نوربصیرت

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

قدرت کی وسعتیں:
سورہ الکہف کے آخری رکوع میں فرمایا:"کہہ دے(اللہ کی قدرتوں کی وسعت کاکیاکہنا)اگر(سارا)سمندرسیاہی ہوجائے'میرے رب کے کلمات(لکھنے)کی خاطرتوسمندرختم ہوجائے مگررب (کی قدرتوں)کی باتیں ختم نہ ہوں اوراگرہم اس جیسااور(سمندر)بھی لے آئیں(تووہ بھی ختم ہوجائے)"(آیت نمبر109) اسی بات کوسورہ لقمان میں اس طرح فرمایا:"اوراگرروئے زمین کے سارے درختوں کے قلم بنالیئے جائیں اورسات سمندرسیاہی میں تبدیل کردیئے جائیں توبھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں۔"(27:31) یہ بات محض استعارہ کے طورپرنہیں فرمائی بلکہ یہ حقیقت ہے۔بدن انسانی کے کسی حصہ کے متعلق اگرکوئی صاحب علم لکھے توشایدکئی ضخیم جلدیں بن جائیں۔مثلاآنکھ یاکان یانظام اعصاب یانظام ہضم۔۔۔۔جوماہرین ان کی باریکیوں کوجانتے ہیں(اورابھی ان کاعلم نامکمل ہے)جتناوہ جانتے ہیں وہی لکھنے بیٹھیں توکتنی کتابیں لکھی جائیں؟اس کے بعدانسانی ذہن کولیجیئے جسے اہل علم برف کے تودہ(آئس برگ)سے تشہبیہ دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ انسان ذہن کاجوحصہ چھپاہواہے وہ اس کے ظاہرسے کئی گنازیادہ بڑاہے توانسانی ذہن اوراس کی باریکیوں کولیجیئے۔ابھی تک ہماراعلم نفسیات بالکل ابتدائي سمجھاجاتاہے۔لیکن جتناہےاسی کولکھنے بیٹھیں توبات کہاں سے کہاں تک پہنچ جائے،ذہن توبہت بڑی چیزہے ،آنکھ ،ناک،کان وغیرہ بھی اہم اعضاء ہیں۔انہیں چھوڑئیے اگربال یاناخن کے متعلق ہی کوئي ماہرلکھنے بیٹھے توصفحوں کے صفحے سیاہ کردے حالانکہ ابھی ہماراعلم بہت ناقص اورنامکمل ہے۔
اب حیوانات کی مختلف انواع واقسام کوسامنے رکھیں اورپھرہرایک کے بارے میں تفصیلی معلومات لکھے جانے کااندازہ فرمائیں۔پھرپرندے الگ ہیں۔آبی جانورالگ ہیں۔اسی طرح مختلف نباتات اوران کی انواع کاتصورکریں۔بڑے بڑے درخت ہیں،چھوٹے درخت ہیں،پودے ہیں،جھاڑیاں ہیں۔پھلداردرخت ہیں ،گندم ،جو،چاول وغیرہ ہزاروں قسم کی اجناس ہیں ۔پھولوں والے پودے ،پھرپھولوں اورپھلوں کی ہزارہاقسمیں ہیں۔خوشبوؤں اورذائقوں کافرق ہے۔مختلف لکڑیاں ہیں ان کے مختلف خواص اوراستعمال ہیں'کوئی کہاں تک بیان کرے۔۔۔۔
اب نظام کائنات اوراس کی وسعتوں کااندازہ کیجئے۔یہ وسعتیں انسانی ذہن کومبہوت کردیتی ہیں۔فضامیں کئی سورج اوران کے گردگھومنے والے سیارے ہیں۔کئی سیاروں کے اپنے چاندہیں جوان کے گردگھومتے ہیں۔ہرلمحہ نئے سیارے وجودمیں آرہے ہیں۔ہر لمحہ نیبولائی مادے تیارہورہے ہیں۔اندازہ کیجئے کیااللہ تعالی کی قدرتوں کی باتیں لکھی جاسکتی ہیں؟ہرگزنہیں یقیناسات سمندروں کی سیاہی اورتمام اشجارکے قلم بھی انہیں لکھنے سے قاصرہیں۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

عذاب سے بچاؤ،
سورہ ہودمیں عذاب سے بچنے کایہ نخسہ ارشادفرمایاکہ دوسروں کوبرائی سے روکاجائے چنانچہ،امربالمعروف اورنہی عن المنکرکافریضہ ہرمسلم پرعائدفرمادیا،پھراسی پراکتفانہ کی،بلکہ اسلامی حکومت کے ذمے بھی یہ کام لگادیا۔آخرقوموں پرعذاب اس لیئے آتے ہیں کہ انکے اندربرائی اس حدتک سرایت کرچکی ہوتی ہے کہ انکے بچنے کاکوئی امکان باقی نہیں رہ جاتاہے اورجیسے کسی زہرآلودعضوکوآپریشن کرکے الگ کردیاجاتاہے تاکہ باقی بدن اسکے زہرسے محفوظ رہے،اسی طرح زہرآلودمعاشروں کوبھی عذاب کے ذریعے معدوم کردیاجاتاہے تاکہ باقی نوع انسان اس کے مسموم اثرات سے بچ جائے۔
اس وقت ساری دنیامیں فحاشی،جنسی بے راہ روی،شراب نوشی ،قماربازی،لوٹ کھسوٹ اورظلم کادوردورہ ہے۔اگرتمام مسلم ممالک ان برائیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں توہوسکتاہے کہ دنیاکسی آنے والے عذاب سے بچ جائے دیکھاجائے توپچھلی دونوں جنگیں عذاب کی ہی صورت تھیں۔لاکھوں افرادمارے گئے ،ہزاروں عصمتیں لٹیں،کروڑوں کی املاک تباہ ہوئیں اب پھردنیاایک تیسری عالمگیرجنگ کے دہانے پرکھڑی ہے۔اس نے بچنےکاایک ہی طریقہ ہے کہ ہم مسلمان انفرادی اورحکومتی سطح پربرائی سے روکنے کاکام زوروشورسے شروع کردیں۔اسلام کادورشروع ہوچکاہے۔اسلام نے غالب ہوکررہناہے۔پہلی جنگ عظیم کے بعددنیائے اسلام بظاہرختم ہوگئی تھی،دوسری جنگ عظیم کے بعداسلامی ممالک پھراٹھ کھڑے ہوئے ایسانہ کہ اسلام کاغلبہ قائم کرنے کے لیئے ایک اورعالمگیرجنگ کی ضرورت پڑے،انسان خودکام انجام دے لیں تواس میں نقصان بہت کم ہوتاہے۔قدرت کوکرناپڑے توپھروہ اپنی سطح پرکرتی ہے اورپروانہیں کرتی کہ نقصان کس قدرہوتاہے۔
سورہ "الانفال"میں فرمایا"اوراللہ تعالی کاکام نہیں کہ انہیں عذاب کرے اورآپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)ان کے درمیان ہوں اوراللہ تعالی انہیں عذاب کرنے والانہیں جب تک وہ استغفارکرتے ہوں۔"گویادوچیزیں عذاب سے بچاتی ہیں۔ایک حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کاوجودمبارک اوردوسری چیزاستغفار۔اپنے گناہوں سے توبہ اورمعافی طلب کرنا۔
حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کاوجوداگرچہ عذاب سے سب بڑاتحفظ ہے،اس کے باوجودجب حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)بادل چڑھتادیکھتے توآنجباب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کاچہرہ مبارک متغیرہوجاتا۔حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)بے چین ہوجاتے۔اس خیال سے یہ مبادایہ عذاب کی صورت ہو۔مگرہم مسلمان اب اس قدرپتھردل اوردیدہ دلیرہوچکے ہیں کہ بارش کوعذاب کی صورت اختیارکرتے دیکھتے ہں مگرٹس سے مس نہیں ہوتے۔عذاب کی بدترین صورت یہ ہے کہ دل خشیت الہی سے محروم ہوجائیں،اللہ تعالی کے دروازے پرجھکنے کی توفیق چھن جائے اورگناہوں پرندامت نہ ہوبلکہ انسان گناہ چھوڑنے پرآمادہ ہی نہ ہو۔

