قصہ حاتم طائی جدید

حاتم جنگلوں اور صحراؤں میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ شہزادی حسن بانو کے تازہ سوال نے اسے دربدر کر کے رکھ دیا تھا۔ سوال اتنا مشکل تھا کہ اگر بورڈ کے امتحان میں پوچھا جاتا تو 80 فیصد طلباء یقیناً فیل ہو جاتے۔ سوال تھا۔۔۔۔ اس مولوی کی خبر لاؤ جو یہ کہتا ہے، مافی مافی مافی --- شادی ایک ہی کافی۔

پچھلے دوماہ سے وہ مختلف مکاتب فکر کے دوسو مولویان کا پلڈاٹ سروے کر چکا تھا۔ اگرچہ ان مولویان کا آپس میں چھینکنے پر بھی اختلاف تھا لیکن مسئلہء تعداد ازدواج پر سب کے سب متفق الیہ تھے۔ سو اس بار واقعی شہزادی نے حاتم کو سپلی دلانے کا تہیہ کر رکھا تھا۔

چلتے چلتے حاتم ایک لق و دق جنگل میں جا پہنچا، چہار سو جس کے ہو کا عالم تھا۔ اس نے ایک درخت سے مسواک توڑنے کا فیصلہ کیا۔ ناگاہ نظر اس کی ایک عبارت پر پڑی ، جو ایک درخت پر کندہ تھی۔ 'یہ چھانگا مانگا کا وہ طلسمی جنگل ہے ، جہاں کبھی ہارس ٹریڈنگ کے خفیہ میلے لگتے تھے۔ یہاں کی لکڑی سرکاری چوروں کے علاوہ کوئی نہیں کاٹ سکتا۔ جو بھی ایسا کرےگا، اندھا ہو جائیگا' ۔ حاتم نے فوراً مسواک کا ارادہ ترک کیا اور دانتوں میں ماچس کی تیلی مارتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

ابھی وہ سو دو سو کوس ہی چلا ہوگا کہ اس نے ایک پیرِ فرتوت کو ایک توت کے نیچے آرام کرتے دیکھا۔ حاتم اس درویش کی قدم بوسی کو جھکا ہی تھا کہ ناگاہ وہ بزرگ ہڑبڑا کر اٹھا اور عالم پریشانی سے کہا۔۔
ایتھے میری سیکل سی ... تے چمڑے دا بیگ؟؟
حاتم کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی، اس نے انتہائ میسنی سی صورت بنا کر کہا۔۔ قسم ان طہارت پسند پادشاہوں کی جو مانجھ مانجھ کر سرکاری خزانے کی صفائی کرتے ہیں ۔۔۔ اس فقیر نے نہ تو آپ کی سائیکل دیکھی .۔۔۔ نہ ہی چرمی بیگ ۔۔۔ شاید مجھ سے پہلے ہی یہ اسباب کوئی لپیٹ چکا تھا ۔۔۔ فقیر ایسے شاندار مواقع پر اکثر لیٹ ہو جاتا ہے۔

یہ سن کر پیر فرتوت نے ایک سرد آہ بھری اور گویا ہوئے۔۔ دنیا بے ثبات ہے اور اسباب اس کے عارضی، سو راہ للہ معاف کرتا ہوں کہ میں نے بھی یہ سامان ایک سرکاری اسکول سے ہی چُرایا تھا۔

حاتم نے کہا، بے شک یہ ملک ایک جنگل ہے اور آپ جیسے بزرگوں نے ہی اسے منگل بنا رکھا ہے، آپ ہی کی برکات سے یہاں شیر چیتے بھیڑیے ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں۔

وہ بزرگ اس تعریف پر پھولے نہ سمائے اور کہا۔۔۔مانگ کیا مانگتا ہے ۔۔۔اس دلّق پوش کے پاس کونسلرز سے لیکر ایم پی اے تک سب کے فون نمبر ہیں۔

