فکر و فن ( ٹائپنگ جاری۔۔)

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۲۰۶

نوٹ (۴) : مصدر کے بعد والا بڑھا کر بھی استقبال کے معنی لیتے ہیں۔ جیسے مدرسہ کھلنے والا ہے۔ اس سے قریب کا زمانہ مراد ہوتا ہے۔ بعض حالات میں مصدر کے آخری الف کو یائے مجہول سے بدل کر ہی کو ہے کے اضافہ سے استقبال کے معنی لئے جاتے ہیں۔ جیسے وہ آنے ہی کو ہے۔ دیگر صیغوں میں ہے کی جگہ ہیں، ہو اور ہوں لگا دیتے ہیں۔

مستقبل :

- مطلق
- دوامی

گردانِ فعل : گردان کے وقت تین باتوں کا لھاظ بہت ضروری ہے۔ جنس، تعداد، حالت۔ یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ جنس سے مراد تذکیر و تانیث، تعداد کا مطلب واحد و جمع ہے اور حالت کے معنی غائب حاضرو اور متکلم کے ہیں۔

نوٹ (۱) : اردو فعل مذکر کی پہچان حسب ذیل ہے۔ واحد مذکر کے صیغہ میں الف جمع مذکر میں یائے مجہول (ے) جیسے آیا، آئے۔

نوٹ (۲) : اردو فعل مونث کی صورت میں واحد مونث کے لئے یائے معروف (ی) اور جمع مونث کے واسطے یں، جیسے آئی، آئیں۔

نوٹ (۳) : ہر فعل کی گردان بارہ طریقوں پر ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک کو صیغہ کہتے ہیں۔

صیغہ : (ء) بروزن چیتا، بمعنی ڈھلی ہوئی چیز۔ اصطلاحاً فعل کے گردان کی حالت۔

نوٹ : پہلے بتا چکا ہوں کہ فعل کی تین حالتیں ہوتی ہیں۔ متکلم، مخاطب یعنی حاضر۔

غائب – اور تعداد کے لحاظ سے سے ان سب کی دو دو حالتیں ہوتی ہیں۔ اس حساب سے چھ صورتیں پیدا ہوئیں۔ اب جنس کے لحاظ سے پھر ان کی
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۲۰۷

دو دو حالتیں اور ہوئیں۔ اس طرح ہر فعل کی بارہ حالتیں ہوتی ہیں۔ جیسا کہ حسب ذیل شجرہ سے ظاہر ہوتا ہے۔

شجرہ گردان

فعل :
ماضی مطلق یا حالیہ
حالت متکلم
واحد مذکر
میں آیا
جمع مذکر
ہم آئے
واحد مونث
میں آئی
جمع مونث
ہم آئے

حالت
مخاطب
واحد مذکر
تو آیا
جمع مذکر
تم آئے
واحد مونث
تو آئی
جمع مونث
تم آئیں

حالت
غائب
واحد مذکر
وہ آیا
جمع مذکر
وہ آئے
واحد مونث
وہ آئی
جمع مونث
وہ آئیں

نوٹ (۱) : متذکرہ بالا شجرہ سے یہ اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے کہ فعل کی گردانی صورتیں کیا کیا ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح ماضی، حال اور مستقبل کی گردان کی جا سکتی ہے۔

نوٹ (۲) ماضی مطلق میں جب فاعل کے ساتھ نے آتا ہے، تو کسی صیغہ میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا یعنی ہر حال میں واحد مذکر غائب کا صیغہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جیسے اس لئے کہا، انھوں نے کہا، تو نے کہا، تم نے کہا۔ عورت نے کہا، عورتوں نے کہا، وغیرہ۔

فعل مجہول : اس کو مجہول اس لئے کہتے ہیں کہ فعل کا فائل معلوم نہین ہوتا۔ اور مفعول فاعل کا قائم مقام ہوتا ہے۔ چونکہ مفعول صرف فعل متعدی کا ہوا کرتا ہے۔ اس واسطے مجہول صرف فعل متعدی سے ہو گا۔ فعل لازم سے نہیں ہو گا۔ مصدر مجہول بنانے کا یہ قاعدہ ہے کہ فعل متعدی میں ماضی مطلق کے بعد جانا بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے لکھنا جانا پڑھا جانا وغیرہ افعال مجہول کے صیغے۔ انہیں قاعدوں سے بنانئے جاتے ہیں۔ جن کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ بعض حالات میں ماضی مطلق کے بعد جاتا لگانے سے مختلف معنی پیدا ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں اس کو فعل مجہول نہیں سمجھنا چاہیے۔ جیسے :
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۲۰۸

صفحہ ہستی پہ اک حرف غلط ہوں سوداؔ
جب مجھے دیکھنے بیٹھو تو اٹھا جاتا ہوں

افعال معذولہ : یہ وہ افعال ہوتے ہیں جو طبعی طور پر مجہول ہیں۔ اور ان کو مجہول معنوی بھی کہتے ہیں۔ جیسے پٹنا، لُٹنا، بٹنا، تلنا، سمجھنا، کہنا، سینا۔ مثلاً زید پٹا، مال لٹا، کام پٹا، حصہ بٹا، غلا تلا، مکان سجا، وقت کٹا۔ کپڑا سلا، وغیرہ۔

استعمال نفی : حسب ذیل صورتوں میں نہ یا نہیں کا استعمال ہوتا ہے اس کو منفی کہتے ہیں۔ اور اس کی ضد مثبت ہے۔

(۱) فعل کے شروع میں نہ یا نہیں لگانے سے فعل منفی ہو جاتا ہے، جیسے تم کیوں نہیں آئے۔

