نوربصیرت

قیصرانی

لائبریرین
جزاک اللہ جاوید بھائی۔ آج کل ہمارے ہاں صرف دوسری قسم کے لوگ ہی پائے جاتے ہیں۔ یعنی ہم مسلمان کسی بھی اچھے مقصد کے لیے برے ذرائع استعمال کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ جائز ہے۔ اللہ پاک ہمیں اور انہیں اصلاح دیں :(
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
واقعی منصور(قیصرانی) بھائی، آپ کی بات ٹھیک ہے اللہ تعالی ہمیں عمل صالح کرنے کی توفیق عطاء فرمائے(آمین ثم آمین)

اسلامی تیوہار
سب قوموں کے تیوہارہیں لیکن بالعموم وہ اپنے تیوہارمناتے وقت کھیل تماشے ،پینے پلانے اورناچ گانے وغیرہ میں کھوجاتی ہیں ۔ ہم مسلمانوں کے بھی دوتیوہارہیں ۔عیدالفطراورعیدالاضحی۔مگر ہم انہیں مناتے وقت اسلام کی بنیادی باتوں تعلق باللہ، باہمی اخوت اورانسانی وقارکوپیش نظررکھتے ہیں۔ہم ایسی حرکات سے بچتے ہیں اورانسان کوحیوان کے درجہ پرلے آئيں۔دونوں عیدوں کاآغازاللہ تعالی کی جناب میں دورکعت نمازکانذرانہ عقیدت پیش کرنے سے ہوتاہے۔عیدالفطرمیں نمازسے پہلے ناشتہ کرنامسنون ہے کیونکہ روزوں کے دروان علی الصبح سحری کھانے کی عادت راسخ ہوچکی ہوتی ہے۔نمازعیدسے پہلے فطرانہ اداکرناضروری ہےآج کل فطرانہ 30 روپے فی کس ہے بچوں کی طرف سے بھی فطرانہ اداکیاجاتاہے۔یہ رقم ضرورت مندوں کوپیش کردینی چاہیے۔فطرانہ روزوں کے دوران جوکوتاہیاں ہوجاتی ہیں،ان کاکفارہ بھی ہے۔ہم بھی عیدکے موقع پرخوشی مناتے ہیں۔اس موقع پراچھاکھانا،اچھاپہننامسنون ہے۔قرآن پاک میں ارشادہے کہ اللہ تعالی کی عطاکردہ زینت یعنی اچھالباس کس نے محرام کیاہے؟یہ توہےہی صاحب ایمان لوگوں کے لئے۔کفارکوتوایمان والوں کے طفیل ان چیزوں سے تمتع اندوزہونے کاموقع مل رہاہے کیونکہ اس دنیامیں کافراورمومن ملے جلے ہیں۔ورنہ آخرت میں جب انہیں جداجداکردیاجائے گا۔کفاراچھے لباس اوراچھی خوراک سے محروم ہوں گے۔قرآن پاک میں یہ بھی ارشادہے کہ حلال وطیب کھاؤ۔البتہ اسراف وتبذیرسے بچنے کاحکم ہے۔اسراف ضرورت پرضرورت سے زیادہ خرچ کرناہے اورتبذیربلاضرورت مال اڑاناہے۔مبذرین کوشیاطین کے بھائی فرمایا۔نیزفرمایاکہ شیطان اپنےرب کاناشکراہے۔اشارہ اس طرف ہے کہ مبذرین جواللہ تعالی کے دئیے ہوئے مال کواللوں تللوں پراڑادیتے ہیں ۔ وہ بھی اللہ تعالی کے ناشکرے ہیں۔اس موقع پرہمیں کشمیری بھائيوں کوبھی یادرکھناچاہئے۔ وہ اس وقت آگ اورخون کے طوفان میں سے گزررہے ہیں۔ان پرزندگی تنگ کردی گئی ہے۔کمینہ دشمن انہیں بھوکوں ماررہاہے ۔ عورتوں کی بے حرمتی کی جارہی ہے بچوں کوخوراک سے محروم رکھاجارہاہے۔ دنیامیں انسانی حقوق کے تحفظ کے نام پرجوادارے قائم ہیں،ان کے کان پرجوں تک نہ رنیگتی۔نہ ریڈکراس والے وہاں خوراک ،لباس اوردوائیاں پہنچانے کاانتظام کررہے ہیں،نہ ایمنسٹی والے بولتے ہیںمسلمانوں پرظلم ہوتوان سب کی انسان دوستی ختم ہوجاتی ہے،ان کی زبانوں کوتالے لگ جاتے ہیں۔مسلمان کے خلاف انہیں کوئي ذراسی بات بھی ہاتھ آجائے تویہ چیخ چیخ کرآسمان سرپراٹھالیتے ہیں۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

