۔
میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کہ کوئی ان مسائل کا حل پیش کرے ،،،کوئی مثبت بات کرے ۔۔۔کوئی ان برائیوں کے روکنے کے لیئے سدِباب ہو ۔۔نہیں! کچھ نہیں سوائے اس کے کہ کوئی دیکھے نہ دیکھے شبیر تو دیکھئے گا اور اس کے ساتھ پوری قوم دیکھئے گی پوری دنیا دیکھئے گی کہ وطن عزیز میں سوائے ان خرافات کے اور کچھ نہیں ہورہا ۔
ٹاک شوز، مارننگ شوز لایعنی گفتگو ، لایعنی بحث پر مشتمل ہیں ،،اور انہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ صرف گانوں اور ڈانس جیسے بیہودہ کاموں میں مشغول ہے قوم ۔۔۔۔پوری عید میں مختلف چینلز پر آنے والے مارنگ شوز میں میں نے عید کے حوالے سے کوئی بات نہیں سنی سوائے ریمبو اور صاحبہ کے بیہودہ ڈانس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا
باقی ہم کون ہیں ۔۔۔ہماری ثقافت کیا ہے ۔۔۔عید کا پیغام کیا ہے ۔۔۔اس سے ان کو کوئی واسطہ نہیں۔۔۔۔!
رہی بات ایف ایم کی تو یہ بھی ایک خرافات کا مجموعہ ہے اور نئی نسل کے لیئے صرف اور صرف تباہ کرنے کا آلہ کار جس کے ٹاپک سن کر عقل دنگ رہ جائے۔۔۔کیا آپ نے کبھی پیار کیا ہے؟ بات گرل فرینڈز اور بوائے فرینڈز اور انڈیا سے آگے کبھی جاتی ہی نہیں ان لوگوں کی ۔۔۔۔
کبھی کبھار خوش قسمتی سے کوئی ایسی چیز دیکھنے کو مل جاتی ہے جس سے کچھ تقویت حاصل ہوتی ہے ۔۔۔۔جیسے مٹھی بھر مٹی جیسے حب الوطنی پر مبنی ڈرامے ۔۔۔
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
ویسے کیا ہمیں ٹوئٹر یا فیس بک پر کوئی مہم (campaign) چلا سکتے ہیں اس سلسلے میں؟

اور کیا واقعی ہماری اکثریت بھارتی پروگرامز کی دلدادہ نہیں ہے؟ میڈیا والے یہ کہتے ہیں کہ ہم تو وہی دکھاتے ہیں جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یعنی وہ رہبر و رہنما بننے کے بجائے پیروکار بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔
میڈیا کی یہ بات سراسر غلط ہے ۔۔۔ہم قوم کو جس راہ پر لگائیں گے۔۔جیسی عادات دیں گے ۔۔۔جس رخ پر موڑیں گے وہ اسی سمت چلے گی ۔۔۔بےشمار لوگ سامنے آتے ہیں جو اپنی اساس اور نظریات کو ہی پسند کرتے ہیں اور میڈیا جب بھی کوئی مثبت چیز پیش کرتا ہے تو قوم اس کو سراہتی ہے ۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
سوال یہ ہے کہ میڈیا کا اصل کام کیا ہے۔۔ کام ان کا یہ ہےکہ خبریں مہیا کریں جو ملکی مفاد میں ہوں ، جس سےعوامی بیداری بڑھے ، ملکی سطح پر ایک تعلیمی شعور پیدا ہو اور خبریں مہیا کرتے وقت ملک کے کسی حصہ سے بے توجہی نہ برتی جائے۔

یعنی میڈیا ناصرف اپنے فرائض سے روگردانی کر رہا ہے بلکہ فرائض کے برخلاف وہ ملک میں فحاشی اور انارکی پھیلانے میں بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔

