فکر و فن صفحہ 51 تا 60

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۱

دوسرے وزن کا مصرع یہ ہے۔

اب کون ہے ہمارا دنیائے بیکسی میں

وہ بحر رمل مثمن مشکول ہے اور یہ مضارع مثمن اخرب۔ ایسا خلط نا درست ہے۔

طمس (ء) بروزن شمس۔ بمعنی دور کرنا۔ یہ مستفعلن میں آتا ہے۔ بعض عروضی کہتے ہیں کہ اخذ کی جہت سے وند گر گیا۔ مستف بروزن فعلن ربا۔ تسیغ کی وجہ سے فعلان ہو گیا۔ بعض عرضی کہتے ہیں کہ فعلان اخذ مسبغ ہے۔ اس کو یوں سمجھنا چاہیے کہ طمس کیوجہ سے وتد کے دونوں متحرک حرف ساقط ہو جاتے ہیں۔ اور نون ساکن رہ جات اہے گویا مشتفُن بروزن فعلان ہو گیا۔ اور یہی توجیہ قابلِ قیاس بھی ہے۔ اس کو مطموس کہتے ہیں۔ یہ رمل اور محبث میں مستعمل ہے۔

عَرج (ء) بروزن عرض۔ بمعنی پیدائشی لنگڑا ہونا۔ یہ دتد کی حرکت دوم کو ساکن کرتا ہے اور مستفعلن کا مفعولان ہو جاتا ہے۔ یہ فرع رجز اور بسیط میں آتی ہے اس کو اعراج کہتے ہیں۔

درس (ء) بروزن فرض۔ بمعنی ناپدید۔ کہنہ۔ یہ فاعلاتن میں آتا ہے جنن سے فعلاتن ہوا اور حذف سے فعلا رہا۔ اور اس کی خاص جہت سے علاکا ایک متحرک حرف گرا اور دوسرا ساکن ہو کر فاع حاصل ہوا۔ اس کو مدؤس کہتے ہیں۔ یہ رمل اور محبث میں مستعمل ہے۔

نَحر (ء) بروزن نہر۔ بمعنی سینہ کاٹنا۔ اور اونٹ کو مار ڈالنا۔ اس کی جہت سے فعولات کا فع رہ جاتا ہے اور یہ اجتماع ہے اصلم محذوف کا۔ جیسا فرع میں ظاہر کیا جائیگا۔ صلم آنے سے لات گر کر مفعو بروزن فعلن بسکون
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۲

عین باقی رہتا ہے۔ اور حذف کی وجہ سے لُن گر کر فع رہ جاتا ہے۔ اس کو منحور کہتے ہیں۔ عروضی جدع کو بھی اصلم مقصور بتاتے ہیں کہ اس کی وجہ سے فاع ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں عین ساکن ہو جائے گا۔ اور یہ عروض و ضرب میں واقع ہو گا۔ لیکن جب درمیانی رکن میں آئے تو دونوں سبب خفیف گر کر لات بروزن فاع بحرکت عین ہو گا۔ مدید (تبدیلی کے ساتھ لکھنا)، منسرح، رمل، وافر، ہزج، خفیف، طویل، کامل، مجتث میں آتا ہے۔

مُسَابِتَہ (ء) بروزن ملاحظہ۔ بمعنی دوسرے کے پیچھے سے آنا۔ اصطلاح میں دو (۲) سبب خفیف کسی شعر میں ہوں۔ جیسے فاعلاتن۔ فاعلاتن میں تن اور فا کی ت اور ف متحرک ہے۔ نون اور الف ساکن میں لا بعینہ جائز ہو گا۔ خواہ اول ساقط ہو خواہ ثانی۔ پس یہ کہیں گے کہ ان دونوں ساکنین میں معاقبہ ہے۔ ایسی صورت میں تُن فَ یا تَ فَا پڑھنا چاہیے۔ دونوں ساکن دور نہیں ہو سکتے۔ سریع اور منسرح میں آتا ہے۔

خزم (ء) بروزن عزم۔ بمعنی اونٹ کی ناک میں حلقہ کرنا۔ رکن میں ایک دو، تین، یا چار حرف زیادہ کر دینا مگر تقطیع میں شمار نہ کرنا۔ قدمائے فارسی ایک ھرف زیادہ لے آئے تھے مگر متاخرین نے ترک کر دیا ہے۔

مراقبہ (ء) بروزن ملاحظہ۔ بمعنی ایک دوسرے کی نگہبانی کرنا۔ دو سبب خفیف کے دونوں ساکنوں کا عود کرنا۔ یہ مشاکل، قریب اور جدید میں واقع ہوتا ہے۔ سریع، منسرح اور خفیف میں بھی جائز ہے۔