(۲) نثر میں اکثر تخصیص کے موقع پر اور نظم میں بلا تخصیص بھی حرف نفی بعد میں آتا ہے جیسے تم جاتے کیوں نہیں۔ یا غالبؔ کا اس شعر میں :

زہر ملتا ہی نہیں مجھکو ستم گر ورنہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں

(۳) محاورہ میں کبھی مثبت سے بھی نفی کا کام لیا جاتا ہے۔ جیسے تم پڑھ چکے، یعنی تم نہیں پڑھ سکتے۔

(۴) نثر میں عموماً علامت نفی فعل سے متصل آتی ہے مگر نظم میں ماضی قریب، ماضی بعید، حال، مطلق، ماضی ناتمام کی علامتیں اور نفی و امر امتناعی (نہی) کی علامتیں فعل سے جُدا ہو کر آگے پیچھے ہو جاتی ہیں۔ بلکہ نفی کے صیغوں میں جس میں حرف نفی نہین آتا ہے ماضی قریب حال سے اس کی علامتیں حذف کر دیتے ہیں۔ نثر میں بھی جب نہیں کو پہلے لاتے ہیں تو ہے اور ہیں کو حذف کر دیتے ہیں۔ جیسے :

خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر
نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر

متعدی بنانے کا طریقہ : اس کے بنانے کے حسب ذیل اصول ہیں :
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۲۰۹

(۱) بالعموم ماضی قریب کے بعد علامت مصدر نا بڑھا دیتے ہیں جیسے پڑھا سے پڑھانا، چلا سے چلانا، وغیرہ۔

(۲) جس ماضی مطلق کا دوسرا ھرف الف، واؤ یا ی ہوتا ہے اس کو گرا کر نا بڑھا دیا جاتا ہے جیسے جاگا سے جگانا، دیکھا سے دکھانا، وغیرہ۔

(۳) کبھی حرف اول کی حرکت کے موافق حرف علت بڑھا دیتے ہیں۔ یعنی اگر پہلا حرف مفتوح ہے تو الف مکسور ہے اور یائے مجہول و مضموم ہے تو واؤ بڑھا دیتے ہیں جیسے ڈرنا سے ڈرانا، پھرنا سے پھرانا یا پھیرنا، رکنا سے روکنا۔

(۴) کبھی امر کے آخری حرف سے پہلے الف زیادہ کر دیتے ہیں۔ جیسے اُبھر سے اُبھارنا۔ نکل سے نکالنا، وغیرہ۔

(۵) چار حرفی مصادر میں بعض ایسے ہیں جن کے مادہ کا حرف آخر، حرف علت ہوتا ہے۔ اس کو گرا کر لا بڑھا دیتے ہیں جیسے کھانا کا مادہ کھا، اس کے الف کو گرا کر لا اور نا زیادہ کر کے کھلانا بنا لیا، اسی طرح سن سے سلانا، بتا سے بتلانا، مگر بتلانا، سکھلانا، دکھلانا، جتلانا، وغیرہ متروک ہیں۔

افعال کی تذکیر و تانیث اور وحدت و جمعیت کا طریقہ : اس کے اصول حسب ذیل ہیں۔

(۱) فعل لازم اپنے فاعل کے اعتبار سے مذکر و مونث اور واحد جمع ہوتا ہے۔ جیسے ایک گھر خریدا، دو گھر خریدے، ایک ٹوپی خریدی، دو ٹوپیاں خریدیں۔

(۲) اگر فاعل کے بعد نے ہے تو ماضی مطلق، ماضی قریب، ماضی بعید اور ماضی احتمالی۔ اس مفعول سے وحدت و جمعیت اور تذکیر و تانیث میں مطابقت رکھتے ہیں۔ جیسے میں نے دو گھر خریدے۔ اس نے ایک گھر خریدا۔ تم نے
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۲۱۰

ایک ٹوپی خریدی۔ اور اگر علامت مفعول کو ہے تو فعل ہمیشہ واحد مذکر ہو گا۔ جیسے عورت نے چار مردوں کو دیکھا۔ یہاں دیکھا واحد مذکر ہے۔

(۳) اگر فعل متعدی کے فاعل کے بعد نے نہیں ہے تو فعل فاعل سے مطابقت رکھے گا۔ جیسے لڑکا میری بات نہ سمجھا۔ لڑکے میری بات نہ سمجھے۔ لیکن نے آ جانے سے فعل کی صورت تبدیل ہو جاتی ہے جیسے لڑکے نے میری بات نہ سمجھی۔

(۴) فعل متعدی کے ماضی ناتمام، ماضی تمنائی، مستقبل، حال، مضارع کو ہمیشہ فاعل سے مطابقت رہتی ہے جیسے وہ کتاب پڑھتا تھا۔ کاش وہ اپنا حال خود سناتی۔ لڑکی اپنا سبق پڑھے گی۔ وہ خط لکھ رہے ہیں۔ وہ دونوں کھانا کھاتے ہیں۔

(۵) فعل متعدی مجہول ہمیشہ اس مفعول سے مطابقت رکھتا ہے۔ جو فاعل کا قائم مقام ہو جیسے گولی چلائی گئی۔

فعل ناقص : بعض افعال لازم ایسے ہیں جو فاعل سے مل کر پورے معنی نہیں دیتے۔ بلکہ پورا مطلب ادا کرنے کیلئے انکو دوسرے لفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس انہیں افعال ناقصہ کہتے ہیں جیسے وہ شاعر ہے۔ واضح ہو کہ اردو میں حسب ذیل افعال ناقصہ ہیں۔ ہو، ہے، ہوں، ہیں، تھا، تھی، تھے، تھیں۔