لیکن کیا ہم آٹھ دس لوگوں کے ٹی وی نہ دیکھنے سے معاملات بہتر ہو سکیں گے؟ پھر کیا متبادل حکمتِ عملی اختیار کی جائے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
میڈیا کسی بھی ملک کے لیئے ایک آئینہ کی طرح ہوتا ہے جس میں اس ملک کا عکس دکھائی دیتا ہے ۔۔بدقسمتی سے ہمارے ملک کا میڈیا ایسا کردار پیش کر رہا ہے کہ کبھی کبھی میں اپنی آنکھوں کو ملنے بیٹھ جاتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ کیا واقعی یہ اپنے ملک کی عکاسی کر رہے ہیں۔۔۔ !

میرا خیال ہے کہ ہمارا میڈیا کم از کم ہماری نمائندگی نہیں کرتا۔ اگر یہ واقعی پاکستان اور پاکستانی لوگوں کا آئینہ ہوتا تو تو اس کے ثقافتی پروگرام ہمارے روز و شب سے اس قدر مختلف نہ ہوتے۔

کبھی کبھی تو یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ سب مل کر کسی "غیر" کے ایجنڈے کی تکمیل میں جُتے ہوئے ہیں اور انہیں اس کی قیمت ملتی ہے۔

ہم اگر خبروں کو لیں تو ہر چینل پر قتل و غارت ،اور مختلف جرائم کی خبروں کو بار بار مختلف زاویوں سے دکھایا جاتا ہے اور بھی اس قدر کثرت سے کہ دلوں سے برائی کا احساس جاتا رہے اور یہ تمام جرائم ہمارے لیئے معمول کی بات بن جائیں ۔۔۔ ۔

پھر اس پر مستزاد جرائم کی دوبارہ سے ڈرامائی تشکیل (Reenactment) کی جاتی ہے۔ جب ٹی وی چینلز روز دکھاتے ہیں کہ لوگوں کو کیسے قتل کیا جاتاہے، کسی پر تیزاب پھینکنے کے کیا طریقے ہیں۔ چوری ڈاکے کے نت نئے طریقوں کو روز متعارف کروائے جاتے ہیں تب آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ لوگوں کے دل و دماغ متاثر نہیں ہوں گے۔

فلاں شخص نے بیوی بچوں کو مار کر خود زہر کھالیا، فلاں شخص نے بجلی کے کھمبے پر چڑھ کر جان دے دی۔ کوئی اپنے بچے بیچنے کے لئے بازار میں لے آیا۔ یہ مایوسی کی خبریں دیکھنے والوں کو کون سا پیغام دیتی ہیں۔ (جو لوگ خدا سے اُمید رکھتے ہیں وہ کبھی مایوس نہیں ہوتے۔ کبھی خود کشی نہیں کرتے اللہ انہیں ہمت دیا کرتا ہے۔ )

ان میڈیا والوں کے ہاں ہمارے لئے کوئی اُمید کی خبر نہیں ہے۔ سچی بات تو یہی ہے کہ اگر پاکستان کے حالات بہتر ہوگئے تو ان کا دال دلیہ بند ہو جائے گا۔
 

زبیر مرزا

محفلین
ان کرائم رپوٹس کا اثر سن لیں ہمارے محلہ کی ایک معمر خاتون کی بہو سے تکرارہوئی اس کے بعد بہوبیگم نے بچوں کو
لے کر کمرہ بند کرلیا کافی دیر گذری تو معمر خاتون نے یہ واویلا شروع کردیا اور سارے محلے کو اکٹھا کرلیا کہ
بہو نے غصہ میں آکے زہرکھایا اور بچوں کو بھی دے کر ماردیا - شور اور لوگوں کی آمد سے بہو بیگم آنکھیں ملتی کمرے سے
نکلیں یعنی وہ سو رہیں تھیں - ساس صاحبہ سے پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیسے سوچ لیا تو جواب آیا ٹی وی پر ایسا ہی دکھاتے رہتے
ہیں تو مجھے لگا کہ بہونے کمرہ بند کرلیا تو کہیں خودکشی اور بچوں کو قتل نہ کردیا ہو
 
