ویب کی دنیا میں پہلی بار یہ نظم پیش کی جا رہی ہے۔
حسن کوزہ گر – 4
جہاں زاد، کیسے ہزاروں برس بعد
اِک شہرِ مدفون کی ہر گلی میں
مرے جام و مینا و گُلداں کے ریزے ملے ہیں
کہ جیسے وہ اِس شہرِ برباد کا حافظہ ہوں!
(حَسَن نام کا اِک جواں کوزہ گر ۔۔۔ اِک نئے شہر میں ۔۔۔ ۔
اپنے کوزے بناتا ہوا، عشق کرتا ہوا
اپنے ماضی کے تاروں میں ہم سے پرویا گیا ہے
ہمیں میں (کہ جیسے ہمیں ہوں) سمویا گیا ہے
کہ ہم تم وہ بارش کے قطرے تھے جو رات بھر سے،
(ہزاروں برس رینگتی رات بھر)
اِک دریچے کے شیشوں پہ گرتے ہوئے سانپ لہریں
بناتے رہے ہیں،
اور اب اس جگہ وقت کی صبح ہونے سے پہلے
یہ ہم اور یہ نوجواں کوزہ گر
ایک رویا میں پھر سے پروئے گئے ہیں! )
جہاں زاد ۔۔۔ ۔۔۔
یہ کیسا کہنہ پرستوں کا انبوہ
کوزوں کی لاشوں میں اُترا ہے
دیکھو!
یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھیں
کبھی جام و مینا کی لِم تک نہ پہنچیں
یہی آج اس رنگ و روغن کی مخلوقِ بے جاں
کو پھر سے اُلٹنے پلٹنے لگے ہیں
یہ اِن کے تلے غم کی چنگاریاں پا سکیں گے
جو تاریخ کو کھا گئی تھیں؟
وہ طوفان، وہ آندھیاں پا سکیں گے
جو ہر چیخ کو کھا گئی تھیں؟
انہیں کیا خبر کِس دھنک سے مرے رنگ آئے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
(مرے اور اِس نوجواں کُوزہ گر کے؟)
انہیں کیا خبر کون سی تتلیوں کے پروں سے؟
انہیں کیا خبر کون سے حُسن سے؟
کون سی ذات سے، کس خد و خال سے
میں نے کُوزوں کے چہرے اُتارے؟
یہ سب لوگ اپنے اسیروں میں ہیں
زمانہ، جہاں زاد، افسوں زدہ برج ہے
اور یہ لوگ اُس کے اسیروں میں ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
جواں کوزہ گر ہنس رہا ہے!
یہ معصوم وحشی کہ اپنے ہی قامت سے ژولیدہ دامن
ہیں جویا کسی عظمتِ نارسا کے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
انہیں کیا خبر کیسا آسیبِ مبرم مرے غار سینے پہ تھا
جس نے مجھ سے (اور اِس کوزہ گر سے) کہا:
"اے حَسَن کوزہ گر، جاگ
دردِ رسالت کا روزِ بشارت ترے جام و مینا
کی تشنہ لبی تک پہنچنے لگا ہے!"
یہی وہ ندا، جس کے پیچھے حَسَن نام کا
یہ جواں کوزہ گر بھی
پیا پے رواں ہے زماں سے زماں تک،
خزاں سے خزاں تک!
جہاں زاد میں نے ۔۔۔ ۔۔ حَسَن کوزہ گر نے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
بیاباں بیاباں یہ دردِ رسالت سہا ہے
ہزاروں برس بعد یہ لوگ
ریزوں کو چُنتے ہوئے
جان سکتے ہیں کیسے
کہ میرے گِل و خاک کے رنگ و روغن
ترے نازک اعضا کے رنگوں سے مل کر
ابد کی صدا بن گئے تھے؟
میں اپنے مساموں سے، ہر پور سے،
تیری بانہوں کی پنائیاں
جذب کرتا رہا تھا
کہ ہر آنے والے کی آنکھوں کے معبد پہ جا کر چڑھاؤں ۔۔۔ ۔۔
یہ ریزوں کی تہذیب پا لیں تو پا لیں
حَسَن کوزہ گر کو کہاں لا سکیں گے؟
یہ اُس کے پسینے کے قطرے کہاں گن سکیں گے؟
یہ فن کی تجلی کا سایہ کہاں پا سکیں گے؟
جو بڑھتا گیا ہے زماں سے زماں تک
خزاں سے خزاں تک
جو ہر نوجواں کُوزہ گر کی نئی ذات میں
اور بڑھتا چلا جا رہا ہے!
وہ فن کی تجلی کا سایہ کہ جس کی بدولت
ہمہ عشق ہیں ہم
ہمہ کوُزہ گر ہم
ہمہ تن خبر ہم
خُدا کی طرح اپنے فن کے خُدا سر بسر ہم!
(آرزوئیں کبھی پایاب تو سَریاب کبھی،
تیرنے لگتے ہیں بے ہوشی کی آنکھوں میں کئی چہرے
جو دیکھے بھی نہ ہوں
کبھی دیکھے ہوں کسی نے تو سراغ اُن کا
کہاں سے پائے؟
کِس سے ایفا ہوئے اندوہ کے آداب کبھی
آرزوئیں کبھی پایاب تو سَریاب کبھی!)
یہ کوزوں کے لاشے، جو اِن کے لئے ہیں
کسی داستانِ فنا کے وغیرہ وغیرہ
ہماری اذاں ہیں، ہماری طلب کا نشاں ہیں
یہ اپنے سکوتِ اجل میں بھی یہ کہہ رہے ہیں:
"وہ آنکھیں ہمیں ہیں جو اندر کھُلی ہیں
تمہیں دیکھتی ہیں، ہر ایک درد کو بھانپتی ہیں
ہر اِک حُسن کے راز کو جانتی ہیں
کہ ہم ایک سنسان حجرے کی اُس رات کی آرزو ہیں
جہاں ایک چہرہ، درختوں کی شاخوں کے مانند
اِک اور چہرے پہ جھُک کر، ہر انسان کے سینے میں
اِک برگِ گُل رکھ گیا تھا
اُسی شب کا دزدیدہ بوسہ ہمیں ہیں!
(ن م راشد)