فکر و فن ( ٹائپنگ جاری۔۔)

عائشہ عزیز

لائبریرین
فکر و فن کے سلسلے میں جو لائبریرین کام کر رہے ہیں وہ اپنا کام یہاں پوسٹ کر سکتے ہیں۔ میں یہاں سب ٹیم ممبرز کو ٹیگ کر رہی ہوں۔
فی الحال یہ لڑی بغیر کسی سابقے کے شرو ع کی ہے ، ٹائپنگ مکمل ہونے پر اس کا عنوان اور سابقہ بدل دیا جائے گا انشاء للہ! :)

تبصرہ و تجاویز کے لیے یہاں تشریف لائیں

قیصرانی
شمشاد
بھلکڑ
نایاب
عمرمختارعاجز
ذوالقرنین
خرم شہزاد خرم
نیرنگ خیال
 
آخری تدوین:

عائشہ عزیز

لائبریرین
131

(11) ضمیر واحد حاضر کے لیے جیسے تو دیدی و کتاب تو۔
نوٹ :- از نمبر 5 تا نمبر 11 ت کا استعمال الف کے ساتھ (تا) ہوتا ہے۔ نمبر 12 میں واؤ کے ساتھ فاعلی۔ مفعولی اور اضافی حالت میں ہوگا۔ عربی میں اس کی تین صورتیں ہیں۔
(1) تائے وصت جیسے کلمہ۔
(2) تائے تانیث جیسے جمیلہ۔
(3) تائے مبالغہ جیسے علامہ۔
نوٹ :- واضح ہو کہ عربی میں ت بحالت وقف ہائے ہوز سے بدل جاتی ہے۔ اردو میں اس کا استعمال دو طرح ہے۔
(1) بعض الفاظ کے آخر میں مصدری معنی دیتی ہے جیسے چاہت لاگت۔ ملت۔ یگانگت۔ بادشاہت وغیرہ ۔ یہ تمام الفاظ اردو شمار ہوتے ہیں۔
(2) کبھی شروع میں آ کر تین کے معنی دیتی ہے جیسے تدہارا۔ ترپھلا۔ تراہا۔

[TODO: Add Chart][/quote]


132

ٹ۔ لفظ کےآخر میں واؤ کے اضافہ سے بعض حالات میں مصدری معنی دیتی ہے۔ جیسے رکاوٹ۔ لگاوٹ وغیرہ ۔ یہ ہندی الاصل لفظ ہے۔
ج۔ لغت میں شتر کے معنی درج ہیں۔ فارسی میں اس کا استعمال حسب زیل ہے۔
(1) بدل کے لیے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ (ا) زائے معجمہ سے تبدیل ہو جاتی ہے۔ جیسے باج سے باز۔
(2) کبھی شین معجمہ سے بدل جاتی ہے۔ جیسے کاج سے کاش۔
چ۔ فارسی اردو میں مشترک ہے۔ اس کی صورتیں یہ ہیں۔
(1) تصیغر کے لیے ساتھ بائے مختفی کے جیسے مورچہ۔
(2) تحقیر کے لیے جیسے نظامی نے لکھا ہے ؎
چہ لافی کہ من دیو مردم خورم
مرا خور کہ از دیو مردم ترم
(3)تعظیم کی صورت میں۔ جامی ؎
چہ نام است ایں کہ در دیوان ہستی
برونگر فتنہ نامے پیشد ستی
(4) علت کی صورت میں جیسے ؎
محو از شعلہ رخساراں و نانے
چہ آتش رابنا شد بہرہ از آب
(5) حسرت کے لیے۔ جامی؎
اگر دستم کمر بودے چہ بودے
زد صلش بہرہ ور بودے چہ بودے
(6) خوبی کے لیے ۔ نظامی؎
چہ خرم کسے کو بہنگام وکے
ہم آتش نہد پیش وہم مرغ دمے
(7) برابر کے معنی میں۔ سعدی؎
چو آہنگ رفتن کند جان پاک
چہ بر تخت مردن چہ پروئے خاک
(8 ) استفہام محض کے لیے جیسے چہ نام داری۔ چہ کارہ وغیرہ۔


133

(9) اختصار کی صورت میں۔ لیکن ہریا آن کے ساتھ۔ خسرو؎
ہر چہ نہ او درخط امکان او
آنچہ جز او بندہ فرمان او
(10) زائد کی صورت میں جیسے اگرچہ
(11) بدل کی صورت میں اس کی پانچ صورتیں ہیں۔
(1) جیم کی صورت میں جیسے غنچہ سے غنجہ۔
(2) شین کی صورت میں جیسے لخچہ سے لخشہ۔
(3) کاف کی صورت میں جیسے زاچ سے زاک۔
(4) ی کی صورت میں ۔ جیسے موز چانہ سے موزیانہ۔
(5) ص کی صورت میں جیسے چین صین وغیرہ۔

[TODO: Add Chart][/quote]

د ۔ اس کے لغوی معنی زن فربہ۔ دلیل اور رہنما کے ہیں۔ اس کا استعمال حسب ذیل صورتوں میں ہوتا ہے۔
(1) بدل۔ یہ دو طرح مستعمل ہے۔ تائے فوقانی کی صورت میں۔ جیسے دراج سے تراج۔
(2) ذال معجمہ کی صورت میں جیسے آدر سے آذر۔ استاد سے استاذ۔ کاغذ سے کاغذ۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ بدل تعریب و تفریس کی صورت میں ہوتا ہے۔ کچھ مفسرین ادب کی یہ رائے ہے کہ قدما اور متوسطین نے کاغذ سے کاغذ کر لیا ہے۔


134

بدل کی صورت میں نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ وہ قافیہ کی حالت میں دال کو ذال بے کو پے۔ حائے حطی کو ہائے ہوز کے ساتھ لکھتے تھے مولانا روم؎
گر بگویم شرح ایں بیحد شود
مثنوی ہفتادتا کاغد شود
سعدی فرماتے ہیں؎
بک طاس ہرسیہ صباحی
بہترز ہزار مرغ و ماہی
(2) حذف ذال۔ اس کا استعمال تین طرح ہوتا ہے۔ مکرر انے پر ایک دال کو حذف کر دیا جاتا ہے۔ جیسے سپید دیو کو سپید یو کہتے ہیں؎
بیاری در آید چوبخت بلند
زرشم سپیدیو باید گزند
(3) تائے فوقانی سے مل کر حذف ہو جاتی ہے جیسے بدتر سے بتر ؎
ایکہ پرسی کہ چہ حال است ترا
آنچہ دی بود ازاں ہم بتر است
(4) بعض الفاظ کے درمیان سے دال حذف ہو جاتی ہے۔ جیسے شاد باش سے شاباش اور کبھی آخر کلمہ سے جیسے ہرمزد سے ہرمز۔

[TODO: Add Chart][/quote]

ر ۔ لغت میں اس کے معنی مرد کنبہ جو کے آتے ہیں۔ فارسی میں اس کا استعمال الف کے ساتھ مل کر ہوتا ہے اور وہ صورتیں حسب ذیل ہیں۔
(1)علامت مفعول جیسے دل را بمعنی دل کو۔
(2) غلامت اضافت۔ ہمیشہ مضاف الیہ کے بعد آتی ہے حافظ ؎
ساقیا برخیز و دردہ جام را
خاک برسر کن غم ایام را
پہلے مصرعہ میں را علالت مفعول ہے۔ دوسرے مصرعہ میں را علامت اضافت ہے۔


135

اور اس مصرعہ کی نثر پہ ہے۔ "خاک برسر غم ایام کن۔"
(3) زائد۔ اس را کے پیشتر اسم آتا ہے اور حرف ما قبل جَر ہوتا ہے۔ خاقانی ؎
میخ رزی از پی بہارا
مرحلقہ درع مصطفی را
بدل کی صورت میں (ا) لام سے بدل جاتی ہے جیسے نیلوفر سے نیلوفل۔ سور سے سول۔
(4) ترخیم کی صورت میں جیسے دختر سے دخت۔
(5) حذف کی صورت میں۔ جیسے لب باز کن بجائے لب را باز کن۔

[TODO: Add Chart][/quote]

ڑ ۔ یہ خالص ہندی الاصل ہے۔ اردو میں اس کا استعمال صرف ایک طرح ہوتا ہے۔
(1) بعض الفاظ کے ساتھ یہ مصدری معنی دیتی ہے جیسے بھاگ سے بھاگڑ۔
ز ۔ لغت میں اس کے معنی زن بدخو مرد بسیار خوار است لکھے ہیں۔ فارسی میں بمعنی سے مستعمل ہے۔
(1) بدل۔ اس کی تین صورتیں ہیں۔ 1۔ جیم سے بدلتی ہے جیسے کز سے کج 2۔ غ سے بدل جاتی ہے جیسے گریز سے گریغ 3۔ س کی صورت میں جیسےایاز سے ایاس۔
(2) حذف کی صورت میں۔ جیسے آواز سے آوا۔

[TODO: Add Chart][/quote]


136

ژ ۔ یہ خالص فارسی کا حرف ہے اور اس کے استعمال کی صرف ایک صورت ہے۔
(1) بدل کی صورت میں جیسے کژ سے کج یا نژاد سے نزاد۔ مژگان سے مزگان۔
س ۔ لغت میں اس حرف کے معنی فربہ تحریر ہیں۔ فارسی میں اس کے استعمال کی ایک صورت ہے۔
(1) بدل کے لیے۔ اس کا استعمال تین طرح ہوتا ہے۔ (1)ز سے جیسے ایاس و ایاز (2) ش سے بدل جیسے فرستہ سے فرشتہ۔ (3) ص سے جیسے سپاہان و صفاہان و سدو صد۔ شست و شصت۔
نوٹ :۔ اردو میں اس کے استعمال کی دو صورتیں ہیں۔
(1) کبھی ہندی الفاظ کے شروع میں نیک اور اچھے کے معنی دیتا ہےجیسے سپوت ۔ سروپ سڈول۔
(2) کبھی الفاظ کے آخر میں آ کر مصدری معنی دیتا ہے جیسے مٹھاس۔ کٹھاس۔

[TODO: Add Chart][/quote]

ش ۔ اس کے لغوی معنی مردود کے ہیں۔ اس کے استعمال کی صورتیں حسب ذیل ہیں۔
(1) ضمیر غائب۔ اس کی دو صورتیں ہیں مفعولی اور اضافی ۔ سعدی ؎
کلاہِ سعادت یکے برسرش
گلیم شقاوت یکے در برش
(2) مصدری صیغہ۔ امر کے آخر میں مصدر یا حاصل مصدر کے معنی دیتا ہے۔جیسے دانش۔ بینش میں۔
(3) زائد۔ اس کا استعمال محاورہ عجم میں زیادہ ہے جیسے آبخور کی جگہ آبشخور۔
(4)بدل۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ (1) جیم کی جگہ جیسے کاش سے کاج۔


137

(2) س کی جگہ جیسے مشک سے مسک۔

[TODO: Add Chart][/quote]

ص ۔ لغوی معنی نوعے از مرغ اور فارسی میں آنکھ سے استعارہ کرتے ہیں۔ محاورہ میں صاد کردن کے معنی میں تصحیح کرنا۔
ع ۔ لغت میں اس کے کئی معنی ہیں (1) ناف شتر (2) چشم (3) چشمہ (4) ہر چیز کا نقش (5) جاسوس (6) نقد (7) برادر (8 ) بزرگوار (9) آفتاب (10) دینار (11) دیدبان (12) ذات (13) کوہان شتر (14) اشکار (15) وہ بادل جو کعبہ سے اٹھے (16) باران مسلسل (17) خاص (18 )حقیقت
ق ۔ لغت میں اس کے معنی تونگر کے درج ہیں۔
(1) بدل کی صورت میں جیسے تریاق سے تریاک۔ رداق سے رداک یا خانقاہ سے خانگاہ۔
ک ۔ اس کے لغوی معنی مرد خشمناک اور چالاک کے ہیں۔ اس کے استعمال کی صورتیں حسب ذیل ہیں۔
(1) تصغیر کے لیے جیسے دخترک کا کاف
(2) تحقیر کی صورت جیسے مردک کا کاف
(3) ترحم کی صورت میں جیسے لپرک اور طغلک کا کاف
نوٹ :- کاف ملحق بہائے مختفی اس کی حسب ذیل صورتیں ہیں۔
(4) بیانیہ۔ جیسے میں جانتا تھا کہ تم نہ آؤ گے۔ یہاں کہ کا محل بیانیہ ہے۔
(5) صلہ کی صورت میں جیسے آن کہ میں۔


138

(6) نیز کے معنی ہیں لیکن اس کے پہلے حرف شرط کا ہونا ضروری ہے۔ عرفی ؎
ہر سوختہ جانے کہ بکشمیر و در آید
گر مرغ کباب است کہ پامال و پر آید
پہلے مصرعہ میں کہ صلہ کا ہے دوسرے مصرعہ میں کہ بمعنی نیز مستعمل ہے۔
(7) مفاجات بمعنی ناگہاں جیسے میں ان کو یاد کر رہا تھا کہ وہ آگئے۔ یہاں اچانک کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
(8 ) تعلیلہ بمعنی زیراکہ۔
(9) استفہام کے لیے۔ اقرار یا انکار کی صورت میں۔
(10) نفی بمعنی نہیں۔ یہ کاف سعدی کے کلام میں زیادہ آیا ہے۔
(11) جواب قسم۔ جیسے حقا کہ
(12)بلکہ کی جگہ۔ سعدی ؎
نہ قندے کہ مردم بصورت خؤرند
کہ ارباب معنی بہ کاغذ برند
مصرعہ میں کہ صلہ کا ہے دوسرے مصرعہ میں کہ بمعنی بلکہ مستعمل ہے۔
(13) مانند کی صورت میں؎
نیست در دہر جفا کار کہ او
نیست در خلق دل آزار کہ او
(14) زائد برائے تجیس جیسے من کہ اینہمہ راندانم
(15) بدل ہائے ہوز جیسے تصغیر کے موقع پر خواجہ سے جواجکک۔ یا خائے معجمہ سے بدل جاتی ہے جیسے شاما کچہ سے شاماخچہ بمعنی سینہ بند زنان۔
نوٹ :- اردو میں اس کے استعمال کی تین صورتیں ہیں۔
(1) کبھی لفظ کے آخر میں مصدری معنی دیتا ہے جیسے ٹھنڈک۔
(2) کبھی ہندی الفاظ کے شروع میں آ کر برائی کے معنی دیتا ہے جیسے کپوت۔
(3) کبھی تصغیر کے لیے لفظ کے آکر میں آتا ہے جیسے ڈھولک۔


139

[TODO: Add Chart][/quote]

گ ۔ یہ اردو فارسی میں مشترک ہے اور دونوں جگہ اس کے استعمال کی ایک ایک صورت ہے۔
(1) فارسی میں۔ بدل غین سے جیسے گلولہ و غلولہ (2) جیم سے جیسے گیلان و جیلان۔
نوٹ :- یہ حرف اردو میں مصدری معنی دیتا ہے جیسے لاگ بمعنی دشمن۔
ل ۔ فارسی میں اس کو زلف محبوب سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اس کے لغوی معنی کا لبد۔ جسم۔ اردو میں اس کے استعمال کی دو صورتیں ہیں (1)کبھی یہ لفظ کے وسط میں آ کر لازم کو معتدی بناتا ہے جیسے کھانا سے کھلانا۔ بتانا سے بتلاناوغیرہ میں۔ لیکن فصحائے حال بعض الفاظ میں اس کا اضافہ معیوب سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک بتانا۔ جتانا زیادہ فصیح ہے لیکن کھلانا اپنی جگہ درست ہے۔
(2) کبھی لفظ کے آخر میں نسبتی معنی دیتا ہے جیسے بوجھل۔
م ۔ لغت میں اس کے معنی خرما دراز۔ شراب۔ درج ہیں۔شعرا معشوق کے دہن سے تشبیہ دیتے ہیں۔ یہ حرف اہل تصوف کے لیے روح ہے روح۔ اور


140

ان کے یہاں اس حرف کا مفہوم ہزاروں طرح لیا گیا ہے ۔ جس پر مفصل روشنی میں نے اپنی تصنیف روح تصوف میں ڈالی ہے۔ ادب میں اس کے استعمال کی صورتیں حسب ذیل ہیں۔
(1) ضمیر متکلم۔ خواہ فاعلی ہو یا مفعولی و اضافی جیسے آمدم و می آرم میں میم آخر فاعلی ہے۔ گفتندم میں مفعولی ہے اور سرم میں اضافی۔
(2) نہی صیغہ امر کے اول میں آتی ہے، جیسے مکن میں۔ کبھی دعائیہ کلمہ کے ساتھ بھی آتی ہے جیسے مگو یاد۔
(3) تخصیص۔ جیسے دوم۔ سوم ۔ چہارم۔ کی میم۔
(4) ربط کی صورت میں جیسے باغم بمعنی باغ ہستم آمدہ ۔ ع
بہار نشہ پرور دختراں چوں گل دریں باغم
(5) بدل کی صورت میں جیسے عشرم سے غشرب۔

[TODO: Add Chart][/quote]

ن ۔ لغت میں اس کے معنی ماہی۔ دوات۔ ساق درخت کے ہیں۔ مجازاََ چاہِ زنخداں ۔ ابروئے محبوب وغیرہ اس کے استعمال کی یہ صورتیں ہیں۔
(1) مصدری ۔ جیسے افتادن۔ آموختن کا نون۔
(2)نفی۔ اکثر فعل سے پہلے آتا ہے جیسے نکردم۔ بعض حالات میں ہا اور یا سے پہلے بھی نفی کے معنی دیتا ہے جیسے غالب کے اس شعر میں ؎
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے رکے
نے باگ ہاتھ میں ہے نہ پائے رکاب میں
 
آخری تدوین:

بھلکڑ

لائبریرین
111

فتظغ ۔ تمام کرد۔ اور ابتک یہی ترتیب مروج ہے ۔ اساتذہ نے ہر حرف کے عدد مقرر کردئیے ہیں ۔ مادہ تاریخ کا حساب انہیں اعداد سے ہوتا ہے اور وہ یہ ہیں۔

[TODO: Add Chart]

واضح ہو کہ ب اور پ ۔ ت اورٹ ۔ ج اور چ۔ ر اور ڑ ۔ز اور ژ ۔ ک اور گ ۔ ہ اور ھ ۔ کے اعداد برابر شمار کیئے جاتے ہیں بعض اساتذہ ہمزہ کا ایک عدد شمار کرتے ہیں کیونکہ پہلے ہمزہ امزہ تھا اور عربی میں ہمزہ الف متحرک کو کہتے ہیں مگر فارسی اور اردو میں ہمزہ کا کوئی عدد شمار نہیں کرتے ہیں۔ ہندی میں بھ۔ پھ ۔ وغیرہ مفرد حروف ہیں مگر تاریخ نکالنے میں ان کے دو حروف ب اور ہ شمار ہوں گے۔

نوٹ۔:۔ یہ فارسی میں ث ح ص ض ط ظ ع غ ق عربی سے لئے گئے ہیں ورنہ یہ حروف خاص عربی لہجہ سے متعلق ہیں اور دوسری زبانوں میں نہیں پائے جاتے ۔ ژحرف فارسی میں ہے ۔ پ ۔چ۔گ فارسی اور ہندی میں مشترک ہیں ۔ غ اور ق ترکی میں زیادہ مستعمل ہیں۔

ابجد۔ ہوزح۔ طیکل ۔ منع۔ فعقر۔ شنشخ۔ ذفنطع۔ اور ان حروف کو آبی بادی ۔ خاکی اور آتشی بھی قرار دیا ہے ۔

[TODO: Add Chart]

112

محققین علمِ ہجا نے حروف کی دو قسمیں کردی ہیں۔

حروف شمسی ۔ حروف قمری (2)

حروف شمسِی:(ء) وہ حروف جن کے پہلے عربی الف اور لام آجاتے ہیں لیکن تلفظ کے وقت اَل کی آواز ظاہر نہیں ہوتی اور وہ حرف مشدّد ہو جاتا ہے۔ اس طرح کہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ لام اہلِ نبخیم کے نزدیک ایک ستارہ ہے اور ستارہ کی روشنی سورج کے سامنے غائب ہو جاتی ہے ۔ چنانچہ عبدالستار کو عبدستّار پڑھیں گے۔حروف شمسی حسب ذیل ہیں ۔

ت ث د ذ ر ز س ش ص ض ط ظ ل ن

حروف قَمَری : (ء) یہ حروف شمسی کے بر عکس ہیں ۔ اور ان میں اَل کی آواز ظاہر ہوتی ہے۔جیسے عبد الکریم کو عبدُکّریم نہیں کہہ سکتے ۔وہ حرود حسب ذیل ہیں۔

ا ب ج ح خ ع غ ف ق ک م ن ہ ی ۔

نوٹ: فارسی میں تین قسم کے حروف شمار ہوتے ہیں ۔

مسروری ۔ ملفوظی اور مکتوبی (3)

مسروری ۔ جو دو حرد سے لکھ جائیں جیسے با تا وغیرہ

ملفوظی۔ وہ حرف کو تین حرفوں سے لکھے جائیں ۔اور وہ میم ۔نون ۔واؤ ہیں کہ

113

اُلٹ کر بھی میم نون واؤ رہتے ہیں۔

[TODO: Add Chart]

اَلِف مَمدُودَہ : (ء) اس الف کو کھینچ کر پڑھا جائے ۔جیسے آب و آتش میں ۔ صاحب برہان آب و آتش کا املا ۔ ااب ۔ ااتش ۔ لکھتا ہے بحساب جملہ الف ممدودہ کو دو الف شمار کرتے ہیں ۔ پہلا متحرک دوسرا ساکن۔ اس الف پر یہ (۔)

اَلِف مقصُورَہ: (ء) وہ الف جو ممدودہ نہ ہو اور اپنے حرف سے ملے ، جیسےاَب اور اَبرو کا الف ۔

[TODO: Add Chart]

