لہو سے اپنے چراغِ وفا جلا کے چلے

الف نظامی

لائبریرین
لہو سے اپنے چراغِ وفا جلا کے چلے
حسین سر کو جھکا کر نہیں اٹھا کے چلے

سپاہِ شام کے رنگ اڑ گئے سرِ میداں
جو چند وار وہاں تیغِ لافتیٰ کے چلے

زمانے بھر کی وفاوں کو رشک آنے لگا
جہاں بھی تذکرے عباسِ باوفا کے چلے

یہ کس کے صبرِ مثالی کا دبدبہ ہے جنید
کہ ظلم اب بھی زمانے میں سر جھکا کے چلے
 
Top