باجماعت نماز۔
قرآن پاک کے مطابق دنیامحض کھیل تماشانہیں،بلکہ حق وباطل کی رزمگاہ ہے۔ایک طرف اہل حق(اللہ تعالی کی پارٹی)ہیں،دوسری طرف اہل باطل(شیطان کی پارٹی)ہیں۔انکے درمیان ہرلمحہ اورہرمقام پرجنگ لڑی جارہی ہے۔نمازباجماعت مسلمانوں کواس جنگ کے لیے تیارکرتی ہے۔روحانی اورعملی ہردولحاظ سے قرآن پاک میں ارشادہے کہ نمازبے حیائی کے کاموں اوربرے کاموں سے روکتی ہے۔قرآن پاک کے مطابق امربالمعروف اورنہی عن منکر(نیکی کاامرکرنے اوربرائی سے روکنے)کافریضہ ہرمسلمان کے ذمے ہے۔انفرادی لحاظ سے بھی اجتماعی لحاظ سے بھی اورحکومتی سطح پربھی۔جناب رسول پاک(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کاارشادگرامی ہے کہ برائی کوہاتھ سے روک۔اگراس کی استطاعت نہیں رکھتاتوزبان سے منع کراگراتنابھی نہیں کرسکتا،تووہاں سے چلاآ(یعنی برائي پراپنی ناپسندیدگی کااظہارکردے)اوریہ کمزورترین ایمان ہے۔گویامسلمان وہ ہے جوبرائي کوکسی صورت برداشت نہ کرے۔جہادبالسیف باطل نظاموں کے خلاف کیاجاتاہے،کیونکہ باطل نظام برائي کوجنم دیتے ہیں۔اسلام کسی فردسے یہ نہیں کہتاکہ وہ ضروراسلام قبول کرے،مگراس پرضرورزوردیتاہے کہ ہرشخص اسلامی نظام کےتحت زندگی گزارے ۔جیسے ہم برائی کوبرادشت نہیں کرتے۔اسی طرح ہم باطل نظام کوبھی برداشت نہیں کرتے اگرکوئی سپاہی پریڈ بڑی اچھی کرے،وردی بھی ٹھیک ٹھاک رکھے لیکن میدان جنگ کارخ بھی نہ کرے،توکیاآپ اسے اچھاسپاہی کہیں گے؟کیاکمانڈرانچیف ایسے سپاہی کوفوج میں برداشت کرے گا؟یہی حال ان نمازیوں کاہے جونمازتوپانچ وقت کی پڑھتے ہیں مگرنہ برائی کامقابلہ کرتے ہیں اورنہ جہادمیں عملاحصہ لیتے ہیں ۔پاکستان میں ماشاء اللہ نمازیوں کی خاصی تعدادہے۔ایسی جماعتیں بھی ہیں جوگھرگھرجاکرنمازکے لئے کہتی ہیں۔اگرسارے نمازی اورنمازکے لئے کہنے والی جماعتیں برائي کے خلاف کمربستہ ہوجائیں،توہم برائی کے موجودہ سیلاب کے آگے بندباندھنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔محلوں میں گھرگھرجاکرنمازکے لئے کہنے کے ساتھ ساتھ منشیات،پتنگ بازی،شادی بیاہ پراسراف وتبذیرکے خلاف بات کی جائے۔دفتروں میں تصنیع اوقات اورکام سے لاپروائی اوررشوت کے خلاف مہم چلائی جائے۔معاشرہ میں ظلم اورفحاشی کیخلاف آوازاٹھائي جائے،توحالات میں ضرورتبدیلی لائی جاسکتی ہے۔اگرنمازفحاشی اوربرائی سے نہیں روکتی توقرآن پاک کی روسے اس نمازکونمازنہیں کہاجاسکتا۔نمازیوں کی تعدمیں بھی اضافہ ہواورساتھ ہی فحاشی اوربرائی بھی بڑھتی جائےیہ عجیب سی بات ہے۔جودوسرے کوبرائی سے روکے گا،اسے خودبھی برائی چھوڑناہوگی،یہ نہیں کہ جب تک میں بالکل پاک نہ ہوجاؤں،میں برائی سے روکنے کاکام شروع نہیں کرسکتا۔اسی طرح جہادبالسیف میں حصہ لیں گے تواپنی خامیاں بھی دورہوں گی اورمعاشرے سے بھی برائیوں کاخاتمہ ہوگا۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