نوٹ (۱) : فعل ناقص کے فاعل کو اسم کہتے ہیں اور جس لفظ کو مطلب پورا کرنے کی غرض سے لایا جاتا ہے، اس کو خبر کہتے ہیں۔ خبر ہمیشہ اسم صفت یا کوئی مرکب لفظ ہوتا ہے۔ جیسے وہ شاعر ہے۔ یہاں شاعر اسم ہے اور ہے فعل ناقص۔

نوٹ (۲) : خبر کبھی مذکور ہوتی ہے اور کبھی محذوف جیسے ء

یار تھا، گلزار تھا، مے تھی، صبا تھی، میں نہ تھا
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۹۱

حسب ذیل الفاظ میں اعلان نون غلط ہے۔ کہاں، نہاں، عیاں، گراں، پنہاں، باراں، عاشقاں، داماں، فراوانِ نازاں، شاداں، عریاں، وغیرہ یا چوں، کیوں، جوں، توں، کہوں، سنوں، چیخوں، فریدوں، ہمایوں، وغیرہ یا چیں، چنیں، کہیں، نہیں، سمیں، ہمیں، گیارھویں، وغیرہ اس کے برخلاف ان الفاظ میں نون کا اعلان نہ کرنا سراسر غلطی ہے جیسے کان، ران، تھان، رحمن، دھیان، میان بمعنی نیام وغیرہ یا اُون، جون ‘ انگریزی مہینہ‘، مرہون، ممنون، معجون، قانون، وغیرہ یا چین ‘ملک کا نام‘، شین، مشین، مہین، کلین وغیرہ۔

حسب ذیل صورتوں میں بھی اعلان نون ضروری ہے جیسے شور و سین، امام حسین، سبطین، حنین، قوسین، وغیرہ۔

(۵) تقطیع کرتے وقت وزن حقیقی اور غیر حقیقی کا امتیاز کرنا ضروری ہے۔ مثلاً یہ مصرعہ :

نہ ہو اُس سے مایوس اُمیدوار

اس کا وزن تقارب میں فعولن فعولن فعولن فعل ہے اور یہ حقیقی ہے مگر اس کی تقطیع یو بھی ہو سکتی ہے۔ فعولن مفاعیلُ مسفتعلاں، لیکن یہ وزن غیر حقیقی ہے۔ مفاعلن مفاعلن مفاعلن یہ دو بحروں میں آتا ہے۔

(۱) رجز مسدس مجنون
(۲) ہزج مسدس مقبوض

عروضی اس کو بحر نمبر ۲ شمار کریں گے کیونکہ مفاعلن مستفعلن سے بعد فتل حاصل ہوتا ہے اور مفاعیلن مقبوض سے بدول فتل۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ مفاعلین کی یا گر کر مفاعلن ہوا اور وہاں متف علن کی جگہ مفاعلن لایا گیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۹۲

اصطلاحات قوافی

قافیہ : (ء) بروزن حاشیہ، یہ قفا یا قفو سے مشتق ہے۔ بمعنی پیروی۔ چونی یہ پیر و آخر بیت ہے اور یہ دو بتیوں میں ظاہر ہوتا ہے بلکہ میرے نزدیک پیروی کے ساتھ ان دو مصرعوں میں آتا ہے جو بصورت مطلع ہوں۔ اس لئے اس کو قافیہ کہا گیا۔ اخفش کی رائے میں کلمات متشابہ کو جو آخر بیت میں واقع ہوں قافیہ کہتے ہیں جیسے گوہر اور اختر۔ اس کا یہ قول اس بنا پر ہے کہ وہ قافیہ میں حرف کو شامل کرتا ہے اور ان دونوں قافیوں میں را حرف روی کو مقدم سمجھتا ہے۔ پس ابیات کے آخر میں حرف روی کا ہونا ضروری ہے۔ ابو علی قطرت اور ابو العباس کے نزدیک صرف حرف روی کا نام قافیہ ہے۔ گویا مذکورہ بالا تین مذہب ہوئے جن میں قفیہ کے متعلق اظہار خیال کیاگیا ہے۔ خلیل اور بعض علمائے عرب کا خیال ہے کہ قافیہ عبارت ہے مجموعہ حرکات اور حروف سے۔ چنانچہ قافیہ کو پانچ قسموں پر تقسیم کیا ہے۔

متکاوس – متراکب – متدارک – متواتر – مترادف (۵)

مُتکادس : (ء) بروزن مترادف، تکادس بمعنی انبوہ کرنا۔ اصطلاح میں درمیان دو ساکن کے بعد چار حرف متحرک ہوں جیسے الالہ فجر، یہاں درمیانی الف اور لام ساکن ہیں اس کے بعد ہا، فا، جیم اور با، یہ چاروں متحرک ہیں۔

مُتراکب : (ء) بروزن مترادف، متراکب بمعنی درہم نشستن۔ اصطلاح میں
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۹۳

درمیان شعر تین متحرک حروف ہوتے ہیں۔ جیسے طالب کا شعر ہے :

تیغ ابرو سے جو حذر نہ کرے
اس کی آئی ہے موت کیوں نہ مرے

یہاں دو ساکن کے بعد نکرے اور نمرے میں تین تین حرف متحرک ہیں۔

مُتدارک : (ء) بروزن مترادف، تدارک بمعنی دریافتن۔ اصطلاح میں دو متحرک حرف ہوتے ہیں جیسے میر حسن کا شعر ہے :

