ملا نصیرالدین اور گدھا

سارہ خان

محفلین
مُلا نصیرالدین کا گدھا مر چکا تھا اور اس کے بغیر ان کی زندگی بڑی مشکل سے گزر رہی تھی ۔ چنانچہ کئی مہینوں کی محنت و مشقت کے بعد کچھ رقم جمع کی اور ایک نیا گدھا خریدنے کی غرض سے بازار کا رخ کیا ۔ حسبِ منشا گدھا خریدا اور گھر کی راہ اس طرح لی کہ وہ گدھے کی رسی تھامے آگے آگے چل رہے تھے اور گدھا ان کے پیچھے آرہا تھا ۔ راستے میں چند ٹھگ قسم کے لوگوں نے ملا کو گدھا لے جاتے ہوئے دیکھا تو وہ ان کے قریب ہو گئے ۔ ان میں سے ایک آدمی گدھے کے بالکل ساتھ ساتھ چلنے لگا ۔ تھوڑی دیر بعد اس نے آہستہ سے گدھے کی گردن سے رسی نکال کر اپنی گردن میں ڈال دی اور گدھا اپنے ساتھیوں کے حوالے کر دیا ۔ جب ملا اپنے گھر کے دروازے پر پہنچے اور مڑ کے پیچھے جو دیکھا تو چار ٹانگوں والے گدھے کی بجائے دو ٹانگوں والا گدھا نظر آیا ۔ یہ دیکھ کر ملا سخت حیران ہوئے اور کہنے لگے ”سبحان اللہ! میں نے تو گدھا خریدا تھا یہ انسان کیسے بن گیا؟“ ۔
یہ سن کر وہ ٹھگ بولا
”آقائے من! میں اپنی ماں کا ادب نہیں کرتا تھا اور ہر وقت ان کے درپے آزار رہتا تھا ۔ ایک دن انہوں نے مجھے بددعا دی کہ تو گدھا بن جائے ۔ چنانچہ میں انسان سے گدھا بن گیا تو میری ماں نے مجھے بازار میں لے جا کر فروخت کر دیا ۔ کئی سال سے میں گدھے کی زندگی بسر کر رہا تھا ۔ آج خوش قسمتی سے آپ نے مجھے خرید لیا اور آپ کی روحانیت کی برکت سے میں دوبارہ آدمی بن گیا۔“ یہ کہہ کر اس نے ملا کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور بہت عقیدت کا اظہار کیا ۔
ملا کو یہ بات بہت پسند آئی ۔ وفورِ مسرت میں نصیحت فرماتے ہوئے کہنے لگے ” اچھا اب جاؤ اور اپنی ماں کی خدمت کرو ۔ کبھی اس کے ساتھ گستاخی نہ کرنا “ ۔
ٹھگ ملا کا شکریہ ادا کر کے رخصت ہو گیا ۔ دوسرے دن ملا نے کسی سے کچھ رقم ادھا لی اور پھر گدھا خریدنے بازار میں پہنچ گئے ۔ ان کی حیرانی کی کوئی حد نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ وہی گدھا ایک جگہ بندھا کھڑا ہے جو انہوں نے کل خریدا تھا ۔ چنانچہ وہ اس گدھے کے قریب گئے اور اس کے کان میں کہنے لگے ” لگتا ہے تم نے میری نصیحت پر عمل نہیں کیا اس لیے پھر گدھے بن گئے ہو “ ۔


 

سارہ خان

محفلین
شکریہ وارث ۔۔ ایک ڈائجسٹ سے دیکھ کے لکھی ہے ۔۔ یہ تو مجھے بھی نہیں پتا کہ کس کی تحریر ہے ۔۔۔:confused:
 

محمد وارث

لائبریرین
غلطی ہوگئی، معذرت چاہتا ہوں۔ :(

ویسے حد سے زیادہ ایمانداری بھی اچھی نہیں ہوتی، بڑے آرام سے یہ آپکی تحریر بن جاتی۔:)

۔
 

سارہ خان

محفلین
ہاہایا ۔۔ یعنی آپ کا مطلب ہے کہ جو بھی بے نام تحریر نظر آئے وہ اپنے نام کر دوں ۔۔:)۔۔ لیکن پھر اگر اس کے اصل لکھنے والے کا نام یہاں کوئی جانتا ہو یا اصل وارث خود کہیں سے ا نکلے تو ۔۔:rolleyes:۔۔ میرا تو رہا سہا نام بھی گیا نا پھر ۔۔:rolleyes::)۔۔۔نا بابا ایسے رسکی کام میں نہیں کرتی ۔۔:)
 