قیصرانی

لائبریرین
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

یعنی یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر ہم ہی اپنا معاشرہ سدھارنا چاہیں تو کون روک سکتا ہے۔ پر کیتھوں؟ :(
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
واقعی منصور(قیصرانی) بھائی، بات یہ ہے کہ ہرکوئی ڈرتاہے اورکسی کوبھی حوصلہ نہیں ہے کہ وہ یہ کام کرے وہ کہتاہے جس طرح چل رہاہے چلنے دے لیکن کسی نہ کسی کوابتداء کرنی ہے کیونکہ جب تک ہم خودتبدیلی کرنے کے لئے کچھ عملی قدم نہیں اٹھائے گے تومعاشرہ کس طرح سدھرے گا۔ توکسی نہ کسی کوابتداء کرنی ہے توسب سے اچھی بات ہے کہ اپنے سے ابتداء اپنے سے کی جائے ۔ حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی حدیث مبارکہ ہے کہ برائی کودیکھتے ہے توہاتھ سے روکو۔ ہاتھ سے نہیں روک سکتے ہوتوزبان سے کہو۔ اس سے بھی نہیں کہہ سکتے تودل میں براکہویہ ایمان کاکمزورترین مقام ہے۔
توبھائی، ہم نے دراصل قرآن مجیداوراحادیث مبارکہ کوپس پشت ڈال دیاہے اوربس اپناالودیکھتے ہیں کہ کسطرح سیدھاہوتاہے اوربس دوسرے کی پروانہیں ہے ہم نے اس بات کوبالکل ہی فراموش کردیاہے کہ ہم اپنے کام کوکرنے کے لئے ہرناجائزطریقہ کوحق بجانب سمجھتے ہیں جوکہ بگاڑکی بہت بڑی وجہ ہے ۔ توہمیں چاہیے کہ جوبھی غلط کام ہواس کوخودبھی براکہیں بالکل لوگوں میں بھی اس بات کاشعورپیداکریں کہ یہ کام غلط ہے اوراس کی تصحیح کاکام کریں۔ اللہ تعالی اپنے حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے صدقے عمل کرنے کی ہمت عطاء فرمائے (آمین ثم آمین)

اللہ تعالی
لامحدودکوتحریرمیں نہیں کیاجاسکتا،مگراس کے ذکرکےبغیررہابھی نہیں جاسکتا،ہرقلب میں اس کااحساس اورہرروح میں اس کی تڑپ ہوناہی اس کے وجودکاسب سے بڑاثبوت ہے۔
ہردل میں اس کی یادبسی سبحان اللہ ! سبحان اللہ!۔۔۔۔۔۔۔۔ہرروح میں اس کاجلوہ تھاسبحان اللہ! سبحان اللہ! اگرتم درختوں کے قلم بنادئیے جائیں اورساتوں سمندرروشنائی میں تبدیل کردئیے جائیں،توبھی اس لامحدودکی لامحدودباتیں ختم نہ ہوں۔یہ یگانہ ویکتاہستی خودلامحدودہے مگرموجودات کوگھیرے ہوئے ہے۔خودلامکان ہے مگرکوئی جگہ اس سے خالی نہیں۔خودنظرنہیں آتے،مگرہرنظرکوپالیتے ہیں۔خودکہیں نہیں سماتے مگرہرشے کوسمائے ہوئے ہیں،ہر ایک کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہوکراس سے جداہیں۔
سوہناں شاہرگ توں وی قریب وسے۔۔ڈونگاپینڈاہجردانہیں مک دا
وہ ہرایک کادردبھی ہیں اوردرماں بھی۔ ہرایک کی منزل بھی ہیں اورساتھی بھی،ہرایک کے محبوب بھی اورمحب بھی۔یہ یگانہ ویکتاہستی الحق اورقائم بالذات ہے۔وہ ازخودقائم ہے اورباقی سب اس کی وجہ سے قائم ہیں۔(القیوم)وہ ازخودزندہ ہیں،اورباقی سب انکی نسبت سے زندہ ہیں۔(الحیی)اورچونکہ ان کی زندگی اصل زندگی ہے اس لئے انہیں نہ اونگھ آتی ہے ، نہ نینداورنہ وہاں تکان کاگزرہے۔وہ ہردن ایک نئی شان سے جلوہ گرہیں۔اللہ تعالی کی ہستی ہرلحاظ سےبے مثل اوربے مثال ہے۔وہ کسی کے محتاج نہیں'البتہ موجودات کی ہرشے ان کی محتاج ہے۔ جنے جانااورجننا(عمل افزائش نسل)مخلوق کے لئے ہے۔مخلوق اولادکے ذریعہ اپنی تکیمل وبقاء کی جویاہے۔اولادکاتصورہی باپ کے فانی اورنامکمل ہونے سے عبارت ہے۔مگروہ ذات جوازلی ابدی اورہرلحاظ سے مکمل ترین ہے۔اسے کیوں اولادکی حاجت ہولامحدودکی توتعریف ہی یہ ہے کہ نہ اس میں کچھ جمع کیاجاسکتاہے اورنہ اس سے کچھ منہاکیاجاسکتاہے۔سورہ اخلاص میں فرمایا:"کہہ دیں:وہ اللہ ایک ہے 'اللہ بے احتیاج ہے(اورباقی سب اسکے محتاج ہیں)وہ نہ جنتاہے نہ وہ جناگیااورنہ اس جیساکوئی اورہے۔"احدیت،یکتائي اوربے احتیاجی لامحدودیت کے خواص ہیں اوربے پایاں رحمت اس کامزاج۔اس بے پایاں رحمت کاظہوران سے ہرلمحہ وقوع میں آرہاہے اورموجودات کے گوشے گوشے میں اپنااثرپہنچارہاہے۔محبت کاایک بحربیکراں ہے جواس وجودمطلق کے سینہ میں موجزن ہے اوربے پایاں رحمت کایہ سیل رواں اسی اتھاہ محبت کامسلسل اظہارہے۔یہ رحمت ہی تھی جوموجودات کی تخلیق کاباعث بنی۔اسی نے نوع اورہروجودکی جداجداتقدیرمعین کی ۔ہرایک پرترقی کی راہیں کھولیں،مگرہرایک پرصرف اتناہی بوجھ ڈالاجتناوہ اٹھانے کے قابل تھا۔
بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

