فکر و فن صفحہ 1 تا 30

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳


فہرست مضامین


نمبر شمار

۱ عروضی اصطلاحات، صفحہ نمبر ۲۹

۲ اصول تقطیع، صفحہ نمبر۸۶

۳ اصطلاحاتِ قوافی، صفحہ نمبر ۹۲

۴ اصطلاحاتِ علم ہجا، صفحہ نمبر۱۰۷

۵ اصطلاحاتِ علم معانی، صفحہ نمبر ۱۲۱

۶ اصطلاحاتِ علم صَرف، صفحہ نمبر ۱۲۸

۷ اصطلاحاتِ علم نحو، صفحہ نمبر ۲۳۹

۸ اصطلاحاتِ علمِ بدیع، صفحہ نمبر ۲۶۴

۹ اصطلاحاتِ علم بیان، صفحہ نمبر ۲۸۷

۱۰ اصطلاحاتِ فن تنقید، صفحہ نمبر ۲۹۴

۱۱ ضمیمہء اصطلاحاتِ نظم و نثر، صفحہ نمبر ۳۰۳
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵

شخص و شخصیت

زبان ایک صوتی حرکت ہے جو لفظوں میں تبدیل ہونے کے لئے مضطرب رہتی ہے مگر لفظ بنتے نہیں بنائے جاتے ہیں اور لفظوں کے صحیح استعمال کےلئے جو ضابطہ وضع کیا جاتا ہے اُسے علم کہتے ہیں، پس علم کا حاصل ادبؔ ہے۔

"صرف و نحو" نثر میں چار چاند لگاتی ہے۔ "علم و عروض" نظم میں ‘سحر و سامری‘ کی قوت پیدا کر دیتا ہے۔ چنانچہ ‘صرف و نحو اور علم و عروض‘ لازم و ملزوم ہیں۔ یہیں سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جس نے بھی سبقاً سبقاً صرف و نحو اور علمِ عروض پر عبور حاصل کر لیا وہ بلا شبہ قادر الکلام ادیب و شاعر بن گیا۔ حکیم مولانا انجمؔ فوقی بدایونی کا شمار یقیناً ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے مگر اس کے باوصف مولانا موصوف کی شخصیت ایک ایسی مجموعہ اضداد بھی ہے جسے تفریق جمع ضرب اور تقسیم کے ذریعہ مختلف شعبوں میں بانٹ دینا کچھ آسان کام نہیں۔ اگرچہ بہت سے تنقید نگاروں نے انجمؔ صاحب کی متعدد تصانیف اور ان کے مرتبہ علم و ادب پر مفصل و مسلسل اظہار خیال بھی کیا ہے۔ جیسے علامہ نیازؔ کی یہ رائے۔

"۔۔۔۔۔۔۔۔ انجمؔ فوقی بدایونی محض قال کے انسان نہیں بلکہ طریقت و شریعیت اور اُردو ادب و شعر کی کوئی منزل اُن کے دسترس سے باہر نہیں ۔۔۔۔۔"

یا پھر ڈاکٹر شوکت سبزواری کا ریڈیو پاکستان کراچی سے یہ تبصرہ "۔۔۔۔۔مولانا انجمؔ فوقی بدایونی کا مطالعہ بہت وسیع ہے اور شعر و ادب
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶

کا ذوق رچا ہوا ہے جس کے باعث مولانا کی تصانیف و وقتِ فکر اور حسنِ کلام کے اچھوتے نقوش بکثرت مل جاتے ہیں۔۔۔"

بہر کیف مولانا انجمؔ فوقی کی تصنیف "فکر و فن" آپ کے روبرو ہے۔ تصنیف کے متن پر کوئی تفصیلی گفتگو یا مختصر تبصرہ باوزن نہیں ہو سکتا۔ جب تک کہ مصنف کے تمام شخصیاتی پہلو اور اس کے مجموعی نظریات واضح نہ ہوں لہذا آئیے کہ پہلے بعنوان شخص و شخصیت ‘کچھ بات چیت ہو جائے‘ پھر آگے بڑھیں۔