کروں پہلے توحید یزداں رقم
جُھکا جس کے سجدیکو اول قلم

مُتواتر : (ء) بروزن مترادف۔ ترادف کے معنی ہیں پے در پے شدن۔ اصطلاحاً ایک متحرک حرف ہوتا ہے جیسے قاتل، حاصل، میں الف کے بعد تا یا صاد ایک حرف متحرک ہے۔

مُترادف : (ء) بروزن متواتر۔ ترادف بمعنی ایک کے بعد دعسرے کا بیٹھنا اصطلاح میں وہ قافیہ جس میں کوئی متحرک حرف ہو جیسے قال۔ حال میں الف کے بعد لام بھی ساکن ہے۔

نوٹ : ان پانچ قسموں کے علاوہ اور کوئی قسم نہیں آتی۔ تازی میں چار متحرکوں سے زیادہ جمع نہیں ہوتے اور متحرک چہارم بھی بطریق زحاف آتا ہے۔ جیسے فعلتن۔

[TODO: Add Chart]

حروف قافیہ : ماہرین و محقیقین فن کے نزدیک حروف قافیہ نو ہیں۔ چار حرف روی سے پہلے آتے ہیں اور چار روی کے بعد واقع ہوتے ہیں۔ اور وہ حسب ذیل ہیں :

ردف، قید، تاسیس، دخیل، ردی، وصل، خروج، جائرہ، مزید – (۹)
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۹۴

روی : (ء) بروزن گلی۔ بمعنی کوچہ۔ لغوی معنی سیراب اور تازہ۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ اس کو ردا سے لیا ہے۔ رو لغت میں اُس رسی کو کہتے ہیں جس سے مہارشتر باندھتے ہیں۔ چونکہ روی جملے حروف قوافی کو باندھتی ہے اس رعایت سے اس کو روی کہا گیا۔ بغیر حرف روی کے قافیہ نہیں ہو سکتا۔ حرف روی بالعموم ساکن ہوتا ہے لیکن ما بعد حروف سے مل کر متحرک ہو جاتا ہے یعنی قافیہ بہار اور شمار ہے۔ اس میں را حرف روی ہے مگر بہاری اور شماری کی صورت میں را متحرک ہو گئی کیونکہ مابعد حرف وصل سے مل جاتی ہے۔ اضافت کی حالت میں بھی متحرک ہو جاتی ہے جیسے بہارِ دل۔ قرارِ دل میں را متحرک حرف روی ہے۔ عروضی اضافت کو یائے بطنی کہتے ہیں اور یہاں اس کی صورت وصل کی ہوتی ہے اور وصل سے مل کر روی کا متحرک ہونا جائز ہے۔ ساکن حرف روی کو مقید اور متحرک کو مطلق کہتے ہیں۔

ردف : (ء) بروزن حرف، بمعنی چوتڑ۔ سوار کے پیچھے گھوڑے پر بیٹھنا۔ اصطلاحاً وہ حروف مدہ یعنی الف واؤ اور یائے تمنائی جو روی سے پہلے واقع ہوں اور ان سے پہلے حروف کی حرکت مطابقت رکھتی ہو۔ جیسے یار، خار میں را حرف روی۔ الف روف اور حرکت ماقبل حرف بفتح۔ یا فانوس اور قاموس میں واؤ حرف ردف ساتھ حرکت ضمہ کے یا تفریر اور تصویر میں یا حرف ردف ہے اور ما قبل حرف کی حرکت بکسر ہے۔ اس کی ایک قسم اور ہے۔ اس کو ردف زائد یا مرکب کہتے ہیں۔

ردف زائد : (ء) یہ وہ حرف ہوتا ہے جو ردی یا ردف کے درمیان واقع ہو۔ جیسے دانت اور آنت میں نون کیونکہ الف ردف اصل نون ردف زائد اور ت حرف ردی۔ طوسی ردف زائد کو جزو ردی تصور کرتا ہے۔ حروف ردف زائد
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۹۵

چھ ہیں۔ ش، ر، ف، س، خ، ن (۶)

مجموعی صورت میں "شرف سخن" تصور کیجیے تاکہ تعداد حروف بآسانی یاد ہو سکے۔ مثال ش کی جیسے گوشت، مثال رے کی جیسے کارد۔ مثال ف کی جیسے کوفت، مثال س کی جیسے راست، مثال خ کی جیسے تاخت، مثال نون کی جیسے چاند۔ واضح ہو کہ ردف زائد ہمیشہ حرف ردی سے پہلے اور ردف اسلی الف واؤ اور یائے تمنائی کے بعد واقع ہوتا ہے۔ فارسی میں اکثر واؤ اور یائے معروف و مجہول کے ساتھ قافیہ بنا لیا ہے۔ مگر آج کل متروک ہے۔ جیسے سودا کا یہ شعر ہے :

کرتے اس کو لگے نہ ذرہ دیر
مہر و مہ کو بشکل نان و پنیر

قید : (ء) بروزن صید، بمعنی بیڑی، شکنجہ۔ اصطلاح میں وہ ساکن ھرف جو ردی سے پیشتر علاوہ حروف علت کے واقع ہوں۔ اگر حروف علت ہوں گے تو ان کو ردف کہا جائیگا ورنہ قید۔ جیسے ابر، مست چشم وغیرہ میں یا سین اور شین حروف قید ہیں علاوہ الف کے واؤ اور یائے مجہول بھی قید ہی میں شمار ہوتے ہیں جیسے غور اور خیر کا واؤ۔ اور یا۔

تاسیس : (ء) بروزن تاخیر، بمعنی بنیاد رکھنا۔ مضبوط کرنا۔ یہ الف ساکن ہوتا ہے اور اس کے بعد حرف دخیل کا ہونا لازمی ہے۔ جیسے شامل کا الف کہ میم حرف دخیل سے پہلے ہے۔

دخیل : (ء) بروزن کفیل۔ بمعنی دخل دینے والا۔ یہ تاسیس کے بعد اور ردی سے پہلے واقع ہوتا ہے۔ جیسے شامل کی میم کہ تاسیس اور ردی کے درمیان میں ہے۔

وصل : (ء) بروزن قتل، بمعنی ملاپ۔ یہ وہ حرف ہوتا ہے جو ردی کو متحرک کر دے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۹۶

اور بعد ردی واقع ہو۔ عموماً وصل یائے نسبت – یائے مصدری – علامت اضافت اور علامت جمع وغیرہ کی حالت میں آتا ہے۔ جیسے بہاری میں رے ردی اور ی وصل ہے۔

خُروج : (ء) بروزن بروج، بمعنی باغی ہونا۔ یہ حرف ہمیشہ وصل کے بعد آتا ہے۔ جیسے بہاروں میں رے حرف ردی، الف وصل اور نون خروج۔

مَزید : (ء) بروزن پلید، بمعنی زیادہ کیا ہوا۔ یہ خروج کے بعد آتا ہے۔ جلاوے اور گلاوے میں ل حرف ردی الف وصل واؤ خروج اور ی مزید ہے۔

نائرہ : (ء) بروزن شاعرہ، بمعنی بھاگا ہوا۔ چونکہ یہ درمیان قوانی سے بھاگ کر کنارے پر مقیم ہوتا ہے یعنی آخر میں آتا ہے جیسے آئیاں میں الف ردی، ہمزہ وصل یا خروج، الف میزید اور نون نائرہ۔ بعض اساتذہ کا یہ خیال ہے کہ آئیاں اور جائیاں میں یا ردی ہے، الف وصل اور نون خروج کا۔ بہرحال نائرہ کی مثال سمجھانے کے لئے آئیاں کی تشریح لکھ دی تاکہ یہ معلوم ہو جائے نائرہ کا مقام آخر میں اور مزید کے بعد آتا ہے۔ طوسی کے نزدیک نائرہ جزو ردیف ہوتا ہے جیسے جلا دے گا، گلا دے گا میں حرف لام حرف ردی، الف حرف وصل، واؤ حرف خروج، یا مزید اور گا حروف نائرہ۔

نوٹ : ردف الف، واؤ اور یا ہوتے ہیں۔ اور یہ کھینچ کر پڑھنے میں آتے ہیں اس لئے غور کا قافیہ حُور نہیں ہو سکتا کہ حرکت ماقبل تبدیل ہو گئی۔ اور یہاں مجہول و معروف کا فرق ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دیر بمعنی بتکدہ اور میر کا قافیہ غلط ہے کہ یہاں بھی حرکت ماقبل میں فرق ہے۔ قید کا اختلاف بھی ناجائز ہے۔ چنانچہ لہر کا قافیہ بحر غلط ہے۔ جیسا اس شعر میں ہے :
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۹۷

امڈا ہے آنسوؤں کا مری آنکھ سے وہ بحر
ہیں جس کے آگے سات سمندر بھی ایک لہر

شعرائے فارسی قریب الخرج ہونے کی وجہ سے اختلاف کو روا رکھتے تھے، مگر اب اردو میں جائز نہیں۔ فارسی میں ب، خ، ر، ز، س، ش، غ، ف، ق اور ہ حروف قید ہیں مگر تازی میں علاوہ ر، و، ف کے سب میں تاسیس ہمیشہ الف ہوتا ہے اور اس کے بعد حرف دخیل کا ہونا لازمی ہے۔ دخیل عام طور پر تاسیس اور حرف ردی کے بعد درمیان میں آئے گا اور ان کا اختلاف جائز ہے۔ لیکن حرکت تبدیل نہیں ہو گی۔ وصل حرف ردی کے بعد آئیگا اور حرف ردی کو متحرک بنا دے گا۔ اس کے بعد خروج پھر مزید اور نائرہ بالترتیب آئیں گے۔ اگر نائرہ کے بعد کوئی اور حرف ہو گا تو اس کو جزو ردیف تصور کریں گے۔ بوتل اور کومل میں ل تو ردی ہوا مگر واؤ اور ت اور میم کونسا حرف ہو سکتا ہے؟ ہم ت اور میم کو دخیل اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ اس پہلے الف تاسیس ہونا چاہیےی مگر واؤ ہے۔ محققین اس کو لزوم مالایلزم کہتے ہیں کہ شاعر نے اپنے اوپر ایسی قید لگا لی ہے۔

میرے نزدیک صرف حرف ردی کا ہونا ضروری ہے چنانچہ فرقت اور درگت میں را کو حرف ردی اور حرکت ماقبل کا یکساں ہونا جزو ردی تصور کرنا چاہیے۔ باقی حروف کو ردیف کہنا بہتر ہے۔ لہذا عاقل اور شامل کے ساتھ دل اور بسمل کا قافیہ لانا کوئی عیب نہیں۔ اسی طرھ بوتل اور کومل کے ساتھ صیقل بھی لا سکتے ہیں۔ قافیہ شعر میں حسن پیدا کرتا ہے اور موزونیت میں جاذبیت، لہذا اگر قافیہ میں حسن ہو گا تو شعر میں کھنک زیادہ ہو گی۔ اس لئے مذکورہ بالا حروف کی ضرورت محسوس ہوئی اور بعض شعراء نے اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے لزوم و مالایلزم کی شرط بھی لگا دی۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۹۸

