حسان خان
لائبریرین
خانم 'میری شیل'، معروف بہ 'لیدی شیل'، ایران میں برطانیہ کے سفیر 'جستِن شیل' کی ہمسر تھیں، جنہوں نے اپنے شوہر کے ہمراہ ناصرالدین شاہ قاجار کے دور میں ۱۸۴۹ء سے ۱۸۵۳ء کے درمیان کا زمانہ ایران میں سفر کرتے گذارا تھا، اور پھر اپنے دیار واپس جا کر ۱۸۵۶ء میں 'ایران میں زندگی و آداب و رسوم کی جھلکیاں' کے نام سے اپنی سفری یادداشتیں انگریزی میں مرتّب و شائع کی تھیں۔ اُن کی اِس کتاب کا فارسی ترجمہ 'خاطراتِ لیدی مری شیل' کے نام سے شائع ہو چکا ہے، جس کا ترجمہ حُسین ابوترابیان نے کیا تھا۔ مندرجۂ ذیل اقتباس کتاب کے اُسی فارسی ترجمے سے پیش کیا گیا ہے، اور بعد ازاں اُردو ترجمہ بھی فارسی ہی کے توسط سے کیا گیا ہے۔
"تعجبآور است که در یکی از شهرهای مهم ایران، حتی یک کلمه فارسی هم شنیده نشود. در تبریز تنها زبانی که در خیابان و بازار به گوش میرسد، ترکی است، که به نظر من زبان خشن و ناهنجاری است. برای نشان دادن درجهٔ خشونت این زبان و به کار گرفتن آن در موقع امر و تحکم، ایرانیها مثلی را نقل میکنند که: وقتی حضرت آدم بنا شد از بهشت اخراج شود، جبرئیل از این بندهٔ گناهکار، به زبان فارسی خواست که از بهشت بیرون برود، ولی «آدم» اعتنا نکرد. جبرئیل سپس به زبان عربی و آنگاه به زبان سانسکریت و بعداً به زبانهای دیگر دستور خود را تکرار نمود ولی نتیجهای نگرفت، تا آنکه غضبناک شد و به زبان ترکی فریاد زد: «کوپک اووغلی، چخ بوردان»، که با شنیدن آن «آدم» بدون معطلی از بهشت بیرون رفت.
ترکی، به زبان صورت محلّی آذربایجان، به قدری در این ایالت اشاعه دارد که جز در شهرهای مهم و آن هم در بین جماعت سطح بالا، اصولاً کسی قادر به فهمیدن زبان فارسی نیست. زبان ترکی که در آذربایجان صحبت میشود اختلاف زیادی با ترکی که در استانبول رایج است ندارد، با این تفاوت که در زبان ترکی استانبولی کلمات، روانتر، لطیفتر و بدون صلابت تلفظ میشود، در حالیکه در زبان ترکی ایران، خشونت و صلابت اولیهٔ آن حفظ شدهاست و در نتیجه، این دو ملت زبان یکدیگر را به اشکال درک میکنند. زبان ترکی در غالب نقاط ایران مورد استفاده قرار میگیرد. به طوری که تا حدود یک صد مایلی تهران یعنی تا حوالی قزوین، مردم به جای فارسی به زبان ترکی صحبت میکنند و حتی در بین خانوادهٔ دربار، زبان فارسی جز در مواقع رسمی به کار برده نشده، اغلب اوقات، تمام اعضاء دربار - که شامل دو تا سه هزار نفر شاهزاده هستند - به همان زبان اجداد خود، که از آن سوی دیوار چین (پکن) آورده شده، تکلم مینمایند، چون در حدیث است که ایل قاجار از اولاد نگهبانان سلطنتی امپراطوری آسمانی چین بودهاند.
مناطق مرکزی و جنوبی ایران پر از عشایری است که به ترکی صحبت میکنند. در ایالات ساحلی دریای خزر مثل گیلان و مازندران یک نوع زبان فارسی به صورت لهجهٔ محلی رایج است. و مردم کوهنشین متعلق به عشایر خالص ایرانی مثل: کردها و لکها نیز دارای زبان مخصوص به خود هستند، و به نظر میرسد که آنها تنها مردمی در ایران باشند که ترکها نتوانستهاند زبانشان را تحت تأثیر خود درآورند."
"تعجّب آور ہے کہ ایران کے ایک اہم شہر میں حتیٰ ایک کلمہ فارسی بھی سنائی نہ دے۔ تبریز میں واحد زبان جو خیابان و بازار میں کانوں تک پہنچتی ہے، تُرکی ہے، جو میری نظر میں ایک دُرُشت و ناتراشیدہ و بدسلیقہ زبان ہے۔ اِس زبان کی دُرُشتی، اور [فقط] امر و فرمان کے موقعوں پر اِس کے استعمال کی سازگاری واضح کرنے کے لیے ایرانیان ایک ضرب المثَل نقل کرتے ہیں کہ: جب حضرتِ آدم کو بہشت سے اِخراج کرنے کا فیصلہ ہوا تو جبرئیل نے اِس بندۂ گناہ کار سے زبانِ فارسی میں خواہش کی کہ وہ بہشت سے بیرون چلے جائے، لیکن «آدم» نے اعتناء نہ کی۔ جبرئیل نے پھر زبانِ عربی میں اور پھر زبانِ سنسکرت میں اور بعداً دیگر زبانوں میں اپنے حکم کو تکرار کیا لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ تا آنکہ وہ غضب ناک ہو گیا اور اُس نے زبانِ تُرکی میں فریاد ماری: «کوپک اووغلی، چخ بوردان» (اے بچۂ سگ! نکل جا یہاں سے!)، کہ اُس کو سنتے ہی «آدم» کسی وقفے کے بغیر بہشت سے بیرون چلا گیا۔
آذربائجان کی علاقائی گُفتاری زبان کے طور پر تُرکی اِس صوبے میں اِس قدر رائج ہے کہ بجز اہم شہروں میں، اور وہ بھی صرف طبقاتِ بالا کے افراد میں، اصولاً کوئی شخص زبانِ فارسی فہم کر پانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ جو زبانِ تُرکی آذربائجان میں تکلّم ہوتی ہے وہ استانبول میں رائج تُرکی سے زیادہ مختلف نہیں ہے، لیکن یہ تفاوت ہے کہ استانبولی تُرکی میں کلمات رواں تر، لطیف تر، اور سختی و کرختی کے بغیر تلفظ ہوتے ہیں، جبکہ ایران کی تُرکی میں زبان کی اصلی دُرُشتی و سختی و کرختی محفوظ رکھی گئی ہے، نتیجتاً یہ دو ملّتیں ایک دوسرے کی زبان کو مشکل سے درک کرتی ہیں۔ زبانِ تُرکی ایران کے بیشتر مناطق میں مُستعمَل ہے۔ بہ عنوانِ مثال تہران سے سو مِیل دور تک، یعنی قزوین کے اطراف تک، مردُم فارسی کی بجائے تُرکی میں گفتگو کرتے ہیں اور حتیٰ کہ درباری خانوادے کے مابین بھی فارسی بجز سرکاری و رسمی مواقع کے استعمال نہیں ہوتی، اور اغلب اوقات، دربار کے تمام اعضاء - جو دو سے تین ہزار شاہ زادوں اور شاہ زادیوں پر مشتمل ہیں - اپنی اُسی اجدادی زبان میں، جو دیوارِ چین کے اُس طرف (پیکینگ) سے لائی گئی تھی، تکّلم کرتے ہیں، چونکہ روایت میں ہے کہ قبیلۂ قاجار سلطنتِ آسمانیِ چین کے نگہبانوں کی اولاد میں سے تها۔
ایرانی کے مرکزی و جنوبی مناطق اُن قبائل سے پُر ہیں جو تُرکی میں گفتگو کرتے ہیں۔ بحرِ قزوین کے ساحلی صوبوں مثلاً گیلان و مازندران میں فارسی زبان کے ایک قسم کے علاقائی زبانچے رائج ہیں۔ اور خالص ایرانی قبائل سے تعلق رکھنے والے کوہ نشیں مردُم مثلاً کُرد اور لک بھی اپنی ایک مخصوص زبان رکھتے ہیں۔ اور ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ایران میں صرف وہ ہی ایسی قومیں ہیں جن کی زبان پر تُرکان اثر گُذار نہیں ہو سکے ہیں۔"
"تعجبآور است که در یکی از شهرهای مهم ایران، حتی یک کلمه فارسی هم شنیده نشود. در تبریز تنها زبانی که در خیابان و بازار به گوش میرسد، ترکی است، که به نظر من زبان خشن و ناهنجاری است. برای نشان دادن درجهٔ خشونت این زبان و به کار گرفتن آن در موقع امر و تحکم، ایرانیها مثلی را نقل میکنند که: وقتی حضرت آدم بنا شد از بهشت اخراج شود، جبرئیل از این بندهٔ گناهکار، به زبان فارسی خواست که از بهشت بیرون برود، ولی «آدم» اعتنا نکرد. جبرئیل سپس به زبان عربی و آنگاه به زبان سانسکریت و بعداً به زبانهای دیگر دستور خود را تکرار نمود ولی نتیجهای نگرفت، تا آنکه غضبناک شد و به زبان ترکی فریاد زد: «کوپک اووغلی، چخ بوردان»، که با شنیدن آن «آدم» بدون معطلی از بهشت بیرون رفت.
ترکی، به زبان صورت محلّی آذربایجان، به قدری در این ایالت اشاعه دارد که جز در شهرهای مهم و آن هم در بین جماعت سطح بالا، اصولاً کسی قادر به فهمیدن زبان فارسی نیست. زبان ترکی که در آذربایجان صحبت میشود اختلاف زیادی با ترکی که در استانبول رایج است ندارد، با این تفاوت که در زبان ترکی استانبولی کلمات، روانتر، لطیفتر و بدون صلابت تلفظ میشود، در حالیکه در زبان ترکی ایران، خشونت و صلابت اولیهٔ آن حفظ شدهاست و در نتیجه، این دو ملت زبان یکدیگر را به اشکال درک میکنند. زبان ترکی در غالب نقاط ایران مورد استفاده قرار میگیرد. به طوری که تا حدود یک صد مایلی تهران یعنی تا حوالی قزوین، مردم به جای فارسی به زبان ترکی صحبت میکنند و حتی در بین خانوادهٔ دربار، زبان فارسی جز در مواقع رسمی به کار برده نشده، اغلب اوقات، تمام اعضاء دربار - که شامل دو تا سه هزار نفر شاهزاده هستند - به همان زبان اجداد خود، که از آن سوی دیوار چین (پکن) آورده شده، تکلم مینمایند، چون در حدیث است که ایل قاجار از اولاد نگهبانان سلطنتی امپراطوری آسمانی چین بودهاند.
مناطق مرکزی و جنوبی ایران پر از عشایری است که به ترکی صحبت میکنند. در ایالات ساحلی دریای خزر مثل گیلان و مازندران یک نوع زبان فارسی به صورت لهجهٔ محلی رایج است. و مردم کوهنشین متعلق به عشایر خالص ایرانی مثل: کردها و لکها نیز دارای زبان مخصوص به خود هستند، و به نظر میرسد که آنها تنها مردمی در ایران باشند که ترکها نتوانستهاند زبانشان را تحت تأثیر خود درآورند."
"تعجّب آور ہے کہ ایران کے ایک اہم شہر میں حتیٰ ایک کلمہ فارسی بھی سنائی نہ دے۔ تبریز میں واحد زبان جو خیابان و بازار میں کانوں تک پہنچتی ہے، تُرکی ہے، جو میری نظر میں ایک دُرُشت و ناتراشیدہ و بدسلیقہ زبان ہے۔ اِس زبان کی دُرُشتی، اور [فقط] امر و فرمان کے موقعوں پر اِس کے استعمال کی سازگاری واضح کرنے کے لیے ایرانیان ایک ضرب المثَل نقل کرتے ہیں کہ: جب حضرتِ آدم کو بہشت سے اِخراج کرنے کا فیصلہ ہوا تو جبرئیل نے اِس بندۂ گناہ کار سے زبانِ فارسی میں خواہش کی کہ وہ بہشت سے بیرون چلے جائے، لیکن «آدم» نے اعتناء نہ کی۔ جبرئیل نے پھر زبانِ عربی میں اور پھر زبانِ سنسکرت میں اور بعداً دیگر زبانوں میں اپنے حکم کو تکرار کیا لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ تا آنکہ وہ غضب ناک ہو گیا اور اُس نے زبانِ تُرکی میں فریاد ماری: «کوپک اووغلی، چخ بوردان» (اے بچۂ سگ! نکل جا یہاں سے!)، کہ اُس کو سنتے ہی «آدم» کسی وقفے کے بغیر بہشت سے بیرون چلا گیا۔
آذربائجان کی علاقائی گُفتاری زبان کے طور پر تُرکی اِس صوبے میں اِس قدر رائج ہے کہ بجز اہم شہروں میں، اور وہ بھی صرف طبقاتِ بالا کے افراد میں، اصولاً کوئی شخص زبانِ فارسی فہم کر پانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ جو زبانِ تُرکی آذربائجان میں تکلّم ہوتی ہے وہ استانبول میں رائج تُرکی سے زیادہ مختلف نہیں ہے، لیکن یہ تفاوت ہے کہ استانبولی تُرکی میں کلمات رواں تر، لطیف تر، اور سختی و کرختی کے بغیر تلفظ ہوتے ہیں، جبکہ ایران کی تُرکی میں زبان کی اصلی دُرُشتی و سختی و کرختی محفوظ رکھی گئی ہے، نتیجتاً یہ دو ملّتیں ایک دوسرے کی زبان کو مشکل سے درک کرتی ہیں۔ زبانِ تُرکی ایران کے بیشتر مناطق میں مُستعمَل ہے۔ بہ عنوانِ مثال تہران سے سو مِیل دور تک، یعنی قزوین کے اطراف تک، مردُم فارسی کی بجائے تُرکی میں گفتگو کرتے ہیں اور حتیٰ کہ درباری خانوادے کے مابین بھی فارسی بجز سرکاری و رسمی مواقع کے استعمال نہیں ہوتی، اور اغلب اوقات، دربار کے تمام اعضاء - جو دو سے تین ہزار شاہ زادوں اور شاہ زادیوں پر مشتمل ہیں - اپنی اُسی اجدادی زبان میں، جو دیوارِ چین کے اُس طرف (پیکینگ) سے لائی گئی تھی، تکّلم کرتے ہیں، چونکہ روایت میں ہے کہ قبیلۂ قاجار سلطنتِ آسمانیِ چین کے نگہبانوں کی اولاد میں سے تها۔
ایرانی کے مرکزی و جنوبی مناطق اُن قبائل سے پُر ہیں جو تُرکی میں گفتگو کرتے ہیں۔ بحرِ قزوین کے ساحلی صوبوں مثلاً گیلان و مازندران میں فارسی زبان کے ایک قسم کے علاقائی زبانچے رائج ہیں۔ اور خالص ایرانی قبائل سے تعلق رکھنے والے کوہ نشیں مردُم مثلاً کُرد اور لک بھی اپنی ایک مخصوص زبان رکھتے ہیں۔ اور ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ایران میں صرف وہ ہی ایسی قومیں ہیں جن کی زبان پر تُرکان اثر گُذار نہیں ہو سکے ہیں۔"
آخری تدوین: