فراز وہ جو آ‌جاتے تھے آنکھوں میں ستارے لے کر - احمد فراز

سارہ خان

محفلین
وہ جو آجاتے تھے آنکھوں میں ستارے لے کر
جانے کس دیس گئے خواب ہمارے لے کر

چھاؤں میں بیٹھنے والے ہی تو سب سے پہلے
پیڑ گِرتا ہے تو آجاتے ہیں آرے لے کر

وہ جو آسودہِ ساحل ہیں انہیں کیا معلوم
اب کے موج آئی تو پلٹے گی کنارے لے کر

ایسا لگتا ہے کہ ہر موسمِ ہجراں میں بہار
ہونٹ رکھ دیتی ہے شاخوں پہ تمھارے لے کر

شہر والوں کو کہاں یاد ہے وہ خواب فروش
پھرتا رہتا ہے جو گلیوں میں غبارے لے کر

نقدِ جاں صرف ہوا خلفتِ ہستی میں‌فراز
اب جو زندہ ہیں تو کچھ سانس ادھارے لے کر

احمد فراز۔
 

مغزل

محفلین
وہ جو آجاتے تھے آنکھوں میں ستارے لے کر
جانے کس دیس گئے خواب ہمارے لے کر

چھاؤں میں بیٹھنے والے ہی تو سب سے پہلے
پیڑ گِرتا ہے تو آجاتے ہیں آرے لے کر


وہ جو آسودہِ ساحل ہیں انہیں کیا معلوم
اب کے موج آئی تو پلٹے گی کنارے لے کر

ایسا لگتا ہے کہ ہر موسمِ ہجراں میں بہار
ہونٹ رکھ دیتی ہے شاخوں پہ تمھارے لے کر


شہر والوں کو کہاں یاد ہے وہ خواب فروش
پھرتا رہتا ہے جو گلیوں میں غبارے لے کر

نقدِ جاں صرف ہوا خلفتِ ہستی میں‌فراز ( یہاں‌دیکھے گا شاید خفّت ہو )
اب جو زندہ ہیں تو کچھ سانس ادھارے لے کر

احمد فراز۔

سارہ بہن ۔ سدا شاد باد

بہت خوب کلام نظر نواز کیا ہے ، ایک ایک شعر نگینہ،
سبحان اللہ سبحان اللہ ، معانی آفرینی تو فراز کے بعد اب خال ہی نظر آتی ہے۔
جیتی رہیے ، بہت شکریہ
 

محمداحمد

لائبریرین
چھاؤں میں بیٹھنے والے ہی تو سب سے پہلے
پیڑ گِرتا ہے تو آجاتے ہیں آرے لے کر

کیا کہنے! بہت ہی عمدہ غزل ہے۔

واہ واہ واہ ۔۔۔!

خوش رہیے۔
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
سارہ خان بٹیا
ہنستی مسکراتی رہیں سدا آمین
بہت خوب
" حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا فراز "
دل کی گلیوں میں اترنا خوب جانتا تھا
نایاب
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوبصورت غزل ہے، بہت شکریہ سارہ خان شیئر کرنے کیلیے!

اور بہن جی معذرت خواہ ہوں کہ محفل کی پالیسی کے مطابق میں نے آپ کی پوسٹ کا عنوان تبدیل کر دیا ہے، امید ہے برا نہیں مانیں گی۔

والسلام۔
 
بہت خوبصورت غزل شیئر کی ہے سارہ - منیر نیازی صاحب نے فراز کے متعلق کہا تھا کہ وہ صرف ایک رومانوی شاعر ہیں ۔ جبکہ یہ غزل کچھ اور کہہ رہی ہے خود میں نے پہلی بار پڑھی ہے

شکریہ
 

ماروا ضیا

محفلین
عمدہ غزل ۔۔۔

شہر والوں کو کہاں یاد ہے وہ خواب فروش
پھرتا رہتا تھا جو گلیوں میں غبارے لے کر

نقدِ جاں صرف ہوا کلفتِ ہستی میں‌فرازؔ
اب جو زندہ ہیں تو کچھ سانس ادھارے لے کر
 
Top