وسعت رحمت:۔
حق تعالی کی صفت رحمت اس کی باقی صفات پرسبقت رکھتی ہے فرماتاہے کہ :میں نےرحمت کواپنے آپ پرلازم کرلیاہواہے۔نیزیہ کہ میری رحمت ہرچیزکوچھائے ہوئے ہے۔جناب رسول اکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کاارشادگرامی ہے کہ:"حق تعالی کی رحمت کے سوحصوں میں سے ایک حصہ ساری دنیاپرتقسیم کیاگياہے"یعنی دنیاکے اندرجتنی شفقت ورحمت ہے ماؤں کواپنی اولادسے باپوں کوبیٹوں سے بیویوں سے دوستوں کی آپس میں سارے انسانوں کی جوہوچکے ہیں اورجوآنے والے ہیں بلکہ حیوانوں کے ایک دوسرے سےجوباہمی الفت ہے۔وہ بھی اس ساری شفقت ورحمت کوجمع کیاجائے تویہ حق تعالی کی وسعت رحمت کے سوحصوں میں سے ایک بنتی ہے اس سے حق تعالی کی وسعت رحمت کاکچھ اندازہ کیاجاسکتاہے اوررحمت محبت ہی کااظہارہے۔حضرت بوعلی قلندر(رحمۃ اللہ)نے اپنی مثنوی میں حق تعالی کی اپنے بندوں سے محبت کابیان کیاہے۔ تواللہ تعالی کے لطف سے آگاہ نہیں وہ تجھے ہرلحمہ عاشقوں کی طرح دیکھتاہے۔اگرتجھے اس کے عشق کی خبرہوجائے توجان لے کہ وہ تجھ سے زیادہ تیرامشتاق ہے۔اگرتیری محبت کی آنکھ کھل جائے تووہ محبوب خودتیراشیداہوجائے۔وہ جان جہاں تجھ سے بہت نزدیک ہے وہ محبوب تیرے اندرجان کی طرح نہاں ہے۔اے میرے محبوب یہ حجاب تیری طرف سے ہے ورنہ میراوہ محبوب توبے حجاب ہے اگرتجھے وصل محبوب کی مسرت میسرنہیں تواٹھ اورہجرکاماتم کرحریم دوست میں ایک قدم کے فاصلہ پرہے۔اے بوالہویں ! توکب تک غافل رہے گامنزل جاناں تجھ سے ایک گام دورہے باوہ عرفان تیرے جام کے اندرہے ہرلمحہ اس کی یادمیں قدم اٹھاہروقت اس کے عشق کاپیالہ پی دل کی آنکھ کھول اورجمال یاردیکھ ہرطرف ہرسورخ محبوب نظرآئے گا۔روئے یاردیکھنے کے لئے آنکھ چاہیے۔محبوب ہرشے میں جلوہ فگن ہے تیرے محبوب کاچہرہ پوشیدہ نہیں اگرنقص ہے توتیری بصارت میں ہے۔
بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

آب گہر۔
قلب انسان عجیب تحفہ ہے ۔ اسی سے انسان لامحدودذات مطلق کوپاتااوراپناتاہے۔اوراسی سے جملہ فنون لطیفہ اورمختلف تمدن اورتہذیبیں جنم لیتی ہیں۔یہ روح اورنفس کےامتزاج سے پیداہوتاہے۔
شعراء نے حیات کوبحرسے اورقلب کوگوہرسے تشبیہ دی ہے۔غالب فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گہرمیں محوہوا اضطراب دریاکا
اقبال کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گہرمیں آب گہرکے سواکچھ اورنہیں
زبورعجم میں فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
بادل ماچہاکنی!توکہ یہ بادہ حیات
مستی شوق می وہی آب وگل پیالہ را
ترجمہ:آپ نے جب آب وگل پیالہ یعنی ہمارے خاکی بدن کومستی شوق سے نوازاہے،توآپ کی محبت میں ہمارے دل کاکیاحال ہوگا۔
جزنالہ نمی دانم گویندغزل خوانم
این چست کہ چوں شبنم برسینہ من ریزی
ترجمہ:میں آپ کے ہجرمیں سوائے نالہ وفغاں کے اورکچھ نہیں جانتا۔لوگ مجھے غزل خواں کہتے ہیں۔آگے عشق کی ایک کیفیت بیان کی ہے۔فرماتے ہیں۔یہ کیاہے جوآپ شبنم کی مانندمیرے قلب پرنازل فرماتے ہیں۔سکینئہ کی طرف اشارہ ہے۔عشق الہی میں کبھی سمندروں کے جوش واضطراب کی کیفیت پیداہوتی ہے اورکبھی شبنم کاسکون اورٹھنڈک حاصل ہوتی ہے۔
پیام مشرق میں فرماتے ہیں۔
ایں شعردلاویزمی خوانم ومی رقصم
ازعشق دل آسایدباایں ہمہ بے تابی
ترجمہ:میں یہ شعردلاویزگاتااوررقص کرتاہوں کہ عشق کی ساری بیتابی کے باوجوداس سے دل سکون پاتاہے۔
من اگرچہ تیرہ خاکم،دلکے ست برگ وسازم
بنظارہ جمالے چوستادہ دیدہ بازم
ترجمہ:اگرمیرابدن تاریک خاک سے بناہواہے،لیکن میرااصل سرمایہ میرادل ہے،اس کی مددسے ہمیشہ اللہ تعالی کے جمال کانظارہ کرتاہوں۔میرے دل کی آنکھ ستارے کی مانندہمیشہ کھلی رہتی ہے۔
نشیمن ہردورا آب وگل ، لیکن چہ رازاست ایں
خردراصحبت گل خوشترآید، دل کم آمیزاست
ترجمہ:عقل ودل دونوں کانشیمن خاکی بدن ہے مگریہ عجیب رازہے کہ عقل کومٹی کی صبحت پسندآتی ہے اوردل جہاں آب وگل سے دوراورعشق الہی میں مخموررہتاہے۔
عرش کاہے کبھی کعبے کادھوکااس پر
کس کی منزل ہے الہی! میراکاشانہ دل
ہمہ پارہ ولم رازسروراونصیبے
غم خودچساں نہادی بہ دل ہزارپارہ
ترجمہ:آپ نے میرے دل ہزارپارہ میں اس طرح سے اپنے غم سمودیاہے کہ اس کے ہرٹکڑے میں محبت کاسرورموجزن ہے۔

بشکریہ نوائے وقت نوبصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
عزت و وقار۔
عزت و وقارکااحساس بہت سی برائیوں سے بچاتاہے۔اگریہ احساس باقی نہ رہے توانسان کوذلیل سے ذلیل حرکت کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔اس کی ایک مثال ہماری آج کی پولیس ہے اچھے بھلے پولیس آفیسربھی بات یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ لوگ ہمیں بہت ذلیل سمجھتے ہیں۔موجودہ دورمیں یہ جوساری دنیامیں اخلاقی زوال نظرآتاہے اس کاایک سبب بعض یورپی مفکرین کے مشہورنظریات ہیں جوپڑھے ہوؤں اوران پڑھوں سب میں آہستہ آہستہ نامعلوم طورپرسرایت کرچکے ہیں۔مثلایہ کہ انسان حیوان محض ہے چنانچہ لوگوں نے حیوانوں ہی کاساطرزعمل اختیارکرلیاہے۔پھرانہیں بطورسائنسی سچائی کے یہ بتایاگیاہے کہ اپنی حیوانی جبلتوں کودبانے سے طرح طرح کی ذہنی بیماریاں پیداہوتی ہیں۔نتجہ یہ ہواکہ لوگوں نے ہوس کاری اورلالچ وغیرہ کواچھی چیزسمجھ لیاہے اوران میں کھل کھیلے ہیں۔ بلکہ ان پرفخرکرتے ہیں مغربی تہذیب نے انسان کوسہولتیں توبہت دی ہیں۔مگراندرسے انہیں حیوان بنادیاہے۔اسلام نے آدم کی اولادکوبہت عزت دی اللہ تعالی نے اس کے خالی بدن کےاندراپنی روح میں سے روح پھونک کراسے کیاسے کیابنادیا۔اسے اشیائے کائنات کے نام سکھائےیعنی اس میں ان کی ماہیت جاننے اوراستعمال کرنے کی صلاحیت رکھی کائناتکی ساری قوتوں کواس کے لئے مسخرکردیاوہ ان قوتوں کودریافت کرسکتااوراپنے استعمال میں لاسکتاہے۔بلکہ ایساکرنااس کے فرائض میں داخل ہے فرشتوں کوحکم دیاکہ اسے سجدہ کریں کتنی عزت افزائی ہے۔لیکن نائب وہی ہے جواپنے آقاکوسمجھے اس کاعرفان حاصل کرے۔اس کارنگ اپنائے اس کے منشائے مبارک کواولیت دے اوراسے روئےزمین پرنافذکرنے کی کوشش کرے۔چنانچہ اس مقصدکے لئے انسان کوقلب جیساانمول اورنادرتحفہ عنایت فرمایا۔جوانسان کی حیوانی جبلت اوراللہ تعالی کی روح میں سے پھونکی ہوئی روح کے امتزاج سے وجودمیں آیاہے یہ چیزنہ فرشتوں کوحاصل ہے نہ جنات کواس میں فکربلنداورگہری محبت دونوں کی صلاحیت رکھ دی اسی کے سبب انسانی معاشروں نے اتنی تہذیبیں پیداکیں آرٹ کےکمالات اورسائنس کی دریافتیں اسی کی مرہون منت ہیں اسی کے سبب تیس چالیس برس میں انسان کہاں سے کہاں پہنچ جاتاہے۔لیکن قلب کااصل مقصدیہ ہےکہ وہ اپنے فکربلندسے اللہ تعالی کی صفات عالیہ کاادراک حاصل کرے اورگہری محبت سے اللہ کی صفات کواپنائے اللہ تعالی کی معرفت حاصل کرکے پھراللہ تعالی کارنگ اپنائے اوراس رنگ کودنیامیں پھیلائے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ موجودہ انسان کواس کے مرتبہ اورشرف کااحساس دلایاجائے تاکہ وہ اپنے طرزعمل میں شرافت اوروقارپیداکرے اوردنیابھیڑیوں کےبھٹ کی بجائے جنت کی نظیربن جائے یہ کام مسلمان کرسکتے ہیں ۔ بشرطیکہ پہلے وہ اپنے اندرتبدیلی لائیں اپنی سوچ اوراپناطرزعمل بدلیں۔بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

قیصرانی

لائبریرین
جزاک اللہ جاوید بھائی، بہت اچھا اور معلوماتی مضمون ہے۔ آج کل کے حساب سے بہت عمومی اور عام فہم بات بتائی گئی ہے کہ ہمارے رویے کیوں‌ برے ہوتے جا رہے ہیں :cry:
 

عاصم ملک

محفلین
سبحان اللہ جاوید بھائی بہت اچھی شیرنگ کی ہے،اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری ذات میں خوشگوار اسلامی تبدیلیاں پیدا کر دے تانکہ ہم اللہ کے محبوب بندوں میں شامل ہو جائیں ،اللہ آپکو خوش رکھے‌(آمین)
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
اللہ تعالی سب کی زندگی کوخوشیوں سے بھردے(آمین ثم آمین)
واقعی میں دل ہی وہ چیزہے جس سے ہمارے رویے اورسب اعمال وغیرہ ٹھیک ہوتے ہیں۔
بہت بہت شکریہ منصور(قیصرانی) بھائی، اورعاصم بھائی، اللہ جزادے(آمین ثم آمین)

شکرگزاری(1)
بعض لوگ زندگی کواپنے لئے بوجھ اوردوسروں کے لئے مصیبت بنائے رکھتے ہیں۔اس بیماری کاعلاج شکرگزاری ہے۔اللہ تعالی کے ہم پراتنے احسانات ہیں کہ اگردنیاکے سارے درختوں کے قلم بنالئے جائیں اورسات سمندرسیاہی میں تبدیل ہوجائیں توبھی اللہ تعالی کے احسانات کاتذکرہ ختم نہ ہو۔ہماری بقاء کے لئےہرقسم کی غذامہیافرمائی۔زمین میں اجناس اورپھل اگانے کی صلاحیت رکھی۔آسمان سے پانی اتارا۔زمین کے اندرسے پانی کے چشمے جاری کردئیے۔ پانی میں یہ تاثیررکھی کہ اس کی برکت سے مٹی کے اندرسے سبزہ اورسبزیاں اورپھل اوراجناس پیداہوتے ہیں۔سورج کی شعا‏عوں میں یہ قوت رکھی کہ وہ انہیں بڑھاتی اورپکاتی ہیں۔جوکچھ ہم کھاتے ہیں اسی کے دئیے ہوئے میں سے کھاتے ہیں۔اس کاجتناشکربجالائیں کمہے۔
پانی بھی کیاچیزبنادی۔دوہواؤں کامرکت ہے،مگران سے مختلف اورتاثیرمیں زندگی بخش۔پی لوپیاس بجھ جائے۔نہالوتوتازہ دم ہوجاؤ۔بدن کے کپڑے دھولو،توغلاظت ختم۔کھیتوں اورباغوں کوسیراب کرلوتوغذاپالو۔پھراسے عام کردیا۔دریابہادئیے۔چشمے نکالے۔بارش سے پانی برسایا۔زمین کے اندرپانی رکھ دیا۔ذراکھودواورمیٹھے پانی کاکبھی نہ ختم ہونے والاذخیرہ پالو۔
سانس لینے پرزندگی موقوف ہے اورہردم سانس لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ہواکوعام کردیا۔جہاں جائیں پاکیزہ ہواموجودہے یہ الگ بات ہے کہ ہم نے ترقی کرکے ہواکوآلودہ اورپانی کوغلیظ کردیاہے۔یہی نہیں بلکہ اجناس کوبھی زہریلی کھادوں سے زہرناک بنالیاہے۔اللہ تعالی نے انسان کے لئے یہ کائنات تخلیق فرمائی،جس میں ہرطرف حسن ہی حسن ہے۔ہرانسان اس کے حسین آغوش میں آنکھ کھولتاہے۔اس کے شفقت آمیزماحول میں اپنی صلاحیتوں کاچمکاتااورپروان چڑھاتاہے اورپھریہیں اپنی قوتوں کابروئے کارلاکراپنی شخصیت کی تکمیل کرتاہے۔اس کے لئے دن ہنگامہ آرائیوں کاپیغام لاتے ہیں اورراتیں سکون آفرینیوں کا۔ہرروزایک سجیلی اورحسین صبح اس کے خیرمقدم کے لئے موجودرہتی ہے۔ ہرچاشت اسے دعوت عمل دیتی ہے۔ہردوپہراسے ترقی کے نصف النہارکی طرف بلاتی ہے۔ہرشام اپنی تمام رنگینیوں کے ساتھ اسے رخصت کرنے آتی ہے تاکہ وہ رات کوآرام کرکے اگلی صبح کے لئے تیارہوجائے۔انسان باہرنکلتاہے توپھول اس کے لئے جنت نگاہ بنتے ہیں درخت اس کے لئے سایہ مہیاکرتے ہیں۔پودے اسےپھل پیش کرتے ہیں۔حیوانات سواری کے لئے حاضرہوجاتے ہیں۔بلندپہاڑاس کی تعظیم کے لئے اٹنشن کھڑے ہوتے ہیں۔
بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