آخری تدوین:

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ ہم اس سارے واقعہ میں سوشل میڈیا بطور خاص "فیس بک" کا بھی اتنا ہی کردار ہے کہ جتنا الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کا ہے۔:)
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ ہم اس سارے واقعہ میں سوشل میڈیا بطور خاص "فیس بک" کا بھی اتنا ہی کردار ہے کہ جتنا الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کا ہے۔:)
جی بالکل ہے۔۔ اور زیادہ برے طریقے سے ہے۔
دیکھئے یہ چیز شروع سے چلتی آئی ہے کہ کسی بھی معاشرے میں دانشور اور فطین لوگ بہت کم ہوتے ہیں، اکثریت جہلاء ہی کی رہی ہے۔ اسی وجہ سے معاشرے کے دانشور آگے بڑھ کر اپنی اپنی قوم کی سرکردگی کرتے ہیں۔ اسلام بھی آزادی حق رائے کی اجازت دیتا ہے لیکن آج کل کے دور میں اس حق کا غلط اور بے محابا و بے سروپا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کوئی بھی غیر ذمہ دار اور جاہل انسان اٹھ کر ایسی پوسٹ کر دیتا ہے جس کا کوئی سر پیر نہیں ہے لیکن سنسنی خیز انداز میں پیش کی گئی ہے لہذاٰ اسی وجہ سے باقی لوگ اندھا دھند اس کی تقلید شروع کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً اہم اور حساس موضوع دب کر رہ جاتے ہیں اور انہیں کوئی توجہ نہیں مل پاتی۔
فیس بک پر اکثرآپ نے اردو زبان کی ایسی پوسٹس دیکھی ہونگی جن کے متن کی تو سمجھ آتی ہے لیکن املا اور ہجےسب غلط ہوتے ہیں، چاہے وہ سیاسی و سماجی ہوں یا دینی، کوئی بھی پڑھا لکھا شخص اس طرح سے اردو نہیں لکھے گا۔ یہ بھی جہالت کی اکثریت کا ایک ثبوت ہے۔
اس کے علاوہ کئی تصویری پوسٹس میں سیاسی و دینی شخصیات کی مٹی پلید کر کے رکھ دی جاتی ہے۔ تصویر کے پس منظر میں متعلقہ شخص کا نام اور عرفیت ہو گی اور تصویر میں ایک کتا بیٹھا نظر آئے گا۔ نتیجتاً وہیں گالیوں کی مچھلی منڈی لگنا شروع ہو جائے گی۔
پاکستان میں 95-98 فیصد آبادی اسلام کے پیروکاروں کی ہے ، اس اسلام کے کہ جس میں کہیں کسی گالی کا نام و نشان نہیں اور ہر جگہ صبر و تحمل کا درس دیا گیا ہے۔ اب اُس پوسٹ میں آپ کو مشکل سے شاید کوئی ایسا بندہ نظر آجائے جس پر آپ مسلمان ہونے کا شبہ کر سکیں۔
ہم لوگ اپنے اپنے خدا خود بن بیٹھے ہیں اور معاشرے کو اور خود کو تباہ کرتےجا رہے ہیں۔ اسی بات کی ایک تمثیل قرآن حکیم سے بھی لی جا سکتی ہے کہ۔۔
لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا ۚ
اگر زمین و آسمان میں کئی خدا ہوتے تو وہ تباہ و برباد اور پاش پاش ہو جاتے۔
سورة الأنبياء آیت نمبر ٢٢
 