AHsadiqi

محفلین
يہ تحرير تقريبا اسي مفہوم کے ساتھ جہاں تک مجھے ياد پڑتا عربي متن کے ساتھ ايف اے کي عربي ميں ہم نے پڑھي تھي
 

قیصرانی

لائبریرین
مزے کی بات یہ ہے کہ خواجہ نصرالدین یا ملا نصرالدین کا نام بین القوامی ہے۔ ان کا ایک مزار ترکی میں موجود ہے، دیگر کا علم نہیں۔ البانیہ کے دوست یہ جان کر حیران ہوئے کہ میں ملا نصرت الدین (خواجہ نصرالدین) کو کیسے جانتا ہوں۔ اسی طرح روسی دوست الگ حیران ہیں کہ اردو بولنے والے پاکستانی کو خواجہ نصرالدین کا کیسے علم ہوا
 
ایک دفعہ لوگوں نے ملا نصیرالدین کو اپنے ایک اجتماع میں خطاب کرنے اور تقریر کرنے کے لئے مدعو کیا۔ملا مقررہ جگہ اور مقررہ وقت پر خطاب اور وعظ کے لئے پہنچ گیا۔اس نے اجتماع میں لوگوں سے پوچھا کہ کیاوہ جانتے ہیں کہ وہ کس موضوع پر وعظ کرنے جارہے ہیں؟لوگوں نے کہا کہ نہیں، وہ نہیں جانتے کہ وہ کس موضوع پر بولنے اور خطاب کرنے والے ہیں؟یہ سن کر ملا بہت ناراض ہوا اور یہ کہہ کر مجلس سے چل دیا کہ اگر اس مجلس میں موجود لوگوں کو یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ مَیں کس موضوع پر بولنے جارہا ہوں تو ایسی مجلس اور مجمع سے اور لوگوں سے خطاب کرنا فضول ہے“۔اگلے روزلوگوں نے پھر ملاں کو دعوت دی کہ وہ آج تو ضرور خطاب کرے۔اس بار جب اس نے کل والا سوال کیا کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ وہ کس موضوع پر بات کرنے والے ہیں تو لوگوں نے اس مرتبہ کہا کہ ہاں وہ جانتے ہیں کہ وہ کس موضوع پر خطاب فرمائیں گے۔یہ سن کر ملا نصیرالدین یہ کہہ کر چل دیا کہ اگر آپ کو پتہ ہے کہ مَیں کیا کہنے جارہا ہوں تو میرے تقریر اور وعظ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

لوگ ایک بار پھر بڑے مایوس ہوئے،لیکن فیصلہ کیا کہ اگلی بار ضرور ملا کو دعوت خطاب دیں اور آپس میں حکمت عملی بھی طے کرلی کہ آدھے لوگ ہاں کہیں گے اور آدھے نہیں۔ایک ہفتے بعد جب تیسری بار ملا نصیر الدین کو دعوت خطاب دی گئی تو اس نے پھر لوگوں سے وہی پرانا سوال دہرایا۔اس مرتبہ آدھے لوگوں نے کہا کہ ہاں وہ جانتے ہیں کہ وہ کس موضوع پر کیا کہنے جارہے ہیں، جبکہ باقی ماندہ آدھے لوگوں نے کہا کہ نہیں وہ نہیں جانتے کہ ملاں کس موضوع پر کیا خطاب کرتے ہیں۔یہ ہاں اور نہیں والا جواب سن کر ملا نے یہ کہا:”وہ لوگ جو جانتے ہیں کہ مَیں اپنے وعظ میں کیا کہنے جارہا ہوں۔وہ دوسروں کو جو نہیں جانتے ان کو بتا دیں“۔یہ کہہ کر ملاں تیسری مرتبہ بھی مجلس سے بغیر خطاب کئے چل دیئے اور لوگ سر پیٹتے رہ گئے اور ان کا ملا کا وعظ سننے کا جواب اور شوق پورا نہ ہو سکا۔
 
ایک مرتبہ لوگوں نے ملا سے اس کی عمر پوچھی۔اس نے کہا کہ چالیس سال ،چند سال بعد پھر لوگوں نے ملاں سے یہی سوال کیا تو ملا نے وہی جواب دیا،چالیس سال۔ لوگ بڑے حیران ہوئے اور پوچھا کہ اے ملا چند سال پہلے بھی آپ نے یہی عمر بتائی اور چند سال بعد بھی وہی عمر۔یہ کیا ماجرا ہے؟ملا یوں گویا ہوا:”ایک سچا اور صادق انسان کبھی اپنی بات سے نہیں پھرتا۔مَیں بھی اپنی بات پر قائم ہوں۔اپنے قول کو بالکل بھی نہیں بدلا“۔
 
ملاں نے جب اپنی بیٹی کو ساتھ والے گاﺅں کے قریب کنویں سے پانی لانے کے لئے گھڑا دیا تو ساتھ ہی اسے مارنا پیٹنا شروع کردیا۔لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ ملا بغیر کسی وجہ کے اپنی بیٹی کو زدوکوب کررہا ہے تو کہا کہ ملا اس بیچاری بے گناہ لڑکی کو کیوں پیٹ رہے ہو؟
یہ سن کر ملاں نے یوں جواب دیا:”اس سے پہلے کہ یہ پانی کا گھڑا راستے میں توڑ دے۔اس وقت جب گھڑا ٹوٹ چکا ہو، اس وقت مارنے سے پہلے بہتر ہے، پہلے ہی خبردار کردیا جائے، تاکہ احتیاط برتی جا سکے۔بعد میں مارنے کی ضرورت نہ پڑے“ ....لوگ ملاں نصیر الدین کی یہ حکمت عملی، احتیاط اور انداز فکر سن کر خوب ہنسے۔
 

ربیع م

محفلین
ملا نصیر الدین شرفاء شہر کی جانب سے ایک دعوت میں مدعو تھے۔
مقررہ وقت پر عام پھٹے پرانے لباس میں ملبوس دعوت کیلئے پہنچے لیکن دربان نے گھسنے نہ دیا انھوں نے بہت واویلا مچایا کہ میں ملا نصیر الدین ہوں لیکن ایک نہ سنی گئی۔
ملا صاحب گھر گئے،عمدہ لباس زیب تن کیا عمامہ باندھا اور چل پڑے دوبارہ دعوت کو!
وہاں پہنچے تو بڑی عزت و اکرام سے انھیں اندر لے جایا گیا۔
کھانے کا وقت ہوا لوگ کھانے کیلئے بیٹھ کر کھانا تناول کرنے لگے، ملا صاحب نے کھانا برتن میں ڈالا اور اپنی آستینیں عمامہ اور دامن کھانے میں ڈبونے لگے۔
لوگوں نے متعجب ہو کر پوچھا :
ملا صاحب یہ کیا ماجرہ ہے؟
ملا صاحب نے جواب میں کہا:
ان کی عمدہ کپڑوں کی دعوت کی گئی تھی اس لئے انھیں ہی کھانا کھلا رہا ہوں!!!
 
مُلا نصرالدین : (Nasreddin)
ملا نصر الدین بھی صحیح ہے اور نصیر الدین بھی مثلاً مرزا کے مختلف زبانوں میں مختلف نام ہیں, البینین زبان میں نسترادین ہوکزا یا نصترادینی، ازیری زبان میں ملا نصردین، بوسنیہ زبان میں نصردین ہودزا، ازبک زبان میں نصردین آفندی یا صرف آفندی،قزاقی زبان میں حوزانصیر، ایگھر زبان میں ناصردین آفنتی کے نام سے مشہور ہیں۔ ملا نصرالدین ایک صوفی بزرگ تھے۔ ان کا دور 13ویں سنہ عیسوی تھا۔عہد وسطی کے سلجک دور میں، یہ شہر اکسیہیر اور قونیہ میں زندگہ بسر کی۔ ان کے القاب ملا، آفندی، حوجا وغیرہ تھے۔بہت سارے ممالک مثلاَ افغانستان، ترکی, ، ایران زبک ، کا یہ دعویٰ رہا کہ ملا ان کے ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ اپنے مزاحیہ مزاج کے لیے مشہور تھے۔
 
آخری تدوین:
ایک دن ملا نصیر الدین بازار سے ایک سیر

گوشت لائے
ایک دن ملا نصیر الدین بازار سے ایک سیر گوشت لائے اور ایک
دوست کو کھانے پر بلایا. جب کھانا شروع کیا تو پلیٹ میں
گوشت کا ٹکڑا موجود نہیں تھا۔ بیوی سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ
گوشت بلی نے کھا لیاہے۔ بلی سامنے ہی موجودتھی۔ ملا نے
بلی پکڑی اور ترازو میں ڈالا کر بلی کا وزن کیا تو بلی ایک سیر
نکلی۔ ملا کو غصہ آیا اور بیوی سے کہنے لگا بیگم ایک سیر بلی
تو گوشت کہاں ہے اور ایک سیر گوشت ہے تو بلی کہاں ہے
 
Top