نُون غُنّہ: (ء) یہ وہ نون ہوتا ہے جس پر آواز نہیں ٹھہرری بلکہ اس کی آواز اپنے ماقبل سے ملتی جلتی ہوتی ہے ۔ گویا یہ نون تلفظ میں واضح طور پر نہیں آتا جیسے جنگ وغیرہ میں۔

اگر حرف کے آ خر میں یہ نون آتا ہے تو نقطہ نہیں لگایا جاتا لیکن درمیان میں نقطہ ضرور لگانا چاہئے ۔جیسے جنگ ۔

نوٹ: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر نون غنہ کےبعد ب اور پ آئے تو ان دونوں کی آواز میم کی نکلتی ہے ۔مگر عربی میں نون غُنّہ کی شرط نہیں عربی

114

میں اکثر نون اور ب کی آواز میم کی نکلتی ہے ۔۔۔جیسے من بعد کو مم بعد پڑھا جاتا ہے ۔

وَاؤ مَعرُوف: اس واؤ کو کہتے ہیں کس پر پیش کی کھلی آواز ظاہر ہو جیسے وضو ۔ سبو میں ۔

وَاؤ مِجہُول : اس واؤ کی آواز پیش ظاہر کرتی ہے مگر واؤ معروف سے کم جیسے کور ۔ شور۔ مور وغیرہ میں ایرانی واؤ معروف کی طرح اسے کو ادا کرتے ہیں ۔ اور کُور کا قافیہ خور بھی لکھتے ہیں ۔مگر اردو میں ایسا درست نہیں۔

وَاؤ مَعدُولَہ: یہ واؤ لکھا تو جاتا ہے مگر پڑھنے میں نہیں آتا ۔اور یہ واؤ ہمیشہ خ کے بعد آتا ہے جیسے خوش ۔ خواجہ ۔ اور خواب میں۔۔ ان کا تلفظ خُش ۔ خاجہ ۔ اور خاب ہو گا ۔ یہ واؤ تقظیع میں بھی شمار نہیں ہوتا مگر مادہ تاریخ میں اس کے عدد شمار کئے جاتے ہیں ۔

وَاؤ زَائِد : (ف) یہ واؤ محض پیش ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے چوں ۔ چو ۔ تو ۔ میں ۔

[TODO: Add Chart]

ہَائے مَلفُوظِی ۔ یہ ہائے اصلی ہے اور پڑھنے میں دوسرے حرف کے ساتھ مخلوط نہیں ہوتی ہیں آہ۔واہ۔

ہَائے مَختَفی ۔ یہ صرف اظہار حرکت کے لئے آتی ہے ۔ یعنی ماقبل حرف کا متحرک ہونا ثابت کرتی ہے اور بروقت تاریخ اس کے عدد شمار ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تقطیع میں شمار ہوتی ہے اور کبھی ساقط ہوجاتی ہے۔ مفرد لفظ کے آخر میں

115

بصورت قابیہ الف سے بدل جاتی ہے جیسے

وہ بھی تو ذرا سمجھیں یہ کس کا فسانا ہے : روداد غم فرقت آج انکو سُنانا ہے ؎

فارسی والے اسے قافیہ میں حرف روی نہیں کرتے کیونکہ وہ اس کو حرف بے صورت تصور کرتے ہیں ۔مگر اردو میں ایسا نہیں ہے جمع بنانے یا نسبت دینے کی صورت میں ہائے مختفی گاف سے بدل جاتی ہے جیسے رفتہ سے رفتگان ۔ مژہ سے مژگان ۔ زندہ سے زندگی ۔ ہائے مختفی صرف فارسی اور اردو کا حرف ہے ۔ عربی میں یہ حرف نہیں ہے۔

ہَایئ مُظہِرَہ : یہ بھی ہائے مختفی ہے لیکن عربی میں اس کو مظہرہ کہتے ہیں ۔ اس کی اصطلاح میں یہ (ۃ) ہے کہ حالت وقف میں (ہ) کی آواز دیتی ہے ۔ دراصل فارسی والوں نے اسے تصرف کرکے ہائے مظہرہ کو مختفی بنا لیا ہے۔

ہَائے مَخلُوطُ التَلَفُّظ۔دو چشمی ھ کو کہے ہیں ۔ جیسے گھر ۔ پھر ۔ میں ۔تاریخ میں اس کے عدد شمار کئے جاتے ہیں مگر تقظیع میں یہ ھ شمار نہیں کی جاتی ہے۔

[TODO: Add Chart]

ہَمزہ۔ یہ اردو فارسی میں کوئی خاص حرف نہیں مگر فارسی اضافتوں میں جو اردو میں بھی مستعمل ہیں اظہار حرکت کے لئے لکھ جاتا ہے ۔ اردو رسم الخط میں الف واؤ ۔ ی کے اوپر (ء) کی علامت لکھی جاتی ہے ۔ عربی میں یہ الف متحرک ہے۔

یَائے مَعرُوف۔ وہ ی جو کھینچ کر پڑھی جائے ۔ جیسے عید اور آدمی ۔ رسم الخط میں (ی )

116

لکھی جاتی ہے ۔

یَائے مَجہُول۔ یہ رسم الخط (ے) ہے ۔ مگر یہ یائے معروف کی طرح کھینچ کر نہیں پڑھی جاتی جیسے جیل بمعنی زنداں میں ۔ ایرانیوں کے تلفظ میں یائے معروف و یائے مجہول کا فرق نہیں ۔

یَائے مَخلُوط۔ زائد یا ہوتی ہے جو ہندی الفاظ میں عام طور پر الف واؤ کے پہلے لکھی جاتی ہے اور حرف ماقبل مکسور ہوتی ہے جیسے پیاس میں تقطیع میں یہ بھی شمار نہیں ہوتی ۔ یعنی ۔ پیاس ۔ پاس بر وزن فاع تصور ہوگا ۔ مگر تاریخ میں عدد شمار نہیں ہوتے۔

[TODO: Add Chart]

حُروف علت ۔ عربی میں الف واؤ اور یا حروف علت ہیں ۔ حروف علّت کی حرکت موافق ہوتی ہے جیسے مالیخولیا ۔ میں ما کا الف مفتوح ۔ لیخو کی ی مکسور اور خو کا واؤ مضموم۔

حُروف مد۔ یہ وہ حروف علت ہیں جن کی حرکت موافق ہو۔

حُروف لَین۔ یہ بھی حروف علت ہیں ۔ مگر ان کی حرکت موافق نہیں ہوتی جیسے کونین میں واؤ اور ی ۔ حروف لین صرف واؤ اور ی ہیں ۔

117

[TODO: Add Chart]

مُعّجمَہ۔ (ء) بروزن موحدہ ۔بمعنی حروف منقوط اصطلاحاََ وہ حروف جو نقطہ دار ہوں جیسے ۔ ب ت پ ش وغیرہ

فَوقَانِی۔ (ء) بروزن گوہانی بمعنی ۔ اوپر والا وہ حروفِ منقوط جن کے نقطے اوپر ہوں ۔ جیسے ت ث ش۔ وغیرہ ۔

تَحتَانِی ۔ (ء) بروزن سرکاری ۔ بمعنی نیچے کا ۔ وہ حروف جن کے نیچے نقطے ہوتے ہیں ۔ جیسے ب پ ی وغیرہ

مُوحّدَہ۔ (ء) بروزن مجمعہ ۔ بمعنی ایک سے منسوب ،۔ ایک نقطے ولای حرف کو کہتے ہیں جیسے ب۔

مُثَنَّاۃ۔ (ء) بروزن متنباہ ۔ بمعنی دو سے منسوب۔ وہ حروف جو نقطے رکھتے ہوں۔ جیسے ت کو تائے مثناۃ فوقائبہ کہیں گے۔ اور ی کو یائے مثناۃ تحتانیہ

مُہَملَہ ۔ (ء) بروزن دُسرا بمعنی خالی ۔ بے نقطے کا حرف ۔ غیر منقوط حروف کو کہتے ہیں جیسے ا۔ ح ۔ د۔ ر۔ وغیرہ ۔

[TODO: Add Chart]

118

حَذف۔ (ء) بروزن بخف۔ بمعنی گرا دینا۔ کچھ حروف یا لفظ کے گرانے کو کہتے ہیں۔ جو کچھ گرایا جاتا ہے اس کو مخذوف کہتے ہیں ۔ یہاں صرف لفظ گرانے سے مراد ہے ۔ جیسے تعطیل تو ہوئی مگر بیکار ہوئی ۔ یہاں مگر بعد تعطیل محذوف ہے۔

تَرخِیم- (ء) بروزن ترمیم ۔ بمعنی دُم کاٹنا۔ بعض الفاظ کے آخر سے حرف گرادینے کو کہتے ہیں ۔ جیسے دختر سے دُخت۔ گرنے والے حرف مرخم کہتے ہیں۔

تَحرِیک۔ (ء) بروزن تردید۔ بمعنی حرکت دینا ۔ کسی ساکن حرف کو متحرک کرنا ل جیسے طَرف سے طَرف یا رَفو سے رَفَو۔

تَخفِیف۔ (ء) بروزن تردید۔ بمعنی کم کرنا۔ حرف مشدد سے تشدید دور کرنا ۔ جیسے جادّہ سے جادہ، کہ بغیر تشدید فارسی لفظ ہو گیا۔ فارسی میں لفظ کے کسی حرف کو گرادینا جیسے چاہ سے چہ اس کو مخفف کہتے ہیں،

تَسکِین۔ (ء) بروزن تردید ۔ بمعنی آرام ۔ متحرک ھرف کو ساکن کرنا جیسے ۔ حَرَکت سے حَرکت ۔

مُقدَّر۔ (ء) بروزن مکدّر ۔ بمعنی تقدیر ۔ اندازہ کرنے والا۔ وہ لفظ جو عبارت میں نہ ہومگر اس کے معنی لئے جائیں ۔

نوٹ۔ مقدر میں اور مخذوف میں صرف اتنا فرق ہے کہ مخذوف بقصڈِ متکلم گرا دیا جاتا ہے ۔ مقدر قصداََ نہیں گرایا جاتا ۔ اس کے علاوہ مذکور نہ ہونے پر بھی معنی ظاہر ہوتے ہیں ۔ جیسے جوشؔ بد ایونی کا شعرہے

پھر اسی شان سے ٹوٹے ہوئے پیمانے لیں ؎

یہاں شراب مقدر ہے۔

اِدغَام۔ (ء) بروزن انعام ۔ بمعی گھوڑے کے منہ میں لگام دینا ۔ اصطلاحاََ کسی لفظ میں دو ہم مخرج یا ہم جنس حرفوں کا اجتماع جیسے مکرّر ۔ اصل میں یہ لفظ مکرر تھا۔

119

یہاں دورائے مہملہ مدغم ہوگئیں ۔

قَلب۔ (ء) بروزن حرف ۔ بمعنی بیچ ۔ درمیان ۔ دل ۔ لفظ کے درمیانی حروف کو تقدیم و تاخیر کے ساتھ پڑھنا ۔ جیسے دریوزہ کو دریزہ ۔ کہیں اس کو مقلوب کہتے ہیں۔

