جوش نقشِ خیال دل سے مٹایا نہیں ہنوز ۔ جوش ملیح آبادی

فرخ منظور

لائبریرین
نقشِ خیال دل سے مٹایا نہیں ہنوز
بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز
تیری ہی زلفِ ناز کا اب تک اسیر ہوں
یعنی کسی کے دامِ میں آیا نہیں ہنوز
یادش بخیر جس پہ کبھی تھی تری نظر
وہ دل کسی سے میں نے لگایا نہیں ہنوز
محرابِ جاں میں تونے جلایا تھا خود جسے
سینے کا وہ چراغ بجھایا نہیں ہنوز
بے ہوش ہو کے جلد تجھے ہوش آگیا
میں بد نصیب ہوش میں آیا نہیں ہنوز
تو کاروبارِ شوق میں تنہا نہیں رہا
میرا کسی نے ہاتھ بٹایا نہیں ہنوز
گردن کو آج بھی تری بانہوں کی یاد ہے
یہ منتوں کا طوق بڑھایا نہیں ہنوز
مرکر بھی آئے گی یہ صدا قبرِ جوشؔ سے
بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز
(جوش ملیح آبادی)
یہی غزل مہدی حسن کی آواز میں سنیے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا خوبصورت غزل ہے۔ ایسا لگا میرے ہی دل کا حال بیان ہو رہا ہے :)

شکریہ فرخ صاحب ارسال فرمانے کیلیے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
کیا خوبصورت غزل ہے۔ ایسا لگا میرے ہی دل کا حال بیان ہو رہا ہے :)

شکریہ فرخ صاحب ارسال فرمانے کیلیے۔

بہت نوازش
؎نقش کو اس کے مصوّر پر بھی کیا کیا ناز ہیں
کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے​
(غالب)​
 

سید زبیر

محفلین
مرکر بھی آئے گی یہ صدا قبرِ جوشؔ سے
بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز
بہت خوب ۔۔۔۔ لاجواب پسند
 

محمد وارث

لائبریرین
اس کے تین مزید اشعار

وہ سر جو تیری راہ گزر میں تھا سجدہ ریز
میں نے کسی قدم پہ جھکایا نہیں ہنوز

اُس پیکِ خاص کو جسے ٹُکھرا چکا ہے تُو
اپنی نظر سے میں نے گرایا نہیں ہنوز

دُنیا نے تجھ کو خوابِ گراں سے جگا دیا
لیکن مجھے کسی نے جگایا نہیں ہنوز
 
Top