قران کوئز 2017

نبیل

تکنیکی معاون
اصحاب الحجر اور اصحاب الائیکہ کا ذکر تو سورۃ حجر میں موجود ہے:
وَإِن كَانَ أَصْحَاب ٱلْأَيْكَةِ لَظَٰلمین

وَلَقَدْ كَذَّبَ أَصْحَاب ٱلْحِجْرِ ٱلْمُرْسَلِينَ


اور سورۃ ق سے

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَ۔ٰبُ ٱلرَّسِّ وَثَمُودُ
وَأَصْحَ۔ٰبُ ٱلْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ۚ كُلٌّ كَذَّبَ ٱلرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ
 
اصحاب الائیکہ
اصحاب الحجر
اصحاب الرس
وَ قَالُوۡا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمۡ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا ۙ وَّ لَا يَغُوۡثَ وَيَعُوۡقَ وَنَسۡرًا‌ۚ‏ ﴿۲۳﴾ سورہ نوح
اور کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ود اور سواع اور یغوث اور یعقوق اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا ﴿۲۳﴾
ود،سواع، یغوث، یعقوق،نسر پانچ مشہور پُرانے بت قوم نوح علیہ السلام نے سب سے پہلے پوجا شروع کی تھی
 

ربیع م

محفلین
حضرت ادريس علیہ السلام کا اصلی نام اخنوخ ہے آپ بہت زیادہ درس دیا کرتے تھے اس لیے ادریس مشہور ہوئے

یہ ایک خاصی طویل بحث اور اختلافی ہے کہ اخنوخ کن نام ہے بہرحال عام مروج تورات کی روایت کے مطابق ادریس علیہ السلام کا نام ہی اخنوخ کہہ لیتے ہیں
 

نبیل

تکنیکی معاون
وَ قَالُوۡا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمۡ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا ۙ وَّ لَا يَغُوۡثَ وَيَعُوۡقَ وَنَسۡرًا‌ۚ‏ ﴿۲۳﴾ سورہ نوح
اور کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ود اور سواع اور یغوث اور یعقوق اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا ﴿۲۳﴾
ود،سواع، یغوث، یعقوق،نسر پانچ مشہور پُرانے بت قوم نوح علیہ السلام نے سب سے پہلے پوجا شروع کی تھی

یہ بتوں کے نام ہیں نا کہ قوم کا نام جیسے کہ آپ کا سوال تھا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
یہ ایک خاصی طویل بحث اور اختلافی ہے کہ اخنوخ کن نام ہے بہرحال عام مروج تورات کی روایت کے مطابق ادریس علیہ السلام کا نام ہی اخنوخ کہہ لیتے ہیں

اسی لیے میں بار بار گزارش کر رہا ہوں کہ سوال صرف قران میں سے کریں ورنہ مجھ جیسوں کا اس میں حصہ لینا مشکل ہو جائے گا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
سورہ بنی اسرائیل یا الاسراء کا آغاز ہی واقعہ معراج سے ہے۔

اسراء اور معراج دونوں ایک ہی رات میں ضرور تھے لیکن الگ سفر تھے۔ اسراء مسجد حرام سے مسجد اقصاء تک کا سفر تھا جس کا ذکر سورۃ اسراء میں موجود ہے جبکہ معراج کا ذکر سورۃ نجم میں موجود ہے۔
 
بتائے دیتا ہوں۔
سورہ روم کی ابتدائی چند آیات۔
جب ایک طرف مسلمان قریشِ مکہ کے ظلم میں پس رہے تھے۔ اور دوسری طرف ایرانی رومیوں پ قابض ہو گئے تو مشرکین مسلمانوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ اس دوران یہ آیات نازل ہوئیں۔ اور مسلمانوں کو روم کے غلبہ اور عنقریب فتح کی نوید سنائی گئی۔ اور پھر لوگوں نے اس پیشنگوئی کو درست ہوتے ہوئے دیکھا۔
مزید تفصیل کے لیے۔
 
آخری تدوین:
Top