بشکریہ نوائے وقت۔ نوربصیرت


والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،


شفائے صدور۔
سورہ یونس میں قرآن پاک کے بارے میں فرمایا"اے لوگو!بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے موعظمت آتی ہے اوریہ شفاہے ان (بیماریوں)کے لیئے جوسینوں میں ہوتی ہیں اورہدایت ہے اوررحمت ہے مومنوں کے لیے اوررحمت ہے ان کے لیئے جوان پرایمان لاتے ہیں۔"سینوں کے اندرقلوب کی بیماریاں ہیں،جنہیں ہم نفسیاتی امراض کہتے ہیں اوروہ زیادہ ترپیداہوتی ہیں،غلط سوچ اورغلط عقائدسے۔قرآن پاک عقائداورزندگی کے بارے میں نظریات کوصحیح کرتاہے۔اگرعقائدصحیح ہوں توپھرعمل بھی صحیح ہوتاہے اورعقائدوعمل صحیح ہونے سے انسان ہرقسم کی ذہنی بیماریوں سے محفوظ رہتاہے اوراگرکوئی بیماری پیداہوتواس کامقابلہ کرسکتاہے۔
قرآن پاک کی روسے قلوب کے امراض میں سب سے بڑامرض منافقت ہے۔منافقت یہ ہے کہ زبان سے کہاجائے کہ ہم اسلامی عقائدپریقین رکھنے ہیں۔لیکن اندرسے اس پرپوراایمان نہ ہو'ایسی صورت میں پھرعمل بھی اس کے مطابق نہیں ہوتا۔انسان ڈھل مل یقین ہوتاہے۔کبھی ادھراوراسی اوراسی سے زیادہ نفسیاتی بیماریاں پیداہوتی ہیں۔سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا:"اورہم سے نازل فرماتے ہیں قرآن پاک میں وہ چیزجوشفااوررحمت ہے ان کے لیئے جواس پرایمان لاتے ہیں مگراس سے ظالموں کے لئے صرف نقصان میں اضافہ ہوتاہے۔"ظالم وہ ہیں جوعمل میں حدودسے تجاوزکرجاتے ہیں۔لوگوں کامال کھاجاتے ہیں۔انکے حقوق پامال کرتے ہیں،علاج بالقرآن یہی ہے کہ لوگوں کے عقائددرست کئے جائیں۔نفسیانی مریضوں کے ذہنوں سے عدم تحفظ کااحساس دورکیاجائے'اللہ تعالی پران کاایمان پختہ کیاجائے۔دلوں کے اندرافکاروجذبات ہیں۔قرآن پاک انسان کوافکاراورجذبات کی بیماریوں سے نجات دلاتاہے۔زندگی کے بارے میں صحیح فکریاعقیدہ وہ ذہن نشین کراتاہے جس سے غلط عقائداورادہام پرستی سے نجات ملتی ہے۔نیزاللہ تعالی سے شدیدمحبت پیداکرکے اعلی خدمات کواللہ تعالی اورنیکی سے وابستہ کرتاہے اوراس طرح پست جذبات سے انسان کوچھٹکاراحاصل ہوجاتاہے۔انسان کی پشتربدنی بیماریاں بھی فکرمندیاتشویش سے پیداہوتی ہے ۔تشویش کاعلاج اگریااللہ تعالی کی یادہے ۔ اسکی نسبت سے اللہ تعالی کے پاک نام کاوردرکھیں یاقرآن پاک میں اس مطلب کی جودعاہے،اسے پڑھیں انشاء اللہ العزیزآپ کی تشویش و اضطراب بھی دورہوجائے گااورآپ کومقصدبھی حاصل ہوجائے گا۔

بشکریہ نوائے وقت نور بصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
آگے مت بڑھو،
سورہ الحجرات میں ارشادہے:(ترجمہ)"اے ایمان والو!اللہ(تعالی)اوراس کے رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)سے آگے نہ بڑھواوراللہ(تعالی)سے ڈرو۔۔۔(آیہ!)اللہ تعالی اوراس کےرسول سے آگے بڑھنایہ ہے کہ جس کام کواللہ تعالی اوراس کے رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے جائزقراردیاہو'اسےناجائزبنادیاجائے۔مثلااس آیہ مبارک میں الفاظ"اللہ (تعالی)اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)"رکھے گئے ہیں۔ قرآن پاک میں اوربھی بیسیوں جگہ یہ مبارک الفاظ اکٹھے آئے ہیں۔کئی احادیث میں بھی یہ الفاظ اکٹھے آئے ہیں مگرانگریزکے دوراقتدارمیں بعض لوگوں پرمنکشف ہواکہ یہ الفاظ اکٹھے رکھناشرک میں داخل ہے۔ظاہرہے کہ یہ من گھڑت بات بھی حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی شان کم کرنے کی اس شازش کاحصہ ہے جوانگریزکے ایماپرچلائی گئی تھی۔ حضرت معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے وہ حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کے ساتھ ایک ہی سواری پرسوارتھے۔آنجباب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے ان سے دریافت فرمایا:کیاتم جانتے ہوکہ اللہ عزوجل کااپنے بندوں پرکیاحق ہے؟حضرت معاذ(رضی اللہ عنہ)نے عرض کیا:اللہ(تعالی)اوراس کارسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)بہترجانتے ہیں۔اس کے بعدحضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا:کیاتوجانتاہے کہ جب بندے اس کے مطابق عمل کریں تواللہ(تعالی)پران کاکیاحق ہے؟حضرت معاذ(رضی اللہ عنہ)نے عرض کیااللہ(تعالی)اوراس کارسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)بہترجانتے ہیں۔آنجناب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا:کہ وہ انہیں عذاب نہ دے۔حضرت معاذ(رضی اللہ عنہ)نے حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کے سامنے دوبارہ یہ الفاظ کہے کہ اللہ تعالی اوراس کارسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)بہترجانتے ہیں اورحضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے انہیں ایساکہنے سے منع نہیں فرمایا۔حضرت انس بن مالک(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے جناب رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا:جوشخص ہماری نمازپڑھے اورہمارے قبلہ کی طرف رخ کرے اورہماراذبیحہ کھائے تووہ مسلم ہے اوراس(کے تحفظ)کی ذمہ داری اللہ تعالی اوراس کارسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)پرہے ۔ پس تم اس کی ذمہ داری کے بارہ میں اللہ (تعالی)کاعہدنہ توڑو(بخاری)حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے خود"اللہ تعالی اوراس کارسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)اکٹھے فرمائے۔حضرت انس(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہےکہ جناب رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)پاک نے فرمایا:تین ایسی باتیں ہیں کہ وہ جس میں ہوں اس نے حلاوت ایمان پالی۔ایک یہ کہ اللہ(تعالی)اوراس کارسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)اسے باقی سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہواور0دوسری)یہ کہ وہ کسی سے محبت رکھے توصرف(اللہ)تعالی کے لیئے اور(تیسری)یہ کہ وہ کفرکی طرف لوٹنے سے اسی طرح نفرت کرے،جیسے آگ میں ڈالے جانے سے(بخاری ومسلم)یہاں اللہ تعالی اوراس کے رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی محبت کواکٹھارکھاگیاہے۔ظاہر کہ اللہ تعالی سے محبت ہوگي تواس کے رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)سےبھی محبت ہوگی کیونکہ حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)اللہ تعالی کوسب سے زیادہ محبوب ہیں۔اتنے محبوب کہ جوکوئی آپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی اتباع کرتاہے،وہ بھی اللہ تعالی کامحبوب بن جاتاہے۔دیکھئے سورہ آل عمران کی آیت 31-
ترجمہ: (اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔

بشکریہ نوائے وقت ۔ نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

رحمت خاص،
اللہ تعالی کی رحمت خاص جناب رسول پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)اکی صورت میں ہمارے لیے رحمت خاص بن کرآئی۔اللہ تعالی کی آخری مکمل اورجامع کتاب ہدایت،قرآن پاک ہمں حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کے ذریعے ملی۔قرآن پاک پرمبنی آسان،مختصراورجامع پروگرام،شریعت محمدی جوانسان کی انفرادی اوراجتماعی زندگی کے جملہ پہلوؤں پرحاوی ہے حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کے ذریعے سے دستیاب ہوا۔اس تعلیم پرمبنی مثالی معاشرہ اورمثالی مملکت جناب رسالت مآب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے قائم کرکے دکھائی تاکہ ہمیشہ کے لئے انسانوں کے لیے ہدایت،آئیڈیل اورمقصدرہے۔قرآن پاک کی عملی تفسیرحضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے اپنی حیات طیبہ کی صورت میں پیش کردی تاکہ ہرکوئی اس کے الفاظ کومن مانے معانی نہ پہناسکے۔یاکوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ تعلیم قابل عمل نہیں اورسب سے بڑھ کریہ کہ اللہ تعالی کے محبوں کو اپنی متابعت کے ذریعے اللہ تعالی کی محبوبیت کابلندمرتبہ حاصل کرنے کاموقع بہم فراہم فرمایا۔اللہ تعالی کوجناب رسول پاک(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)سب سے زیادہ محبوب ہیں۔اتنے محبوب کہ جوکوئی آپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی متابعت کرتاہے، وہ بھی اللہ تعالی کامحبوب بن جاتاہے۔سورہ آل عمران میں فرمایاان سے کہہ دیں۔اگرتم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہوتومیری متعابعت کرو،اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا۔اس لئے جواللہ تعالی کوخوش رکھناچاہتاہےاسے چاہیئے کہ وہ حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کاادب،توقیراورمتابعت اختیارکرے اورحضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کواپنی امت سب سے زیادہ محبوب ہے۔جوشخص حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی خوشنودی حاصل کرناچاہتاہے وہ حضورکی امت کی خیرخواہی کرے۔حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی نسبت سے ہم ایک امت ہیں ورنہ اللہ تعالی کوتویہودونصاری بھی مانتے ہیں۔مسلم اورکافرمیں تمیزحضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)پرایمان لانے یانہ لانے کی ہے۔اسی طرح مومن ومنافق میں فرق حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)سے محبت وعقیدت رکھنے یانہ رکھنے کاہے۔منافق وہی ہے جوحضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی سچی محبت وعقیدت سے محروم ہے۔قرآن پاک(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی روسے مومنوں کوحضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)اپنی جانوں سے زیادہ عزیزہیں۔حدیث شریف کے مطابق کسی شخص کاایمان اس وقت تک مکمل نہیں جب تک حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)اسے اس کے والد،بیٹے اورباقی سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں۔
سورہ الحجرات میں فرمایا کہ حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی شان میں بے ادبی سے سارے اعمال اکارت جانے کااندیشہ ہے۔اسی سورہ میں حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کے ادب کوتقوی کی جانچ فرمایااورتقوی کواللہ تعالی کے ہاں عزت کامعیارٹھہرایا۔گویامتقی ومعززوہی ہے جوحضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کے ادب سے بہرہ ورہے۔حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی یہ شان ہے کہ اللہ اورانکے فرشتے آپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)پردرودبھیجتے ہیں۔مومنوں کوحکم ہے کہ وہ بھی آپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)پرصلوۃ وسلام بھیجیں۔جس شخص کے سامنے آپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کانام لیاجائے اوروہ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)پردورودنہ بھیجے۔جبریل امین نے اس پرلعنت کی اورحضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے آمین کہا۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت


والسلام
جاویداقبال
 

قیصرانی

لائبریرین
جزاک اللہ جاوید بھائی، صرف ایک بات حلق سے نہیں اتری

جبریل امین نے اس پرلعنت کی اورحضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے آمین کہا۔

