189_82619930.jpg

بشکریہ:روزنامہ دنیا
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
زبردست
یہی حال پاکستان کا بھی ہے
اچھا میں ایک اور بات جانتا ہوں
پڑھنے سے ٹیلنٹ میں اضافہ ہوتا ہے لیکن
یہ اللہ کی طرف سے ھدیہ ہے۔ جو ہر کسی کو نہیں ملتا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
دنیا نیوز کی باقی سائٹ تحریری شکل میں ہے لیکن کالم انہوں نے تصویری شکل میں ہی شائع کیے ہوئے ہیں۔ :confused:
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
بھیا آپ نے ایک بہت ہی اہم موضوع کی طرف نشاندہی کی ہے۔ ہمارے یہاں بھی بکثرت ایسے اسٹوڈنٹ پائے جاتے ہیں جن کو ٹاپک سمجھ آیا یا نہیں بس اس ٹاپک کے نوٹس مل جانے چاہیں تاکہ وہ رٹا لگا کر پیپر دے سکیں۔ جب ٹیچر سمجھا رہا ہوتا ہے تو کسی کو زحمت نہیں ہوتی کہ اگر کچھ مشکل ہے تو پوچھ لیا جائے بلکہ اکثر اسٹوڈنٹس کو سمسٹر شروع ہوتے ہی یہ پریشانی ہوتی ہے کہ یہ ٹاپک کرنا کہاں سے ہے آیا کہ نوٹس ملیں گے یا کوئی بک خریدنی پڑے گی۔ اور آپ کو تو پتا ہے نوٹس پر صرف اتنا ٹاپک ہی ہوگا جبکہ بک پر کچھ اضافی بھی لکھا ہوگا اس لیے عموما نوٹس کی بہت زیادہ ڈیمانڈ ہے۔ مجھے پرسنلی نوٹس سے یوز کرنا بالکل اچھا نہیں لگتا (جس کی ایک لمبی وضاحت ہے)۔ خیر لیکن میں سمجھتی ہوں اس میں سارا قصور طلبہ کا نہیں ہے بلکہ ٹیچرز کا بھی ہے کچھ ٹیچرز خود بچوں کو نوٹس کا عادی بنا دیتے ہیں اور آپ کو حیرانی ہوگی میں نے خود ایک ٹیچر کو نوٹس سامنے رکھ کر پیپر چیک کرتے دیکھا ہے۔
بہت دکھ ہوتا ہے جب یہ سب دیکھتی ہوں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بھیا آپ نے ایک بہت ہی اہم موضوع کی طرف نشاندہی کی ہے۔ ہمارے یہاں بھی بکثرت ایسے اسٹوڈنٹ پائے جاتے ہیں جن کو ٹاپک سمجھ آیا یا نہیں بس اس ٹاپک کے نوٹس مل جانے چاہیں تاکہ وہ رٹا لگا کر پیپر دے سکیں۔ جب ٹیچر سمجھا رہا ہوتا ہے تو کسی کو زحمت نہیں ہوتی کہ اگر کچھ مشکل ہے تو پوچھ لیا جائے بلکہ اکثر اسٹوڈنٹس کو سمسٹر شروع ہوتے ہی یہ پریشانی ہوتی ہے کہ یہ ٹاپک کرنا کہاں سے ہے آیا کہ نوٹس ملیں گے یا کوئی بک خریدنی پڑے گی۔ اور آپ کو تو پتا ہے نوٹس پر صرف اتنا ٹاپک ہی ہوگا جبکہ بک پر کچھ اضافی بھی لکھا ہوگا اس لیے عموما نوٹس کی بہت زیادہ ڈیمانڈ ہے۔ مجھے پرسنلی نوٹس سے یوز کرنا بالکل اچھا نہیں لگتا (جس کی ایک لمبی وضاحت ہے)۔ خیر لیکن میں سمجھتی ہوں اس میں سارا قصور طلبہ کا نہیں ہے بلکہ ٹیچرز کا بھی ہے کچھ ٹیچرز خود بچوں کو نوٹس کا عادی بنا دیتے ہیں اور آپ کو حیرانی ہوگی میں نے خود ایک ٹیچر کو نوٹس سامنے رکھ کر پیپر چیک کرتے دیکھا ہے۔
بہت دکھ ہوتا ہے جب یہ سب دیکھتی ہوں۔

ہمارا ساہیوال تو چلتا ہی نوٹس پہ ہے۔
یہ ایک المیہ ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اور ہماری کلاس میں بھی ایسے اسٹوڈنٹس کی تعداد کم ہی ہے جو نوٹس کی بجائے بک سے پڑھنا چاہتے ہیں۔

اصل میں گورنمنٹ کالجز کے ٹیچرز کا قصور زیادہ ہے۔
وہ کالج میں نہیں پڑھاتے۔
اپنے نوٹسز سے پڑھواتے ہیں۔
اپنی اکیڈمیز چلاتے ہیں۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
ویسے میں حیران ہوں یہ جو کالم میں ذکر ہوا ہے کہ طلبہ کو ایک بھی بک کا پڑھنا تو دور کی بات نام بھی معلوم نہیں تھا۔ کہاں سے آئے تھے وہ لوگ؟ ان کا تعلق تو ایک طرح ادب سے ہی ہے ناں تو انہوں نے کوئی ایک بک بھی نہ پڑھی ہوگی؟!!!!
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
اصل میں گورنمنٹ کالجز کے ٹیچرز کا قصور زیادہ ہے۔
وہ کالج میں نہیں پڑھاتے۔
اپنے نوٹسز سے پڑھواتے ہیں۔
اپنی اکیڈمیز چلاتے ہیں۔
بھیا یہاں اکیڈمیز کا تو کوئی سلسلہ نہیں ہے۔
ہمارے یہاں کچھ ٹیچرز بہت ہی اچھے ہیں جو صرف کانسیپٹ دینے پر زور دیتے ہیں اور بعد میں اسٹوڈنٹ کو خود اسٹڈی کا مشورہ دیتے ہیں۔
خیر بات نکلی ہے تو دور تک جائے گی۔ اگر کم از کم کالج کی لائبریری اسٹوڈنٹ کو میسر رہے تو میرے خیال میں ماحول تھوڑا اس سے مختلف ہوگا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میں مضمون نگار سے متفق ہوں۔ طلبہ کی عدم دلچسپی اور نوٹس پر توجہ کی ذمہ داری والدین، اساتذہ اور طلبہ سب پر آتی ہے۔ مضامین کے انتخاب میں آج بھی بچوں کی مرضی کے بجائے والدین کی دلچسپی اس بات میں ہوتی ہے کہ کس شعبے میں کامیابی (ملازمت اور ترقی) کے زیادہ امکانات ہیں۔ کسی زمانے میں ہر بچے کو میڈیکل اور انجینئرنگ کی طرف دھکیلنے کی کوشش ہوتی تھی۔ پھر بزنس سٹیڈیز کا دور آیا اور اب آئی ٹی اور کمپیوٹر سائنس اور (میڈیا کی طاقت دیکھتے ہوئے) جنرلزم کی دوڑ ہے۔ جب بچوں کی دلچسپی دیکھے بغیر ان پر اپنی مرضی مسلط کی جائے گی تو پھر پڑھائی اور کتابوں سے ان کا تعلق صرف امتحان میں کامیابی تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔
ایسے حالات میں بجائے اس کے کہ اساتذہ اپنے مضامین میں طلبہ کے لئے دلچسپی کا عنصر پیدا کریں، کوشش کرتے ہیں کہ اپنا مقررہ نصاب پڑھائیں اور کام ختم کریں۔ میں پاکستان میں تعلیم کو عمومی طور 'رزلٹ اوریئنٹڈ' تعلیم سمجھتی ہوں جہاں پرائیوٹ تعلیمی اداروں کا زور بہترین نتیجہ دینا تاکہ ان کا بزنس مزید آگے جائے اور بچوں کا مقصد زیادہ سے ز یادہ جی پی اے لینا ہے تاکہ مزید تعلیم اچھے ادارے میں ہو اور اس کے بعد بہترین نوکری مل سکے۔ اس چکر میں استاد بھی نوٹس دیتے ہیں اور بچوں کا زور بھی نوٹس پر ہی ہوتا ہے۔ سرکاری اداروں میں صورتحال یوں خراب ہے کہ کسی حد تک وہاں بھی اب یہ دیکھا جا رہا ہے کہ نتیجہ کا اثر آپ کی پرفارمنس رپورٹ پر پڑتا ہے تو انہوں نے بھی نتیجہ دینا ہے۔ دوسرا یہ کہ روایتی سوچ کے تحت عموماً سرکاری اداروں میں اساتذہ لگے بندھے انداز میں کلاس کا وقت پورا کرنا بہتر سمجھتے ہیں ناں کہ اپنے طریقہ تدریس میں کوئی نئی تبدیلی اور اپنے مضمون کو طلبہ کی زندگی سے جوڑنے کی کوشش کرنا۔
اب آ گئے طلبہ۔ پہلے تو یہ کہ جب تعلیم کا مقصدشوق ، دلچسپی اور شخصیت کے نکھار کی بجائے نوکری کے لئے ڈگری کا حصول ہو تو پھر ان کو کیا پڑی کہ وہ ہر چیز کی کھوج میں جائیں۔ پھر آج کل ہمارے لئے کلاس اور کتابوں سے باہر دلچسپی کے اس قدر لوازمات موجود ہیں کہ وہ وقت جو کتابوں یا عملی کام کو دینا چاہئیے وہ موبائلز، انٹرنیٹ اور میڈیا کی رنگینیوں میں کھو کر گزرتا ہے تو ایسی صورت میں 'نوٹس از دا بیسٹ آپشن' ہی آسان حل ہے۔

چند کتابوں کے نام نہ بتا سکنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کا کتاب سے تعلق بالکل ختم ہو گیا ہے۔ کتاب سے تعلق صرف نصابی کتب وہ بھی بہت کم حد تک رہ گیا ہے تو اضافی پڑھائی والی بات کہاں سے آئے گی۔ بہت دن پہلے کسی نے بہت اچھی بات ٹیکسٹ میسج میں لکھ بھیجی تھی جو مجھے یہاں پوری اترتی محسوس ہوتی ہے۔
'اس قوم کو علم و حکمت کی کیا قدر جو مہنگا جوتا خریدنے میں فخر اور سستی کتاب لینے میں دقت محسوس کرے۔'
 
یہ المیہ صرف پاکستان کا نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں یہ ایک بہت خطرناک صورتحال ہے اور اس موضوع پر اب کچھ موضوعاتی ویب سائٹس پر بہت عمدہ لیکچر اور مباحثیں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

ویسے میرا تو اپنا یہی حال تھا کہ کمپیوٹر سائنس بلکہ میٹرک اور ایف ایس سی کرتے ہوئے بھی میری بہت زیادہ دلچسپی کہانیاں اور ناول پڑھنے میں ہوتی تھی اور جہاں تک مجھے یاد ہے بلاناغہ لائبریری سے لا کر اشتیاق احمد ، اے حمید یا کبھی کبھار عمران سیریز کا کوئی ناول ضرور پڑھتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ دو تین ڈائجسٹوں پر بھی ہاتھ صاف ہو جاتا تھا۔ والد صاحب نے میری بہت سی کہانیاں اور ناول میری آنکھوں کے سامنے بھی پھاڑے اور پھر امی نے بھی مل کر میرے خلاف محاذ بنا لیا پر یہ عادت ایسی پختہ ہوئی کہ اس نے کبھی جان نہ چھوڑی حتی کہ فائنل پیپر کے دن بھی کبھی کبھار ڈائجسٹ کی سلسلہ وار کہانی پڑھنے کا شوق امتحان کی تیاری پر غالب آ جاتا رہا۔

گریجویشن میں تو باقاعدہ طعنے بھی ملنا شروع ہو گئے کہ بھائی تم اردو ہی زیادہ پڑھنا چاہتے ہو تو پھر سائنس چھوڑ دو اور بعد مدت بلکہ اب تک کسی نہ کسی حوالے سے یہ مسئلہ چلتا رہتا ہے۔ آپ کی پسند ہی آپ کا شعبہ اور تعلیمی سرگرمی کا مرکز بنے یہ ضروری نہیں اور حالات بھی ہر بار اس کی اجازت نہیں دیتے۔ میں نے کمپیوٹر سائنس خود چنی مگر ایک عرصہ تک اس چناؤ پر پریشان رہا اور بہت سالوں بعد بہت سے ایسے موضوعات سمجھ سکا جو دور طالب علمی میں اپنی عدم دلچسپی اور اساتذہ کے انتہائی غیر دلچسپ اور خشک لیکچروں کی وجہ سے نہیں سمجھ سکا۔

میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ کسی بھی مضمون میں جان ڈالنا اور دلچسپی پیدا کرنے میں استاد کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے اور اسے پڑھانے میں بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اور کرنی چاہیے بھی کیونکہ کلاس میں ہر قسم کا طالب علم موجود ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ ایک اچھے طالب علم کی ہر مضمون میں ایک جیسی دلچسپی بھی ہو۔ میرے تجربے کے مطابق زیادہ قصور استادوں کا ہے کیونکہ اکثریت اچھے طریقہ سے نہیں پڑھاتی۔ میں نے دوسرے سمسٹر میں C زبان سیکھی تو میرا گریڈ A تھا جبکہ دوسرے سیکشن میں اکثریت کا گریڈ C تھا اسی مضمون میں۔ اگلے سمسٹر میں وہ استاد جس کی کلاس میں صرف ایک A تھا اور اکثریت C گریڈ والی تھی وہ ایک اور مضمون میں ہمارے استاد ہوئے اور انہوں نے باقاعدہ شرمندہ کرکے ہمیں بتایا کہ ان کی کلاس کے C گریڈ والے ہمارے سیکشن کے A گریڈ والوں سے زیادہ جانتے ہیں۔ :)

اس کلاس میں گو میرا D گریڈ آیا پر میں نے پہلی کلاس سے کہیں زیادہ سیکھا۔
 
Top