فرخ منظور
لائبریرین
ن م راشد - ایک تعارف
نذر محمد راشد عام طور پر جو کہ ن م راشد کے نام سے جانے جاتے ھیں 1910 میں آکال گڑھ ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے (موجودہ علی پور چٹھہ جو کہ اب پاکستان میں ہے) ابتدائی تعلیم آکال گڑھ اور اعلٰی تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی- اردو اور فارسی سے محبت انہیں اپنے والد اور دادا سے وراثت میں ملی- غالب، اقبال، حافظ شیرازی اور سعدی سے راشد کا تعارف انکے والد فضل الٰہی چشتی کے ہی طفیل ہوا- گورنمنٹ کالج، لاہور میں تعلیم کے دوران راشد "راوی" کے اڈیٹر مقرّر ہوئے، بعد میں کچھ وقت کے لئے وہ تاجور نجیب آبادی کے رسالے شاہکار کی بھی ادارت کرتے رہے- کچھ عرصہ ملتان میں کمشنر آفس میں سرکاری ملازمت بھی کی اور اسی دوران راشد نے اپنی پہلی آزاد نظم "جراءت پرواز" لکھی جو کہ انکے پہلے مجموعے "ماوراء" میں شامل ہے - ضمنا" ایک ذکر کہ پاکستان کے ایک بہت بڑے اشاعتی ادارے کا نام بھی ان کے اسی مجموعے کے نام سے متاثر ہو کر رکھا گیا-
1939 میں راشد آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے اور کچھ عرصے بعد انہیں پروگرام ڈائریکٹر بنا دیا گیا اور تقسیم کے بعد ریڈیو پاکستان میں وہ ریجنل ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کرتے رہے- کچھ عرصہ انہیں پاکستان کی طرف سے اقوام ِمتحدّہ کے صدر دفتر نیویارک میں بھی خدمات انجام دینے کا موقعہ ملا - ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے انگلستان میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور اکتوبر 9 ، 1975 کو وہیں انتقال کیا - ان کی وصیّت کے مطابق انہیں ایک فرنس میں جلا دیا گیا- (راشد کے بعد دوسری شخصیت عصمت چغتائی کو بھی انکی وصیّت کے مطابق آگ میں جلایا گیا)
راشد نے اپنے شاعر ہونے کا پتہ اپنے سکول دور میں ہی دے دیا تھا، تب وہ ردیف اور قافیہ میں پابند تھے- بعد میں انہوں نے ردیف اور قافیہ سے بے نیاز ہو کر جو شاعری کی وہ انہی کا خاصہ بن کر رہ گئ ان سے پہلے اور ان کے بعد ایسی آزاد شاعری کی اردو ادب میں مثال نہیں ملتی - اس ضمن میں ایک واقعہ جو کہ ان کے آل انڈیا ریڈیو کے زمانے کا ہے، قابل ذکر ہے - راشد نے اس وقت کے ایک بہت بڑے شاعر یاس یگانہ چنگیزی کو انٹرویو کے لیے بلایا تو کچھ دوست احباب شاعری پر گفتگو کر رہے تھے اور یاس یگانہ چنگیزی صاحب چونکہ آزادنظم کے سخت خلاف تھے اسلیے آزاد نظم کی مخالفت میں کافی لے دے کر رہے تھے کہ یکایک کسی نے ان سے کہا کہ راشد بھی آزاد نظم کہتے ہیں آپ ان سے ان کی نظم سنیں - راشد نے اپنی نظم سنائی تو یگانہ نے اٹھ کر انہیں گلے سے لگا لیا اور کہا کہ اگر یہ آزاد نظم ہے تو صرف تمہیں ہی آزاد نظم کہنے کا حق حاصل ہے - اس واقعے کی ایک خاص اہمیت ہے اور وہ یہ کہ راشد کی طرز کی آزاد نظم نہ تو کسی نے ان سے پہلے کہی اور نہ ھی بعد میں- یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ راشد کا ہر مصرع وزن میں ہے اور پورے کلام میں ایک بھی ایسا مصرع نہیں جو وزن سے خارج ہو - جبکہ آج کل کی آزاد نظم کو مادر پدر آزاد سمجھا جاتا ہے اور اس میں وزن کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا -
راشد کی شاعری عام شاعری نہیں اور یہ شاعری عام قارئین کے ذوق سے بھی ھٹ کر ہے - راشد کے ہاں جو استعارے اور تلمیحات استعمال ھوئی ھیں وہ نامانوس اور غیر روائیتی ہیں اسی لیے اکثر، عام قاری کے لیے انکا کلام نا فہم بھی ھو جاتا ہے - راشد کی شاعری اپنی ہم عصر فرانسیسی اور انگریزی شاعری سے متاثر ہے لیکن سب سے زیادہ انکی شاعری اپنی ہم عصر فارسی شاعری سے متاثر ہے- ان کی تلمیحات اور استعارات کی جڑیں براہ راست انکی ہم عصر فارسی شاعری سے جڑی ہوئی نظر آ تی ہیں - اس لیے انکی شاعری کو سمجھنے کے لیے انکی ہم عصر فارسی شاعری کا مطالعہ کرنا مدد گار ثابت ہوگا -
انکی چار کتب کے نام مندرجہ ذیل ہیں -
1- ماوراء
2- ایران میں اجنبی
3- لا=انسان
4- گماں کا ممکن
تراجم
1- جدید فارسی شاعری (تراجم) (شائع کردہ، انجمن ترقی ادب، کلب روڈ لاہور)
1
"ماوراء پبلشرز" سے انکے کلیات "کلیات راشد" بھی دستیاب ہیں-