نوٹ۔ مخذوف و مقدور کا فرق قصد اور بغیر قصدِ متکلم لفظ کے دور کرنے سے متعلق ہے ۔ مرخم اور مخفف میں یہ فرق ہے کہ تخیم ہمیشہ لفظ کے آخر حرف کرنے کو کہتے ہیں ۔ لیکن تخفیف میں کسی حرف کا کوئی حرف کم کرفینے کو کہتے ہیں۔ جیسے چاہ سے چہ ۔ ماہ سے مہ وغیر ہ

اَبدَال۔ (ء) بروزن ارمان ۔ بمعنی تبدیل کرنا۔ ایک حرف کا دوسرے حرف سے بدل دینا ۔ جیسے تالیچہ سے غالیچہ۔

اِمَالَہ۔ (ء) بروزن شوالہ ۔ بمعنی خم کرنا۔ اصطلاحاََ الف کویائے مجہول سے تبدیل کرنا جیسے کتاب سے کیبت۔ رکاب سے رکیب ۔ حسا ب سے حسیب وغیرہ ۔

تَعرِیب۔ (ء) بروزن تعریف بمعنی جاری کرنا ۔ کسی دوسری زبان کے لفظ کو عربی بنا لینا۔ جیسےنازک سے نزاکت اس کو معرب کہتے ہیں۔

تَفرِیس۔ (ء) بروزن تعریف بمعنی جاری کرنا ۔ وہ لفظ جو فارسی ہو مگر فارسی بنا لیا ہو ۔ جیسے ٹیلیگراف سے تلگراف ۔ اس کو مفرس کہتے ہیں۔

تَہنِید۔ (ء) بروزن تعریف ۔ بمعنی جارئ کرنا ۔ کسی غیر زبان کے لفظ کو اردو بنا لینا ۔ جیسے لینٹرن لالٹین ۔اس کو مہندکہتے ہیں

مُتَرادِف۔ (ء) بروزن متقاضی۔ بمعنی ہم معنی ۔ وہ الفاظ جن کے معنی ایک سے ہوں ۔ جیسے عین ۔ چشم ۔ آنکھ۔

120

مُشتَرِ ک ۔ (ء) بروزن منحصر ۔ بمعنی شامل ۔ وہ لفظ جو کئی معنی رکھتے ہوں۔ جیسے سُونا بمعنی دھات اور آرام۔

زِیادَت۔ (ء) بروزن زیارت ۔بمعنی کثرت۔ کسی لفظ میں حرف زیادہ کرنا۔ جیسے شتر سے اشتر۔
 

بھلکڑ

لائبریرین
(3) جمع غائب ۔ جیسے گفتند و آور دند وغیرہ میں ۔

نوٹ ۔ اردو میں اس کا استعمال پانچ صورتوں میں ہوتا ہے ۔

(1) نفی کا کام دیتا ہے جیسے نڈر نکما نموہی ۔ جانصاحب ۔ (ء)

نموہی جان کے مجھ کو وہ مار لیتے ہیں ۔

(2) کبھی آخر میں نسبتی معنی دیتا ہے جیسے جو گ سے جوگن ۔ سہاگ سے سہاگن ۔

(3) علامت مونث جیسے سنار سے سنارن ۔ بِھشتی (بہشتی ) سے بھشتن (بہشتن)

(4) علامت جمع۔ مگر ان الفاظ میں جن کے آخر میں الف یا ی ہوتی ہے جیسے گُڑیاں۔ پُڑیاں ان کے واحد حسب ذیل ہیں گڑیا ۔پڑیا ۔ پری ۔

(5) زائد کی صورت میں جیسے دونوں میں پہلا ۔نون۔ مگر بعض لوگ اس کو محافطت یانون وقا یہ کہتے ہیں ۔ لیکن یہ نون عربی میں آتا ہے اس لئے اس کو زائد کہتے ہیں۔

To Do Add Chart

و۔ لغت میں کوہان شتر کے معنی تحریر ہیں ۔ عربی میں قسم کے معنی دیتا ہے جیسے واللہ۔ فارسی میں اس کی دو قسمیں ہین ، ملفوظی اور معدولہ ۔ معدولہ تلفظ میں نہیں آتا۔ ملفوظی کی دو قسمیں ہیں ۔ معروف و مجہول ۔ فارسی میں اس کے استعمال

142

کی صورتیں حسبِ ذیل ہیں ۔

(1) عطف ۔ دو کلموں کے درمیان آتا ہے جیسے خریدو فروخت – گفت و شنید میں۔

(2) زائد۔ یہ بھی دو کلمون کے درمیان واقع ہوتا ہے ۔ لیکن معطوف و معطوب اللہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتاجیسے تنومند میں ۔

(3) اشباع۔ یہ وہ واؤ ہوتا ہے جو پیش کے ساتھ کھینچ کر پڑھا جاتا ہے ۔ جیسے اوفتاد ۔ اوستاد میں یا روستم جس کو رستم کہتے ہیں ۔

(4) حالیہ۔ یہ دراں حالیکہ معنی میں آتا ہے ۔ سعدیؔ ؎

بلند آسماں پیش قدرت خجل تو مخلوق و آدم ہنوز آب و گل

(5) تصغیر۔ یہ واؤ خاص طور پر ایرانی محاورہ میں مستعمل ہے ہے جیسے پسر سے ۔ پسرو۔ یا دختر ۔ سے دخترو کا واؤ۔

(6) ملازمت ۔ جیسے اس شعر میں ۔ ؎

من ومستی و کنج میخانہ باز ادیم خط پیمانہ

(7) تفسیر ۔ جیسے اس شعر میں ۔ جامیؔ ؎

زصفت و ناتوانائی رہاندی زنادانی بدانائی رساندی

(8) قسم ۔ جیسے من و خدا بمعنی من قسم بخدا کہ میگویم۔ غالبؔ ؎

غالبؔ من و خدا کہ سر انجام بر شکال غیراز شراب و انبہ برقاب ع قندنیت

(9) بدل ۔ (1) ب سے جیسے نوشت کا نبشت ۔ (2) پ سے جیسے دام کا پام ۔ (3) ف سے جیسے یادہ کا یافہ ۔ (5) ہمزہ سے جیسے طاووس کا طاؤس۔

(10) حذف ۔ بعض الفاظ کے درمیان سے واؤ ساقط ہوجاتا ہےاو معنی وہی رہتے ہیں ۔ جیسے ہوشیاری سے ہُشیاری ۔

143

نوٹ :- اردو میں اس کا استعمال حسب ذیل صورتوں میں ہوتا ہے ۔ استعمال واؤ معروف ۔

(1) اسم مفعول کے معنی میں ۔ جیسے پالتو یعنی پرورش کیا ہوا۔

(2) اسم فاعل کے معنی میں ۔ جیسے جہاڑو ۔یعنی جھاڑنے والا۔

(3) تعظیم لیکن تذکیر کی صورت میں ۔ جیسے کلو۔ نتھو۔

(4) استعمال واؤ مجہول ۔ حرف ندا کا کام دیتا ہے ۔ جیسے مسلمانو۔ دوستو۔ یہاں آخر میں نون نہیں لکھا جاتا ہے۔

(5) علامت جمع حاضر کہ امر کے صیغ میں ہو ۔ جیسے آؤ ۔ لاؤ ۔ جاؤ ۔ میں ۔

(6) علامت تانیث جیسے کلو ۔ بنو ۔ بلو۔ میں

(7) ماضی مطلق واحد غائب کے بعد آکر مصدری معنی دیتا ہے ۔ ۔ جیسے لگاؤ ۔ بناؤ ۔ سناؤ۔

(8) نسبت کی صورت میں آتا ہے جیسے پچھیاور۔

(9) ظرف کے لئے آتا ہے جیسے پڑاؤ۔

(10) لفظ کے درمیان آکر مصدر کو متعدی بنا دیتا ہے جیسے اُٹھنا سے اُٹھوانا ۔ لیکن واضح ہو کہ ساتھ الف کا ہونا ضروری ہے۔

To Do Add Chart,

144

To Do Add Chart

لغت میں اس کے معنی بچہ کے منہ پر تپانچہ مارنا ۔اس کی دو قسمیں ہیں ۔ ملفوظی و ٖغیر ملفوظی ۔ اس کے علاوہ فارسی میں اس کا استعمال حسب ذیل ہے ۔

(1) فاعلی ۔ جیسے روندہ ۔ گونبدہ ۔ میں

(2) مفعولی ۔ جیسے گفتہ و شنیدہ

نوٹ :- ہائے فاعلی اور مفعولی کے سمجھنے کو آمد نامہ کا مطالعہ بہت کافی ہے ۔

(3) موصول۔ یہ دو فعلوں کے درمیان میں آتی ہے جیسے دودیدہ رفت ۔

(4) زائد۔ جیسے رنج سے رنجہ ۔ غرق سے غرقہ ۔ آمیخت سے آمیختہ ۔ یہ صرف حسنِ کلام کے لئے آتی ہے ۔ لفظ کے معنی تغیر نہیں ہوتا۔

(5) تعین مدت ۔ جیسے یکشنبہ ۔ دوسالہ میں ۔

(6) تخصیص ۔ یہ نون اور ی کے بعد آتی ہے ۔ جیسے زرینہ سے زینہ میں ۔

(7) لیاقت ۔ الف نون کے بعد آتی ہے جیسے شاہ سے شاہانہ

(8) نسبت ۔ یہ بھی ہائے لیاقت جیسی ہوتی ہے ۔ لیکن یہاں نسبت ظاہر کرتی ہے ۔ جیسے مست سے مستانہ

(9) تانیث۔ جیسے جمیلہ میں

(10 ) مبالغہ ۔ جیسے علامہ میں

(11) بدل ہائے مختفی ۔ جیسے ہیچ کا ایچ۔

145

To Do Add Chart

ی۔ اس کی دو قسمیں ہیں ۔ معروف و مجہول ۔ قافیہ میں ان کا خلط نا درست ہے ۔ حالانکہ ایرانیوں نے اس کا کوئی خاص لحاض نہیں رکھا ۔ فارسی میں یائے معروف کا استعمال حسبِ ذیل ہے ۔

(1) مصدری اسم سے مل کر پیدا کرنے کے لئے معنی دیتی ہے جیسے غافلی و عاقلی بمعنی غافل شدن عاقل شدن۔

(2) متکلم ۔ جیسے جیسبی ۔ بمعنی حبیب من ۔محبی بمعنی محب من ۔ مکرمی بمعنی مکرم من ۔ وغیرہ لیکن عربی تقلید کے موافق ہے ۔

(3) ضمیر واحد حاضر۔ یہ فعل ماضی ۔ مضارع اور اسم سے ملحق ہوتی ہے ۔ جیسے آوردی ۔ داری ۔ مردمی وغیرہ ۔ لیکن جس لفظ کے آخر میں ہائے مختفی ہوتی ہے تو یہ کتابت میں ہائے مختفی کے اوپر ہمزہ کی صورت میں لکھی جاتی ہے ۔ جیسے کردہ وغیرہ۔

