محمد اجمل خان
محفلین
نیو ایر منانا
تجویز پیش کی گئی :
’’ ایک سال آپ ہمارے معبودوں لات اور عزیٰ کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں‘‘
وحی نازل ہوئی:
قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ﴿٢﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٣﴾ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ ﴿٤﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٥﴾ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦﴾ سورة الكافرون
’’ کہہ دو کہ اے کافرو، میں اُن کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو، اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ اور نہ میں اُن کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے، اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔‘‘
آج کچھ مادہ پرست، حواس باختہ سیکولر قسم کے مسلمان جو اپنا ایمان یہی ڈیمانڈ کرتے نظر آتے ہیں کہ ’’ پہلا محرم کو اسلامی نیو ایر اور یکم جنوری کو عیسائی نیو ایر مناؤ‘‘ اس میں قباحت ہی کیا ہے۔ قباحت تو سورہ الکافرون میں چودہ سو سال پہلے ہی بیان کر دی گئی ہے لیکن افسوس کہ ان سیکولروں کو وہ قباحت نظر نہیں آتی۔ تو ذرا آؤ نیو ایر یا نئے سال کی تہوار منانے کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیتے ہیں‘ شاید کہ قباحت نظر آجائے۔
”جینس“ یا ”جانوس“ (Janus) نامی قدیم رومیوں کا ایک دیوتا تھا۔ جس کیلئے رومیوں نے ایک شاندار معبد بنایا ہوا تھا جہاں جنگ و جدل کے دوران وہ سب اس دیوتا کی پوجا کرتے تھے اور امن کے زمانے میں اس کا دروازہ بند رہتا تھا۔ رومی بت پرست کوئی کام شروع کرنے سے پہلے اس دیوتا سے منت مانگتے تھے کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ جینس دیوتا کی منت ماننے سے ہر کام بخیر و خوبی پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ چنانچہ عام طور پر لوگ اپنے گھروں کے دروازوں کی حفاظت کے لیے اسی دیوتا سے دعائیں مانگتے تھے۔ رومیوں کے عقیدے کے مطابق اس کے دو چہرے تھے جن سے وہ ایک ہی وقت میں آگے اور پیچھے دیکھ سکتا تھا۔ اہل روم اسے تبدیلی کا دیوتا بھی کہتے تھے۔ جنوری کا نام اس جینس دیوتا کے نام پر ہی رکھا گیا ہے۔ جینس کو لا طینی نے جینرس کہا گیا ، جینرس بعد میں جینوری بنا ۔
( Janus – Januarius – January)
بعض مشرکوں کے عقیدے کے مطابق دسمبر کے بعد جس دن بدروحوں کو بھگانے کیلئے شور شرابے غل غپاڑے کئے جاتے تھے اسی دن کو جنوری کی پہلی تاریخ اور سال کے آغاز کا دن چنا گیا۔
یہ ہیں بت پرستی و باطل عقائد و نظریات پر مبنی نیو ایر یا نئے سال کی تہوار منانے کی تاریخ جسے آج عالمی سطح پرعیاشی و فحاشی اور نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کیلئے منایا جاتا ہے۔
کیا اس میں کوئی قباحت نظر آئی؟
رسول اللہ ﷺکے زمانے میں ایک شخص نے یہ نذر مانی کہ وہ مقام بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرے گا۔ وہ شخص رسول اللہﷺکے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے۔ آپ ﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ کیا بوانہ میں زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی وہاں پوجا کی جاتی تھی؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں پھر آپ نے پوچھا کیا وہاں کفار کا کوئی میلہ لگتا تھا؟ عرض کیا نہیں تو رسول اللہ ﷺنے اس شخص کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ تو اپنی نذر پوری کر ۔) سنن ابوداؤد(
اس سے واضح ہوا کہ ایک مسلمان کا ان مشرکانہ مراسم و مقامات سے دور رہنا شریعت کو کس حد تک مطلوب ہے۔
