قصہ حاتم طائی جدید

قصّہ حاتم طائ -- 12-- ظفرجی
میں دبے پاؤں چلتا ہوا گھر کے دروازے پر پہنچا اور زور سے کنڈی کھٹکائ-
دروازہ عالیہ نے ہی کھولا- مجھے وہ کچھ پریشان سی دکھائ دی- میری غیرت جاگ اٹھی اور میں "عاشق" سے ایک دم شوھر بن گیا- ایک غیرت مند شوھر-
میں نے غُصّے میں کانپتے ہوئے پوچھا:
۔"کون آیا تھا گھر میں ؟؟"
" کک .... کوئ نہیں ... !!! "
وہ سرے سے ہی مُکر گئ- پھر ہمارے بیچ لڑائ شروع ہو گئ- میرا ایک ہی سوال تھا کہ گھر سے نکلنے والا اجنبی شخص کون تھا اور اس کا ایک ہی جواب کہ یہاں سرے سے کوئ آیا ہی نہیں-
مجھ پر وحشت سوار ہوئ اور میں نے اسی کے دوپٹّے سے اس کا گلہ دباتے ہوئے کہا:
" سچ سچ بتا دو .... کون تھا وہ ... ورنہ ٹوٹے کر کے صحن میں دفنا دونگا"
اس نے گھُٹّی گھُٹّی آواز میں کہا:
"بھبھ .... بھائ !!!"
میں جانتا تھا کہ عالیہ کا کوئ بھائ نہیں ہے- میں نے مایوس ہو کر اس کا گلہ چھوڑ دیا-
اس روز سے ھم دونوں کے بیچ ایک انجانی دیوار حائل ہو گئ- مجھے عالیہ میں ہزارہا خامیاں دکھائ دینے لگیں- وہ بھی کسی قدر بے رُخی برتنے لگی- ہمارے بیچ ہلکی پھلکی چخ چخ بھی شروع ہو گئ ، پھر ایک روز زوردار دھماکہ ہو گیا-
اس روز ہمارے بیچ خواہ مخواہ شدید لڑائ ہو گئ- اس نے غُصّے میں مجھے "کُبھار دی اولاد" کا لقب عطاء کر دیا- میں نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ پہلے دھوبیوں کی سات پشتوں کو دھویا پھر طلاق طلاق طلاق کے آٹھ دس فائر کر دیے-
اس نے خاموشی سے اپنا اسباب سمیٹا اور گھر سے رخصت ہو گئ-
رات کو جب یہ فقیر چارپائ پر گرا تو غُصہ کی بجائے ندامت گھیرنے لگی- احساس کے کوئلے دہکے تو دل و دماغ پر جمی کبرونخوت کی برف پگھلنے لگی- رفاقتوں کے دیپ بجھے تو تنہائ کے اندھیرے ڈسنے لگے اور میں زندگی میں در آئے اندھیروں میں بری طرح بھٹکنے لگا-
پوری رات افسوس میں گزری کہ آخر عالیہ نے مجھ سے کیوں بے وفائ کی- صادق سیکلوں والے کا لگایا ہوا یہ پنکچر زیادہ دیر کیوں نہ ٹھہر سکا اور تین ماہ بعد ہی گرھستی کا ٹائر کیوں پھٹ گیا-
میں "ہائے بے وفا " کہتا ہوا بستر پر گرا اور رونے لگا- شب خوابی کا مارا تو تھا ہی ، روتے بسورتے جانے کب آنکھ لگ گئ-
کچھ دیر بعد مجھے یوں لگا جیسے دروازہ زور زور سے پیٹا جا رہا ہو- میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا- آنکھیں ملتے ہوئے باہر جا کر دیکھا تو سامنے سجی سنوری عالیہ کھڑی تھی-
میرے جزبات کا سمندر بے قابو ہونے لگا اور میں " ہائے عالیہ !!!! " کہتا ہوا آگے بڑھا- اسی دوران اچانک کہیں سے صادق سائیکلوں والا نمودار ہوا اور مجھے زور کا دھکا دیا-
میں لڑھکیاں کھاتا کسی گہری کھائ میں جا گرا !!!
آنکھ کھلی تو بستر سے نیچے پڑا تھا اور دروازہ شدّت سے پیٹا جا رہا تھا-
 
Top