(4) نسبتی ۔ خراساں سے خراسانی بمعنی خراسان سے نسبت رکھنے والا۔بعض اسما جن کے بعد الف ہا اور یا ہوتا ہے تو اس ہا سے پیشتر واؤ کا اضافی اور کردیا جاتا ہے جیسے دعا دی ۔ کلکتہ سے کلکتوی ۔ بریلی سے بریلوی ۔

(5) لیاقت۔ جیسے گرد ن زونی میں کہ بمعنی گردن زدن کے لائق۔

(6) زائد۔ یہ صرف حسنِ کلام کے لئے آتی ہے جیسے پائے ۔ موئے ۔ رائے وغیرہ

(7) امالہ ۔ یعنی الف سے بدل جانا ۔ جیسے موسیٰ و عیسیٰ سے موسی و عیسی۔

146

(8) یائے مجہول کا استعمال ۔ وحدت کی صورت میں جیسے یکے مرغ دیدم ۔ بمعنی میں نے ایک پرندہ دیکھا۔

(9)۔ تنکیر ۔یہ اسم کے ساتھ اسم کو غیر معنی کردیتی ہے ، جیسے سخنے میں ۔

(10) توصیفی ۔ جیسے کسی کہ میں یہ اسم سے مل کر توصیفی معنی دیتی ہے۔

(11) تعظیم۔ جس سے بزرگی ظاہر ہو۔ جیسے علّامی میں۔

(12) امالہ۔ جیسے رکیب سے رکاب۔

(13) ۔ استمرار۔ فعل ماضی سے ملحق ہوتی ہے جیسے رفتے ۔ آمدے وغیرہ میں۔

(14) زائد۔ یہ صرف حسنِ کلام کے واسطے آتی ہے ۔ جیسے پائے من و جائے من میں۔

(15) بدل۔ جیسے بیفروز سے افروز آورد سے بیاورد یا رائگاں سے رائیگاں۔

نوٹ:- اُردو میں اس کا استعمال حسبِ ذیل ہے۔

(1) یائے معروف مصدری۔ لڑنا سے لڑائی۔

(2) یائے معروف نسبتی۔ جیسے آدم سے آدمی میں۔

(3) یائے معروف فاعلی۔ جیسے تیل دھوبی میں۔

(4) یائے معروف تانیث۔ میں جیسے گھوڑی ۔ بکری میں۔

(5) یائے مجہول جمع ۔ جیسے بکرا واحد سے بکرے یا اُٹھایا سے اُٹھائے۔

(6) یائے مجہول جمع مگر نون سے پہلے جیسے کتاب سے کتابیں یا دوا سے دوائیں۔

کبھی وسط لفظ میں الف کی جگہ آتی ہے۔ جیسے دھواں سے دھوئیں۔

کنواں سے کنویں وغیرہ میں

147

To Do Add Chart


148

اصطلاحاتِ علم صَرف

صَرف۔ (ء) بروزن برف بمعنی بدلنا۔ چونکہ اس علم سے حروف و حرکات میں ایک اصولی تغیرو تبدل ہوتا ہے اور اس سے مختلف الفاظ بنتے ہیں ۔ جو مختلف معنی دیتے ہیں ۔ اس چیز کے معلوم کرنے کو علم صرف کہتے ہیں۔

مَوضُوع۔(ء) بروزن منصور ۔ بمعنی بنایا گیا۔ اصطلاحاََ موضوع اس کو کہتے ہیں جس کی مدد سے کسی علم کے ذاتی مناسبات معلوم ہوں۔ جیسے علم ِ طب کا موضعو جسمِ انسان ۔ علم سرود کا موضوع راگ راگنی ۔ علمِ حساب کا موضوع اعداد وغیرہ۔ مقصد یہ ہے کہ اس سے انسان بات چیت کرتے وقت صحیح بولے ۔ یعنی کلمہ میں الفاظ کی مناسبت موجود ہو۔

کَلِمہ۔ (ء) بروزن کلمن ، بامعنی لفظ۔ اصطلاحاََ وہ جملہ جس میں کئی لفظ شامل ہوں۔ لفظ اور کلمہ میں صرف اتنا فرق ہے کہ کلمہ لفظوں سے مل کر بنتا ہے ۔ اور لفظ حرفوں سے مل کر بنتا ہے ۔ اور بذات خود اکیلا ہوتا ہے ۔ جیسے دل میں درد ہے لیکن ان چاروں لفظوں کو ملا کر پڑھا جائے گا تو کلمہ ہوجائے گا۔

مُہمل۔(ء) بروزن بوتل ۔ بمعنی لغو۔ بے ربط ۔ بے معنی ۔ لفظ دو قسم کے جوتے ہوتے ہیں۔ بامعنی لفظ کو موضوع اور بے معنی لفظ کو مہمل کہتے ہیں ۔ جسکا قواعد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔

149

کلام۔ (ء) بروزن سلام۔ بمعنی گفتگو۔ بامعنی لفظ کو قواعد میں کلمہ کہتے ہیں اور کلمات کے مجموعہ کے کلام کو کہتے ہیں ۔ لیکن اس مجموعہ میں خبر با طلب پائی جاتی ہے ۔اصطلاحاِِ شعرا ء کے مجموعہ اشعار کو بھی کلام کہتے ہیں۔

نوٹ:- ہر لفظ کچھ نہ کچھ معنی ضرور رکھتا ہے ، اس بنا پر اس کی دو قسمیں مستقل اور غیر مستقل ۔

مُستَقِل۔(ء) جو لفظ خود پورے معنی نہ رکھتا ہو مگر دوسرے لفظ کی مدد سے معنی دے ۔

اِسم۔ (ء) بروزن قسم ۔بمعنی نام۔ اصطلاحاََ وہ لفظ جو جانداروں ۔ انسان ۔چیزوں اور کیفیتوں کے نام ظاہر کرے جیسے شیر ۔ آدمی ۔ میز ۔ غصہ وغیرہ۔

صِفت۔ (ء) بروزن جہت۔ بمعنی اچھائی۔ وہ کلمہ جو اسم کی کیفیت یا اس کی حالت ظاہر کرے ۔۔ جیسے اچھا لڑکا ۔ بری عادت ۔ یہاں اچھا اور بُری صفت ہیں۔

ضَمِیر۔ (ء) بروزن خمیر ۔ بمعنی بھید ۔ وہ کلمہ جو اسم کی کگہ بعلا جائے جیسے میں وہ ہم تم وغیرہ ۔

فِعل۔ (ء) بروزن جیل ۔ بمعنی کام ۔ حرکت ۔ وہ کلمہ جس سے کام کا ہونا یا کرنا پایا جائے اور اس کے ہونے یا کرنے کا زمانہ بھی پایا جائے ۔ جیسے وہ آیا ۔ وہ آتا ہے ۔ وہ آئے گا

تَمیز۔ (ء) بروزن غریب ۔ بمعنی جُدا کرنا ۔ وہ کلمہ جو فعل یا صفت یا دوسری تمیز کے معنی میں کمی بیشی پیدا کرے۔ اور اس کی کیفیت اور حالت بتائے ۔ ایسے لفظ یہ ہیں ۔ اب ۔ یہاں ۔ کیوں۔ وغیرہ۔

150

To Do Add Chart

نوٹ: الفاظ غیر مستقل کو علم صرف میں حروف کہتے ہیں۔

حرف۔ (ء) بروزن صرف ۔ اصطلاحاََ وہ غیر مستقل لفظ جو بغیر دوسرے لفظ کی مدد کے اپنی معنویت ظاہر نہ کرسکے جیسے میں۔ سے ۔ پر ۔ تک ۔وغیرہ ۔ یہ چار قسم کے ہوتے ہیں۔ حرف ربط ۔ حرف ۔عطف ۔حرف تخصیص ۔ حرف فجائیہ ۔

حرف رَبط۔ وہ کلمہ جو ایک لفظ کا دوسرے لفظ سے تعلق ظاہر کرے ۔ جیسے اپنے دل سے معلوم کرو یہاں لفظ "سے" حرف ربط ہے۔

حرف عطف۔ یہ ہمیشہ دو لفظوں یا دو جملوں کو آپس میں ملاتا ہے جیسے دل و جان یا وہ آیا اور میں اُٹھا ۔ یہاں واؤ پہلے جملہ میں اور "لفظ" دوسرے جملہ میں حروف عطف ہیں۔

حرف تَخِصیص۔ وہ حرف کو خصوصیت یا حصر کے معنی پیدا کرے ۔ جیسے میں ہی اب جارہا ہوں ۔ صرف تمہای وجہ سے آیا تھا ۔ یہاں لفظ ہی اور صرف حروف تخصیص ہیں۔

حرف فَجَائیہ۔ وہ حرف جو کسی خاص جذبہ کے ماتحت زبان سے بیساختہ نکل جائے اور اس سے کسی امر کا اتفاقی یا ناگہانی طور پر ہونا ظاہر ہوتا ہو۔ جیسے تم ناگہاں مصیبت میں آگئے ۔ یہاں ناگہاں حرف فجائیہ ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۹۱

لوازم فعل – یہ فعل کی خصوصیات ہوتی ہیں جو ہر فعل میں پائی جاتی ہیں۔ اور یہ حسب ذیل ہیں : طور، صورت، زمانہ۔

طور : (ء) بروزن اور بمعنی طریقہ، ڈھنگ، فعل کی وہ حالت جس سے یہ معلوم ہو جائے کہ کام خود فاعل سے صادر ہوا ہے۔ یا کام کا اثر کسی پر واقع ہوا ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ معروف – مجہول (۲)

معروف : یہ وہ فعل ہے جس سے فائل کے کام کا اثر کسی دوسری شے پر واقع ہو، جیسے زہد نے روٹی کھائی۔

مجہول : اس فعل سے وہ شے یا شخص معلوم ہو جاتا ہے جس پر کام کا اثر ہو اور فاعل معلوم نہ ہو۔ جیسے زید بلایا گیا۔ یہاں بلایا گیا مجہول ہے کیونکہ بلانے والے کا پتہ نہیں۔

نوٹ : (۱) فعل متعدی میں ماضی مطلق کے بعد جانا بڑھا دیں تو مصدر متعدی مجہول بن جائے گا۔ جیسے چلا سے چلا جانا وغیرہ۔

۲ - فعل مجہول ہمیشہ متعدی ہوتا ہے۔ لیکن فعل معروف لازم اور متعدی دونوں ہوتے ہیں۔

صورت : (ء) بروزن مورت – بعنی شکل – اس کی پانچ قسمیں ہیں۔ خبری، شرطی، احتمالی، امری، مصدری

خبری : (ء) بروزن نظری – بمعنی منسوب بہ خبر – یہ وہ صورت ہے جو کسی فعل کے وقوع کی خبر دے یا کسی امر کا استفسار کرے۔ جیتے تم آئے۔ یہاں آنے کی خبر ہوتی ہے۔

شروطی : (ء) بروزن برفی – بمعنی منسوب بہ شرط – اس میں شرط یا تمنا پائی جاتی ہے۔ خواہ حرف شرط ہو یا نہ ہو۔ جیسے تم آؤ تو کچھ میں کہوں سنوں۔ کاش تم آ جاتے وغیرہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۹۲

