نئی صدی کا پیغام

اس صدی کو چاہیئے اک صاحبِ کردار اُٹھ
اس صدی کی رہبری تیرے لئے تیار اُٹھ

ظلمتوں نے کردیا انسان کو لاچار اُٹھ
ظلمتوں میں پھر مثالِ حیدرِکرار اُٹھ

نعرہِ تکبیر ہے طاقت ترے ایمان کی
اے مسلماں جذبہءِ ایمان سے سرشار اُٹھ

ساری دنیا کو دکھا دے قوتِ ایمان پِھر
تیری خاطر آتشِ نمرود ہے تیار اُٹھ

ظلمتوں سے جنگ کر ہتھیار تیرے پاس ہیں
ڈھال ہے کردار کی، ایمان کی تلوار اُٹھ

اُٹھ کہ پھر تسخیر کر ہمت سے ساری کائنات
لے نہ جائیں تجھ سے بازی پھر تیرے اغیار اُٹھ

دین کی خاطر مشقت فرض ہے، اک قرض ہے
توڑ دے ہر جامِ عشرت، چھوڑ دے گلزار اُٹھ

در پہ دستک دے رہی ہے یہ صدی کچھ ہوش کر
پھر نہ کہنا ہو نہ پائے نیند سے بیدار اُٹھ

زندگی کی مشکلوں کے سامنے جھک جائے تُو
جانِ راجا! تُو نہیں ہے اس قدر لاچار اُٹھ
 
سب حضرات کو دعوت شمشاد بھائی کی طرف سے ہے، بیشک داد مجھے دے دیں، لیکن حقِ میزبانی (چائے، پکوڑے، سموسے، بسکٹ وغیرہ) ادا کرنے کی فرمائش شمشاد بھائی سے کیجیئے گا۔ شمشاد بھیا پھنس گئے ;)
 
واہ وا، راجا صاحب۔ کیا کہنے۔ ویسے برا نہ مانیں تو یہ آخر میں جانِ راجا کی ترکیب ساری غزل کو لے کر بیٹھ گئی ہے۔

ہائے ری قسمت، ایک شعر پوری غزل لے کر بیٹھ گیا، کیا کہتے ہیں فاتح بھیا، شعر کاٹ دیا جائے یا کوئی مشورہ دینا چاہیں گے آپ؟
 

سید زبیر

محفلین
بہت خوب
ساری دنیا کو دکھا دے قوتِ ایمان پِھر​
تیری خاطر آتشِ نمرود ہے تیار اُٹھ​
ماشا اللہ​
 
ہائے ری قسمت، ایک شعر پوری غزل لے کر بیٹھ گیا، کیا کہتے ہیں فاتح بھیا، شعر کاٹ دیا جائے یا کوئی مشورہ دینا چاہیں گے آپ؟
جی مشورہ تو ہے مگر لگتا نہیں قابلِ قبول ہو گا۔ میرے خیال میں آپ راجا تخلص ہی بدل لیں۔ آپ ما شاء اللہ اچھی شاعری کرتے ہیں، لیکن لفظ 'راجا' بحیثیتِ تخلص کم از کم مجھ سے کم ذوق کے کانوں کو تو بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ ایک سبب شاید یہ ہے کہ یہ لفظ خالص ہندی کا ہے۔ آگے آپ کی مرضی ہے اور یہ صرف میری رائے اور مشورہ ہے۔ آپ با اختیار ہیں۔ اگر مشورہ پسند نہ آیا ہو پہلے ہی معافی بھی چاہتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
راجا تخلص ہے اس لئے اس کے ساتھ اضافت لگائی جا سکتی ہے، اس ‘جانِ راجا‘ پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ویسے یہ اصلاح سخن میں تو نہیں ہے، لیکن پھر بھی اس کے مطلع میں ردیف دونوں مصرعوں میں درست نہیں لگ رہی ہے مجھے۔
 
Top