حروف قافیہ

[TODO: Add Chart]​

حرکات قافیہ : قافیہ کی چھ قسمیں ہیں :

رس، اشباع، توجیہہ، حذد، مجرئی، نفاذ – (۶)

رس : (ء) بروزن بس، بمعنی ابتدا کرنا۔ چونکہ اس سے حرکات قافیہ کی ابتدا ہوتی ہے اس لئے یہ نام رکھا گیا۔ یہ وہ حرکت ہوتی ہے جو حرف ماقبل تاسیس بالفتح ہو جیسے کامل اور سائل کے کاف اور سین مفتوح۔

اِشباع : (ء) بروزن انساں، بمعنی سیر کرنا۔ اصطلاحاً حرف وھیل کی حرکت کو کہتے ہیں جیسے حاصل اور قابل میں صاد اور بامکسور۔ واضح ہو کہ یہ حرکت فتح، کسر اور ضمہ ہوتی ہے مگر اختلاف حرکت قافیہ میں جائز نہیں۔

توجیہہ : (ء) بروزن توسیع، بمعنی منہ پھیرنا۔ یہ وہ حرکت ہے جو ماقبل ردی ہوتی ہے اور حرف ردی ساکن ہوتا ہے۔ جیسے در اور بر میں دال اور بامفتوح۔

حذد : (ء) بروزن لفظ۔ بمعنی دو چیزوں کا برابر کرنا۔ حرکت ماقبل ردف اور قید کو کہتے ہیں جیسے دوست اور پوست میں دال اور پ مضموم یا صبر اور قبر میں صاد اور قاف مفتوح۔

مُجری : (ء) بروزن بکری، بمعنی جاری ہونے کی جگہ۔ یہ وہ حرکت ہے
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۹۹

جو ردی کے متحرک ہونے سے پیدا ہوتی ہے جیسے مستی اور پرستی میں تا مکسور ہے۔

نفاذ : (ء) بروزن مجال، بمعنی جاری کرنا، فرمان، حرکت وصل خروج مزید اور نائرہ کو بھی کہتے ہیں۔ اگر نائرہ کے بعد کوئی حرف اور ہو۔ کیونکہ اردو میں عام طور پر آخری حرف ساکن ہوتا ہے جیسے انتظاری سے انتظار یا ن بنا لیں تو یہاں ی کی حرکت کو نفاذ کہیں گے۔

نوٹ : اختلاف حرکت کسی صورت میں جائز نہیں۔

بعض اساتذہ کے نزدیک اگر حرف ردی متحرک ہو یعنی اس کے بعد حرف وصل واقع ہو تو اختلاف حرکت توجیہہ، اشباع، حذد اور قید میں جائز ہے، جیسے سکندری و عنصری، برابری و شاطری۔

[TODO: Add Chart]
نوٹ : ردی مقید اور مطلق کو محققین فن دو قسموں پر تقسیم کرتے ہیں۔ مثلاً اگر حرف ردی کے سوا کوئی دوسرا حرف نہ ہو تو اس کو مجرد کہیں گے۔ اور اگر کوئی دوسرا حرف ہو گا تو اس کو بھی اسی سے منسوب کریں گے اور وہ اردو میں چار ہیں۔

مجرد، مردف، موسس، موصول (۴)

گویا یہ چار مقید کی قسمیں ہوئیں اور چار مطلق کی اور اگر قافیہ حرف قید کیساتھ
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۰۰

ہو گا تو اس کو بھی مردفہ کہیں گے مگر جب خروج مزید اور نائرہ پر مشتمل ہو گا تو اسے بھی موصولہ کہیں گے۔

[TODO: Add Chart]
میں نے ضمنا اس چیز کا ذکر کر دیا ہے۔ عربی شاعری اور فن قافیہ میں یہ بہت ضروری باتیں ہیں مگر اردو قوافی کے لئے چنداں ضروری نہیں کیونکہ میں بہت واضح طور پر لکھ چکا ہوں کہ ھرف ردی کا ہونا بہت ضروری ہے ساتھ حرکت ماقبل کے۔ اس لئے اس بیان کو نظر انداز کر دیا گیا۔

عیوب قافیہ : یہ بیان بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اگر مبتدی حضرات اس فصل پر عبور حاصل کر لیں تو قافیہ کی غلطی نہیں ہو سکتی۔ اس کی حسب ذیل اقسام ہیں :

غلو، اکفا، سناد، اقوا، شائیگاں، تعدی (۶)

غلو : (ء) بروزن علو، بمعنی ہاتھ بلند کرنا۔ حد سے گزرنا، ہجوم، اصطلاح میں قافیہ کے اس عیب کو کہتے ہیں کہ ردی پہلے مصرعہ میں ساکن ہو اور دوسرے مصرعہ میں متحرک یا اس کے برعکس، مثلاً

نہ پوچھ مجھ سے کہ رکھتا ہے اضطراب جگر
نہیں ہے مجھ کو خبر دل سے لے کے تابجگر

پارسی شعرا نے اس ترکیب کو روا رکھا ہے۔ حافظ شیرازی کا شعر ہے :

صلاح کار کجا و من خراب کُجا
ببیں تفاوت راز کجاست تا بہ کُجا

اس کی وجہ یہ ہے کہ عروض و ضرب میں فعلن بسکون عین اور بتحریک عین
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۰۱

کا خلط جائز ہے اس کے علاوہ خراب کی ساکن ب جو حرف ردی ہے بروقت تقطیع متحرک ہو جاتی ہے۔ اردو شعرا نے بھی فارسی والوں کا تتبع کیا ہے۔ مگر متاخرین کے زمانے سے یہ چیز متروک ہے۔

