زیک

مسافر
بیگم: میں اپنے بال کٹوا لوں؟
شوہر: کٹوا لو۔

بیگم: اتنی مشکل سے لمبے کیے ہیں۔
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ

بیگم: مگر آج کل چھوٹے بال فیشن میں ہیں۔
شوہر : تو پھر کٹوا لو۔

بیگم: لمبے بال آپ کو بھی تو پسند ہیں۔
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ۔

بیگم: میرے سہیلیاں کہتی ہیں کہ میرے چہرے کے ساتھ چھوٹے بال اچھے لگیں گے۔
شوہر: تو پھر کٹوا لو۔

بیگم: مگر چھوٹے بالوں کی چوٹی نہیں بنتی۔
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ۔

بیگم: سوچ رہی ہوں کہ تجربہ کر کے دیکھ لوں۔
شوہر: تو پھر کٹوا لو۔

بیگم: لیکن اگر خراب ہو گئے تو؟
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ۔

بیگم سوچ رہی ہوں کہ کٹوا لوں۔
شوہر: تو پھر کٹوا لو۔

بیگم: اگر اچھے نہیں لگے تو آپ ذمہ دار ہوں گے۔
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ۔

بیگم: ویسے چھوٹے بال سنبھالنا آسان ہوتا ہے۔
شوہر: تو پھر کٹوا لو۔

بیگم: ڈر لگتا ہے کہ چھوٹے بال برے نہ لگیں۔
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ۔

بیگم: اچھا اب میں نے طے کر لیا ہے کہ کٹوا دیتی ہوں۔
شوہر: تو پھر کٹوا لو۔

بیگم: تو پھر کب چلیں گے؟
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ

بیگم: میں امی کی طرف جانے کی بات کر رہی ہوں۔
شوہر: تو پھر کٹوا لو۔

بیگم: آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟
شوہر: تو پھر نہ کٹواؤ۔

یہ شوہر اب پاگل خانے میں ہے اور یہی بولتا رہتا ہے کہ

تو پھر کٹوا لو۔
تو پھر نہ کٹواؤ۔
ہر تجربہ کار شوہر جانتا ہے کہ ہاں میں ہاں ملانے سے لڑائی میں اضافہ ہوتا ہے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
لو بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی، اتنے سے مکالمے پر پاگل خانے، میں تو ایک ایک مسئلے پر کئی کئی دن "کر لو" اور "پھر نہ کرو" کے درمیان پھنسا رہتا ہوں اور وہ بھی پچھلے سترہ سالوں سے، مجھے تو اس وقت پاگل خانے کا ڈائریکٹر ہونا چاہیے تھا :)
ایگزیکٹو ڈائریکٹر ۔۔۔
 
Top