شکرگزاری(2)​

[align=justify:aaa7a8dec7]قرآن پاک میں ارشادہے کہ انسان اپنی پیدائش ہی پرغورکرے۔موجودہ طریق تولیدنہایت معیاری طریق ہے۔اس سے ایسی اولادپیداہوتی ہے،جواپنے والدین سے بھی مختلف ہوتی اورآپس میں بھی مختلف ہوتی ہے۔نیزاولادمیں اپنے والدین کے خصائص آگے لے جانے کے زیادہ موقع ہوتے ہیں۔ہمیں افزائش نسل کےموجودہ جنسی طریق کارکاشکرگزارہوناچاہیے کہ اس نے آباء واجدادکی دومختلف سمتوں کے خصائص سے مختلف ٹکڑے اکٹھے کئے اورانہیں ایک نئے وجودمیں جمع کردیا۔اگرانسانوں میں"ایموبا"ہی کے طریق کے مطابق اضافہ ہوتاتوہرشخص اپنی والدہ کی ہوبہونقل ہوتااورسب لوگ تقریباایک جیسے ہوتے۔اس صورت میں ہم اپنی موجودہ شاندارارہدنی ترقی کے علاوہ تنوع سے بھی محروم رہ جاتے جوکارخانہ حیات کی جان ہے۔مگرحق تعالی نے بکمال رحمت وشفقت انسان کوقسم قسم کاپیداکیا۔(سورہ 71 آیہ14)۔اب ہرنئے بچے کے لئے اپنے پیچھےماں اورباپ دونوں کی جانب سے وراثت کے طویل سلسلے رکھنےکے باعث ترقی کے لامحدودامکانات موجودہیں اوران سے فائدہ اٹھانایانہ اٹھانااس کےاپنے اختیارمیں ہے۔
انسانی بدن حیرت انگیزکمال کانمونہ ہے۔یہ اعلی درجہ کی آٹومیٹک مشین ہے،جسکی چھوٹی موٹی مرمت بھی خودبخودہوتی جاتی ہے۔ہم انسانی جسم کواعلی منتظم مثالی معاشرہ سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔اس کی بنیادیں اورستون ہڈیوں کاپنجرہے۔جس پرباقی سب کچھ تعمیرکیاگياہے اس ڈھانچے کےاندرمختلف خاندان یاگروہ ہیں ،جوسارے بدن کے مشترکہ مفادکے لئے ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ان میں بڑے بڑے گروہ حسب ذیل ہیں۔
1-خوراک ہضم کرنے اورفضلہ خارج کرنے کانظام
2- سانس لینے کانظام
3- گردش خون کانظام
4- اعصابی نظام
5- غدودی نظام
6- ا‌فزائش نسل کانظام
ہمارے جسم اوربیرونی دنیامیں بہت مشابہت ہے۔قدیم صوفیاانسان کوعالم اصغراورکائنات کوعالم اکبرکہتے ہیں۔جس طرح دنیامیں بڑے بڑے طاقتورمماک بھی ہیں اورچھوٹے چھوٹے کمزورممالک بھی۔اسی طرح جسم میں دل پھیپھڑے اوردماغ بڑی طاقتیں ہیں اورجس طرح دنیامیں اگرکوئی ملک برے حالات سے دوچارہوجائے،تواس کااثردوسرے ممالک پرپڑتاہے،اسی طرح اگرکوئي عضوبیمارہوجائے تواس سے سارابدن متاثرہوئے بغیرنہیں رہ سکتا۔مگرایسے اچانک حالات سے نبٹنے کے لئے قدرت کے بہت سے دانشمندانہ انتظامات کررکھے ہیں۔[/align:aaa7a8dec7]

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت


والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

جرائم سے پاک معاشرہ


معاشرہ کے ہرفردپرسپاہی تومقررکیانہیں جاسکتاکہ وہ اسے جرائم سے بازرکھے اوراگرایساکیابھی جاسکتاہو،تواس کی کیاگارنٹی ہے کہ وہ سپاہی جرائم میں اس کاساتھی نہ بن جائے گا۔جرائم کاسدباب اسی صورت میں ممکن ہے جب ہرفردکےاندرجرائم کنٹرول بٹن موجودہو۔دوسرے،معاشرہ بحیثیت مجموعی جرائم کونفرت کی نگاہ سے دیکھے اورہمہ وقت ان کے خلاف کوشاں رہے۔
قرآن پاک تقوی کومقصودحیات قراردیتاہے۔سورہ البقرہ میں فرمایا:اے لوگو!اپنے رب کی عبادت کرو،جس نے تمہیں اورتم سے پہلوں کوپیداکیا،تاکہ تمہارے اندرتقوی پیداہو۔(سورہ بقرہ)گویاتقوی عبادت کامقصودہے۔روزوں کے رکوع کے آغازمیں فرمایاکہ رمضان المبارک کے مہینے کے روزے رکھوتاکہ تمہارے اندرتقوی پیداہو۔حج کے بارہ میں فرمایاکہ زادرہ لے لیاکرواوربہترین زادراہ تقوی ہے۔نیزفرمایاکہ تقوی کالباس بہترین لباس ہے۔ایک حدیث شریف کے مطابق جب بندہ کواس کی نیکی اچھی لگی اوربرائی بری لگے،تب وہ ایمان کی حلاوت سے لطف اندوزہوتاہے۔دوسرے الفاظ میں تقوی یہ ہےکہ انسان کےاندرنیکی کاذوق پیداہوجائے۔اسے برائی سے طبعانفرت ہوجائے۔یہی وہ صورت ہے جب کہ اپنے اندربرائی کے خلاف کنٹرول پیداہوجاتاہے اوریہ چیزایمان اورتعلق بااللہ کاثمرہ ہے۔قیامت کے روزحساب کتاب کاخوق بھی جرائم کے خلاف روک ثابت ہوسکتاہے۔قرآن پاک نیکی کومعروف اوربدی کومنکرکہتاہے۔(یعنی نیکی وہ جسے سب پہچانتے ہیں اوربدی وہ جسے سب ناپسندکرتے ہیں)اورہرمسلمان کوحکم دیتاہے کہ وہ تازیست نیکی کاحکم دیتارہے اوربرائي سے روکتارہے۔یہ بھی ارشادہے کہ تم میں سے ایک ایساگروہ ہو،جویہ کام سرانجام دے۔گویاعوام انفرادی لحاظ ہی سے نہیں بلکہ اجتماعی طورپربھی یعنی پرائیویٹ اداروں کے ذریعہ بھی یہ کام سرانجام دیں۔سورہ ھودکے آخرمیں فرمایاکہ جب کسی قوم پرعذاب آتاہے توصرف وہی لوگ بچتے ہیں جوآخری دم تک برائي کے خلاف جہدوجہدجاری رکھتے ہیں۔سورہ الاعراف میں یہودکی بستی کاذکرہے جس پرعذاب آیااوروہی لوگ اس عذاب سے بچے جوبرائی سے روکتے تھے۔جولوگ صرف خودبرائی سےبچتے تھے ان کے بچائے جانے کاذکرنہیں۔حدیث شریف کے مطابق کسی بستی کوتباہ کردینے کاحکم صادرہوا۔جبریل امین نے عرض کیاکہ اس میں فلاں شخص بھی ہے جو بہت عبادت گزارہے اورجس نے کبھی آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی۔حکم ہوااسے بھی ساتھ ہی چلتاکروکیونکہ اس کے سامنے ہمارے احکامات کی خلاف ورزی ہوتی ہے،مگراس کی پیشانی پرشکن تک نہیں پڑتی۔گویاجوشخص برائي کے خلاف نفرت بھی نہیں رکھتاوہ ایمان سے خالی ہے۔

بشکریہ نوائے وقت نور بصیرت


والسلام
جاویداقبال
 

قیصرانی

لائبریرین
جزاک اللہ جاوید بھائی، واقعی، جو برے کام کو ہوتا دیکھے اور نہ روکے وہ بھی شامل ہی سمجھا جائے گا :(
 
Top