اِکفَا : (ء) بروزن القا۔ بمعنی کج کرنا ظرف و کمان کا۔ حرف ردی کا قریب المخرج حرف سے بدل جانا جیسے سگ و شک۔ لب و تپ۔ سوداؔ کا شعر ہے :

ساقِ سیمیں کو تری دیکھ کے گوری گوری
شمع محفل میں ہوئی جاتی ہے تھوڑی تھوڑی

پہلے یہ خلط جائز تھا مگر اب کوئی ایسا قافیہ نہیں لکھتا ہے۔

سِنَاد : (ء) بورزن ملاد، بمعنی معاونت۔ حرف ردف کا بدل جانا جیسے زماں اور زمیں کا قافیہ بنا لیا جائے۔ یہ اختلاف حرف قید۔ جیسے بحر اور شہر یا اختلاف اشباع جیسے تجاہل اور کامل میں کہ اشباعی حرکت پائی جاتی ہے۔ ایسے قافیہ ناجائز ہیں۔

اقوا : (ء) بروزن اکفا۔ بمعنی تمام ہونا زاد کا۔ اختلاف توجیہہ و حذد اور قید کے عیب کو کہتے ہیں جیسے در بفتح کا قافیہ دُر بضم کے ساتھ لکھیں یا مست اور سست :

لکھ دیا مجنوں کو شیر شتر
کہہ دیا متسفی سے جا فصد کر

گویا اس عیب کو کہتے ہیں کہ حرکت ما قبل ردی تبدیل ہو جائے۔

تعدی : (ء) بروزن تجلی، بمعنی ظلم و جور کا حد سے بڑھ جانا۔ حرف وصل ایک جگہ متحرک ہوا اور دوسری جگہ ساکن۔ سکاکی کا قول ہے کہ اگر تعدی سے وزن میں اختلاف ہو تو عیب ہے ورنہ نہیں، مگر شعرائے عجم کے نزدیک یہ عیب ہی میں داخل ہے۔

شائیگاں (ترکی) بروزن رائیگاں، بمعنی بیگار۔ عربی میں اس کو ایطا کہتے ہیں۔ بعنی
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۰۲

پامال کرنا۔ اصطلاحاً قافیہ میں واحد معنی پر تکرار کلمے کی کرنا۔ اس کی دو قسمیں ہیں :

جلی، خفی (۲)

خفی : (ء) بروزن روی، بمعنی پوشیدہ۔ قافیہ کی اس تکرار کو کہتے ہیں جو بادی النظر میں معلوم نہ ہو جیسے دانا بینا، حیراں سرگرداں، آب گلاب، یاد فریاد، دل عنادل۔ اساتذہ نے خفی کو جائز قرار دیا ہے لہذا آسان اور انسان، ارمان اور درمان، تصویر اور تنویر کا قافیہ درست ہے۔ غالب ؔ

حُسن مہ گرچہ بہنگام کمال اچھا ہے
اس سے مرا مہ خورشید جمال اچھا ہے

یہاں دونوں جگہ مال کی تکرار تو موجود ہے مگر لفظ کے واحد معنی پر تکرار نہیں پائی جاتی۔ اس لئے کوئی عیب نہیں۔ البتہ اگر کوئی شاعر لزوم ما لا یلزم کے ماتحت مال کے ساتھ قافیہ نظم کرے تو حُسن پیدا ہو جائے گا۔

جلی : (ء) بروزن روی۔ بمعنی ظاہر۔ قافیہ کی کھلی ہوئی تکرار کو کہتے ہیں۔ جو لفظً معنیً اور ترکیباً یکساں ہوں۔ جیسے :

بن سنور کر تو نہ جا گلزار میں
پھول کملا جائیں گے گلزار میں

یہاں "میں" ردیف ہے اور گلزار دونوں جگہ بصورت قافیہ ہے اور لفظً و معنیً تکرار موجود ہے۔ لہذا یہ عیب ہے۔

پست ہمت ہے دل ناکام کی
زندگے اے دوست یہ کس کام کی

یہاں دلِ ناکام اور کام مرکب و مفرد قافیہ ہے۔ بعض اساتذہ اس کو جائز قرار دیتے ہیں کہ معنی تکرار نہیں پائی جاتی۔ دلِ ناکام سے مراد ناکام دل ہے اور کام بمعنی کار ہیں۔ اکثر شعراء اس کو ایطائے جلی میں شمار کرتے ہیں۔ یعنی ان کے نزدیک لفظی تکرار موجود ہے اور معنوی حیثیت سے بھی قریبی تعلق ہے۔ کیونکہ دلِ ناکام کے معنی ہیں وہ دل جو کسی کام کا نہ ہو۔ اور اس معنی
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۰۳

میں "کس کام کی" تکرار دوسرے مصرعہ میں موجود ہے۔ میرے نزدیک ایسی تکرار اس وقت جائز ہے جب ایک لفظ مختلف معنی میں مستعمل ہو جیسے امانت کا شعر ہے :

آبداری سے جو مملو نظر آیا وہ گلا
رشک سے برف کی کیا جسم حرامی کا گلا

یہاں گلا ہر دو جگہ مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اساتذہ اس کو داخل صنعت کرتے ہیں۔ جلیل کا شعر ہے :