احتمالی : (ء) بروزن اختیاری – بمعنی منسوب بہ احتمال۔ اس میں احتمال یا شک پایا جاتا ہے جیسے وہ جا رہا ہو گا۔ بہت ممکن ہے وہ آ جائے وغیرہ۔

امری : (ء) بروزن قمری – بمعنی منسوب بہ امر – اس میں حکم یا ممانعت پائی جاتی ہے۔ جیسے مری جانب دیکھو۔

مصدری : (ء) بروزن سروری – بمعنی منسوب بہ مصدر، جس میں بغیر تعین وقت کام کا ہونا پایا جائے۔ جیسے آنا جانا وغیرہ۔ امر کے آخر میں نا بڑھانے سے صورت مصدری پیدا ہو جاتی ہے۔

نوٹ (۱) مصدر مرکب – رات کرنا – روٹی کھانا – بات سننا وغیرہ مصدر مرکب ہمیشہ مذکر استعمال ہوتا ہے۔ بعض اہل زبان رات کرنی بھی کہتے ہیں۔ اور ان کے نزدیک رات مونث ہے لہذا فعل کو بھی تانیث لکھنا چاہیے۔ مگر وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ کرنا فعل مصدری ہے اور علامت مصدری نا ہے نی نہیں ہے۔

نوٹ (۲) ایک صاحب فرمانے لگے کہ امر کی صورت میں رات کرنا ہی لکھنا فصیح ہے باقی حالات میں رات کرنی لکھنا چاہیے۔ افسوس ہے کہ وہ بھی یہ نہیں سمجھتے کہ امر میں نا نہیں پایا جاتا ہے۔ مصدر کا نا دور کرنے سے امر ہوتا ہے اور جب امر میں نا ہو گا تو وہ امر نہیں رہے گا۔

زمانہ : (ء) بروزن ترانہ – بمعنی دور- عہد – فعل کے لئے زمانہ کا ہونا ضروری ہے۔ زمانے تین ہوتے ہیں۔ ماضی، گذرے ہوئے زمانے کو کہتے ہیں۔ حال موجودہ زمانہ ہوتا ہے اور مستقبل وہ زمانہ ہے جو آئندہ انے والا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۹۳

لوازم فعل :
طور
صورت
زمانہ

طور :
معروف
مجہول

صورت :
خبری
شرطی
احتمالی
امری
مصدری

زمانہ :
ماضی
حال
مستقبل

حالیہ ناتمام : اس کو ماضی استمراری بھی کہتے ہیں۔ امر کے بعد اردو میں "تا تھا" بڑھانے سے بنتا ہے جیسے آنا مصدر سے آ امر ہوا۔ اور آ سے بنا لیا "آتا تھا"۔ اس کو ماضی اسمتراری کہتے ہیں۔ واضح ہو کہ آ کو مادہ بھی کہتے ہیں آنا مصدر کا۔

حالیہ تمام : اس کو ماضی مطلق بھی کہتے ہیں۔ مادہ یعنی امر کے آخر میں الف بڑھا دیا جائے لیکن یہ ان مادوں کے آخر میں بڑھایا جاتا ہے جن کے آخر میں خود الف یا واؤ نہ ہو۔ جیسے چل سے چلا۔ مر سے مرا وغیرہ۔ اس کے برعکس یا بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے آ سے آیا، سو سے سویا۔

نوٹ (۱) : سہ حرفی مادوں میں دوسرا حرف ساکن ہوتا ہے، جیسے نکل سے نکلا۔

نوٹ (۲) : حسب ذیل مصادر سے حالیہ خلاف مادہ ہوتا ہے۔ جیسے ہونا سے ہوا۔ مرنا سے مؤا، کرنا سے کیا، دینا سے دیا، لینا سے لیا، جانا سے گیا۔ مُوا اب کوئی نہیں لکھتا۔ اس کی جگہ مرا ہی بہتر ہے۔ ایک وجہ اس کے متروک کرنے کی یہ بھی ہو سکتی ہے کہ موا عورتوں کی زبان میں نفرت اور حقارت ظاہر کرنے کے معنی میں مستعمل ہے۔

حالیہ معطوفہ : اردو میں اس کا استعمال بکثرت ہوتا ہے۔ یہ کر یا کے جب دو فعلوں کے درمیان ائے تو پہلے کو معطوف الیہ اور دوسرے کو معطوف
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۹۴

اور کر یا کے کو حرف عطف کہتے ہیں۔ واضح ہو کہ پہلا فعل ہمیشہ امر کا صیغہ ہو گا اور دوسرا فعل مضارع یا مستقبل وغیرہ ہو گا۔ جیسے دیکھ کر چلو۔ کبھی پہلا فعل دو امر سے مرکب بھی ہوتا ہے جیسے کام بن بن کے بگڑ جاتا ہے۔ پہلے حرف عطف کا حذف جائز بھا۔ جیسے "دیکھ تجھ کو وہ اور تیز ہوا۔" یہاں دیکھ کر ہونا چاہیے۔ کر کا حذف کرنا خلافِ فصاحت ہے۔

فعل معطوف میں ہمیشہ فعل کے ہو جانے کے بعد دوسرا فعل واقع ہوتا ہے مگر کبھی اس کا لحاظ نہیں بھی کرتے :

ایک آفت سے تو مر مر کے ہوا تھا جینا
پڑ گئی اور یہ کیسی مرے اللہ نئی

نوٹ : جب حالیہ کے ساتھ "ہوا" آتا ہے تو مفعول کے معنی دیتا ہے۔ جیسے پڑھا ہوا، سویا ہوا، وغیرہ۔

ماضی : (ء) بروزن راضی، بمعنی گزرا ہوا۔ وہ فعل جو گذرے ہوئے زمانے سے متعلق ہو، جیسے تم نے کب سنا۔ زید نے کہا تھا، وغیرہ۔ اس کی چھ قسمیں ہیں۔ مطلق (حالیہ) ناتمام (استمراری) قریب (حال تمام) تمام یا بعید، احتمالی، شرطی۔

ماضی مطلق : وہ فعل جس سے گذرے ہوئے زمانہ میں کام واقع ہونے کی خبر ملے۔ جیسے وہ آیا (دیکھو حالیہ تمام) بعض حالات میں علامت مصدر نا دور کر کے۔ چکا، چکی، چکے، چُکیں، بھی بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے وہ آ چکا۔ وہ آ چکی، تم آ چکے، وہ آ چکیں وغریہ۔ واضح ہو کہ اب کرنا مصدر سے کرا ماضی مطلق متروک ہے۔ اس کی جگہ کیا لکھتے ہیں، یعنی محبت کری کی جگہ محبت کی فصیح ہے۔

نوٹ (۱): ماضی مطلق کبھی مستقبل، کبھی حال، کبھی ماضی بعید، کبھی مصدر کبھی اسم مفعول اور کبھی اسم فائل کے معنی بھی دیتا ہے۔ جیتے تم کھڑے رہو۔ میں ابھی آیا۔ فرصت ملی تو وہ بھی آئیں گے۔ وہ پڑھا لکھا آدمی ہے۔ اسی کا کہا سُنا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۹۵

اس کا کیا اس کے آگے آئے گا، وغیرہ۔

نوٹ (۲) : کبھی اسم کا کام بھی دیتا ہے۔ جلیلؔ

لایا نصیب ناوک قاتل کے سامنے
آیا ہمارے دل کا کیا دل کے سامنے

نوٹ (۳) : کبھی اس کو مکرر بھی لاتے ہیں اور درمیان میں کا، کی اور کے بڑھا کر اسم فائل یا اسم مفعول کے معنی لیتے ہیں، جیسے مکاں کھلا کا کھلا رہ گیا۔

نوٹ (۴) : کبھی دعا یا تمنا کے موقع پر ماضی کے آخر میں ہو بڑھا دیتے ہیں جیسے مکان نہ بکا ہو تو میں خرید لوں۔

نوٹ (۵) : ماضی مطلق متعدی کے فاعل کے بعد نے آتا ہے اور فعل وحدت و جمعیت اور تذکیر و تانیث میں مفعول کے مطابق ہوتا ہے جیسے میں نے ایک روپیہ دیا مگر بولنا، بھولنا، ہارنا، جیتنا، لانا، اس قاعدے سے مستثنیٰ ہیں۔ جیسے میں بھولا، وہ بولا، وغیرہ۔ اکثر پنجابی کہا کرتے ہیں، "میں نے بولا" یہ سراسر غلط ہے۔

نوٹ (۶) : مرنا، اٹھنا، دوڑنا، مصادر لازم ہیں مگر ان کے بعد مفعول بھی لاتے ہیں۔ ایسی صورت میں نے نہیں آتا۔ جیسے وہ بڑی بری موت مرا۔ کتے کی موت مرا۔ کنکوا پیٹا توڑ کر دیا۔ وہ پوری طاقت سے اڑا۔ وہ بہت تیزی سے دوڑا، وغیرہ۔

نوٹ (۷) : پڑھنا مصدر متعدی ہے مگر ماضی مطلق میں اس کے فاعل کے بعد اکثر نے نہیں لاتے ہیں۔ جیسے آپ خوب پڑھے مگر فصاحت اس جملے میں ہے کہ آپ نے خوب پڑھا۔

ماضی ناتمام : یہ بھی گزرے ہوئے زمانے سے متعلق ہے مگر اس میں کام کا جاری رہنا بمعنی تمام نہ ہونا پایا جاتا ہے جیسے وہ آ رہا تھا۔ میں آتا تھا، وغیرہ۔

نوٹ (۱) : مادہ پر کبھی "تا تھا" اور کبھی "رہا تھا" لگا کر ماضی ناتمام بنا لیتے ہیں جیتے آتا تھا، جا رہا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۹۶

نوٹ (۲) : کبھی ماضی مطلق کے بعد کیا اور کرتا تھا بڑھا دیتے ہیں جیسے وہ آیا کیا۔ وہ روز جایا کرتا تھا۔

نوٹ (۳) : کبھی عادت ظاہر کرنے کے موقع پر تھا کو حذف بھی کر دیتے ہیں جیسے میں پڑھتا پھر لکھتا مگر اب فصاحت اس جملہ میں ہے۔ میں پڑھتا تھا پھر لکھتا تھا۔

نوٹ (۴) : پہلے جاتا تھا کہ جگہ "جائے تھا" استعمال ہوتا تھا مگر اب متروک ہے۔

نوٹ (۵) : یہ ماضی مفعول کی تذکیر و تانیث و جمع واحد میں تبدیل نہیں ہوتا ہے جیسے وہ ایک کتاب پڑھتا تھا۔ وہ تمام کتابیں پڑھتا تھا۔

ماضی قریب : یہ ایسے گزرے ہوئے زمانہ پر دلالت کرتا ہے جو حال کے قریب ہو جیسے وہ آیا ہے۔ ہم آئے ہیں۔ تم آئے ہو۔ وغیرہ۔

نوٹ (۱) : ماضی مطلق کے بعد واحد حاضر غائب کے لیے ہے۔ جمع غائب اور متکلم کے لئے ہیں۔ جمع حاضر کے لئے ہُو اور واحد متکلم کے لئے ہوں بڑھا کر ماضی قریب بناتے ہیں۔