نمرہ

محفلین
الیکٹرانک میڈیا کو آزادی ملنے سے کچھ فائدہ تو بہرحال ہوا ہے کہ اب ہمارے ہاں حکومتی پالیسیوں پر جتنی زیادہ تنقید ہوتی ہے، ہر جگہ نہیں ہوتی۔ اب یہ آزادی شتر بے مہار ہو چکی ہے تو کیا کیجیے۔ پھر تنقید میں بھی اکثر لوگ ذاتیات پر اتر آتے ہیں۔ ایک سیاست دان یا حکومتی عہدے دار کی کسی پالیسی یا فیصلے پر تنقید کرنا الگ بات ہے اور اس کی شخصیت کا تمسخر اڑانا بالکل الگ۔ ٹاک شوز میں اکثر اینکرز سننے میں کم، سنانے میں زیادہ اور فساد کرانے میں اس سے بھی زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
مایوسی پھیلانے کا کام بلاشبہ سب ٹی وی چینل کر رہے ہیں۔ متفق۔ ان کا کام لوگوں کو دھماکہ خیز خبریں سنانا ہے، اور اچھی خبریں، اگر کوئی ہوں بھی تو، اتنی توجہ نہیں کھینچ سکتیں۔ ہر خبر کو سنسنی خیز بنا کر پیش کرنے سے ہی ان کی روزی روٹی چلتی ہے۔ بے شک ہر حقیقت کو سامنے لانا چاہیے لیکن صرف چند مخصوص خبروں پر ضرورت سے زیادہ فوکس کرنے کا کیا مطلب ہے؟
کلچر کے باب میں البتہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر بالفرض لوگ اتنے بڑے پیمانے پر صرف ڈرامے یا فلمیں دیکھ کر اپنی اقدار تبدیل کر لیتے ہیں تو کیا واقعی انھوں نے پرانی اقدار کو سوچ سمجھ کر اپنایا ہوا تھا یا پھر وہ بزرگوں کی طرف سے ان پر زبردستی مسلط کی گئی تھیں؟ اس کے علاوہ اس قسم کی چیزوں کا سب سے زیادہ اثر چھوٹے بچوں پر ہوتا ہے، انھیں تو ویسے بھی ٹی وی سے دور رکھنا چاہیے، سو وہ ہمارے ہاں رکھا نہیں جاتا۔
اس دلیل سے بھی میں کافی حد تک متفق ہوں کہ دکھایا وہی کچھ جاتا ہے جو اکثریت دیکھنا چاہتی ہے اور دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔
میرا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستانی میڈیا میں پاکستانیت اور اپنے تشخص پر ایک جائز قسم کے فخر کا عنصر حیرت ناک حد تک کم ہے۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
میرا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستانی میڈیا میں پاکستانیت اور اپنے تشخص پر ایک جائز قسم کے فخر کا عنصر حیرت ناک حد تک کم ہے۔
صد فیصد متفق۔ یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے اور اس کی جانب توجہ مبذول کرنی چاہئیے۔ میں بارہا اس چیز کو نوٹ کر چکا ہوں لیکن کوئی بھی میڈیا گروپ اس طرف نہیں آتا اور یہ بھی کہ صرف کم نہیں ہے بلکہ کسی حد تک مفقود ہے۔ اور اگر کہیں ہے تو صرف کرکٹ تک ہی محدود ہے۔
 

زین علی

محفلین
صد فیصد متفق۔ یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے اور اس کی جانب توجہ مبذول کرنی چاہئیے۔ میں بارہا اس چیز کو نوٹ کر چکا ہوں لیکن کوئی بھی میڈیا گروپ اس طرف نہیں آتا اور یہ بھی کہ صرف کم نہیں ہے بلکہ کسی حد تک مفقود ہے۔ اور اگر کہیں ہے تو صرف کرکٹ تک ہی محدود ہے۔
متفق۔
 

زرقا مفتی

محفلین
پاکستان کے میڈیا نے ابھی صرف اُنگلی اُٹھانا سیکھا ہے۔ جسے انگریزی میں فنگر پوائنٹنگ کہتے ہیں۔ میڈیا قومی سلامتی کے تقاضوں کو بھی ملحوظِ خاطر نہیں رکھتا۔ بسا اوقات محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا میڈیا اُن خبروں یا کہانیوں کو فوقیت یا ترجیح دیتا ہے جو مغربی میڈیا میں اہم گردانی جاتی ہیں۔ یعنی یہ مغربی میڈیا کی اندھی تقلید پر پیرو کار ہے۔ پھر چاہے وہ خبریں ہوں یا اشتہار یا پروگرام۔
کسی بھی ملک کا میڈیا ملکی سلامتی کو پیشِ نظر رکھ کر اپنی ترجیحات بناتا ہے مگر ہمارا ہر چینل صرف سنسنی پھیلا کر اپنی ریٹنگ بڑھانے میں مشغول ہے۔ ہمارے نجی چینل ایک مسابقتی دوڑ میں شریک ہیں ۔ ایسے دانشوروں کو لا کر بٹھاتے ہیں جو ہماری نظریاتی اساس پر بھی سوال کھڑے کرتے ہیں ۔ ایسی مثال اور پوری دُنیا میں ملنی محال ہے۔ میڈیا کو خود یا پھر حکومت کو ایک ضابطہ اخلاق ترتیب دینا چاہیئے ۔
تفریحی پروگراموں کو دیکھیں تو یہ بھارتی میڈیا کی نقالی کرتے نظر آتے ہیں ۔ ہماری تہذیب معاشرتی اقدار کہیں نظر نہیں آتیں ۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
میڈیا کی یرغمالیت۔۔

آج شام سے تمام پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کی توجہ اسلام آباد پر مرکوز ہے۔ جہاں پر ایک مسلح شخص کچھ کرتب دکھا رہا ہے۔۔۔۔، اب یہ کرتب کس کے اشارے پر ہیں یہ تو ہمیں بالکل نہیں معلوم۔۔
لیکن اگر اس خبر کی کچھ اہمیت ہے تو صرف اتنی کہ اس شخص کے ساتھ ایک خاتون اور دو چھوٹے بچے بھی ہیں جنہیں خطرہ ہو سکتا ہے۔ لیکن شہ سرخی جو صرف سنسنی پیدا کرنے کے لئے بار بار چلائی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ ”ایک مسلح شخص نے اسلام آباد کو یرغمال بنا لیا“ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہاس خبر کی کوریج میں واضع طور پر میڈیا خود یرغمال بنا نظر آتا ہے۔۔
اب اگرپاکستان کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں سب سے اہم ترین موضوع کا تقابل اگر اس خبر سے کیا جائے تو واضع ہو جائے گا کہ کوریج پاکستان کے سیلابی علاقوں کی ہونی چاہئے جہاں لاکھوں افراد پھنسے ہوئے ہیں اور حکومتی امداد کے منتظر ہیں اور جن کی جانوں کے ضیاع کا خطرہ سب سے زیادہ ہے۔
اور ان چینلز کی ذہنیت بھی ملاحظہ فرمائیں کہ جونہی انہیں معلوم ہوا کہ مذکورہ شخص کے والد ایک پٹواری تھے، انہوں نے خبر کے پس منظر میں ایک پنجابی گانا جس میں کسی پٹواری کے بیٹے کا ذکر ہے چلانا شروع کر دیا۔
کیا یہ پاکستان کی تہذیب ہے۔۔۔؟
فی الوقت یہ دیکھ کر بہت افسوس ہو رہا ہے کہ تقریبا ً ہر چینل پر صرف اسی خبر کا چرچا ہے۔ بلکہ ایک ٹاک شو بھی اسی موضوع پر منعقد کیا گیا ہے۔ اور سیلاب کے بارے میں سکرول بھی نہیں چلائی جا رہی۔ انتہائی افسوسناک صورت حال۔۔ :(
 
Top