مکانفہ (ء) بمعنی ایک دوسرے کو پکڑنا۔ دونوں سبب خفیف کو معاً سلامت رکھیں یا معاً حذف کر دیں یا ایک کو ساقط کر دیں۔ سریع۔ منسرح۔ بسیط اور رجز میں آتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صٖفحہ ۵۳

رفع (ء) بروزن شمس۔ بمعنی اٹھانا۔ اسقاط ایک سبب کا اس رکن سے جس کے اول میں دو سبب واقع ہوں چنانچہ مستفعلن سے تفعلن منقول بہ فاعلن ہوا۔ رجز اور منسرح میں آتا ہے۔

فلع (ء) بروزن شمس۔ بمعنی کپڑے اُتارنا۔ اجتماع خبن اور قطع کا۔ پس مستفعلن اور فعولن سے فعلن اور فعل ہو جاتا ہے۔

ححف (ء) بروزن شمس۔ بمعنی نقصان کرنا۔ یعنی فاعلاتن سے فعلاتن مجنون ہوا۔ اور فعلا کہ فاسلہ صغرا ہے دور کر دیا تن رہا جس کی جگہ عروضی فَع لاتے ہیں۔

ربع (ء) بروزن رفع۔ بمعنی چار ہونا۔ فاعلاتن میں خبن اور قطع کا اجتماع خبن سے فعلاتن رہ گیا۔ قطع کی جہت سے پہلے فعلاتن کو محذوف کیا۔ تو فعلا رہا اور اس کے بعد الف کو گرا کر لام کو ساکن کر لیا۔ تو فعل حاصل ہوا۔

نوٹ : یہاں کم و پیش تریپن زحاقات کا بیان کیا گیا ہے۔ لیکن بہت سے ان میں سے ایسے زحاف ہیں جو صرف شاعری سے مختص ہیں اور کچھ فارسی والوں نے وضع کئے ہیں۔ بہت کم زحاف ایسے ہیں جو اردو شاعری میں مستعمل ہیں۔ آئندہ صفحات پر میں ان زحافات کے متعلق بھی اشارہ کروں گا جو اردو شاعری میں مروج ہیں جن کا یاد رکھنا اردو شعراء کے لئے بہت ضروری ہے۔ میں نے فرع بھی قریب قریب تمام لکھ دی ہیں لیکن اُن فرعوں کا ذکر قصداً نہیں کیا ہے جو کسی وقت بھی اردو شاعری میں نہیں آ سکتیں۔ میرا خیال ہے اگر تشریح زحاف کو ذہن نشین کر لیا جائے تو ہر عروضی باقی فرعیں خود تحریر کر سکتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۴

فرع فعولن تازی

Insert Table

فرع فعولن پارسی

Insert Table

کل سات فرعیں ہوئیں اور ساتوں فرعیں پارسیوں کی ایجاد ہیں۔ پہلی تین فرعیں طویل اور متقارب میں آتی ہیں باقی تین متقارب میں مستعمل ہیں۔ ساتویں فرع مشترک ہے طویل و متقارب ہیں۔

Insert Table
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۵

یہ فرعیں مدید، بسیط اور متدارک میں آتی ہیں۔ اس میں ایک خاص نکتہ یہ ہے کہ جب مقطوع درمیانی رکن میں واقع ہوتا ہے تو عروضی اس کو مجنون مسکن تحریر کرتے ہیں کیونکہ قطع صرف عروض و ضرب میں آتا ہے۔

فرع فاعلن پارسی

Insert Table

پارسیوں نے مجنون مسکن اور مجنون مسکن مذال صرف اس لئے تحریر کیا ہے کہ قطع ہر رکن میں نہیں آتا۔ میں اس کو مجنون مسکن نہیں کہتا کیونکہ مجنون مسکن کوئی زحاف نہیں۔ میرے نزدیک قطع عروض و ضرب کا پابند نہیں ورنہ مجنوں مسکن کی جگہ ساکن زحاف تصور کرنا چاہیے اور فعلن کو مسکن اور فعلاں کو مسکن ندال تھریر کرنا چاہیے۔ دیکھو زحاف سکن، بسیط، مدید، متدارک میں مستعمل ہیں۔ ان کا موجد افقش ہے۔

فرع فاعلن مَدید

Insert Table
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۶

پہلی تین فرعین متاخرین نے اختراع کی ہیں اور حدائق میں لکھی ہیں۔ چوتھی فرع قراّ نے تحریر کی ہے۔ اس حساب سے فاعلن کی کل فرعیں دس ہوتی ہیں۔ فاعلن متدارک کا رکن ہے اور مدید بسیط میں آتا ہے۔ تازی میں یہ بحور عام ہیں۔ پارسی میں انکا استعمال کمی کے ساتھ ہے اسی بنا پر متدارک کو رعروضی غریب بھی کہتے ہیں۔

