لاہور لاہور ہے

جیہ

لائبریرین
توبہ توبہ۔۔۔ میں نے تو سنا تھا کہ عورت ذات عمر کے بارے میں حساس ہوتی ہے۔۔۔ مگر یہاں تو الٹی گنگا بہ رہی ہے۔۔۔۔

تو لو آج ہم بھی کہ دیتے ہیں کہ شمشاد بھائی کی عمر 17 سال ، کچھ مہینے، محب کی 17 سال اور چند مہینے اور رضوان کی عمر 17 سال اور معدودے چند مہینے ہے۔۔۔۔











یہ اور بات ہے کہ کہ تو دیا مگر ، یقین نہیں
 

شمشاد

لائبریرین
اب آئی نہ بڑی بی سیدھے راستے پر

اور یقین کرنے کو کس نے کہا ہے؟

تم نے کہہ دیا، ہم نے مان لیا
 

شمشاد

لائبریرین
بڑی بی اگر غالب کی روح کو اس محاورے کی بھنک بھی پڑ گئی تو بہت خفا ہو گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
کراچی میں چائے کی ضیافت کی ایک خوبی یہ ہے چائے ہی پیش کی جاتی ہے۔ چائے کے بہانے دودھ نہیں پیتے۔ لاہور کی طرح نہیںکہ سالم مرغی اور کباب پر کباب چلے آ رہے ہیں اور ایک صاحب نہیں کئی، کہ دودھ سے لبالب کپ میں تین قطرے چائے ٹپکوا کر کہہ رہئے ہیں کہ “ میں تے ہمیشہ اسٹرانگ چاہ پینا واں “۔ ہم اس میں صرف اتنی سے اصلاح کریں گے کہ چائے دودھ دان میں ہونی چاہیے اور دودھ چائے دانی میں۔ جاپانی اپنی “ رسمِ چائے “ اور اس کے صدیوں پرانے چونچلوں کی بڑی ڈینگیں مارتے ہیں۔ لیکن انہیں چاہیے کہ چائے، باتیں اور صحت ایک ساتھ بنانے کا ہنر زندہ دالانِ لاہور سے آ کر سیکھیں۔
(زرگزشت - مشتاق احمد یوسفی)
 

رضوان

محفلین
پرانا لاہور
کرنل ایچ۔ آر۔ گولڈنگ

قدیم برف خانہ (Icepits)
جس مقام پر اس وقت ٹریننگ کالج اور محکمہ تعلیم کی دیگر سرکاری عمارات ایستادہ ہیں، وہاں گزشتہ دور میں ایک بہت بڑا میدان ہوا کرتا تھا، جہاں قدرتی برف اکٹھا کرنے کی غرض سے گڑھے (Icepits) بنائے گئے تھے۔ شاید برف اکٹھا کرنے کے ان پرانے طریقوں کو جلد ہی قبل از تاریخ کے واقعات خیال کیا جانے لگے، اس لئے یہاں ان کا ذکر دلچسپی کا حامل ہوسکتا ہے۔ اس وسیع و عریض میدان کو مستطیلی ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا تھا، پھر ان ٹکڑوں کو مزید چھوٹی چھوٹی کیاریوں میں تقسیم کرکے ان پر پرالی(دھان کے تنکوں) کی ایک تہہ بچھا دی جاتی تھی۔ پرالی کی اس تہہ پر تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر پانی سے بھرے ہوئے مٹی کے کوزے رکھ دیئے جاتے تھے۔ علی الصبح طلوعِ آفتاب سے بہت پہلے غریب غرباء کو اس بات سے آگاہ کرنے کی خاطر ڈھول پیٹا جاتا تھا کہ وہ میدان میں جمع ہو کر کوزوں سے برف نکال لیں۔ اگر ڈھول کی آواز نہیں آتی تھی تو اس سے یہ مطلب لیا جاتا تھا کہ بادلوں کی موجودگی یا کسی اور وجہ سے برف نہیں بن سکی۔ برف جمع کرنے والے ہر شخص یا اس کے خاندان کو کیاریوں کی ایک مقررہ تعداد بانٹی جاتی اور نتائج کے مطابق ادائیگی کی جاتی تھی۔جوڑوں کی صورت میں افراد بانسوں کے درمیان بندھی اور بڑی بڑی ٹوکریوں سے جڑی ہوئی ہتھ گاڑیاں ان قطعات میں برف اکٹھا کرنے کے لئے لے جاتے تھے، جسے عورتوں اور بچوں نے جمع کیا ہوتا تھا۔ وہ اسے بڑے بڑے غاروں کے کناروں پر موجود برف کے ڈھیر پر اُلٹ دیتے تھے۔ ان غار نما گڑھوں کے اردگرد تنکوں کی ایک موٹی تہہ باڑ کی صورت میں لگا دی جاتی، جس کےگرد چھوٹی سی چار دیواری کی گئی ہوتی تھی، اس پر ایک موٹے سے چھپر کی چھت ڈال دی جاتی تھی۔ دیواروں اور غاروں کے کناروں کے درمیان تنگ سی راہداریاں ہوتی تھیں، جن سے گزر کر ہتھ گاڑیوں کے حامل افراد مختلف مقامات پر برف الٹ سکتے تھے۔ ہر ایک غار کے پیندے یا نچلے حصہ میں کریدنیوں اور موگریوں سے لیس آدمی موجود ہوتے تھے، جو برف کو ہموار کرکے اس کی تہہ جماتے تھے۔ برف کی پوری مقدار حاصل کرنے کے بعد غاروں کے دہانوں کو انتہائی احتیاط سے اینٹوں کی چنائی سے بند کردیا جاتا تھا۔ یہ آئندہ موسمِ گرما کے آغاز تک بند رہتے تھے۔ لاہور کے شہریوں کو موسم گرما کے دوران اپنی ضروریات کے لئے اس برف خانہ اور سنٹرل جیل میں واقع اسی نوعیت کے برف خانوں پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ نقد ادائیگی یا سیزن ٹکٹوں کے پیش کئے جانے پر مقررہ اوقات میں برف جاری کی جاتی تھی۔ مصنوعی برف بنانے والی اولین مشین بھی اسی میدان پر ان قدرتی برف خانوں کے قریب1870ء کی دہائی کے شروع میں نصب کی گئی، لیکن چند سال بعد کمرشل بلڈنگ کے سامنے قائم ہونے والی موجودہ فیکٹری نے جملہ ضروریات پورا کرنے کی خاطر مصنوعی برف کی ایک مناسب اور معتبر رسد کو یقینی بنا دیا ہے۔
اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ بلدیہ کی آب رسانی کی موجودگی سے قبل صرف لاہور کی سنٹرل جیل ہی واحد ایسی جگہ تھی، جہاں سے پینے کے صاف پانی کا حصول ممکن تھا اور اسے مناسب حد تک محفوظ خیال کیا جاتا تھا۔ لاہور شہر کے چند یورپی باشندے ہیضے کی وباء ( جو ان دنوں عام تھی) کے دوران جیل کے کنوؤں سے پانی نکالنے کی خاطر اپنے بہشتیوں کے لئے اجازت نامے حاصل کیا کرتے تھے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کیا کوئی دوست سلطان قطب الدین ایبک کے مزار کے بارے میں بتائے گا؟ میں نے اس لئے نہیں کہا کہ میں 5-6 بار گیا ہوں۔ اور اہلٍ لاہور سے آگے بڑھ جانا برا لگتا ہے۔ اس کے علاوہ فورٹریس سٹیڈیم اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے بارے میں‌بھی۔ مؤخر الذکر میں میں‌نے والد صاحب کے ساتھ کئی راتیں گذاری تھیں۔ کیا خواب سا خواب ہے۔ آج ان کے انتقال کو پورا ایک سال ہو گیا ہے۔
بےبی ہاتھی
 

قیصرانی

لائبریرین
میں‌نے تو دیکھا ہوا ہے۔ انار کلی میں ایک بغلی گلی میں۔ کچھ عرصہ قبل تک اس پر کوڑا کرکٹ ڈالا جاتا تھا ہمسائیہ گھروں سے۔ ویسے بہت سے لاہوریوں کو اس کا نہیں پتہ۔ اس لئے سوچا کہ کوئی دوست تفصیل سے بتادے۔
بےبی ہاتھی
 

شمشاد

لائبریرین
تو آپ تو صحیح جگہ پہنچ گئے تھے، ابھی حکومت کچھ اقدامات کر رہی ہے اس کی دیکھ بھال کی۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایسی بہت سی یادگاریں ضائع ہو رہی ہیں، حکومت کو خیال تو آیا ہے لیکن دیر سے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی نے کہا:
چلیں۔ سو پیسے سچ بات کہی۔لیکن بات تو لاکھوں کی کی ہے۔ :(
بےبی ہاتھی
پیکٹ پر لکھا ہے کہ یہ لاکھوں کی ہے، بلکہ انمول ہے، مگر حکومتی ٹیکس کی خاطر اس کی قیمت سو پیسے لکھی ہے :)
بےبی ہاتھی
 
Top