ہے لاکھ لاکھ شکر خدائے جلیل کا
جس نے در سخن سے بھرا منہ جلیل کا

یہاں بھی مختلف معنی میں لفظ جلیل استعمال ہوا ہے لہذا عیب میں داخل نہیں ہے۔ ایطاء لفظً و معنیً میں غلطی بہت کم ہوتی ہے مگر ترکیباً اس ایطائے جلی کو کہتے ہیں کہ اگر قافیے بترکیب بنائے جائیں اور وہ یکساں ترکیب علیحدہ کر دی جائے تو حرف روی باقی نہ رہے جیسے بکری اور مرغی۔ یہاں دونوں الفاظ اردو کی یائے تانیث موجود ہے جب اس کو دور کر دیا تو بکرا اور مرغی باقی رہ گیا۔ جس میں حرف رقی ندارد ہے۔ مگر جب ترکیب میں اختلاف ہو یعنی ایک جگہ اردو ترکیب ہو اور دوسری جگہ فارسی تو ہم اس کو علیٰحدہ نہیں کر سکتے۔ لہذا قافیہ جائز ہو گا۔ جیسے دوستاں اور ہڈیاں کا قافیہ بنایا جائے۔ دوستاں میں فارسی جمع کا الف نون ہے اور ہڈیاں میں اردو جمع کا چنانچہ درد مند اور حاجتمند کا قافیہ غلط ہے۔ مند دور کرنے سے درد اور حاجت میں حرف روی باقی نہیں رہتا۔ ستم گر اور خوگر۔ نازاں اور خراماں کا قافیہ بھی درست نہیں۔ اسی طرح چلو اور رہو۔ گنواروں اور نشانوں میں ایطائے جلی ہے۔ واضح ہو کہ نازاں اور شاداں کا قافیہ جائز ہے۔ نازاں میں الف نون فاعلی ہیں اور شاداں میں الف نون زائد کے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۰۴

ترکیباً بھی اختلاف ہے۔ اس لئے قافیہ میں کوئی غلطی نہیں۔ بعض محتاط شعراء تو چھوڑا اور دیکھا میں بھی ایطائے جلی بتاتے ہیں۔ اس لئے کہ الف ماضی کا دور کرنے کے بعد چھوڑا اور دیکھ ہم قافیہ نہیں ہوتے مگر یہ بات مستثنیات میں داخل ہے کیونکہ کلام جمہور اس کی تائید میں ہے اور ایسے قافیوں کا استعمال عام ہے۔ چنانچہ علامہ فوقؔ سبزواری مرحوم کا شعر ہے :

یہ عالم تنہائی دیکھا بھی نہیں جاتا
تنہا شب فرقت کو چھوڑا بھی نہیں جاتا

لیکن جن قافیوں کو اساتذہ ماضی و حال نے ناجائز قرار دیا ہے ان کا استعمال قطعی طور پر نادرست ہے۔

[TODO: Add Chart]
نوٹ : درحقیقت اختلاف اشباع اور اختلاف حرف قید سناد سے کوئی تعلق نہیں رکھتے کیونکہ سناد اختلاف ردف کو کہتے ہیں مگر یہ ایک ہی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے شجرہ میں اس طرح دکھائے گئے ہیں۔ بعض اساتذہ تکرار قافیہ معمول تضمین اور تغیر کو بھی معیوب سمجھتے ہیں۔

تکرار قافیہ معمول : اس کی دو قسمیں ہیں۔ ترکیبی و تحلیلی۔ قافیہ معمولہ اس قافیہ کو کہتے ہیں جو دو لفظوں سے مل کر بنے جیسے سیفی کا شعر ہے :

جو غیروں پر کرم فرما رہے ہیں
ہمارے بھی کرم فرما رہے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۰۵

مصرعہ اول میں کرم فرما مفرد معنی میں ہے۔ لیکن مصرعہ ثانی میں کرم فرما مرکب قافیہ بنایا گیا ہے۔ اس کو ترکیبی کہتے ہیں۔ لیکن تحلیلی وہ قافیہ ہو گا جو دو جز پر منقسم ہو۔ پہلا داخل قافیہ اور دوسرا ٹکڑا داخل ردیف ہو جائے۔ جیسے امانت کا شعر ہے :

انشما رشک سے حالت مری کیا کیا نہ ہوئی
دل کی اوقات بسر صورت پر وا نہ ہوئی

یہاں نہ ہوئی ردیف ہے اور کیا، وا وغیرہ قوافی۔ مصرعہ ثانی میں پروانہ کا ادھا معہ قافیہ شمار ہوا اور نصف ٹکڑا جزو ردیف ہو گیا۔

تضمین : (ء) بروزن تفسیر، بمعنی ضامن کرنا، وہ قافیہ جس کے معنی مصرعہ ثانی پر موقوف ہوں۔ طالبؔ :

کس رو سے نجائے دل سے غم یار اگر
تو مجھ کو دکھائے اپنا رخسار مگر

دیکھے نہ رقیب تجھکو زنہار دگر
دیکھے بھی، نہ کر اس کی طرف یار نظر

متاخرین کے نزدیک یہ دونوں عیب صفت میں داخل ہیں۔

تغیئر : (ء) جملہ عیوب قوانی میں ایطا کا سمجھنا ضروری ہے کیونکہ اکثر پڑھے لکھے حضرات غلطی کر جاتے ہیں۔ میرے نزدیک قافیہ کا صرف ایک عیب یہی ایطا ہو سکتا ہے باقی عیوب زوائد میں سے ہیں۔ قافیہ میں حروف کی شرکت اور حرکات کی قید بھی زوائد میں شمار کرنا چاہیے۔ بجز حرف روی اور حرکت ما قبل روی کے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر ان تین باتوں کو ذہن نشین کر لیا جائے تو قافیہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ اور وہ باتیں حسبِ ذیل ہیں۔

روی : قافیہ کا وہ مستقل حرف یا حروف جو تبدیل نہ ہوں۔ جیسے دل، شامل میں لام
 
Top