شکیب جلالی ملا نہیں اذن رقص جن کو، کبھی تو وہ بھی شرار دیکھو

باباجی

محفلین
ملا نہیں اذن رقص جن کو، کبھی تو وہ بھی شرار دیکھو​
اگر ہو اہلِ نگاہ یارو، چٹان کے آر پار دیکھو​
یہ جان لینا، وہاں بھی کوئی کسی کی آمد کا منتظر تھا​
کسی مکاں کے جو بام و در پر بجھے دیوں کی قطار دیکھو​
اگرچہ بے خانماں ہیں لیکن ملنا نہیں ہے مشکل​
ادھر ہی صحرا میں دوڑ پڑنا، جدھر سے اٹھتا غبار دیکھو​
عجب نہیں ہے پہاڑیوں پر شفق سونا پگھل رہا ہو​
مکانِ تیرہ کے روزنوں میں یہ نور کے آبشار دیکھو​
جو ابرِ رحمت سے ہو نہ پایا، کیا ہے وہ کام آندھیوں​
نہیں ہے خار و گیاہ باقی، چمک اُٹھا رہگزار دیکھو​
وہ راگ خاموش ہو چکا ہے، سنانے والا بھی سو چکا ہے​
لرز رہے ہیں مگر ابھی تک شکستہ بربط کے تار دیکھو​
اک آہ بھرنا "شکیب" ہم سے خزاں نصیبوں کو یاد کر کے​
کلائیوں میں جو ٹہنیوں کی، مہکتی کلیوں کے ہار دیکھو​
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہ
بہت خوب کلام

وہ راگ خاموش ہو چکا ہے، سنانے والا بھی سو چکا ہے
لرز رہے ہیں مگر ابھی تک شکستہ بربط کے تار دیکھو
 

سید زبیر

محفلین
وہ راگ خاموش ہو چکا ہے، سنانے والا بھی سو چکا ہے
لرز رہے ہیں مگر ابھی تک شکستہ بربط کے تار دیکھو
زبردست ۔۔۔۔ اعلیٰ انتخاب
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
وہ راگ خاموش ہو چکا ہے، سنانے والا بھی سو چکا ہے​
لرز رہے ہیں مگر ابھی تک شکستہ بربط کے تار دیکھو​
بہت عمدہ​
 
جو ابرِ رحمت سے ہو نہ پایا، کیا ہے وہ کام آندھیوں​
نہیں ہے خار و گیاہ باقی، چمک اُٹھا رہگزار دیکھو
واہ بہت اچھی غزل ہے .​
 
Top