ناشناس ۔ پشتو، فارسی اور اردو کا لاجواب گائیک

جیہ

لائبریرین
شمشاد بھائی نے ناشناس کے بارے ہیں پوچھا ہے۔۔۔ مختصر تعارف حاضر ہے

ڈاکٹر محمد صادق فطرت ناشناس

زب۔اں پ۔ہ ب۔ارِ خدای۔ا! ی۔ہ ک۔س ک۔ا ن۔ام آی۔۔ا
کہ میرے نطق نے بوسے مر ی زباں کے لئے

ڈاکٹر ناشناس افغانستان کے شہر قندہار سے تعلق رکھتے ہیں۔ نام محمد صادق فطرت تخلص اور پشتو ادبیات میں PhD ڈاکٹر ہیں۔ ناشناس ( شروع میں ان کی قدر نہ ہوئی تو ناشناس کا نام اختیار کیا جس کا مطلب ہے : “ جسے جانا نہ گیا ہو“ ) کے نام سے پشتو، دری (فارسی) اور اردو میں گاتے ہیں اور کیا خوب گاتے ہیں۔ اقبال کا کلام بہت گایا ہے۔۔۔ گلزار ِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ۔۔۔ یہ غزل پاکستان ٹی وی پر اکثر نشر ہوتی رہتی ہے ناشاناس کی گائی ہوئی۔

گانے میں انڈین گلوکار کے۔ایل سہگل اور مکیش سے متاثر ہیں اور ان کے گائے ہوئے گیت اکثر گاتے رہتے ہیں۔ مگر ان کی کوپی نہیں کرتے ۔ اپنے انداز اور سٹائل کے مالک ہیں۔

آج کل امریکہ میں ہیں اور وہاں شاید ان کی رہائش کیلیفورنیا میں ہے۔ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ مل کر لائیو کنسرٹ کرتے ہیں ۔
ناشناس کے گانے مجھے بہت پسند ہیں ۔ میرے پاس تقریبا سارے گانے ہیں موجود ہیں ان کے گائے ہوئے۔

ان کے گانے اس ربط پر دستیاب ہیں جن کو ڈاؤنلوڈ بھی کیا جاسکتا ہے
 
جواب

شعیب منصور نےاقبال کی کچھ غزلیں ناشناس کی آواز میں ریکارڈ کی ہیں۔ میرا خیال ہے اقبال کو آج تک کسی نے اتنا اچھا نہیں گایا جتنا کہ ناشناس نے گایا ہے۔ ان کی گائی ہوئی اس غزل کا ربط اگر کسی کو معلوم ہو

گلزار و ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
 

نبیل

تکنیکی معاون
جب میں نے یہاں ناشناس کا نام پڑھا تو مجھے شبہ ہوا کہ میں نے ان کی گائیکی سن رکھی ہے۔ آج میں نے اس کی تصدیق بھی کروا لی ہے۔ پاکستان میں ہمارے گھر میں پرانے گراموفون والے ریکارڈز کی صورت میں ناشناس کی بھی کچھ فارسی اور اردو غزلیں موجود ہیں۔ مجھے ناشناس کی گائی ہوئی بیدل کی ایک فارسی غزل بہت پسند رہی ہے۔ اس کا مطلب مجھے بعد میں ہی پتا چلا تھا۔ اس غزل کا اس وقت ایک ہی شعر مجھے یاد آ رہا ہے؛

ما را بغمزہ کشت و قضا را بہانہ ساز
(اس نے) مجھے غمزے سے قتل کیا اور قضا کو اس کا قصور وار ٹھہرایا
خود سوئے ما ندیدہ و حیا را بہانہ ساز
(اس نے) خود سے میری جانب نہیں دیکھا اور حیا کا بہانہ کر دیا
 

جیہ

لائبریرین
اقبال کی غزل ناشناس کی مدھر آواز میں اردو متن اور انگریزی ترجمے کے سارھ

شعیب منصور نےاقبال کی کچھ غزلیں ناشناس کی آواز میں ریکارڈ کی ہیں۔ میرا خیال ہے اقبال کو آج تک کسی نے اتنا اچھا نہیں گایا جتنا کہ ناشناس نے گایا ہے۔ ان کی گائی ہوئی اس غزل کا ربط اگر کسی کو معلوم ہو

گلزار و ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ

یہ لیجئے

[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=CL8jjlMk5bI[/youtube]
 

ابوشامل

محفلین
اچھا ۔۔۔ مجھے ایک واقعہ کا پتہ چلا ہے، درست ہے یا نہیں اس بارے میں نہیں جانتا۔
کہا جاتا ہے کہ ناشناس کے والد بڑے سخت مزاج تھے، اور وہ ناشناس کے گلوکاری کی جانب رحجان سے سخت نالاں تھے۔ جب انہوں نے باقاعدہ گلوکاری کا آغاز کیا تو والد سے بچنے کے لیے اصل نام کی جگہ ناشناس استعمال کیا۔ بہت مشہور ہوئے۔ جب ناشناس کی شادی کا وقت آیا تو دوستوں یاروں نے کہا کہ تقریب میں موسیقی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ والد صاحب نے ڈانٹتے ہوئے انکار کر دیا اور پھر کچھ ٹھیر کر بولے "اگر کسی کو بلانا ہی ہے ناشناس کو بلا لو، بہت خوب گاتا ہے" :)
ویسے یہ پوسٹ بہت عرصے بعد سامنے آئی ہے، ساڑھے تین سال بعد ۔۔۔۔
 

جیہ

لائبریرین
فہد بھائی میں نے ناشناس نام کی وجہ لکھی تھی کچھ اس طرح ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
نام محمد صادق فطرت تخلص اور پشتو ادبیات میں phd ڈاکٹر ہیں۔ ناشناس ( شروع میں ان کی قدر نہ ہوئی تو ناشناس کا نام اختیار کیا جس کا مطلب ہے : “ جسے جانا نہ گیا ہو“ )

اور یہ غزل مجھے آج ہی ملی تو پوست کردی۔۔۔۔ ساڑھے تین سال بعد :)
 

ابوشامل

محفلین
فہد بھائی میں نے ناشناس نام کی وجہ لکھی تھی کچھ اس طرح ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

اور یہ غزل مجھے آج ہی ملی تو پوست کردی۔۔۔۔ ساڑھے تین سال بعد :)
دو سال قبل اقبال اکادمی کی سی ڈیز کا سیٹ ملا تھا، اس میں کلام اقبال پر مختلف گلوکاروں کی طبع آزمائیاں موجود ہیں لیکن یقین جانیے جیسا ناشناس نے "گلزار ہست بود نہ بیگانہ وار دیکھ" گایا ہے ویسا کسی نے نہیں گایا۔ میں خاص طور پر اس شعر پر اس کی گلوکاری کی صلاحیت کو مان گیا "مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں - تو میرا شوق دیکھ میرا انتظار دیکھ"
 

ابوشامل

محفلین
شعیب منصور نےاقبال کی کچھ غزلیں ناشناس کی آواز میں ریکارڈ کی ہیں۔ میرا خیال ہے اقبال کو آج تک کسی نے اتنا اچھا نہیں گایا جتنا کہ ناشناس نے گایا ہے۔ ان کی گائی ہوئی اس غزل کا ربط اگر کسی کو معلوم ہو

گلزار و ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
ایسا ٹیلنٹ تلاش کرنا تو کوئی شعیب منصور سے سیکھے۔ میرے خیال میں ناشناس افغان جنگ کے ایام میں لاکھوں مہاجرین کی طرح پاکستان آ گئے تھے، "گلزار ہست و بود" بھی اسی زمانے میں گائی گئی ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر شعیب منصور ان سے یہ شاہکار کلام نہ گواتے تو شاید وہ یوں ہی پاکستان سے لوٹ جاتے۔
 

جیہ

لائبریرین
واقعی ناشناس کی بات ہی کچھ اور ہے۔ خاص کر پشتو گائکی تو لاجواب ہے۔ میرے آل ٹائم فیورٹ گلوکار ہیں۔
میں نے جو غزل یہاں پوسٹ کی ہے وہ پی ٹی وی پر ریکارڈ شدہ ہے۔ مگر اوریجنل غزل جو میرے پاس آڈیو کیسٹ میں ہے، وہ اس سے بھی بہتر گایا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
جویریہ بہن، اگر آپ کسی طرح ان آڈیو کیسٹس کو ڈیجیٹائز کرکے یوٹیوب پر اپلوڈ کر دیں تو ہم سب بھی ان سے مستفید ہو جائیں گے۔
 

زین

لائبریرین
بہت شکریہ ، جیہ بہنا
ناشناس میرے بھی پسندیدہ ہیں۔
اچھا ۔۔۔ مجھے ایک واقعہ کا پتہ چلا ہے، درست ہے یا نہیں اس بارے میں نہیں جانتا۔
کہا جاتا ہے کہ ناشناس کے والد بڑے سخت مزاج تھے، اور وہ ناشناس کے گلوکاری کی جانب رحجان سے سخت نالاں تھے۔ جب انہوں نے باقاعدہ گلوکاری کا آغاز کیا تو والد سے بچنے کے لیے اصل نام کی جگہ ناشناس استعمال کیا۔ بہت مشہور ہوئے۔ جب ناشناس کی شادی کا وقت آیا تو دوستوں یاروں نے کہا کہ تقریب میں موسیقی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ والد صاحب نے ڈانٹتے ہوئے انکار کر دیا اور پھر کچھ ٹھیر کر بولے "اگر کسی کو بلانا ہی ہے ناشناس کو بلا لو، بہت خوب گاتا ہے" :)
ویسے یہ پوسٹ بہت عرصے بعد سامنے آئی ہے، ساڑھے تین سال بعد ۔۔۔۔


میں نے بھی یہی سنا ہے :)
 
یاحیرت

جب میں نے یہاں ناشناس کا نام پڑھا تو مجھے شبہ ہوا کہ میں نے ان کی گائیکی سن رکھی ہے۔ آج میں نے اس کی تصدیق بھی کروا لی ہے۔ پاکستان میں ہمارے گھر میں پرانے گراموفون والے ریکارڈز کی صورت میں ناشناس کی بھی کچھ فارسی اور اردو غزلیں موجود ہیں۔ مجھے ناشناس کی گائی ہوئی بیدل کی ایک فارسی غزل بہت پسند رہی ہے۔ اس کا مطلب مجھے بعد میں ہی پتا چلا تھا۔ اس غزل کا اس وقت ایک ہی شعر مجھے یاد آ رہا ہے؛

ما را بغمزہ کشت و قضا را بہانہ ساز
(اس نے) مجھے غمزے سے قتل کیا اور قضا کو اس کا قصور وار ٹھہرایا
خود سوئے ما ندیدہ و حیا را بہانہ ساز
(اس نے) خود سے میری جانب نہیں دیکھا اور حیا کا بہانہ کر دیا

السلام علیکم جناب عالی ہم کو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ اس مٹتی ہوئی اقدار اور بدلتی ہوئی روایات کے زمانے میں بھی کوئی مرزا عبدالقادر بے دل دہلوی کو جانتا ہے۔
درحقیقت بے دل ایک بہت بڑے وحدت الوجودی نظریے کے بزرگ تھے جنہوں نے اشارات میں اصل بات کو بیان فرمایا ہے ایک شعر عرض خدمت ہے
شورے شد و از خواب عدم چشم کشودیم
دیدیم کے باقیست شب فتنہ غنودیم

ایک شور ہوا اور ہم عالم غیب سے عالم شہادت میں واپس آئے تو دیکھا کہ رات کا فتنہ ابھی باقی ہے تو دوبارہ عالم عالم غیب میں چلے گئے
ایک اردو کے شاعر نے اس کو کچھ اسطرح بیان کیا ہے
ابھی محبت کے گیت مت چھیڑ اے مطرب
ابھی حیات کا ماحول سازگار نہیں

بےدل ایک ایسے بادہ سرمست ہیں ان کا اسلوب ایسا ہے کہ جس نے ان کو پڑھا پھر اس سے ساری عمر اپنا دامن نہ چھڑا سکا جیسا کہ غالب نے کہا کہ
طرز بے دل میں ریختہ کہنا
اسد اللہ قیامت ہے


جیسا کہ بے دل نے کہا کہ اس نے مجھے اپنے غمزہ سے ہلاک کیا غمزہ آنکھ کے اشارے کو کہتے ہیں اور ادھر شعر میں ناز و ادا کے معنوں میں مستعمل ہے بعد میں آنے والے شعراء نے اس نفس مضمون کو کچھ اس طرح ادا کیا
زباں قاتل بیاں قاتل ادا قاتل نگاہ قاتل
تمہارا سلسلہ شائد کسی قاتل سے ملتا ہے

اور دوسرا مصرعہ جس میں بے دل کہتے ہیں کہ اس نے میری طرف دیکھا نہیں اور حیا کو بہانہ کردیا تو اس بات کو کسی شاعر نے کچھ اسطرح ادا کیا ہے
وہ تو صدیوں کو سفر کرکے یہاں پہنچا تھا
تونے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں۔
اور غمزہ کو شاعر سرمست شاہ نیاز بریلوی نے کیا خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے
مست گشتم از دو چشم ساقی پیمانہ نوش
الوداع اے ننگ ناموس الفراق اے عقل ہوش

ساقی کی مست نگاہی یعنی جب ساقی نےآنکھوں سے پلائی تو میں مست ہوگیا یعنی ساقی الست جس کی ایک آنکھ سے جمال اور دوسری آنکھ جلال ٹپک رہا تھا اس کی جمالی آنکھ کے ساغر کو پی کر میں اپنا آپ ہار بیٹھا اور اس کے قدموں میں ڈھیر ہوگیا کیونکہ انتائی محبت کی یہی آخری حد ہے اور اس کی جلالی آنکھ سے ہلکا سا گھونٹ لیتے ہی میں اتنا والہ و شیدا و مستانہ ہوگیا کہ تاب نہ لاکر عقل و ہوش سب کھو بیٹھا
برداشت کرنے کا بہت بہت شکریہ۔۔۔۔roohani_babaa
 

نبیل

تکنیکی معاون
شکریہ روحانی بابا، لیکن میں نے یہ شعر غلط لکھا تھا۔ درست کچھ یوں ہے:
خود سوئے ما نہ دید و حیا را بہانہ ساخت
ما را بہ غمزہ کشت و قضا را بہانہ ساخت

اور محمد وارث نے بتایا تھا کہ یہ شعر مرزا قتیل کا ہے۔ میں نے کندن لال سہگل کی آواز میں اس غزل کا ربط ایک مرتبہ پوسٹ کیا تھا۔ آپ کے لیے ایک مرتبہ پھر حاضر ہے:

KLSaigal_Non-Film-Ghazal-Farsi_maa-raa-ba.mp3 - DivShare
 

محمد وارث

لائبریرین
ادرحقیقت بے دل ایک بہت بڑے وحدت الوجودی نظریے کے بزرگ تھے جنہوں نے اشارات میں اصل بات کو بیان فرمایا ہے ایک شعر عرض خدمت ہے
شورے شد و از خواب عدم چشم کشودیم
دیدیم کے باقیست شب فتنہ غنودیم

ایک درستی یہ بھی کر لیں کہ یہ شعر بیدل کا نہیں بلکہ غزالی مشہدی کا ہے، بحوالہ 'منتخب التواریخ' از ملا عبدالقادر بدایونی (دورِ اکبری کے مؤرخ ہیں یہ)۔
 
Top