نئے سال کے آغاز پر خوشی منانا اور سال کے پہلے دن کو اہمیت دینا، اس کو عہد و پیماں کا دن ماننا، تحائف کا تبادلہ کرنا وغیرہ کی تاریخ بہت قدیم ہے لیکن ہے تو یہ رومی بت پرستوں کی بت پرستی کا حصہ جسے عیسائیوں نے گود لیا جو آج ایک بگڑے ہوئے سرکش اور بدمعاش لڑکے کی شکل و صورت اختیار کر چکا ہے۔
نیو ایر میں ہوتا کیا ہے ؟
غل غپاڑے‘ شور شرابے‘ ناچ گانے‘ مرد و زن کا بے حجابانہ اختلاظ‘ کثرت سے شراب نوشی‘ جنسی آوارگی ‘ بے حیائی‘ بیہودگی و فحاشی وغیرہ ؟
پھر کیا اسلام نیو ایر منانے کی اجازت دے سکتا ہے؟
کیا کوئی مسلمان جس میں ایمان کی رمق ہو کسی بھی صورت نیو ایر منانے کی سوچ سکتا ہے؟
کیا نیو ایر منانے کیلئے سڑکوں پر‘ سمندر کنارے یا کسی یسی محفل میں جانے کا سوچ سکتا ہے؟
لیکن بعض لوگ بغیر سوچے سمجھے نیو ایر کی تہنیتی میسج بھیج رہے ہیں۔
پھر کہتے ہیں کہ ہم تو صرف نیو ایر کی کارڈ یا میسج بھیجتے ہیں تو یاد رکھیں شیطان اسی طرح گھیرتا ہے۔
اسلامی سال تو پہلا محرم سے شروع ہوتا ہے لیکن اسلام میں اس دن کو منانے کا بھی رواج نہیں صرف خیر و برکت کی دعا کرنا مسنون ہے پھر مشرکوں سے مستعار لئے ہوئے عیسائیت کے نیو ایر کو ہم کیسے منائیں ؟
اس لئے ہم ان سیکولر ذہنیت کے مسلمان جو نیو ایر کی رنگینی کو دیکھ کر رال ٹپکاتے ہیں‘ ان سے کہتے ہیں:
لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦﴾
ہمارے نبی ﷺ نے مشرکوں کی ’’ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کرنے ‘‘ کی پیش کش کو ٹھکرایا تھا۔ ہم بھی تمہاری اسلامی نیو ایر اور عیسائی نیو ایر منانے کی خواہش کو اپنے قدموں تلے روندتے ہیں۔
لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦﴾
اللہ تعالٰی ہمیں اور ہمارے اہل و عیال اور تمام مسلمانوں کو نیو ایر منانے کی خرافات بچائے۔ آمین
تحریر : محمد اجمل خان
۔۔
تجویز پیش کی گئی :
’’ ایک سال آپ ہمارے معبودوں لات اور عزیٰ کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں‘‘
وحی نازل ہوئی:
قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ﴿٢﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٣﴾ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ ﴿٤﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٥﴾ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦﴾ سورة الكافرون
’’ کہہ دو کہ اے کافرو، میں اُن کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو، اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ اور نہ میں اُن کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے، اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔‘‘
آج کچھ مادہ پرست، حواس باختہ سیکولر قسم کے مسلمان جو اپنا ایمان یہی ڈیمانڈ کرتے نظر آتے ہیں کہ ’’ پہلا محرم کو اسلامی نیو ایر اور یکم جنوری کو عیسائی نیو ایر مناؤ‘‘ اس میں قباحت ہی کیا ہے۔ قباحت تو سورہ الکافرون میں چودہ سو سال پہلے ہی بیان کر دی گئی ہے لیکن افسوس کہ ان سیکولروں کو وہ قباحت نظر نہیں آتی۔ تو ذرا آؤ نیو ایر یا نئے سال کی تہوار منانے کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیتے ہیں‘ شاید کہ قباحت نظر آجائے۔
”جینس“ یا ”جانوس“ (Janus) نامی قدیم رومیوں کا ایک دیوتا تھا۔ جس کیلئے رومیوں نے ایک شاندار معبد بنایا ہوا تھا جہاں جنگ و جدل کے دوران وہ سب اس دیوتا کی پوجا کرتے تھے اور امن کے زمانے میں اس کا دروازہ بند رہتا تھا۔ رومی بت پرست کوئی کام شروع کرنے سے پہلے اس دیوتا سے منت مانگتے تھے کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ جینس دیوتا کی منت ماننے سے ہر کام بخیر و خوبی پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ چنانچہ عام طور پر لوگ اپنے گھروں کے دروازوں کی حفاظت کے لیے اسی دیوتا سے دعائیں مانگتے تھے۔ رومیوں کے عقیدے کے مطابق اس کے دو چہرے تھے جن سے وہ ایک ہی وقت میں آگے اور پیچھے دیکھ سکتا تھا۔ اہل روم اسے تبدیلی کا دیوتا بھی کہتے تھے۔ جنوری کا نام اس جینس دیوتا کے نام پر ہی رکھا گیا ہے۔ جینس کو لا طینی نے جینرس کہا گیا ، جینرس بعد میں جینوری بنا ۔
( Janus – Januarius – January)
بعض مشرکوں کے عقیدے کے مطابق دسمبر کے بعد جس دن بدروحوں کو بھگانے کیلئے شور شرابے غل غپاڑے کئے جاتے تھے اسی دن کو جنوری کی پہلی تاریخ اور سال کے آغاز کا دن چنا گیا۔
یہ ہیں بت پرستی و باطل عقائد و نظریات پر مبنی نیو ایر یا نئے سال کی تہوار منانے کی تاریخ جسے آج عالمی سطح پرعیاشی و فحاشی اور نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کیلئے منایا جاتا ہے۔
کیا اس میں کوئی قباحت نظر آئی؟
رسول اللہ ﷺکے زمانے میں ایک شخص نے یہ نذر مانی کہ وہ مقام بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرے گا۔ وہ شخص رسول اللہﷺکے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے۔ آپ ﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ کیا بوانہ میں زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی وہاں پوجا کی جاتی تھی؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں پھر آپ نے پوچھا کیا وہاں کفار کا کوئی میلہ لگتا تھا؟ عرض کیا نہیں تو رسول اللہ ﷺنے اس شخص کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ تو اپنی نذر پوری کر ۔) سنن ابوداؤد(
اس سے واضح ہوا کہ ایک مسلمان کا ان مشرکانہ مراسم و مقامات سے دور رہنا شریعت کو کس حد تک مطلوب ہے۔
نئے سال کے آغاز پر خوشی منانا اور سال کے پہلے دن کو اہمیت دینا، اس کو عہد و پیماں کا دن ماننا، تحائف کا تبادلہ کرنا وغیرہ کی تاریخ بہت قدیم ہے لیکن ہے تو یہ رومی بت پرستوں کی بت پرستی کا حصہ جسے عیسائیوں نے گود لیا جو آج ایک بگڑے ہوئے سرکش اور بدمعاش لڑکے کی شکل و صورت اختیار کر چکا ہے۔
نیو ایر میں ہوتا کیا ہے ؟
غل غپاڑے‘ شور شرابے‘ ناچ گانے‘ مرد و زن کا بے حجابانہ اختلاظ‘ کثرت سے شراب نوشی‘ جنسی آوارگی ‘ بے حیائی‘ بیہودگی و فحاشی وغیرہ ؟
پھر کیا اسلام نیو ایر منانے کی اجازت دے سکتا ہے؟
کیا کوئی مسلمان جس میں ایمان کی رمق ہو کسی بھی صورت نیو ایر منانے کی سوچ سکتا ہے؟
کیا نیو ایر منانے کیلئے سڑکوں پر‘ سمندر کنارے یا کسی یسی محفل میں جانے کا سوچ سکتا ہے؟
لیکن بعض لوگ بغیر سوچے سمجھے نیو ایر کی تہنیتی میسج بھیج رہے ہیں۔
پھر کہتے ہیں کہ ہم تو صرف نیو ایر کی کارڈ یا میسج بھیجتے ہیں تو یاد رکھیں شیطان اسی طرح گھیرتا ہے۔
اسلامی سال تو پہلا محرم سے شروع ہوتا ہے لیکن اسلام میں اس دن کو منانے کا بھی رواج نہیں صرف خیر و برکت کی دعا کرنا مسنون ہے پھر مشرکوں سے مستعار لئے ہوئے عیسائیت کے نیو ایر کو ہم کیسے منائیں ؟
اس لئے ہم ان سیکولر ذہنیت کے مسلمان جو نیو ایر کی رنگینی کو دیکھ کر رال ٹپکاتے ہیں‘ ان سے کہتے ہیں:
لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦﴾
ہمارے نبی ﷺ نے مشرکوں کی ’’ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کرنے ‘‘ کی پیش کش کو ٹھکرایا تھا۔ ہم بھی تمہاری اسلامی نیو ایر اور عیسائی نیو ایر منانے کی خواہش کو اپنے قدموں تلے روندتے ہیں۔
لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦﴾
اللہ تعالٰی ہمیں اور ہمارے اہل و عیال اور تمام مسلمانوں کو نیو ایر منانے کی خرافات بچائے۔ آمین
تحریر : محمد اجمل خان
۔۔
آخری تدوین: