محمدابوعبداللہ
محفلین
محترم اساتذہ سے اصلاح کی درخواست
بر وزن مفاعلاتن مفاعلاتن
وہ بچپنا بھی عجیب گزرا
نہ دور کوئی قریب گزرا
گماں میں کوئی رقیب گزرا
نہ دل میں کوئی حبیب گزرا
مزے مزے سے سکول جانا
یوں علم حاصل حصول جانا
خوشی سے پہلے قبول جانا
اخیر قدموں کا پھول جانا
یہاں سے ہم نے اصول جانا
لڑائی جھگڑا فضول جانا
تو دوستی کو یوں طول جانا
اسی میں سب درس بھول جانا
تھا شخص پھر اک سفر میں آیا
دھنک جو بن کر سماں میں چھایا
نظر نظر میں ہی دل کو بھایا
سبھی کو پایا اسے جو پایا
چمن میں پھر یوں بہار ہوئی
خزاں کی گلشن میں ہار ہوئی
نسیم آ مشک بار ہوئی
نثار بلبل ہزار ہوئی
سماں میں رنگیں تھا نور چھایا
زمیں پہ ہر سو سرور چھایا
چمن کو جس نے بہار بخشی
تھی ہجر کو جس نے دار بخشی
خزاں کو جس نے تھی ہار بخشی
تو اوس کو بھی پھوار بخشی
ہوا ہے کیا پھر نہ جانے اس کو
بھگایا سب کو منانے اس کو
اسے جہاں میں کہیں نہ پایا
کہا جہاں تھا وہیں نہ پایا
عجیب دلبر وہ آدمی تھا
قریب دلبر وہ آدمی تھا
عجیب دلبر وہ آدمی تھا
حبیب دلبر وہ آدمی تھا
=============
وہ ہم کو جب جب بھی یاد آنا
گلی وہ بستی میں تیری جانا
اداس راتوں میں بلبلانا
وہ ہجر میں کیسےتلملانا
تری جدائی میں یوں تڑپنا
ادھر کو تکنا ادھر کو تکنا
لپک لپک کر کبھی دبکنا
جھپک جھپک کر کبھی چھلکنا
کبھی تو دل کا بھی ڈوب جانا
کبھی جگر کا ہی منہ کو آنا
نظر کا ماضی میں گھوم جانا
وہ دل ہی دل میں تھا جھوم جانا
ترا جو محفل میں آ سمانا
تھا شب سیہ میں قمر کا آنا
وہ چھت پہ آ کر جو مسکرانا
تھا گل میں تاروں کا ٹمٹمانا
یہ دوریاں اب حضور جاناں
نظر نظر میں فتور جاناں
نہیں کسی کا قصور جاناں
تو اس میں کچھ ہے ضرور جاناں
جو لطف ہم پہ رعایتیں تھیں
قدم قدم پہ عنایتیں تھیں
وہ ورد تھا جو مناجتیں تھیں
محبتوں کی علامتیں تھیں
ہمارے دل کو نہ یوں جلاؤ
غموں کو ایسے نہ گد گداؤ
نہ چھوڑ ہم کو اداس جاؤ
کبھی پلٹ کر تو پاس آؤ
قصور نکلا تو چھوڑ جانا
وعید وعدوں کو توڑ جانا
بر وزن مفاعلاتن مفاعلاتن
وہ بچپنا بھی عجیب گزرا
نہ دور کوئی قریب گزرا
گماں میں کوئی رقیب گزرا
نہ دل میں کوئی حبیب گزرا
مزے مزے سے سکول جانا
یوں علم حاصل حصول جانا
خوشی سے پہلے قبول جانا
اخیر قدموں کا پھول جانا
یہاں سے ہم نے اصول جانا
لڑائی جھگڑا فضول جانا
تو دوستی کو یوں طول جانا
اسی میں سب درس بھول جانا
تھا شخص پھر اک سفر میں آیا
دھنک جو بن کر سماں میں چھایا
نظر نظر میں ہی دل کو بھایا
سبھی کو پایا اسے جو پایا
چمن میں پھر یوں بہار ہوئی
خزاں کی گلشن میں ہار ہوئی
نسیم آ مشک بار ہوئی
نثار بلبل ہزار ہوئی
سماں میں رنگیں تھا نور چھایا
زمیں پہ ہر سو سرور چھایا
چمن کو جس نے بہار بخشی
تھی ہجر کو جس نے دار بخشی
خزاں کو جس نے تھی ہار بخشی
تو اوس کو بھی پھوار بخشی
ہوا ہے کیا پھر نہ جانے اس کو
بھگایا سب کو منانے اس کو
اسے جہاں میں کہیں نہ پایا
کہا جہاں تھا وہیں نہ پایا
عجیب دلبر وہ آدمی تھا
قریب دلبر وہ آدمی تھا
عجیب دلبر وہ آدمی تھا
حبیب دلبر وہ آدمی تھا
=============
وہ ہم کو جب جب بھی یاد آنا
گلی وہ بستی میں تیری جانا
اداس راتوں میں بلبلانا
وہ ہجر میں کیسےتلملانا
تری جدائی میں یوں تڑپنا
ادھر کو تکنا ادھر کو تکنا
لپک لپک کر کبھی دبکنا
جھپک جھپک کر کبھی چھلکنا
کبھی تو دل کا بھی ڈوب جانا
کبھی جگر کا ہی منہ کو آنا
نظر کا ماضی میں گھوم جانا
وہ دل ہی دل میں تھا جھوم جانا
ترا جو محفل میں آ سمانا
تھا شب سیہ میں قمر کا آنا
وہ چھت پہ آ کر جو مسکرانا
تھا گل میں تاروں کا ٹمٹمانا
یہ دوریاں اب حضور جاناں
نظر نظر میں فتور جاناں
نہیں کسی کا قصور جاناں
تو اس میں کچھ ہے ضرور جاناں
جو لطف ہم پہ رعایتیں تھیں
قدم قدم پہ عنایتیں تھیں
وہ ورد تھا جو مناجتیں تھیں
محبتوں کی علامتیں تھیں
ہمارے دل کو نہ یوں جلاؤ
غموں کو ایسے نہ گد گداؤ
نہ چھوڑ ہم کو اداس جاؤ
کبھی پلٹ کر تو پاس آؤ
قصور نکلا تو چھوڑ جانا
وعید وعدوں کو توڑ جانا