حاتم نے کہا۔۔اے بزرگِ نیک طینت ۔۔۔ مجھے تو بس اپنے کام سے غرض ہے ۔۔۔ جلال پور جٹاں کا شہزادہ منیر شامی اسلام آباد سیکٹر ڈی 12 کی شہزادی حسن بانو پر فریفتہ ہے۔۔۔ شہزادی نے شہزادے کی دماغی حالت جانچنے کےلئے سات سوالات کا ایک پرچہ بنوایا ہے۔ منیر شامی نے اخبارات میں اس کا ٹینڈر دیا تو قرعہ اس فقیر کے نام نکلا۔ سو بارے پہلے سوال کے تلاش ہے اس مولوی کی جو عقدِ ثانی کا مُنکر ہو اور جنگلوں جنگلوں یہ صدا لگاتا ہو ۔۔۔ کہ ایک بار گھوڑی پر چڑھا ہوں ۔۔۔ دوسری بار چڑھنے کی ہمت نہیں !!!

یہ سن کر بزرگ نے تین بار پھونک ماری اور اپنا چشمہ صاف کرتے ہوئے بولے۔۔ اے حاتم !!! انسان خطاء کار ہے اور چرخ، فلک، عورت اس کے ازلی دشمن۔ اگرچہ یہاں ہر شخص بیگم گزیدہ ہے لیکن میں تجھے سیاسی رستہ ہی بتاؤں گا۔ سو اگر تُو ذات کا پٹواری ہے تو داستانِ بنی گالا سنا کر شہزادی کے سامنے سرخرو ہو جا اور اگر انصافی ہے تو داستانِ صفدری سے استفادہ کر کہ اس میں بہتوں کی عبرت کا سامان ہے۔

حاتم نے کہا 'یہ بندہء پر تقصیر "منصورہ" سے بیعت ہے ، نہ اِدھر کا ہے نہ اُدھر کا- ویسے بھی شہزادی کے سامنے سیاسی جواب دینا " آ گائے مجھے مار" والی بات ہے- اگر شہزادی خود انصافی نکلی تو اس غریب کی گردن مفت میں ماری جائے گی۔
( نکالنا اس بزرگ کا جیب سے آئی فون سیون اور سمجھانا گوگل ارتھ سے اس "مولوی بیزار زوجہ ثانی" کا مکمل ایڈریس جو ضلع سرگودھا ، چک نمبر 73 جنوبی کے شمال میں رہتا تھا !!!)​

۔۔۔
از ملک ظفر اقبال
 
حاتم نعرے مارتا ہوا اس بزرگ سے رخصت ہوا اور سرگودھا کی راہ پکڑی۔ سو دو سو کوس ہچکولے کھانے کے بعد اس نے ٹکٹ فروش سے اخلاقاً دریافت کیا، اے اس بدبخت لاری کے کم بخت کنڈکٹر !!! سرگودھا کب آئے گا ؟
جواباً کنڈکٹر بھی اسی شیریں زبانی سے مخاطب ہوا ، بیٹھا رہ ... جدُوں کَن تے کِنّوں وجیا سمجھ لئیں سرگودھا آگیا۔ بہرحال تین دن اور تین رات کی مسافت کے بعد لوکل بس ایک شہر میں داخل ہوئی جہاں ہر طرف یہ صدا تھی۔ "سٹھ روپئے درجن سٹھ روپئے درجن !!!"

حاتم نے سر اٹھا کر دیکھا تو فضاؤں میں اڑتے ہوئے شاہین بھی مالٹے کھا رہے تھے۔ حاتم نے بس چھوڑی اور کئی روز تک شہر میں مٹرگشت کرتا رہا- کچھ روز وہ " چوکی بھاگٹ" میں چوکڑی مارے بیٹھا رہا، پھر "بھیرہ" کا پھیرا لگایا لیکن مراد بر نہ آئی۔ ایک روز وہ " جھال چکیاں" میں بیٹھا مکھیاں مار رہا تھا کہ اچانک غیب سے نداء آئی۔
" کسے دا نئیں کوئی ------ ایتھے یار سارے جھوٹھے نیں"
اس نے چونک کر پہلے تو ادھر ادھر دیکھا پھر جھٹ جیب سے موبائل نکالا- دوسری طرف پیرِ فرتوت تھے- حاتم نے کہا۔۔۔
اے کی کیتا جے پِیرو ؟؟
جواب آیا " کی ہو گیا وِیرو ؟؟
حاتم سسک کر بولا۔۔چرخ و فلک اس فراڈ پر قہقہہ فغاں ہیں جو آپ نے مجھ سے فرمایا ہے۔
جواب آیا۔۔۔ غم نہ کر بیٹا ۔۔۔ فراڈ جمہوریت کا حسن ہے اور اسی میں قوم خوش رہتی ہے، بتا کیا مسئلہ ہے ؟؟
حاتم بولا۔۔یا وحشت .... یہ کون سا دیس ہے ؟؟ نہ تو یہاں کوئی مولوی ہے نہ ہی کسی کو شادی کا خیال۔ ہر شخص ایک عدد شکاری کُتّا اور ایک مرغِ اصیل بغل میں دبائے پھرتا ہے۔ گاہ گاہ شام پگاہ اسی کی خدمت گاری ہے ---- لوگ خود مونگ پھلی پھانکتے ہیں اور بادام کُکّڑوں کو کھلا دیتے ہیں۔

بزرگ نے کہا۔۔۔اے حاتم یہ سرگودھا ہے، دُنیا کے خالص ترین "ملک" یہاں بستے ہیں- بہرحال تو یہاں سے دس قدم سیدھے اور بیس قدم اُلٹے چل۔ وہاں تجھے ایک چِٹّا اصیل کُکڑ نظر آئے گا، اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہ ، نصف کوس پر گوہرِمقصود ہاتھ آوے گا ۔۔ نام اس کا مولوی مقصود ہے، اسے ہمارا سلام دیجئو، اور اشٹوری کی فرمائش کیجیو ۔

حاتم خدا کا نام لیکر اٹھ کھڑا ہوا، ابھی نو قدم ہی چلا تھا کہ اسے ایک مرغ اصیل ابیض دکھائی دیا۔۔۔ ادھر حاتم نے آستین چڑھائی ادھر اس کُکّڑ نے دوڑ لگائی۔ ابھی دونوں نو کوس ہی بھاگے تھے کہ اچانک مرغ نے بریک لگائی اور پیچھے مڑ کر گویا ہوا۔۔۔
اے حرص و ہوّس کے پجاری، اگر تیرا مقصود محض ایک انڈہ ہے، تو کسی مرغی کا دروازہ کھٹکٹا، کیوں میرے پیچھے خوار ہوتا ہے؟؟

حاتم نے کہا : اے مرغِ بادِ نماء !!! تیرا خدشہ بے جاء ہے، بخدا حکومت سے بجلی اور مرغ سے انڈے کی امید رکھنا خواری ہے اور جو ایسا کرے نرا پٹواری ہے۔
( ہونا حاتم کا مُرغِ اصیل پر سوار اور پہنچنا ایک ہرے بھرے باغ میں ، جہاں مولوی مقصود حُقّہ پیتے ہوئے ہر کش پر یہ صدا لگاتا تھا۔۔۔
'مافی مافی مافی ۔۔۔ شادی ایک ہی کافی'

حاتم کو دیکھ کر وہ کپڑے جھاڑتا اٹھ کھڑا ہوا ، حُقّے کا پانی سر پر انڈیلا ، پھوٹ پھوٹ کر رویا اور آخر میں کھانس کھانس کر ہنسا۔
جواباً حاتم بھی کھانس کھانس کر رویا اور پھوٹ پھوٹ کر ہنسا۔ اس پر وہ شخص بولا، سن اے آدم زاد، رویا اس لئے ہوں کہ سالوں بعد آج ہی بازار سے ایک پاؤ کٹّے کا گوشت لایا تھا ، اوپر سے تُم بن بلائے مہمان بن کر آ گئے ہو اور ہنسا اس لئے ہوں کہ تمہاری آمد سے پہلے ہی میں کَٹّا چٹ کر چُکا ہوں ۔

حاتم نے کہا: اے پیرِ مرد میں رویا اس لئے ہوں کہ جسے تو نے کٹّاکٹ سمجھ کر کھا لیا ہے ، وہ کھوتا تھا، اور ہنسا اس لئے ہوں کہ شکر ہے سرگودھے میں ایک کھوتا تو کم ہوا۔