فرع مفاعیلن تازی

Insert Table

پہلی دو فرعیں ہزج، طویل، مضارع اور قریب میں آتی ہیں۔ تیسری ہزج میں چوتھی اور پانچویں ہزج اور مضارع میں چھٹی طویل اور ہزج میں مستعمل ہے۔

فرع مفاعیلن مدید

Insert Table
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۷

پہلی فرع اخفش نے نکالی ہے۔ ہزج اور مضارع میں آتی ہے۔ دوسری فرع ہزج میں۔ تیسری، چوتھی ، پانچویں ہزج مضارع میں۔ بعض کے نزدیک ازل بحر طویل میں بھی آتی ہے۔ باقی فرعیں ہزج مضارع اور قریب میں آتی ہیں۔ مفاعیلن کی تمام فرعیں اُنیس (۱۹) ہیں۔

فرع فاعلاتن مجموعی تازی

Insert Table

فرع فاعلاتن مجموعی مدید

Insert Table
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۸

فاعلاتن مجموعی کی کل فرعیں اٹھارہ ہیں۔ شروع کی تین فرعیں رمل مدید خفیف اور مجتث میں آتی ہیں۔ چوتھی مدید و رمل میں پانچویں رمل میں چھٹی اور ساتویں رمل مدید اور خفیف میں آٹھویں مدید میں، نویں، دسویں رمل میں، گیارہویں خفیف اور مجتث میں بارہویں، تیرہویں ، چودہویں رمل خفیف اور مجتث ہیں۔ باقی چار رمل میں مستعمل ہیں۔ عروضی مشعث مبلغ کو مجنون مسکن مبلغ تحریر کرتے ہیں۔ مقصور فاعلات کی جگہ فاعلان کہتے ہیں۔ کیونکہ فاعلات بغم تا مکفوف کا دھوکہ نہ پڑے۔ محذوف مطحوس کی جگہ مجنون محذوف مدروس بھی لکھا ہے اور محذوف احذ کی جگہ مجنون محذوف مطحوس لکھا ہے۔ اس کا سبب زحافات دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے۔ مجموعی اس لئے کہا ہے کہ فاعلاتن متصل میں اور فاع لاتن متفصل میں امتیاز ہو۔ اس کو مفروقی لکھا ہے۔

فرع فاع لاتن مفروقی

Insert Table

کل چار فرعیں آتی ہیں۔ پہلی فرع تازی میں ہے باقی مدید میں۔ یہ سب مضارع میں مستعمل ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۹

فرع مستفعلن مجموعی تازی

Insert Table

پہلی تین فرعیں بسیط رجز سریع اور منسرح میں آتی ہیں۔ چوتھی اور پانچویں بسیط اور رجز میں۔ باقی نو تک بسیط میں آتی ہیں۔ دسویں فرع خلیل موجد عروض نے نہیں لکھی ہے کیونکہ یہ بہت کم مستعمل ہے۔

فرع مستفعلن مجموعی مدید

Insert Table

پہلی فرع رجز اور بسیط میں دوسری سریع اور منسرح میں باقی دونوں منسرح میں آتی ہیں۔ کل فرعیں مستفعلن مجموعی کی چودہ ہوتی ہیں۔

فرع مس تفع لن مَفرُوقی تازی

Insert Table

اس میں صرف چار فرعیں ہیں۔ مزید کوئی نہیں۔ پہلی فرع خفیف اور مجتث میں آتی ہے باقی خفیف میں مستعمل ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۰

فرع مفعولات تازی

Insert Table

مجنون فعولات کو عروضی مفاعیل بھی کہتے ہیں۔ پہلی دوسری منسرح اور متقفب میں آتی ہے۔ تیسری منسرح میں چوتھی افایت۔ ساتویں سریع اور منشرح میں باقی چار سریع میں مستعمل ہیں۔

فرع مفعولات مدید

Insert Table

پہلی دو فرعیں سریع میں آتی ہیں اور باقی دو سریع اور منسرح میں فعلان کو سریع میں بسکونِ عین بھی لاتے ہیں۔ مگر عروضیوں نے نہیں لکھا ہے۔ مفعولات کی جملہ فرعیں پندرہ ہیں۔

نوٹ : مفاعلتن اور متفاعلن یہ دونوں رکن عربی سجور کے ہیں۔ پارسی والوں نے ان کو استعمال نہیں کیا۔ کیونکہ پارسی اشعار ان بحور میں غیر موزوں معلوم ہوتے ہیں۔ البتہ وزن سالم میں فارسی والوں نے اشعار
 
Top