کہ لعنت تو بہت بڑی چیز ہے۔ نبی پاک ص تو رحمت اللعالمین ہیں۔ وہ بھلا اپنی ذات کی خاطر کسی پر کیوں‌ لعنت بھجوائیں یا اس پر آمین کہیں؟
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
منصور(قیصرانی) بھائی، آپ نے لکھاہے کہ حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کس طرح لعنت کرنے والوں پرآمین کہہ سکتے ہیں جبکہ وہ رحمت العالمین ہیں توبھائی، یہ تودیکھیں دعاکون کررہاہے یہ سب کچھ رضائے الہی ہے۔ کیونکہ ارشادربانی ہے۔
اللہ اورانکے فرشتے آپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)پردرودبھیجتے ہیں۔مومنوں کوحکم ہے کہ وہ بھی آپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)پرصلوۃ وسلام بھیجیں۔
توجس چیزکارب تعالی حکم دے رہاہے تواس کونہ کرنے کی سزابھی توہے۔ میرے ناقص رائے کے مطابق تویہی بات ہے ۔ واللہ علم الغیب۔
رسول پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا۔
1۔اللہ تعالی کی راہ میں لڑنے والاایسے ہے جیساکہ روزہ رکھنے والا'عبادت گزاراورقرآن خوان اورجوکبھی روزہ رکھنے اورنمازپڑھنے سے نہیں تھکتا'جب تک جہادسے واپس نہ آجائے(بخاری ومسلم)
2۔جوشخص اللہ تعالی کی راہ میں لڑائی کے لیئے نکلا'اللہ تعالی اس کاضامن ہوگیا۔یاتواسے اجروغنیمت کے ساتھ واپس کیاجائے گااوریا(شہادت کی صورت میں)جنت میں داخل کیاجائے گا۔(بخاری ومسلم)
3۔قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!مجھے پسندہے کہ اللہ کی راہ میں ماراجاؤں۔ پھرزندہ کیاجاؤں،پھرجاؤں،پھرزندہ کیاجاؤں، پھرماراجاؤں۔(بخاری ومسلم)
4۔ جوشخص اللہ کی راہ میں(یعنی جہادکے دوران)زخمی کیاجائے۔اوراللہ تعالی خوب جانتاہے اسے جو اس کی راہ میں (لڑتاہو)زخمی کیاجاتاہے۔ وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گاکہ اس کےزخم سے خون جاری ہوگا۔اس کارنگ توخون کاساہوگا،مگربومشک کی ہوگی۔(بخاری ومسلم)
5۔اللہ تعالی کی راہ میں ماراجاناہرگناہ کومٹادیتاہے سوائے قرض کے۔
6۔جوشخص اس حال میں مراکہ نہ اس نے جہادکیا'نہ کبھی جہادکاخیال اس کے دل میں آیا'اس کی موت ایک قسم کی نفاق پرہوئی۔
7۔جوشخص اللہ تعالی کی راہ میں تھوڑی دیرکےلیئے بھی لڑااس لیےجنت واجب ہوگئی(ترمذی)
8۔دوآنکھوں کودوزخ کی آگ نہ چھوئے گی۔ایک وہ جواللہ تعالی کی خوف سے روئی اوردوسری وہ جس نے اللہ تعالی کی راہ میں نگہبانی کرتے ہوئے(بیداری میں)رات گزاری۔(ترمذی)
9۔حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا:میرے سامنے تین قسم کے آدمی پیش کئے گئے جوجنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے۔ایک تو ان میں سے شہیدہے،دوسراحرام سے بچنےوالااوردوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے والا'تیسراوہ غلام جس نے اللہ تعالی کی عبادت خوبی کےساتھ کی اوراپنے مالک کابھی خیرخواہ رہا۔
10۔ جناب رسول پاک(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا۔شہیدوں کی تین قسمیں ہیں ایک وہ مومن کامل جواپنی جان اوراپنے مال سے اللہ تعالی کی راہ میں جہادکرے اورشہادت پائے۔فرمایا:یہ شہیداللہ تعالی کے عرش کے نیچے اللہ تعالی کے خیمے میں ہوگااورانبیاء اس سے صرف درجہ نبوت میں زیادہ ہوں گے۔دوسراوہ مومن جس کے اعمال ملے جلےہوں،وہ اپنی جان اورمال سے اللہ تعالی کی راہ میں جہادکرے اورشہادت پائے۔فرمایا:شہادت اسے گناہوں سے پاک کردے گی اوراس کی خطاؤں کومٹادے گی اورجس دروازے سے چاہے گاجنت میں داخل ہوجائے گا۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

الہ دین کاچراغ
قرآن پاک میں ارشادہے(ترجمہ)"اورسست نہ ہوجاؤاورغم نہ کھاؤ(بلکہ ہمت بلندرکھو)اور(یقین رکھوکہ)تم ہی غالب رہوگےاگرتم صاحب ایمان ہو"(3-139)۔عوام کاحوصلہ اورجذبہ بلندالہ دین کے چراغ سے زیادہ فوری نتائج پیداکرسکتاہے ۔ بشرطیکہ اس کی قدرکی جائے۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے موقع پرعوام میں یہ جذبہ پیداہواتھاوہ کہتے تھے،اسلامی ملک بن چکاہے اب یہاں بددیانتی نہیں کرنی چاہیے۔ مہاجرٹرین سے اترے،سٹیشن پرکوئی ٹکٹ چیک کرنے والانہیں تھا۔بعض نے ازخودٹکٹ کے پیسے ٹکٹ بابوکی کھڑی کے سامنے رکھ دیئے مہاجرین کی آمدپرایک گاؤں میں ہندوؤں کامتروکہ مال اکٹھاکیاجارہاتھا۔ایک مزدورنے چھ یاآٹھ آنے لاکررکھ دیئے کہنے لگا۔ایک ہندوکے گھرسے تھوڑاساآٹالیاتھایہ اس کی قیمت ہے۔(سستازمانہ تھا)مگراس جذبہ سے کسی نے بھی فائدہ نہ اٹھایا۔سرکاری افسراورسیاسی لیڈراپنے آپ کونہ بدل سکے۔انہوں نے وہ لوٹ مچائی اورجورکاوہ بازارگرم کیاکہ عوام کاساراجذبہ سردپڑگیا۔
1947ء میں جہادکشمیرنے عوام کے اندرپھروہی لہرپیداکردی مگرحکومت نے عین اس وقت جب ہم نے فتح حاصل کرلی تھی جنگ بندی کرکے عوام کے سارے جذبے پرپانی پھیردیا۔کئی برس تک ہمیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے کھلونوں سے بہلایاگیا۔بالآخر وہ سب ایک ایک کرکے ٹوٹ گئے ۔اورساتھ ہی ہماری ساری امیدیں بھی 1965 ء میں جب صدرایوب نے کہاکہ کلمہ طیبہ کاوردکرتے ہوئے بزدل دشمن پرٹوٹ پڑوتوقوم کاعزم پھرجوان ہوگیاساری قوم اٹھ کھڑی ہوئی۔جرائم پیشہ لوگوں نے برائی چھوڑدی۔
کراچی سے پشاورتک ریلوے کی حفاظت لوگوں نے ازخودرضاکارانہ طورپرکی۔ہرمحاذپردیگیں پکواکربھیجیں۔راتوں کواٹھ اٹھ کرپہرے دئیے۔مگرایک بارپھربے محل جنگ بندی نے اس سارے جذبے کوکچل دیا۔بعدمیں تاشقندکےنامنصفانہ سمجھوتے نے اسی جذبے کوغیض و غضب میں بدل یااوراس اس کارخ ایوب خاں کی طرف موڑ دیا۔
1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے المیہ نے قوم کےاندرکچھ کرنے کاجذبہ پیداکیالیکن اسے جان بوجھ کرسردکیاگیا۔ہمارے قیدی بھارت سے رہاہوکرآئے توان کے دلوں میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی مگرکسی نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا۔ان کے ذریعہ سول اورفوج کےاندرمحنت،دیانتداری اورفرض شناسی کے جذباب پیداکرکے ساری قوم کوسیسہ پلائی دیواربنایاجاسکتاتھامگراس وقت وہی شخص برسرحکومت تھاجس نے اپنے اقتدارکے لئے یہ ساراکھیل کھیلاتھا۔اس نے اس جذبہ کورنگ رلیاں منانے کی طرف لگادیا۔


بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

ملک جہان خان
غرناطہ کے موسی اوردلی کے بخت خان کی طرح جنوبی ہندکے ملک جہان خان نے بھی نامساعدحالات کے سامنے ہتھیارڈالنے سے انکارکردیا۔اس نے بھی ذلت ورسوائی کی زندگی کے ساتھ سمجھوتہ نہ کیابلکہ غیرت وحمیت کاراستہ اختیارکیاجوکٹھن راستہ ہےمگربالآخرعزت کے ساتھ معبدکی طرف لے جاتاہے موت توہرایک کوآنی ہے۔مگرکوئی ذلت کی موت اختیارکرلیتاہے،کوئی عزت کی اپنااپنامقدرہے۔ملک جہان خان،سلطان ٹیپوشہیدکے وفادارملازموں میں سے تھاغدارمیرصادق نے اپنی سازشوں سے اسے پٹن کے قیدخانہ میں ڈلوادیاتھاسلطان کی شہادت کے بعدیہ بہادرشخص قیدسے فرارہوکرشہزادہ فتح حیدرسلطان کے پاس پہنچ گیااوراسے انگریزوں کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے کامشورہ دیالیکن جب شہزادہ جنرل ہارس کے پاس چلاگیاتوگھوڑے پرسوارہوااورتنہاایک طرف نکل گیا۔اس کے تھوڑاہی عرصہ بعدہم اسے تین ہزارسواروں اورپیادوں کے ساتھ اس خونین داستان کےپس منظرسے ابھرتاہوادیکھتے ہیں۔خداجانے اس نومسلم مجاہدنے کہاں سے کیسے یہ سارالشکرفراہم کرلیا۔
بہرحال یہ حقیقت ہے کہ اس نے انگریزکے تسلط واقتدارکوتسلیم کرنے سے انکارکردیااورآخردم تک اس سے نبردآزمارہااس نے اپنے جہادکی ابتدادریائے کرشنااوردریائے بھوراکےدرمیانی علامہ سے کی پہلے اس نے حسن تدبرسے انی کندی کے صوبیدارکواپناموافق اورپشت پناہ بنایاپھرحاکم کولارپورکوساتھ مل کرگوکھلہ مرہٹہ اورپرسرام پردلیرانہ حملے کرکے ان کے سرنیزوں پرچڑھادیئے۔ان کوختم کرنے بعداس نے انگریزی فوج پرحملہ کی تیاریاں شروع کردیں انگریزوں کے خلاف معرکوں میں اس کے دن رات مسلسل جنگ میں گزرتے رہے اس نے کئی فتوحات حاصل کیں اوربہت سامال غنیمت چھینامگروہ کسی قلعہ پرقبضہ حاصل نہ کرسکاجواس کے لشکرکے لیئے پناہ گاہ کاکام دیتا۔اس کی فوج ہمیشہ کوچ کی حالت میں رہی انگریزی فوج کے پاس توپ خانہ بھی تھااس کے باوجوداس نے برابردوسال انگریزوں کامقابلہ کڑپہ اورکنول کے افغانوں نےاس کے ساتھ طرف داری کاڈھونگ رچاکراوراندرسے انگریزوں کے ساتھ مل کراس کی جمعیت کوپراگندہ کردیا۔مگراس نے پھربھی ہتھیارنہ ڈالے وہ ایک بارپھریکہ وتنہاکسی طرح نکل گیااس کی یادرگاراس کانام ہی نام ہے جوہمیشہ تاریخ کے صفحات کومزین رکھے گااوربہادروں کے حوصلے بڑھاتارہے گاملک جہان خان کااصل نام دھوندوجی راگیہ تھااوروہ ڈاکے ڈالاکرتاتھا۔سلطان شہیدنے اپنی شہادت سے ایک سال قبل اسے اپنی ملازمت کی دعوت دی تواس نے سلطان کی ملازمت اختیارکرلی۔سلطان نے اس کی تعلیم کے لیئے اتالیق مقررکیا۔دس نگم سلطانی اس کاروزینہ مقررہوا۔اس نے اسلام قبول کرلیاتواس کی خواہش کے مطابق اسے جہاں خان کالقب عطاہوا۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

زندگي،​
قرآن پاک میں ارشادہے،انسان محنت میں پیداکیاگياہے۔(سورۃ ابلد)انسان کوصرف وہی ملتاہے جس کے لیئے وہ کوشش کرے۔(سورۃ النجم)اوریہ کہ کوئی کسی دوسرے کابوجھ نہیں اٹھاتا۔ہرشخص کویہ باتیں پلے باندھ لینی چاہئیں۔اسے سمجھ لیناچاہئے کہ اسے زندگی کامعرکہ اکیلے سرکرناہے۔کوئی دوسرااس کیلئے زندگی بسرنہیں کرسکتا۔اسے یہ بھی سمجھ لیناچاہئے کہ اسےزندگی بسرنہیں کرسکتا۔اسے یہ بھی سمجھ لیناچاہئے کہ اس نے اچھے برے ہرقسم کے حالات کاپامردی سے مقابلہ کرناہے۔نہ اچھے حالات میں اپناذہنی توازن خراب ہونے دیناہے،نہ برے حالات میں مایوس اورپست ہمت ہوناچاہئے،زندگي کواسکی حقیقی صورت میں قبول کرناسیکھناچاہئے۔نہ اس سے گریزکرناچاہئے اورنہ اسکے بارے میں کسی غلط فہمی کاشکارہوناچاہئے۔زندگی چیلنج ہے ایساچیلنج جس کے بغیرنہ ہماری تکمیل ہوسکتی ہےاورنہ یہ پتہ چل سکتاہے کہ ہم کیسے موادسے بنے ہوئے ہیں۔
جہاں میں توکسی دیوارسے نہ ٹکرایا
کسے خبرکہ توسنگ خاراہے کہ زجاج
روپے یادوستوں پراعتمادنہیں کیاجاسکتا۔روپیہ کھوجاتاہے دوست ساتھ چھوڑجاتے ہیں۔بالآخرآپ صرف اپنے خدااوراپنے آپ پرہی اعتمادکرسکتے ہیں بلکہ اپنےاوپراعتمادبھی اللہ تعالی پراعتمادسے ہی پیداہوتاہے۔رازکی بات یہ ہے کہ ہرشخص کے اندرایک"محفوظ مقام"موجودہے'جہاں وہ خطرے اورخوف کے وقت پناہ لے سکتاہے۔مگرعام طورسے لوگ اس رازسے بے خبرہیں۔اس لیئے وہ اپنے اندرکی پناہ گاہ کی طرف جانے والاراستہ ہی کھوچکے ہیں۔یہ پناہ گاہ آپکی روح ہے جس کاتعلق اللہ تعالی سے قائم ہے۔جوشخص اپنی روح کے اس تعلق کوقائم اورمضبوط رکھتاہے اسے ہردم اللہ تعالی کی طرف رہنمائی اورمددحاصل رہتی ہے۔اپنے اندرکے اس تعلق کوقائم اورمضبوط رکھتاہے اسے ہردم اللہ تعالی کی طرف سے رہنمائی اورمددحاصل رہتی ہے۔اپنے اندرکے اس محفوظ مقام مقام تک پہنچنے کاایک ہی طریقہ ہے۔اوروہ یہ کہ ہم بلنداخلاقی اقدارکواپنائیں جھوٹے فریبی مطلبی اورظالم کے لیئے اس پناہ گاہ کے دروازے بندرہتے ہیں۔وہ اپنے اندرکے محفوظ مقام میں داخل نہیں ہوسکتااگرہماراطرزعمل عزت اورشرافت کے منافی ہوگاتوپھرہم اس پناہ گاہ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔تنگ نظری،تعصب اوربددیانتی اس محفوظ مقام سے دوررکھتی ہے اورجولوگ اس مقام سے دوررہتے ہیں خواہ وہ بظاہرخوشحال اورطاقتورآئیں خواہ وہ ڈاکوؤں کی طرح دلیری کالبادہ اوڑھے پھریں مگراندرسے وہ خوف زدہ اورشکست خوردہ ہی رہتے ہیں۔اگرہم مادی وسائل کوتحفظ سمجھناچھوڑدیں اگرہم صرف اللہ تعالی کوکارسازسمجھیں اوردولت اورتعلقات کوصرف ذرا‏ئع سمجھیں توپھرخوداعتمادی سے سراٹھاکرزندگی کے سفرپرروانہ ہوسکتے ہیں۔راستے کے خطرات کامقابلہ کرسکتے ہیں۔مواقع سے پورافائدہ اٹھاسکتے ہیں اوربدلتے ہوئے حالات کے ساتھ موافقت پیداکرسکتے ہیں۔اس صورت میں ہم مصائب کامقابلہ جواں مردی سے کریں گے۔
بشکریہ نوائے وقت
نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