اس پر دونوں دھاڑیں مار مار کر ہنسے یہاں تک کہ پیٹ میں وٹ پڑ گئے- پھرحاتم نے سو کا مڑا تڑا نوٹ نکال کر کہا۔۔ چل ہن اپنی کہانی سُنا۔
 

یوسف سلطان

محفلین
حاتم خدا کا نام لیکر اٹھ کھڑا ہوا، ابھی نو قدم ہی چلا تھا کہ اسے ایک مرغ اصیل ابیض دکھائی دیا۔۔۔ ادھر حاتم نے آستین چڑھائی ادھر اس کُکّڑ نے دوڑ لگائی۔ ابھی دونوں نو کوس ہی بھاگے تھے کہ اچانک مرغ نے بریک لگائی اور پیچھے مڑ کر گویا ہوا۔۔۔
اے حرص و ہوّس کے پجاری، اگر تیرا مقصود محض ایک انڈہ ہے، تو کسی مرغی کا دروازہ کھٹکٹا، کیوں میرے پیچھے خوار ہوتا ہے؟؟
:laughing::laughing::laughing:
 
اے حاتم سنو !!!
میں چک نمبر 733 جنوبی کا امام مسجد تھا، علاقے بھر میں میرے جیسا خطیب کوئی نہ تھا۔ اسلامی دنیا کے مسائل پر میری ہمیشہ نظر رہتی تھی اور میں شب و روز مسلمانوں کے فکری انحطاط، اس کے اسباب اور انکے سدباب کےلئے متفکر رہتا تھا۔ دور دور سے لوگ میرا وعظ سننے آتے تھے۔ میں سماج کی ہر برائی پر نکیرکرتا اور ان روایات کا خاتمہ فرضِ عین سمجھتا جو عین جاہلیّت کی پیداوار ہیں۔ اُمّتِ مسلمہ کو ازسرِنو منظم کر کے عظمتِ رفتہ پر کھڑا کرنا، میرا مشن اور مقصودِ حیات تھا۔

ایک روز دورانِ مطالعہ کسی عربی رسالے کا ایک مضمون نظر سے گزرا۔ مضمون کیا تھا، امت مسلمہ کا نوحہ تھا۔ یہ ان بہن بیٹیوں کا دکھ درد تھا جو ہماری بوسیدہ روایات کے سبب تجرّد کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان میں کنواریاں بھی ہیں، مطلقہ اور بیوائیں بھی۔ عالمِ اسلام میں مردوں کے مقابلے میں جن کی تعداد تین گنا ہو چکی ہے۔ مضمون نگار نے لکھا تھا کہ تعدّدِ ازواج ہی اس مشکل کا واحد حل ہے ورنہ فحاشی کا وہ سیلاب آئے گا جس میں پوری امت خش و خاشاک کی طرح بہہ جائے گی۔مضمون کیا پڑھا، راتوں کی نیند اُڑ گئی، اگلے ہی روز آدینہ تھا۔ سوچا سوئی ہوئی اُمّت کو جگایا جائے اور عقدِ ثانی کے فیوض و برکات سے آگاہ کیا جائے۔

اس روز سے میں نے ہر آدینہ مسئلہء تعدد ازواج پر موقوف کر دیا۔ اپنے پُر دھواں دھار خطابات میں مرد حضرات کے ضمیر کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگایا، میں نے کہا بھائیو اُمّتِ مسلمہ کی کامیابی تعدد ازواج میں ہے، ہائے افسوس کہ امّت کی بیٹیاں گھروں میں بوڑھی ہو رہی ہیں اور تم ایک ہی زوجہ پر قناعت کیے بیٹھے ہو۔ ڈرو اس وقت سے جب سیلابِ عریانیّت معاشرتی اقدار کو بہا کر لے جائے گا۔ میری ان تقاریر کا خاطر خواہ اثر ہوا چنانچہ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ادھیڑ عمر بزرگوں نے بھی عقدِ ثانی کے نقد ارادے فرما لیے۔

ایک شب جب میں وظیفہء زوجیت، جس میں یہ فقیر سو دفعہ زوجہ زوجہ کا ورد کیا کرتا تھا، میں منہمک تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی، باہر جا کر دیکھا تو ایک جمِّ غفیر کھڑا تھا۔ میں پہلے تو گھبرایا کہ یا وحشت ... اتنے سارے "مَلک" مولوی کے دروازے پر ؟؟ ، پھر یہ سوچ کر خود کو تسلّی دی کہ شاید کوئی نکاح کا مسئلہ درپیش ہو۔ چنانچہ مہمان خانہ کھلوایا، جو کچھ بن پڑا حاضر کیا اور مقصود اس شب گردی کا دریافت کیا۔

ان میں سے ایک شخص جو فطرتاً نیک اور سعادت مند خاوند معلوم پڑتا تھا یوں گویا ہوا: اے رہبرو رہنمائے امّت !!! تعدّد ازواج پر آپ کے پے در پے خطبات نے ہمارے زنان خانوں میں آگ لگادی ہے، ہماری زنانیاں آپ کے غیر ذمہ درانہ رویّے پر سخت معترض ہیں۔ گھروں کے چولھے ٹھنڈے پڑنے لگے ہیں اور محلے میں آپکے خلاف لاوا پک رہاہے۔ اس سے پہلے کہ "مولوی بدل تحریک" کا آغاز ہو "مسئلہء تعدّد ازواج" کو چھوڑیے اور کوئی نیا موضوع پکڑئیے ، بلکہ ہو سکے تو " خاوند کے حقوق" پر بات کیجئے تاکہ ہم بھی کوئی دن سُکھ کا سانس لے سکیں۔

میں نے پورے تحمل سے جرگہ کی بات سنی اور کہا: "اے صاحبانِ بے عقل و دانش !!! افسوس کہ ڈالڈا کھا کھا کر تمہاری عقلوں پر پردے پڑگئے ہیں۔۔۔ کیا مولوی کا کام صرف نماز روزے کی تلقین ہے ؟ سماجی بگاڑ پر نکیر کا اسے کوئی حق نہیں ؟؟


 
اس پر ایک عقلِ کُل پھڑک کر بولا : پچھلا مولوی تو بڑی سیانی باتیں کرتا تھا ۔۔۔ آپ کو نجانے کیا ہو گیا ہے؟
میں نے کہا: پچھلا مولوی واقعی سیانا تھا۔ اُس نے تمہیں طوطے مینا کے قصّے سنائے، تم سے حلوے اور بادام کھائے، پھر ایک رات مسجد کا چندہ ، گھڑیال اور دریاں سمیٹ کر چلتا بنا۔ تم وہ دوغلے لوگ ہو کہ جھوٹوں کو تو سر پہ بٹھاتے ہو ، اور مولوی سچ پہ اتر آئے تو اُس کا پاجامہ پھاڑنے لگتے ہو۔

اس پر وہ زوجہ پرست بولا: افسوس اس مُلا پر جو خود تو ایک زوجہ پر قناعت کرے اور مقتدیوں کو چار چار کے مشورے دیتا پھرے۔ اگر آپ واقعی سچے ہیں اور خیال ہماری بہتری کا ہے تو پہلے خود بسم اللہ کیجئے۔۔۔ ہم آپ کے پیچھے ہیں۔

یہ سُن کر ایک لمحے کو تو مجھے جھٹکا لگا- پھر معاشی اعداد و شمار کا سہارا لیتے ہوئے کہا: اے مُرغ پرستو !!! جس تنخواہ پر تم لوگوں نے مجھے مولوی رکھا ہے اس میں تو مرغی کا دانہ پورا نہیں ہوتا مبادہ کہ خرچہ زوجہء ثانی کا برداشت کیا جاوے۔

لیکن وہ احمق بھی میرے ہی تربیت یافتہ تھے میری ہی گھڑی ہوئی دلیلیں مجھ پر چسپاں کرنے لگے ، کہنے لگے رزق دینے والی ذاتِ بابرکت اللہ تعالی کی ہے، حوصلہ رکھیے، اور نیک کام کی بنیاد رکھ ہی دیجئے، ہم پیچھے امام کے اللہ اکبر کہیں گے۔

خیر وہ مجلس تو جلی کٹّی سنا کر رخصت ہوئی ، میں چارپائی پہ ٹینشن لینے لگا۔ جی چاہا کہ راتوں رات تین نکاح کر کے محلّے والوں کے دانت کھٹّے کر دوں، لیکن اس خیالِ انور کے پیچھے کئی اوھام سر اٹھاتے تھے۔ اوّل تو سخت گیر زوجہ کے سامنے ایسا مفسد ارادہ ظاہر کرنا "آ گائے مجھے مار" والی بات تھی، دوم دو کمروں والے کوارٹر میں چار بیویاں رکھنا رزم گاہِ حق و باطل سجانے کے مترادف تھا۔

ساری رات اسی شش و پنج میں گزری- ایک طرف چار جمعوں کے سخت تاکیدی بیانات اور دوسری طرف بے شمار مسائلِ حیات۔ اگر خطبات سے منہ موڑتا تو الزام منافقت کا آتا اور عقدِ ثانی کرتا تو ایک نیا سیاپا پڑ جاتا۔

غرض کہ سپیدہء سحر نمودار ہوا اور سرگودھا کے ککڑوں نے بانگیں دینا شروع کر دیں۔ میں سجدے میں گرا تو وہیں سو گیا- زوجہء نیک فطرت نے یہ احوال دیکھا تو بھاگی چلی آئی اور بڑے چاؤ سے بولی : وے مر جانڑیاں کی ہو گیا ای ---- سوں گیاں ایں کہ مر گیا ایں ؟ میں نے سجدے میں پڑے پڑے کہا: اے نیک بخت، جاہلوں سے پردہ کئے پڑا ہوں، تیرہ بخت دوسری شادی کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس پر وہ نیک سیرت بولی: کی آکھیا ای ؟؟ اک واری فیر بول ؟ میں نے کہا : اے بنتِ حوا !!! بندہ خطاء کا پتلا ہے اور بیوی اس کی سزا، اوپر سے تقدیر اس بندہء پرخطاء سے ایک اور زوجہ کی متقاضی ہے۔

ہماری بات سن کر وہ پھڑک کے بولی: بڑا دسویں میں ہے اور چھوٹا میری گود میں، مولوی بن خادم اعلیٰ نہ بن۔
میں نے کہا، مولوی کی بات زبان سے نکل چکی، اب خادمِ اعلی بھی اسے واپس نہیں لا سکتا۔ اگر صبر کرے گی تو اجرِ دارین پائے گی۔ ورنہ گیلی لکڑی کی طرح سلگتی ہی رہے گی، شادی تو اب ہو ہی ہو !!!
 
غرض کہ تین راتیں اور تین دن یہ فقیر زوجہ مبارکہ کے پاؤں دباتا رہا اور کڑوی کسیلی سننے کے باوجود عقد ثانی کے فوائد اور سوکن کے فضائل سے متواتر آگاہ کرتا رہا۔ اس محنتِ شاقہ کے نتیجہ میں بالاخر اس نیک بخت کا دل پسیجا اور اس قدر پسیجا کہ وہ خود ہمارے لئے کوئی مناسب رشتہ ڈھونڈنے پر رضامند ہو گئی۔

ایک روز جب یہ درویش ظہرانے کے بعد قیلولہ کے واسطے زنان خانے میں داخل ہوا تو زوجہ نے بتایا کہ چک 54 جنوبی میں ایک رشتہ پڑا ہے۔ لڑکی جوان ہے، سرو قد اور نہایت شریف۔ چہاردانگ عالم اپنا ثانی نہیں رکھتی، ماں باپ اتنے غریب ہیں کہ بمشکل سانس لیتے اور حکومت کا شکر ادا کرتے ہیں۔

زوجہء خوش خصال نے مشورہ دیا کہ جتنی جلدی بن پڑے، اس پری جمال سے عقد فرما لیجئے تاکہ اس کی دنیا سنور جائے اور آپ کی آخرت۔ میں نے کہا، اے نیک بخت !! خدا تیرا اقبال بلند کرے۔ ( اقبال میرے سالے کا نام ہے) ۔۔۔ ایسا کر کہ ایک بار پھر تصدیق کر لے، کہیں ایسا نہ ہو کہ لڑکی والے بعد میں مُرتد ہو جاویں۔

اس پر وہ کشور کشاء بولی۔ انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ غریب باپ کی کمائی ایک نیک سیرت جوائی ہی ہوتا ہے ۔۔۔ اور آپ جیسا نیک سیرت چراغ ڈھونڈنے سے نہ ملے گا۔

یہ سن کر میں امید سے ہو گیا۔

رات خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ گھوڑے پر سوار ہوں، بارات چل رہی ہے کہ قریب ہی کوئی خود کش آن پھٹتا ہے، گھوڑا اور باراتی بچ جاتے ہیں ، اور میں مر جاتا ہوں۔ پھر دیکھا کہ سفید گھوڑی پر سوار ہوں، بارات چک 54 جنوبی کی طرف جا رہی ہے، ممو والے پُل سے دو چار کُتے برآمد ہوتے ہیں، گھوڑی "ترٹھ" کر بھاگتی ہے اور میں پتنگ کی طرح پھرکیاں کھانے لگتا ہوں۔ غرض کہ اسی بھاگ دوڑ میں صبح ہو گئی۔

اگلے روز وہ نیک بخت سویرے ہی سویرے ہمراہ ایک سہیلی کے چک 54 جنوبی سدھاری اور میں چارپائی پر لیٹ کر ٹینشن لینے لگا۔ ذرا سی ہوا بھی چلتی تو بھاگ کر دروازے پر جا کھڑا ہوتا، یوں دن بھی بھاگتے دوڑتے گزر گیا۔ عصر کے بعد وہ نیک اختر واپس آئی تو چہرہ بجھا ہوا تھا اور آنکھیں سرخ۔
میں نے دھڑکتے دل سے پوچھا: نصیبِ دشمناں ۔۔۔کیا بخار ہو گیا ؟
وہ بولی۔۔۔ بخار نہیں، انکار ہوا ہے اور وہ بھی سخت بزّتی کے ساتھ۔۔۔

میں خاموش ہو کر ارمانوں کی ٹوٹی کرچیاں چننے لگا، انسان بھی عجب چیز ہے، خواہ مخواہ جھوٹی امیدیں باندھ لیتا ہے، بھلا رشتہ بھی کوئی بیری پہ لگا پھل ہے کہ جو چاہے اچک لے۔

میں نے سر کھجاتے ہوئے یوں ہی پوچھ لیا۔۔۔ آخر انکار کی کوئی توجیہ بھی تو کی ہو گی؟ یقیناً جہیز وغیرہ کا خوف دامن گیر ہو گا۔

بولی فرماتے ہیں ہماری بیٹی کوئی برص کی مریض نہیں، نہ ہی گنجی ہے اور نہ ہی اس کے سر پہ سینگ اگ آئے ہیں جو ایک شادی شدہ بوڑھے مولوی سے بیاہ دیں۔

میں نے کہا۔۔۔ اگر زور "مولوی" پر تھا تو یقیناً گنہگار ہوئے ہیں، باقی بڑھاپے کی تو محض تہمت ہے اور شادی شدہ ہونا کوئی عیب نہیں۔

وہ بولی۔۔۔ کہتے ہیں تمہارے مولوی کو آخر ہوا کیا ہے جو ایک منکوحہ کے ہوتے ہوئے دوسری کے پیچھے بھاگتا ہے، خوفِ خدا بھی کوئی چیز ہے۔

میں نے کہا: خوفِ خُدا تو انہیں کرنا چاہیے اگر جمعہ کے جمعہ مسجد آ کر میرے خطبات سن لیتے تو یقیناً ایسی کڑوی بات نہ کرتے، خیر ہے بھول جاؤ ایسے جہلاء ہر ملک و قوم میں بکثرت پائے جاتے ہیں اور یہی ملت کے زوال کا باعث ہیں۔

خیر وقت یونہی گزرتا گیا لیکن دل کی خلش کم نہ ہوئی۔ سوچا لطفِ زندگی اگر ہے تو عقدِ ثانی میں ورنہ گُڑ بھی روز کھایا جائے تو پیاز لگنے لگتا ہے۔ سو ہر روز مسجد سے یہ قصد کر کے نکلتا کہ کچھ بھی ہو اگلے آدینہ تک ضرور نکاح کر لوں گا لیکن کسی نہ کسی وجہ سے ہر بار ارادہ پوسٹ پونڈ ہو جاتا۔
 
Top