میر ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھیے کیا ہے کیا نہیں - میر تقی میر

محمد وارث

لائبریرین
میر تقی میر کی ایک انتہائی خوبصورت غزل جو فاتح صاحب کے فیس بُک نوٹس سے چرائی ہے کہ کافی عرصہ قبل وہاں پڑھی تھی، کل اچانک اس غزل کا ایک شعر یاد آیا تو یہ بھی یاد آ گیا کہ فاتح صاحب کے نوٹس میں پڑی ہوئی ہے سو پہلی فرصت میں چرا لی، اور اب ان کا شکریہ یہاں ادا کر دیتا ہوں :)

ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھیے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں

بوئے گُل اور رنگِ گُل، دونوں ہیں دل‌ کش اے نسیم
لیک بقدرِ یک نگاہ، دیکھیے تو وفا نہیں

شکوہ کروں ہوں بخت کا، اتنے غضب نہ ہو بتاں
مجھ کو خدا نخواستہ، تم سے تو کچھ گلِا نہیں

نالے کِیا نہ کر سُنا، نوحے مرے پہ عندلیب
بات میں بات عیب ہے، میں نے تجھے کہا نہیں

چشمِ سفید و اشکِ سرخ، آہ دلِ حزیں ہے یاں
شیشہ نہیں ہے مے نہیں، ابر نہیں ہوا نہیں

ایک فقط ہے سادگی، تس پہ بلائے جاں ہے تو
عشوہ کرشمہ کچھ نہیں، آن نہیں ادا نہیں

آب و ہوائے ملکِ عشق، تجربہ کی ہے میں بہت
کر کے دوائے دردِ دل، کوئی بھی پھر جِیا نہیں

ہوئے زمانہ کچھ سے کچھ، چھوٹے ہے دل لگا مرا
شوخ کسی بھی آن میں، تجھ سے تو میں جدا نہیں

نازِ بُتاں اٹھا چکا، دیر کو میر ترک کر
کعبے میں جا کے رہ میاں، تیرے مگر خدا نہیں

(میر تقی میر)
 

فاتح

لائبریرین
حضور چوری کیسی۔۔۔ یہ تو آپ کی بھی اتنی ہی ہے جتنی ہماری۔۔۔ اور اس غزل سے منسلک وہ واقعہ بھی یاد آ گیا۔ :)
 
بوئے گُل اور رنگِ گُل، دونوں ہیں دل‌ کش اے نسیم
لیک بقدرِ یک نگاہ، دیکھیے تو وفا نہیں
واہ واہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاجواب انتخاب !!!
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
غالب گماں ھے کہ مذکورہ واقعہ احقر کی محفل میں پیدائش سے قبل کا ھے لیکن غزل بہت عمدہ ھے اور اسکے لئیے بہت مشکور ھوں۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھئے کیا ہے، کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں

بُوئے گُل اور رنگِ گُل، دونوں ہیں دلکش اے نسیم
لیک بقدرِ یک نگاہ، دیکھئے تو وفا نہیں

شکوہ کروں ہوں بخت کا، اتنے غضب نہ ہو بُتاں
مجھ کو خدانخواستہ، تم سے تو کچھ گِلا نہیں

نالے کِیا نہ کر سنا، نوحے مرے پہ عندلیب
بات میں بات عیب ہے، میں نے تجھے کہا نہیں

چشمِ سفید و اشکِ سُرخ، آہ دلِ حزیں ہے یاں
شیشہ نہیں ہے، مے نہیں، ابر نہیں، ہوا نہیں

ایک فقط ہے سادگی، تس پہ بلائے جاں ہے تُو
عشوہ کرشمہ کچھ نہیں، آن نہیں، ادا نہیں

آب و ہوائے ملکِ عشق، تجربہ کی ہے میں بہت
کر کے دوائے دردِ دل، کوئی بھی پھر جِیا نہیں

ہوئے زمانہ کچھ سے کچھ، چھوٹے ہے دل لگا مرا
شوخ کسی بھی آن میں، تجھ سے تو میں جدا نہیں

نازِ بُتاں اُٹھا چکا، دَیر کو میرؔ ترک کر
کعبے میں جا کے رہ میاں، تیرے مگر خدا نہیں
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ میر تقی میر کی کیا ہی خوبصورت غزل انتخاب کی ہے آپ نے۔۔۔ شکریہ صائمہ
 

صائمہ شاہ

محفلین
وارث صاحب
معذرت خواہ ہوں میرے سرچ کرنے پر یہ غزل مجھے محفل پر نہیں ملی اسی لیے شئیر کی اب آپ کی پوسٹ دیکھ کر شرمندگی ہورہی ہے
ویسے میں نے یہ غزل فاتح کے نوٹس میں سے نہیں لی :battingeyelashes:
 
Top