نذر محمد راشد عام طور پر جو کہ ن م راشد کے نام سے جانے جاتے ھیں 1910 میں آکال گڑھ ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے (موجودہ علی پور چٹھہ جو کہ اب پاکستان میں ہے) ابتدائی تعلیم آکال گڑھ اور اعلٰی تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی- اردو اور فارسی سے محبت انہیں اپنے والد اور دادا سے وراثت میں ملی- غالب، اقبال، حافظ شیرازی اور سعدی سے راشد کا تعارف انکے والد فضل الٰہی چشتی کے ہی طفیل ہوا- گورنمنٹ کالج، لاہور میں تعلیم کے دوران راشد "راوی" کے اڈیٹر مقرّر ہوئے، بعد میں کچھ وقت کے لئے وہ تاجور نجیب آبادی کے رسالے شاہکار کی بھی ادارت کرتے رہے- کچھ عرصہ ملتان میں کمشنر آفس میں سرکاری ملازمت بھی کی اور اسی دوران راشد نے اپنی پہلی آزاد نظم "جراءت پرواز" لکھی جو کہ انکے پہلے مجموعے "ماوراء" میں شامل ہے - ضمنا" ایک ذکر کہ پاکستان کے ایک بہت بڑے اشاعتی ادارے کا نام بھی ان کے اسی مجموعے کے نام سے متاثر ہو کر رکھا گیا-
1939 میں راشد آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے اور کچھ عرصے بعد انہیں پروگرام ڈائریکٹر بنا دیا گیا اور تقسیم کے بعد ریڈیو پاکستان میں وہ ریجنل ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کرتے رہے- کچھ عرصہ انہیں پاکستان کی طرف سے اقوام ِمتحدّہ کے صدر دفتر نیویارک میں بھی خدمات انجام دینے کا موقعہ ملا - ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے انگلستان میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور اکتوبر 9 ، 1975 کو وہیں انتقال کیا - ان کی وصیّت کے مطابق انہیں ایک فرنس میں جلا دیا گیا- (راشد کے بعد دوسری شخصیت عصمت چغتائی کو بھی انکی وصیّت کے مطابق آگ میں جلایا گیا)
راشد نے اپنے شاعر ہونے کا پتہ اپنے سکول دور میں ہی دے دیا تھا، تب وہ ردیف اور قافیہ میں پابند تھے- بعد میں انہوں نے ردیف اور قافیہ سے بے نیاز ہو کر جو شاعری کی وہ انہی کا خاصہ بن کر رہ گئ ان سے پہلے اور ان کے بعد ایسی آزاد شاعری کی اردو ادب میں مثال نہیں ملتی - اس ضمن میں ایک واقعہ جو کہ ان کے آل انڈیا ریڈیو کے زمانے کا ہے، قابل ذکر ہے - راشد نے اس وقت کے ایک بہت بڑے شاعر یاس یگانہ چنگیزی کو انٹرویو کے لیے بلایا تو کچھ دوست احباب شاعری پر گفتگو کر رہے تھے اور یاس یگانہ چنگیزی صاحب چونکہ آزادنظم کے سخت خلاف تھے اسلیے آزاد نظم کی مخالفت میں کافی لے دے کر رہے تھے کہ یکایک کسی نے ان سے کہا کہ راشد بھی آزاد نظم کہتے ہیں آپ ان سے ان کی نظم سنیں - راشد نے اپنی نظم سنائی تو یگانہ نے اٹھ کر انہیں گلے سے لگا لیا اور کہا کہ اگر یہ آزاد نظم ہے تو صرف تمہیں ہی آزاد نظم کہنے کا حق حاصل ہے - اس واقعے کی ایک خاص اہمیت ہے اور وہ یہ کہ راشد کی طرز کی آزاد نظم نہ تو کسی نے ان سے پہلے کہی اور نہ ھی بعد میں- یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ راشد کا ہر مصرع وزن میں ہے اور پورے کلام میں ایک بھی ایسا مصرع نہیں جو وزن سے خارج ہو - جبکہ آج کل کی آزاد نظم کو مادر پدر آزاد سمجھا جاتا ہے اور اس میں وزن کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا -
راشد کی شاعری عام شاعری نہیں اور یہ شاعری عام قارئین کے ذوق سے بھی ھٹ کر ہے - راشد کے ہاں جو استعارے اور تلمیحات استعمال ھوئی ھیں وہ نامانوس اور غیر روائیتی ہیں اسی لیے اکثر، عام قاری کے لیے انکا کلام نا فہم بھی ھو جاتا ہے - راشد کی شاعری اپنی ہم عصر فرانسیسی اور انگریزی شاعری سے متاثر ہے لیکن سب سے زیادہ انکی شاعری اپنی ہم عصر فارسی شاعری سے متاثر ہے- ان کی تلمیحات اور استعارات کی جڑیں براہ راست انکی ہم عصر فارسی شاعری سے جڑی ہوئی نظر آ تی ہیں - اس لیے انکی شاعری کو سمجھنے کے لیے انکی ہم عصر فارسی شاعری کا مطالعہ کرنا مدد گار ثابت ہوگا -
انکی چار کتب کے نام مندرجہ ذیل ہیں -
1- ماوراء
2- ایران میں اجنبی
3- لا=انسان
4- گماں کا ممکن
تراجم
1- جدید فارسی شاعری (تراجم) (شائع کردہ، انجمن ترقی ادب، کلب روڈ لاہور)
1
"ماوراء پبلشرز" سے انکے کلیات "کلیات راشد" بھی دستیاب ہیں-