نوٹ (۲) : کبھی حال ناتمام کے معنی بھی دیتا ہہے جیسے وزیرؔ :

چلا ہےہ اُو دل راحت طلب کیا شادماں ہو کر
زمینِ کوئے جاناں رنگ دیگی آسماں ہو کر

یہاں چلا ہے سے مراد جا رہا ہہے پائی جاتی ہے۔

نوٹ (۳) : کبھی یہ زمانہ بعید کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جیسے محقق طوسی نے فرمایا ہے۔ مرزا غالب نے نظم کیا ہے، وغیرہ۔

ماضی تمام یا بعید : گزرے ہوئے زمانے میں کام کا تمام ہو جانا پایا جاتا ہے جیسے میں آیا تھا۔ وہ لایا تھا۔ وغیرہ۔

نوٹ (۱) : ماضی مطلق کے بعد واحد حاضر غائب کے لئے ہے۔ جمع غائب اور متکلم کے لیے ہیں۔ جمع حاضر کے لیے ہُو اور واحد متکلم کے لئے ہوں بڑھا کر ماضی قریب بناتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۹۷

نوٹ (۲) : کبھی مصدر سے نا دور کر کے چُکا بڑھا دیا جاتا ہے جیسے میں آ چکا تھا۔

ماضی احتمالی : اس ماضی سے گزرے ہوئے زمانے میں کام کے ہونے یا نہ ہونے میں شک پایا جاتا ہے۔ جیسے وہ آیا ہو گا۔

نوٹ (۱) : حالیہ تمام کے بعد ہو یا ہو گا بڑھا کر بنا لیتے ہیں۔ جیسے ممکن ہے وہ آیا ہو۔ مجھے علم نہیں کیا لکھا ہو گا۔ وغیرہ۔

نوٹ (۲) : اس ماضی میں فعل کی تکمیل کے بارے میں گمان غالب بھی ہوتا ہے جیسے میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ یہاں ضرور آیا ہو گا۔

ماضی شرطی : اس ماضی میں گزرے ہوئے زمانے میں کام کے ہونے کی تمنا اور آرزو یا شرط پائی جاتی ہے۔ جیسے تم آتے تو میں خوش ہوتا۔ یہاں خوش ہونا ماضی شرطی ہے۔

نوٹ (۱) : یہ ماضی مادہ کے بعد تا بڑھانے سے بنتا ہے۔ جیسے آتا، کہتا وغیرہ۔

نوٹ (۲) : کبھی ماضی شرطی سے احتمال کے معنی بھی پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر میں خود کہہ دیتا۔

نوٹ (۳) کبھی محض وقوع فعل کو ظاہر کرتا ہے۔ جیسے وہ اپنا کام کرتا یا نہ کرتا تمھیں کیا۔

نوٹ (۴) : کبھی ماضی استمراری یا مستقبل کا بھی کام دیتا ہے جیسے اس شعر میں مومنؔ :

اچھی ہے وفا مجھے جلتے ہیں جلیں دشمن
تم آج ہُوا سمجھو جو روز جزا ہوتا

نوٹ (۵) : کبھی یہ ماضی مادہ کے بعد نا بڑھانے سے بنتا ہے اور کبھی ماضی مطلق کے بعد ہوتا لگا کر بھی بنا لیتے ہیں جیسے آیا ہوتا، لکھا ہوتا، وغیرہ۔

ماضی :

-مطلق
- ناتمام
-قریب
- بعید
- احتمالی
-شرطی
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۹۸

حال : (ء) بروزن سال، بمعنی موجودہ۔ اس کی بھی چھ قسمیں ہیں۔ مضارع، امر، نہی، حال، حال ناتمام، حال احتمالی۔

مُضارع : (ء) بروزن ملازم، بمعنی شریک، شبیہ، مانند، اصطلاح میں وہ فعل جو زمانہ حال کے علاوہ اور بھی معنی ظاہر کرے۔ جیسے آؤ، لکھو، لکھوں، لکھیں، وغیرہ۔ یہ تین طرح پر بنایا جاتا ہے۔

(۱) اگر مادہ فعل کے آخر یائے مجہول ہو تو وہی صورت غائب اور حاضر کے واحد کے صیغے میں مضارع کا کام دیتی ہے اور متکلم سے نے نکال کر دن ا، جمع متکلم میں ن بڑھا دیتے ہیں اور جمع حاضر میں ی کو ‘د‘ سے بدل دیتے ہیں۔ جیسے دے، دیں، دو، دوں۔

(۲) اگر آخر میں الف یا واؤ ہے تو واحد حاضر غائب میں ہے۔ جمع حاضر میں د، واحد متکلم میں دن، جمع غائب و متکلم میں ئیں بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے آئے، آؤ، آؤں، آئیں، وغیرہ۔

(۳) اگر ان حرفوں کے علاوہ کوئی اور حرف ہو تو واحد غائب و حاضر میں ے، جمع حاضر میں و، واحد متکلم میں یں بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے لکھے، لکھو، لکھوں اور لکھیں وغیرہ۔

نوٹ (۱) : پہلے ان علامات سے قبل ایک واؤ بڑھا کر لکھتے اور بولتے تھے جیسے دیوے، لاوے وغیرہ مگر اب یہ متروک ہے۔

نوٹ (۲) کبھی مضارع حال شرطیہ کا کام بھی دیتا ہے جیسے وہ آئے تو میں جاؤں۔

نوٹ (۳) : فعل مضارع کبھی خالص حال کے معنی دیتا ہے اور کبھی استقبال کے جیسے :

چوٹ دل کو لگے آہ رسا پیدا ہو
صدمہ شیشے کو جو پہونچے تو صدا پیدا ہو

نوٹ (۴) : کبھی دعا، تمنا، افسوس، تعجب، اظہار، موقع، اجازت، طلب مشورہ،
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۱۹۹

اضطراب، تشبیہ، اور مقابلہ کے لئے بھی آتا ہے۔ جیسے خدا نے تجھے عزت دی، تمہاری عمر دراز ہو، افسوس میں بلاؤں اور تم نہ آؤ، وغیرہ۔

نوٹ (۵) : درحقیقت حال شرطیہ اور مضارع ایک ہی چیز ہے لیکن مضارع اور حال شرطیہ میں یہ فرق ہے کہ مضارع سے امکانی حالت معلوم ہوتی ہے ۔ اور حال سے واقعی جیسے وہ آئے تو کام چلے۔ وہ آتا ہے تو کام چلتا ہے۔ اگر وہ آئے تو آنے دو۔ اگر وہ آتا ہے تو آنے دو وغیرہ۔

نوٹ (۶) چاہیے۔ یہ لفظ مضارع ہے اسکے معنی ہیں "مناسب ہے، لازم ہے" اس کے استعمال کی صورتیں حسبِ ذیل ہیں :

(الف) : کبھی ادائے فرض اخلاقی کی تاکید ہوتی ہے جیسے غالبؔ کے اس شعر میں ؛

آہ کو چاہیے اک عُمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہہے تری زلف کے سر ہونے تک

(ب) : کبھی یہی تاکید، توجہ، تنبیہ اور درسِ بیداری کی طرف متوجہ کرتی ہے جیسے خود راقم الحروف کا ایک شعر :

مجھ پہ ہے اپنا احترام فرض کہ تیرے در پہ ہوں
سجدہ شکر چاہیے منزلِ رسم و راہ میں

(ج) : کبھی اس کے آخر میں حرف چاہیے حال لگا کر استقبال مضارع یا امر کے معنی لئے جاتے ہیں۔ اور کبھی چاہیے تھا بڑھا کر ماضی کے معنی مراد ہوتے ہیں۔ جیسے دیکھنا چاہیے۔ دیکھنا چاہیے تھا۔ اور کسی جگہ ماضی مطلق کے ساتھ امر۔ استقبال اور حال کے معنی دیتا ہے۔ جیسے :

منحصر مرنے پہ ہو جس کی اُمید
نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے

کبھی چاہیے ہے بھی لکھ دیتے ہیں اور بحال جمع چاہییں بھی بولتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۲۰۰

مگر بعض اساتذہ اس کو غیر فصیح تصور کرتے ہیں۔

اَمر – (ء) بروزن شرم بمعنی حکم۔ یہ عموماً حکم و التجا کے موقع پر آتا ہے جیسے تُم جاؤ۔ تشریف رکھیے۔ مادہ مصدر ہمیشہ امر کے معنی دیتا ہے۔ جیسے آنا سے آ، وغیرہ۔ مگت تعظیماً بھی مستعمل ہے اور جمع کے صیغے میں واؤ معروف یا "ئیے" بڑھانے سے بنتا ہے۔ جیسے آؤ یا آئیے۔ امر تین صورتوں میں آتا ہے۔ حکم، التجا، تمنا، جیسے جاؤ، تشریف رکھیے۔ خوش رہو۔

نوٹ (۱) : صیغہ امر کے علاوہ مخاطب کے غائب کو بھی حکم دیا جاتا ہے۔ اس صورت میں مضارع غائب کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے تم کہدو کہ وہ میرے سامنے نہ آئے۔

نوٹ (۲) : متکلم کا صیغہ امر میں بہت کم استعمال ہوتا ہے۔ لیکن خاص خاص حالتوں میں آتا ہے۔ جیسے میں وہاں جاؤں، ہم یہ کام کریں یا نہ کریں۔

نوٹ (۳) : کبھی مصدر بھی امر کا کام دیتا ہے۔ اور اس چیز سے مزید تاکید مراد ہوتی ہے یا آئندہ زمانے میں کسی کام کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ جیسے جلدی آنا، کل وہاں جانا۔

نوٹ (۴) : مزید تعظیم کے لئے امر غائب کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے آپ یہاں تشریف رکھیں۔

نوٹ (۵) : کبھی امر کے بعد تعظیم کے لئے جئے، جے، ئے، بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے لیجیے، لیجئے، آئیے، وغیرہ۔ لیکن لیجیے کی جگہ اب لیجئے زیادہ فصیح ہے۔

نوٹ (۶) : کبھی یہ صیغہ متکلم مضارع کا کام دیتا ہے۔ جیسے اس خط کا جواب کیا لکھیئے۔ یہاں لکھیئے سے لکھیں ہے، یا اس شعر میں :

یہی جی میں آیا کہ گھر سے نکل
ٹہلتا ٹہلتا ذرا باغ چل
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۲۰۱

یہاں نکل اور چل کے معنی ہیں نکلوں اور چلوں۔ استعمال ہوا ہے۔

نوٹ (۷) : کبھی مار مخاطب جمع کی علامت میں آخری واؤ کے پہلے ایک ی بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے رہو سے رہیو، مگر اب متروک ہے۔

نوٹ (۸) : کبھی لیجیے سے لیں کے معنی بھی مراد ہوتے ہیں۔ جیسے :