روحانی بہار۔

رمضان المبارک کی آمدآمدہے۔یہ روحانی بہارکاموسم ہے۔اس دوران کیف ومستی کی ہوائیں چلتی ہیں۔رحمت کی گھٹائیں برستی ہیں۔ررخیزدلوں کی زمین سے روحانیت کے پودے پھوٹتے ہیں اورخوشبودارپھولوں سے ساری فضامہک اٹھتی ہے۔البتہ بنجرزمین میں سے صرف خاردارجھاڑیاں اگتی ہیں اورپتھردل جیسے ہیں،ویسے ہی رہتے ہیں۔یوں توہرآن اللہ تعالی کی رحمت کی بارش برستی رہتی ہے۔لیکن رمضان المبارک کے دوران حق تعالی کی رحمت زوروں پرہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسجدیں نمازیوں سے بھرجاتی ہیں۔عبادت آسان ہوجاتی ہے ۔ رمضان المبارک کے علاوہ کسی اورمہینے میں روزے رکھیں،تواتنی آسانی سے نہیں رکھے جاسکتے۔بچے اورنوجوان جن کے قلوب معصوم ہوتے ہیں،خاص طورپرمساجدکی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔چودھویں کاچاندپوری آب وتاب سے جلوہ گرہوتاہے توسمندرکاپانی اپنی روزمرہ کی سطح سے کتنااونچااٹھتاہے۔گویاوہ آسمانوں کی بلندیوں کوچھولیتاچاہتاہے۔رمضان المبارک کے دوران بھی اللہ تعالی کی رحمت کاچاندپوری آب وتاب سے جلوہ فگن ہوتاہے اسلئے دلوں کے دریابھی،جوسمندروں سے زیادہ گہرے ہیں'جوش میں آتے ہیں۔ان کی لہریں عرش الہی کے کنکروں تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔وہ اپنانالہ وفغاں کاشورحریم ذات تک پہنچانے کے لئے بےتاب ہوتی ہیں۔مشاہدہ وذات وصفات کے متوالو!تیارہوجاؤ۔حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کے طفیل آنجناب کے امتیوں کے لئے عشق الہی کی پاکیزہ اورمصفاشراب کے خم خانوں کے مونہہ کھول دیئے جانے والے ہیں۔ہرخاص وعام کے لیئے صلائے عام ہے۔جنگلوں اورپہاڑوں میں سرگرداں پھرنے اورجاں کسل مجاہدوں میں بدنوں کواذیتیں دینے کی بجائے گھربیٹھے آرام سے بلندترین روحانی مقامات اوراحوال سے لطف اٹھاؤ۔حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے اپنی امت کے لئے بڑی آسانیاں مہیافرمادی ہیں۔ان سے پورافائدااٹھاؤ۔ایک ماہ کے روزے رکھو۔پانچ وقت کی نمازباجماعت اداکرو۔تراویح میں قرآن پاک سنو۔تہجدکی نمازپڑھو'یہ خاص حضوری کاوقت ہے۔فضول باتوں سے بچو۔کھاناحرام کمائی سے نہیں ہوناچاہیے۔ورنہ سارے کئے کرائے پرپانی پھرجائے گا۔ہرکام میں صرف اللہ تعالی کی خوشنودی پیش نظررکھو۔جہاں تک ہوسکے اپنی زبان اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں سے کسی اسم مبارک کے ذکرسے تررکھو۔زیادہ درجات کے خواہاں ہو،توآخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھ جاؤ۔اس ماہ مبارک میں جتنااجرکماسکتے ہو؛کمالو۔اسی میں نجات ہے۔


بشکریہ نوائے نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

قرآن پاک۔۔۔۔۔۔(1)
قرآن پاک حکمت ومعارف کاگنج بے بہاہے۔پچھلے چودہ سوبرس سے مسلمان اسے اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔اگرچہ عمل میں کوتاہی کے مرتکب ہیں آج بھی روح مسلمان میں اسلام کی محبت نئے سرے سے بیدارہورہی ہے۔ہمارے نئے تعلیم یافتہ نوجوان اسے سمجھنے اوراس پرعمل کرنےکے لیئے بیتاب ہیں۔کرنل(ریٹائرڈ)عبدالرؤف نے "بصیرت"کے نام سے قرآن پاک کے مضامین مختلف عنوانات کے تحت اردواورانگریزی ترجمہ کے ساتھ مدون کرکے ہماری ایک بڑی ضرورت پوری کی ہے۔ اس سے موجودہ دورکاہرفردزندگی کے اہم مسائل پرہدایت حاصل کرسکتاہے۔
قرآن پاک نے ہمیں انفرادی اوراجتماعی زندگی کےہرپہلو پرہدایت سے نوازاہے۔اللہ تعالی کی یہ آخری کتاب علم ومعارف کامخزن ہے۔اس کااندازبیان یکتااورمنفردہے۔بنیادی باتوں کوباربارلائے ہیں مگرہربارنئے اسلوب سے۔اسکی تلاوت سے دل نرم ہوتے ہیں اوربدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔کیف وحال اورعلم وخبرکے دریچے کھل جاتے ہیں۔کتاب کے آخرمولف نے تجزیہ کے عنوان سے چندسوالات لکھے ہیں ہم سب کوچاہیئے کہ انکے ذریعہ اپناتجزیہ کریں۔
1- کیاقرآن پاک پرآپ کاصدق دل سے مکمل اورپختہ ایمان ہے۔
2- کیاآپ باقاعدگی سے قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں؟
3- کیاآپ اس طرح عبادت کرنے کی کوشش کرتے ہیں گویاآپ اللہ تعالی کودیکھ رہے ہیں یاکم از کم محسوس کرتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ کودیکھ رہے ہیں؟
4- کیاآپ کاروبارکے دوران بھی اللہ تعالی کاذکرکرتے اورانہیں یادرکھتے ہیں؟
5۔ کیاآپ جناب رسول پاک(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)پربکثرت اورباقاعدگی سے صلواۃ وسلام بھیجتے ہیں؟
6- کیاآپ صدق دل سے جناب رسول پاک(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کواپنی جان سے زیادہ عزیزرکھتے ہیں؟
7۔ کیاآپ ہروقت اللہ تعالی کے شکرگزاررہتے ہیں؟
8- کیاآپ کواحساس رہتاہے کہ اللہ تعالی آپ کے ہرخیال کوجانتے ہیں اورآپ کے ہرکام کودیکھ رہے ہیں؟
9- کیاآپ سمجھتے ہیں کہ دینوی زندگی کاعرصہ ابدی آخروی زندگی کے مقابلہ میں نہ ہونے کے برابرہے؟
10- کیاآپکواحساس رہتاہے کہ آپ نے ایک دن اللہ تعالی کی جناب میں پیش ہوکراپنے سارے اعمال کاحساب دیناہے؟

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

قرآن پاک ۔۔۔۔۔۔(2)

رمضان المبارک بابرکت مہینہ ہے،کیونکہ اس میں قرآن پاک نازل ہوا۔اورجس سینہ پرقرآن پاک نازل ہوااورمسلسل 23برس نازل ہوتارہا۔اس کی برکتوں اورعظمتوں کااندازہ کون کرسکتاہے۔
قرآن پاک کتاب ہے۔ لاجواب کتاب مگراس کتاب کی تفسیرحضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی حیات طیبہ ہے۔جیسے قرآن پاک لاجواب ہے، اسی طرح جناب رسالت(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)مآب کی شخصیت عظیمہ بھی لاجواب ہے،جیسے قرآن پاک میں پہلی جملہ آسمانی کتابوں کے محاسن ومضامین نہ صرف یکجاکردیئے گئے ہیں۔بلکہ زیادہ فصاحت وبلاغت سے اورزیادہ احسن اندازمیں پیش کئے گئے ہیں،اسی طرح ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پاک کی ذات گرامی میں پہلے تمام انبیاء کے محاسن وفضائل بھی ہیں اوران سے بڑھ کراوربھی بہت کچھ ہے۔اندھوں کواگرکچھ نظرنہیں آتا،توان کی مجبوری ہے۔قرآن پاک کایہ اعجازہے کہ معمولی پڑھے لکھے لوگ ،درمیانہ درجہ کے تعلیم یافتہ،اعلی تعلیم یافتہ بڑے بڑے فلسفہ دان اورمحقق،علمی نکات کےجویا،رموزعشق کے شائق سب اس سے بقدراستعدادبہرہ اندزوہوسکتے ہیں۔یہاں تک کہ ان پڑھ بھی اسے ناظرہ پڑھیں یاسنیں تواس کی برکات سے فیض یاب ہوتے ہیں۔کسی انسان کی لکھی ہوئی کتاب میں یہ بات پیدانہیں ہوسکتی۔وہ کسی ایک طبقہ ہی کومتاثرکرسکتی ہے۔یہ شان صرف اسی ذات کی کتاب میں پیداہوسکتی ہے۔جوسب کاخالق اورسب کارب ہے۔جس کااپنے ہربندے سے تعلق ہے۔جواپنے ہربندہ کی فطرت کوسمجھتاہے اوراسکے دل کے رازوں کوجانتاہے۔الفاظ کاحس انتخاب،چندفقروں یالفظوں میں پوراواقعہ بیان کردینا،مختصرالفاظ میں بہت سے جذبات مثلاتعجب،تحیر،حسرت وغیرہ کی عکاسی ،الفاظ اوراندازبیان کی پاگیزگی،واقعاتی صحت،ایک ہی مضمون ہربارنئے رنگ اورنئے ڈھنگ سے بیان کرنا،تاکہ ہرپڑھنے کےذہن میں راسخ ہوجائے۔کائنات اورانسانی تخلیق کے بڑے بڑے اسرارکی جانب چندالفاظ میں اشارہ کرجانا،قرآن پاک کی خاص خوبیاں ہیں۔صاف معلوم ہوتاہے کہ خالق بات کررہاہے۔قرآن پاک کے آغازہی میں فرمادیاکہ یہ کتاب متقین کے لئے ہدایت ہے۔اس لئے قرآن پاک کوسمجھنے کے لیے سب سے زیادہ چیزتقوی ہے۔عربی زبان کاجاننابھی ضروری ہے۔تاریخ انسانی اورکائنات کاعلم جتنازیادہ ہوگااسی قدرقرآن پاک سے لطف اندوزہونے کاموقع ملے گا۔لیکن قرآن کاجواصل مقصدہے ہدایت،اسے وہی حاصل کرے گاجس کے اندرتقوی ہوگا۔جوشخص تقوی سے خالی ہے،اس کاعلم خواہ کتناوسیع ہو،وہ قرآن پاک سے پوری طرح فیض یاب نہیں ہوسکے گا۔قرآن پاک کی موجودہ ترتیب میں ایک ربط اورتسلسل ہے۔آیت کاآیت سے ربط ہے۔رکوع کارکوع سے ربط ہے۔مگراسے سمجھنے کے لئے غوروفکردرکارہے۔
بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

قرآن پاک ۔۔۔۔(3)
قرآن پاک ہدایت کی کتاب ہے ۔ ہدایت کاسرچشمہ اللہ تعالی کی ذات بابرکات ہے اس لئے تواللہ تعالی کے بارے میں معلوم ہوناچاہئے۔پھریہ انسان کے لیئے ہدایت ہے اس لئے انسان کے متعلق بھی پتہ چلناچاہئے کہ وہ کیاہے، پھرانسان نے اس کائنات مین زندگی بسرکرناہے اس لئے کائنات کاعلم بھی ہوناچاہئے توقرآن پاک کے خاص مضامین اللہ تعالی ، کائنات اورانسان ہیں۔پھریہ بھی معلوم ہوناچاہئے کہ ہدایت پالینے سے انسان کیابن جاتاہے اورہدایت نہ پانے سے اس کی کیاحالت ہوتی ہے۔چنانچہ قرآن پاک میں ہدایت یافتہ گروہ اورگمراہ گروہوں کے متعلق بھی تفصیلابیان کیاگیاہے۔سورۃ الفاتحہ میں جوقرآن پاک کاتلخص ہے۔پہلے اللہ تعالی کی صفات،ربوبیت،رحمت اورعدل کابیان ہے۔رحمت کے دواسمائے صفات الرحمن اورالرحیم لاکراسکے باقی سب صفات الہی سے بڑھے ہونے کی طرف اشارہ ہے۔الفاظ "انصاف کےدن کے مالک"میں صفت عدل کے علاوہ اس طرف بھی اشارہ ہے۔کہ یہ دنیاختم ہونے والی اورقیامت قائم ہونے والی ہے اورقیامت کے روزعدل کے ساتھ ہرشخص کے اعمال کاحساب ہوجائیگااوراسکے نتیجہ کیمطابق اسے جنت میں بلندسے بلندتردرجات یاجہنم میں پست سے پست ترگڑھوں میں سخت سے سخت عذاب کاسامناکرناہوگا۔اسکے بعدہدایت یافتہ انسانی طرزعمل کابیان ہے۔یعنی یہ کہ صرف اللہ تعالی کی عبادت کی جائے۔عبادت میں فرمانبرداری بھی آجاتی ہے اورصرف اسی سے استعانت چاہی جائے۔ساتھ ہی یہ بھی بتادیاکہ استعانت صراط مستقیم جاننے ،پہچاننے اوراس پرچلنے کی ہے آخرمیں فرمایاکہ انسان تین گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔وہ جوصراط مستقیم یاکراسے کھودیتے ہیں۔سورہ البقرہ کے آغازمیں انہی تین گروہوں کاذکرہے ۔پہلے گروہ کومتقین فرمایایعنی اللہ تعالی کے خوف کے باعث برائی سے بچنے والے،انکی صفات بیان فرمائیں،ایمان بالغیب،اقامت،صلوۃ، ادائے زکوۃ، آخرت پریقین ۔ سورۃ انبیاء میں فرمایاکہ اس گروہ میں انبیاء،صدیقین شہداء اورصالحین داخل ہیں۔دوسراگروہ کافرین کاہے جوہدایت پانے کی استعدادکھوچکے ہیں۔انکے بارے میں فرمایاکہ انکی بداعمالیوں کے باعث اللہ تعالی نے انکے قلوب پرمہرلگادی ہے،یعنی وہ حق بات سننے اورسمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔انکی آنکھوں پرپردے پڑچکے ہیں۔یعنی وہ اپنے گردوپیش کے حالات سے بھی سبق حاصل نہیں کرتے۔تیسراگروہ منافقین کاہے جوزبان سے کہتے ہیں کہ ہم اسلام لائے مگردل سے اسلام نہیں لاتے ،یعنی جوراہ مستقیم پاکرپھراسے کھوچکے ہیں۔اسلام کادعوی کرتے ہیں مگردل سے اس پریقین نہیں رکھتے۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

قرآن ذی شان،
کائنات کے جن رازوں تک دورجدیدکے سائنسدان صدیوں کی محنت اورتحقیق سے پہنچے ہیں ۔ انہیں قرآن پاک نہایت بے تکلفی سے ضمنابیان کرجاتاہے اوروہ بھی چندمختصرالفاظ میں۔ جس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ یہ کائنات کے خالق کاکلام ہے، جس نے اپنے ہاتھوں سے سب کچھ بنایاہے اورجس کے لئے کائنات کاکوئی رازرازنہیں۔مثلاہرزندہ چیزکی تخلیق پانی سے کی گئی ہے۔(سورۃ21:آیات(30)زمین آسمان(اجرام سماوی)کی مثل ہے۔ کائنات کی تخلیق دھوئیں جیسے مادہ(ہیولی)سے ہوئی ہے۔ سورج اپنے مستقرکی طرف بڑھ رہاہے۔کائنات ہردم وسعت پذیرہے۔(47:51)یادرہے کہ اگرسائنس کاکوئی نظریہ قرآن پاک کیمابق نہ ہو،توہم سمجھتے ہیں کہ اس بارے میں ابھی مزیدتحقیق کی ضرورت ہے ۔قرآن پاک سائنس سے بے نیازہے۔اسکی صداقت اپنی صداقت اپنی جگہ قائم ہے۔
الہی وقت(ڈیوائین ٹائم)ماضی ،حال اورمستقبل میں منقسم نہیں۔اللہ تعالی کےہاں ایک یوم ایک ہزاریاپچاس ہزاربرس کے برابرہے۔(5:32)(4:70)اللہ تعالی کے وقت کے لحاظسے قیامت آنکھ جھپکنے میں آموجودہوگي۔"صراط مستقیم وہ ہے جوہمیں اپنے رب کی طرف لے جاتاہے۔(56:11)ہم سب اللہ تعالی کے ہیں اورہم سب نے اسی کی طرف لوٹ کے جاناہے۔(156:2)اس لیے اسکے حضورحاضری کوہمیشہ پیش نظررکھناچاہیے اوراس سے ملاقات اوراسکے دیدارکاشوق ہوناچاہیے۔اسی طرح قرآن پاک میں انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل،علم اوراسکے حصول کے ذرائع، انسانی نفسیات،معاشیات،سیاست اورتاریخ وغیرہ کے بارہ میں بلیغ اشارے ملتے ہیں۔پہلے پہل انسان کی ابتداء مٹی کے سنے ہوئے گارے سے ہوئی۔ اب اسکی پیدائش نطفہ سے ہوتی ہے،جوماں کے رحم میں مختلف مراحل طے کرتاہے۔انسان نفس واحدہ سے پیداہوا۔اب یہ ساری روئے زمین پرپھیلاہواہے۔انسانوں کے رنگ مختلف ہیں۔ان اختلافات کواپنی آیات میں سے ایک آیت فرمایا۔سمع،بصر،اورفواد(ذہن)کوحصول علم کے ذرا‏‏ئع فرمایا۔یہ وضاحت بھی فرمادی کہ بعض لوگ ظن وتخمین یااپنی من پسندخواہشات کوعلم سمجھ لیتے ہیں۔حالانکہ یہ علم نہیں۔انسانی نفسیات کے سلسلہ میں فرمایاکہ انسان تھڑدلاہے۔اچھےحالات ہوں تواتراتاہے اورشیخی بگھارنے لگتاہے۔ذراحالات خراب ہوں تومایوس اورناشکراہوجاتاہے۔مگرصاحب ایمان لوگوں کایہ حال نہیں۔وہ ہرحال میں شکرگزاراورپرامیدرہتے ہیں۔سب سے پہلے قرآن پاک نے تاریخ انسان کوحکمرانوں کے حالات کی بجائے معاشروں کے حالات کی صورت میں پیش کیااوریہ نتیجہ اخذکیاکہ معاشرے اللہ تعالی اورآخرت کوبھول جاتے ہیں اوربرائی میں سرتاپادھنس جاتے ہیں ، وہ اسی دنیامیں تباہ کردیئے جاتےہیں۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 
Top