محمود بن حسین بن محمد کاشغری کے بقول تُرکی سیکھنے کا ایک دینی سبب

حسان خان

لائبریرین
قرنِ یازدہُمِ عیسوی کے ادیب محمود بن حُسین بن محمد کاشغری نے ۴۶۶ ہجری میں عربی زبان میں 'دیوان لغات الترک' کے نام سے ایک پُرحجم کتاب لکھی تھی، جو بنیادی طور پر اُس زمانے کی تُرکی (جس کو اب قاراخانی تُرکی کے نام سے جانا جاتا ہے) کی فرہنگ تھی اور اِس کتاب کو لکھنے سے اُن کا مقصود بغداد کے عبّاسی خُلَفاء اور عربی خواں مسلم علمی حلقوں کو تُرکی زبان و لہجوں و محاورات و اشعار و ثقافت و رسومات سے آگاہ کرنا تھا۔ یہ کتاب پس از اسلام دور میں کسی تُرک کی جانب سے لکھی جانے والی اوّلین کتاب ہے۔ علاوہ بریں، پس اسلامی دور میں تُرکی زبان کے گُفتاری و نیم ادبی نمونے سب سے قبل اِسی کتاب میں ثبت ہوئے ہیں، لہٰذا ماہرینِ تُرک شناسی و زبان شناسی کے لیے یہ کتاب ایک معدنِ زر سے کم نہیں ہے، اور دیر زمانے سے یہ کتاب اُن کی تحقیقوں کا محور ہے۔ یہ کتاب اُس دور سے تعلق رکھتی ہے کہ جب حالیہ اُزبکستان، تُرکمنستان، آذربائجان اور تُرکیہ میں ہنوز تُرک قبائل کے جوق در جوق کُوچ اور کِشوَر کُشائی کا آغاز نہ ہوا تھا۔

بہر حال، محمود کاشغری اپنی کتاب کے پیش گُفتار میں حمد و ثنا و صلوات اور تُرکوں کی سِتائش کے بعد لکھتے ہیں:

"ولقد سمعت عن ثقة من أئمة بخارا وإمام آخر من اهل نیسابور کلاهما رویا باسناد لهما عن رسول الله صلی الله عليه وسلم أنه لما ذکر أشراط الساعة وفتن آخر الزمان وخروج الترك الغُزّيّة فقال «تعلموا لسان الترك فأنَّ لهم ملكا طوالا» فالرواية برفع الطاء. فلئن صح هذا الحديث والعهدة عليهما فيكون تعلمه واجباً ولئن لم يصح فالعقل يقتضيه."

"سوگند یاد می‌کنم که من از یکی از امامان ثقه‌ی بخارا و نیز از یکی از امامان اهل نیشابور شنیدم، و هر دو با سلسله‌ی سند روایت کنند که پیامبر ما چون نشانه‌های رستاخیز و فتنه‌های آخرالزمان و نیز خروج ترکان اوغوز را بیان داشت، چنین فرمود: «زبان ترکی را بیاموزید، زیرا که آنان را فرمانروایی دراز آهنگ در پیش است».
اگر این حدیث صحیح باشد - بر عهده‌ی آن راویان - پس آموختن زبان ترکی کاری بس واجب است و اگر هم درست نباشد، خرد اقتضاء می‌کند که [مردم] فراگیرند."

(فارسی ترجمہ: حُسین محمدزاده صدیق)

"یقیناً میں نے بُخارا کے ایک ثقہ امام سے، اور اہلِ نیشابور کے ایک امام سے سنا ہے، اور دونوں سلسلۂ سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں، کہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیه وسلم جب قیامت کی نشانیوں، آخرِ زماں کے فتنوں اور اوغوز تُرکوں کے خروج کو بیان کر رہے تھے تو اُنہوں نے یہ فرمایا: "تُرکوں کی زبان سیکھو، کیونکہ اُن کی فرماں روائی طویل ہو گی۔"
اگر یہ حدیث صحیح ہو - اور اِس کا ذمّہ اُن راویوں پر ہے - تو پس زبانِ تُرکی کو سیکھنا ایک کارِ واجب ہے، اور اگر درست نہ ہو تب بھی عقل تقاضا کرتی ہے کہ مردُم اِس کو سیکھیں۔"


(یاد دہانی: اِس مُراسلے کو ارسال کرنے کا مقصد اِس حدیث کی صحت و سقم پر یا اِس اقتباس کی دینی اَبعاد پر بحث کرنا نہیں ہے، بلکہ اِس کو صرف اِس لیے ارسال کیا گیا ہے کیونکہ کتاب کے مطالعے کے دوران مجھ کو یہ سطور جالبِ توجُّہ محسوس ہوئیں، اور میرے دل میں آیا کہ اِن کو دیگروں کی نظروں میں بھی لانا چاہیے۔ اِسی بہانے محمود کاشغری اور اُن کی بِسیار اہم کتاب کا مختصر تعارف بھی ہو جائے گا۔)
 
آخری تدوین:
Top