مرا سلام وہ لیتا نہیں مگر سمجھا
کہ یہ غریب ہے اس کا سلام کیوں لیجیے

نوٹ (۹) : امر سے کبھی کام کا جاری رہنا بھی پایا جاتا ہے جیسے چلتا رہ، چلتے رہو۔ اس کو امر دوامی کہتے ہیں۔ یہ ہمیشہ امر مطلق کے آخر میں تا رہ، یا تے و ہو اور تی رہو کے بڑھانے سے بنتا ہے۔

نوٹ (۱۰) : کبھی مصدر کے آخر میں ہو گا، پڑے گا، لگا کر حکم میں تشدد اور سختی کا مفہوم مراد ہوتا ہے۔ جیسے تمہیں آج آنا ہو گا۔ اسے اپنا سبق سنانا پڑے گا۔ لیکن آخری صورت کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے جب کسی حکم کے ماننے میں تامل یا انکار پایا جاتا ہو۔

نوٹ (۱۱) : امر سے بعض وقت دعا میں مضارع کا کام بھی لیا جاتا ہے اور یہ امر وہ ہوتا ہے جس کے واؤ سے پہلے ی بڑھائی جاتی ہے۔ جیسے :

اے چشمہ آب زندگانی
گھٹیو نہ کبھی تری جوانی

نہی : (ء) بروزن کمی، بمعنی منع کرنا۔ اس کو امتناعی صورت بھی کہتے ہیں اور یہ نہ اور نہیں سے بنتے ہیں۔ جیسے نہ جاؤ، نہ اُٹھاؤ، نہیں سن، وغیرہ۔

نوٹ (۱) : امر کے صیغوں میں جب نا بڑھایا جاتا ہے تو امتناعی صورت پیدا ہو جاتی ہے اور جب دوسرے افعال کے ساتھ آتا ہے تو نفی کے معنی دیتا ہے۔ جیسے "نہ جا" یہ امتناعی صورت ہے اور نہیں ملتے یا نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں، یہ نفی کے معنی میں ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۲۰۲

نوٹ (۲) : مت۔ قدما نے اپنے یہاں یہ لفظ امتناع تاکیدی ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ مگر اب فصحا نے اس کو قطعی طور پر متروک کر دیا ہے۔

نوٹ (۳) نہیں۔ بالعموم امر کے بعد آتا ہے۔ جیسے گھبراؤ نہیں۔ ڈرو نہیں۔

نوٹ (۴) : نہ۔ امر یا مصدر کے اول و آخر میں آ کر نہی کا کام دیتا ہے۔ جیسے نہ آؤ، آنا نہ تھا، وغیرہ۔

نوٹ (۵) : امر و نہی کے غائب اور متکلم کے صیغے صرف مشورہ اور اجازت کے لئے آتے ہیں، جیسے میں آؤں یا وہ آئے۔ ذرا میں بھی تو دیکھوں، کیا میں نہ جاؤں اور وہ جائے وغیرہ۔

نوٹ (۶) : کبھی امر کے بعد نہ لگا کر تاکید کے معنی لیتے ہیں۔ جیسے جاؤ نہ، آؤ نہ۔ وغیرہ۔ کبھی صرف حسن کلام کے واسطے امر کے بعد نہ لگا دیتے ہیں۔ جیسے غالب :

کیا فرض ہے کہ سبکو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی

نوٹ (۷) : نہ اور نہیں کا فرق حسب ذیل صورتوں سے ظاہر ہوتا ہے۔

(الف) : ماضی احتمالی، ماضی تمنائی، منفی میں اکثر فعل سے پہلے آتا ہے۔ جیسے وہ نہ آیا ہو گا۔ کاش وہ یہاں نہ آتا۔

(ب) : نہ امر سے پہلے آ کر نہی بناتا ہے۔ جیسے نہ دیکھو آئینہ میں اپنی صورت۔

(ج) : کبھی امر کے بعد بھی نہی کے معنی دیتا ہے جیسے ان کی بزم خاص میں جائے نہ غیر۔

(د) : کبھی امر کے بعد نہی تاکیدی کے معنی دیتا ہے۔ جیسے :

بولی گھبراؤ نا سمجھ لیں گے
ہم صفائی تمہاری کر دیں گے

(ہ) : کبھی حسن کلام کے لئے آتا ہے جیسے، آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی

(و) : بعض محاوارت جو تکرار لفظی سے بنتے ہیں ان کے درمیان نہ لاتے
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۲۰۳

ہیں۔ جیسے کچھ نہ کچھ، ہو نہ ہو، کوئی نہ کوئی، کسی نہ کسی، کہیں نہ کہیں، وغیرہ۔

(ذ) : بعض حالات میں اس کی تکرار بھی مستعمل ہے۔ جیسے نہ خدا ہی ملا نہ خدائی ملی۔ لیکن اکثر پہلا نہ مذکور نہیں ہوتا جیسے جان نہ پہچان وغیرہ۔

(ح) : بعض محاورات میں ماضی مطلق سے پہلے آتا ہے۔ جیسے :

نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب
ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

(ط) : کبھی بصورت استفہام نہ فعل سے پہلے یا وسط میں آ کے اثبات کے معنی دیتا ہے۔ جیسے کیا ہم نہ کہتے تھے۔ کیا تم نہ جانتے تھے، وغیرہ۔

(ی) : نہیں کا محل استعمال یہ ہے۔

فعل ناقص سے پہلے خواہ مذکور ہو یا محذوف ہمیشہ نہیں لاتے ہیں۔ جیسے میرا دل نہیں ہے یا میرا دل نہیں۔ یہاں نہیں کے بعد فعل ناقص محذوف ہے۔

(ک) : جب فعل کے بعد نہی تاکید کے لئے آتا ہے تو نفی کی حالت میں نہیں لاتے ہیں۔ جیسے تم سمجھتے ہی نہیں۔

(ل) : عام طور پر فعل حال منفی کے ساتھ نہیں آتا ہے۔ جیسے :

کیا پائے اثر میں آبلے ہیں
چلتا نہیں اے نگار تعویذ

(م) : مستقبل منفی میں جب مصدر کے بعد کا، کے، کی، آتا ہے تو ہمیشہ نہیں آئے گا۔ جیسے میں وہاں نہیں جانے کا۔

(ن) : حال میں نفی کے آنے سے علامت حال یعنی ہے حذف ہو جاتی ہے۔ جیسے تم سے نہیں کہا جاتا۔

(س) : فعل مرکب اور فعل امدادی میں بھی نہیں پہلے لاتے ہیں۔ جیسے وہ یہ بات پسند کرنا نہیں۔ لیکن فصاحت اس میں ہےہ کہ دونوں خبروں کے درمیان نہیں لانا چاہیے۔ جیسے وہ یہ بات پسند نہیں کرتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۲۰۴

حال مطلق : اس سے زمانہ حال بلا کسی تخصیص کے ظاہر ہوتا ہے۔ جیسے پڑھتا ہے۔ لکھتا ہے۔ یہ مادہ پر "تا ہے" بڑھانے سے بنتا ہے۔ جیسے آتا ہے، کھاتا ہے، وغیرہ سے پہلے مضارع پر ئے زیادہ کرنے سے بناتے تھے۔ جیسے آئے ہے، جائے ہے، کرے ہے، مگر اب یہ طریقہ متروک ہے۔

نوٹ : یہ کبھی عادت یا تکرار فعل ظاہر کرتا ہے، کبھی مستقبل قریب کے لئے آتا ہے، کبھی ایسے فعل کے لئے جو زمانہ گزشتہ میں شروع ہوا ہو۔ اور حال میں ختم ہو جیسے وہ آتا ہے تو یہی شکایت کرتا ہے۔ شام کو روزآنہ سیر کو جاتا ہے۔ وہ دونوں ساتھ آتے جاتے ہیں، وغیرہ۔

حال ناتمام : اس سے کام کے جاری رہنے کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے۔ یہ مادہ فعل کے آگے رہا ہے یا مضارع پر "جاتا ہے" بڑھانے سے بنتا ہے۔ دونوں مثالیں حسب ذیل ہیں۔ وہ آ رہا ہے۔ دل ستائے جا رہا ہے۔

حال احتمالی : جس سے زمانہ حال میں احتمال پایا جائے، جیسے وہ آتا ہو گا۔ وہ آ رہا ہو گا، وغیرہ۔

نوٹ (۱) : کبھی گا مخذوف ہو جاتا ہے، جیسے بہت ممکن ہے کہ وہ آ رہا ہو۔

نوٹ (۲) : جاتا ہو گا یا جا رہا ہو گا، میں گمان غالب پایا جاتا ہے۔ آ رہا ہو میں احتمال خفیف کے معنی مقصود ہوتے ہیں۔

نوٹ (۳) : حال کی ایک قسم اور بھی ہے اور اس کو حال حکائی کہتے ہیں۔ یہ گزشتہ حالات و واقعات بیان کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے غالبؔ لکھتے ہیں، ذوقؔ کہتے ہیں، وغیرہ۔

نوٹ (۴) : مقام تعظیم میں حاضر کی جگہ غائب کا صیغہ بولتے ہیں۔ جیسے حضور کیا فرماتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فکر و فن
صفحہ ۲۰۵

حال :
- مضارع
- امر
- نہی
- مطلق
- ناتمام
- احتمالی

مستقبل : (ء) بروزن دشواری، بمعنی آنے والا زمانہ۔ وہ فعل جس سے آنے والا زمانہ مراد ہو جیسے وہ آئے گا۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ مطلق اور دوامی۔

مستقبل مطلق : یہ وہ فعل ہوتا ہے جس سے محض آنے والا زمانہ مقصود ہو جیسے وہ آئیگا، وہ کھائے گا، وغیرہ۔

نوٹ (۱) : مضارع کے بعد گا بڑھا کر بنا لیتے ہیں لیکن ہونا مصدرت ہو گا۔ مستقبل بنتا ہے اور اس کا قاعدہ یہ ہے کہ امر پر گا کا اضافہ کر دیا جاتا ہے مگر یہ کلیہ مستثنیات میں شمار ہو گا۔

نوٹ (۲) : کبھی امر تعظیمی پر گا بڑھا کر استقبال کے معنی لیتے ہیں جیسے آئیے گا۔ کھائیے گا، وغیرہ۔

نوٹ (۳) : قدما کے زمانے میں ہوئے گا، ہے گا، بولتے تھے، مگر اب متروک ہے۔

مستقبل دوامی : وہ فعل جس سے آئندہ زمانے میں کام کا جاری رہنا سمجھا جائے۔ جیسے :

جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا۔

نوٹ (۱) : کبھی حالیہ ناتمام کے بعد رہے گا بڑھا کر مستقبل دوامی بنا لیا جاتا ہے اور اس سے ایک قسم کا استغنا بھی سمجھا جاتا ہے۔

نوٹ (۲) : ماضی بھی کبھی حال مستقبل کے معنی دیتا ہے۔ جیسے میں آیا، وہ چلا، میں پانچ بجے دفتر سے آتا ہوں۔

نوٹ (۳) : مصدر کے بعد کا، کی، کے لگا کر کبھی مستقبل کے معنی مراد ہوتے ہیں اور اس سے تاکید بھی نکلتی ہے۔ جیسے وہ جانے کی نہیں۔ میں آنے کا نہیں، تم نہیں سننے کے۔
 
Top