اس میں شک نہیں کہ سر زمینِ بدایوںؔ ہمیشہ سے بڑے بڑے صاحبِ علم و عمل معیاری ادیب و شاعر اور چوٹی کے تنقید نگار پیدا کرتی رہی ہے۔ چنانچہ اُنھیں میں سے ایک منفرد شخص مولانا انجمؔ فوقی بھی ہیں جو شاعر بھی ہیں ادیب بھی، حکیم بھی ہیں دُرویش بھی اور ان تمام حیثیتوں پر اُنہیں فاتحانہ قدرت بھی ہے لیکن فطرت کا مزید انعام یہ کہ انجمؔ فوقی صاحب پرخود اُن کا اپنا دل زیادہ غالب ہے اور دل کا یہی بے اختیار جذبہ انجمؔ صاحب کی نظم و نثر، حکمت و دُرویشی بلکہ اُن کی نجی زندگی میں بھی نت نئے گُل کھلاتا رہتا ہے۔ خاندان میں اُنہیں سب سے زیادہ والہانہ محبت اپنی عظیم بیٹی عائشہ رعنا سے ہے معنوی اولادوں میں سرِفہرست ڈاکٹر سید صابر علی ناز، (صدر شعبہ حیاتیات، جامہ کراچی)، حسنؔ سوز، عبد الواجد جمالؔ، منظرؔ ایوبی، ڈاکٹر یوسف جاوید، محمود اختر، قمر جمالیؔ، عبد الرشید اثر، کرشن بہاری سازؔ، محمد شفیق اور الیاس رشیدؔ صاحبان کے اسماء ممتاز درجوں میں پائے جاتے ہیں۔ احباب میں جنوں کی حد تک لگاؤ گرامی موحد علی خان شیروانی، محمد جلیل فریدی صاحب، حضرت جوش بدایونی، جناب اوج سبزواری، پرنسپل نور الدینؔ فرشوری، افتخار احمد صاحب، جناب شمس الدین قادری اور راقم الحروف کے ساتھ محسوس کیا جاتا ہے۔ ضمنا جس کے دو چار تراشے ملاحظہ ہوں۔

مولانا انجمؔ فوقی اپنی تاریخی بیٹی عائشہ صاحبہ سے مخاطب ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۷

نیند کیا آئے کہ پہلو میں نہیں رات مرے

اور یہاں رات سے مراد تم ہو صرف تم۔ مگر تم بھی کیا کرو۔ دراصل میرے حالات ہی عجیب ہیں۔ بقولِ شہید :

دُعائے قُرب ہی لب تک نہ آ سکی ورنہ
تمہارا ذکر کیا ہے عبادتوں کی طرح ۔۔۔۔"

اس قلبی گداز و تاثر پر بھی ایک نظر!

"۔۔۔۔۔ پیارے! زندگی نام ہے دو جسموں کے ملاپ کا اور ایسا ملاپ اپنی قسمت میں نہیں لہذا سوچئے کہ ہم لوگ زندہ ہیں یا مر چُکے؟۔۔۔۔۔"

گرامی عزیز محمد جلیل فریدی کے نام بھی یہ تراشہ دیکھئے۔

"۔۔۔۔آنکھیں بند کر کے رہنا آپ کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے منافی ۔۔۔‘ربادل‘؟ تو بھلا میری اتنی حیثیت کہاں جو آپ کے دل تک رسائی ہو سکے۔ مراد یہ کہ مجھ ننگِ محبت کے لئے یہاں کسی گوشہ میں کوئی جگہ نہیں۔ ‘اچھا‘ تو پھر مجھے تڑپا کر رُخ بدل جانے والے پیارے محمد جلیلؔ فریدی! میں خدا کیلئے نہیں آپ کی محبت کی خاطر بیتاب ہوں۔ بہت بیتاب۔ للہ حجاب اُٹھائیے کہ اب دل کی دھڑکنیں روکے نہیں رکتیں۔

غالباً آپ دور ہی دور سے گُد گُدانا چاہتے ہیں۔ خیر گد گدائیں، بلا تکلف گُد گُدائیں، لیکن جانِ عزیز، ساقی سے شراب بننا کیا معنی چونکہ سرور کا نشہ میں تبدیل ہو جانا اچھا نہیں۔۔۔ رہی میری کیفیت؟ تو ابھی بمنزلہ ایتلاف ہے۔ "تلفیق بہ نشابہ الاطراف" نہیں مگر اس کے باوجود

ایک سے لگتے ہیں دن رات، تمہیں کیا معلوم
مجھ سے پوچھو مرے حالات، تمہیں کیا معلوم
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۸

"۔۔۔ جیو تو سب کے لئے۔۔۔ مرد تو صرف مجھے لے کر۔۔۔۔"

انجم صاحب کی دیگر تصانیف میں بصورت نظم بھی دو ایک جگہ عائشہ سلمہا کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ جیسے یہ اشعار :

نیک خو، رحمدل، خوبرو نیکنام
اللہ اللہ مری عائشہ کا مقام

ماہتابی کرن اُسکے جھولے کی ڈور
کہکشاں اُس کے چہرہ کے غازہ کا نام

اُس کے کپڑوں کی سلوٹ میں موجِ حیات
اُس کی رفتار جیسے نسیم خرام

اُس کے ماتھے پہ نورِ خدا کی جھلک
اُسکی آنکھوں میں کیفِ بہارِ دوام

رات دن اُس کو تکمیلِ سنت کی دُھن
لب پہ اُٹھوں پہر ذکرِ خیر الانام

بایقین اُس سے راضیِ ہے پروردگار
واقعی اُس پہ ہے نار دوزخ حرام

ایسی بیٹی کے حق میں مسلسل دُعا
ایسی بیٹی پہ انجمؔ ہزاروں سلام

یا ان شعروں میں عائشہ رعنا سے تخاطب :

پردہ ظلمتِ شب میں ہے ابھی صبح جمال
ابھی اربابِ وفا میں نہیں کوئی خوش حال

ابھی مزدور کے چہرے سے نمایاں ہے ملال
مری بیٹی، میری رعنا ابھی پردہ میں نہ بیٹھ

شروانیؔ صاحب کے ایک مراسلہ کا جواب ملاحظہ ہو۔

"۔۔۔ للہ مجھے نہ سناؤ کہ میری زندگی بالکل ایک ایسی دکھ بھری طوائف کی طرح بن کر رہ گئی ہے جس سے تماشبین اپنا لطف تو حاصل کر لیتے ہیں مگر اُس غریب سے کوئی نہیں پوچھتا کہ بھاگوان تجھے بھی کچھ مزہ آیا یا نہیں؟

شروانیؔ!
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹

میں اپنا یہ شعر سناتے ہوئے رخصت، آپ کہ خدا کرے اس کا مطلب نہ سمجھیں ۔۔۔ کبھی نہ سمجھیں۔۔۔۔"

بے موقع نہ ہو گا اگر یہاں مولانا انجمؔ فوقی کا وہ خط بھی پیش کر دوں جس میں میرا تذکرہ بہ تخاطب عرفیت ہے۔

"۔۔۔ موقی میاں تو درمیانہ قد ہو کر بھی اتنے اونچے ہیں کہ اُنہیں کسی کی دوستی یا دشمنی چھو نہیں سکتی۔ اور اصولاً یہ مرتبہ اوسطؔ ہی کو حاصل ہوتا ہے۔ بہر کیف آپ موتیؔ میاں سے ملتے رہیے۔ میرا اور ان کا تعلق سوز و ساز، لفظ و معنی اور روح و جسم کی طرح ہے لیکن یہ فرق بھی کہ وہ صاحبِ ہوش ہیں، میں آشفتہ مزاج و رندِ لاؤ ابالی۔۔۔"

محمود اختر صاحب کے ایک دوست جنابِ انصاریؔ دفعتاً ٹریفک کی زد میں آ کر رحلت فرما گئے۔ چنانچہ اس حادثہ کی اطلاع مولانا انجمؔ فوقی بدایونی کو دی گئی جواباً یہ رنگِ تحریر بھی دیکھئے۔

"۔۔۔ پیارے محمود اختر! ‘ملال کاہے کا‘؟ ناز کرو ناز کہ محترم انصاری چوٹ دے کر نہیں چوٹ کھا کر رخصت ہوئے ہیں۔۔۔"

مولانا انجمؔ فوقی کا یہ خط بھی وسعتِ نگاہ، کشادہ قلبی اور ان کے عارفانہ فکر و نظر کا آئینہ ہے۔

"۔۔۔ پیارے الیاس رشید، شعرائے بدایوں کا تذکرہ لکھ رہے ہو؟ اچھا، ضرور لکھو۔ مگر اس سے کہیں زیادہ مفید بدایوں کی غیر معروف قابل تذکرہ شخصیتوں کا چناؤ اور ان کا تفصیلی ذکر ہو گا۔ پھر تم خوب جانتے ہو کہ "بدایونی گروپ" میں بیرسٹر اقتدار الدین حسن، مولوی محمدؔ سلیمان، داروغہ حاجی سید حسین فکر، مولوی حضور الحسنین، ماسٹر سبطینؔ احمد، سیوتی پرشاد صہباؔ، نندؔ پرکاش، پریم چند (وکیل)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰

بشمبر ناتھ شرر، کنور بہادر، جخر عالم، فریفتہ حسین نصیری اور محمد امینؔ فرشوری جیسے حضرات کی مثال کے لئے بلحاظِ کردار ہمیں سوچنا پڑتا ہے۔ لہذا ضرورت ہے کہ ان پر قلم بھی اُٹھایا جائے۔

سنگ ریزوں نے حیاتِ ابدی پائی ہے
ناخنوں میں ترے اعجازِ مسیحائی ہے
(حسن رضاؔ)

جواباً صرف اتنا کہ یہ شعر نہیں، شاعری ہے۔۔۔ مگر یہ شعر

ندا یہ غیب سے آئی کہ صرف عشقِ رسول ﷺ
میں سوچتا تھا کہ مقصودِ زندگی کیا ہے
(ماہر القادری)

بلا شبہ شعر ہے، شاعری نہیں، ۔۔۔ رہا مسئلہ گوشہ نشینی؟ تو میری گوشہ نشینی برائے عبادت نہیں، ازراہ، مجاہدہ نہیں بہ عزم یاد الہیٰ نہیں بلکہ خدائی میں انسانیت و شرافت کے قحط پر خدا سے جنگ کی خاطر ہے جسکی ہار کو میں عبادت سمجھ کر مصنوعی سکون حاصل کر لیتا ہوں۔

جانِ عزیز الیاس، ہر چند کہ میرے دل و دماغ کے درمیان جو ایک خلیج متبائن ہے۔ وہ خود نتیجہ ہے میری ہی اُفتادِ طبع کا۔ دنیا اور اہل دنیا میں کوئی بے وفا نہیں؟

شکوہ دہر ہے عبث انجمؔ
خود تجھی میں کوئی بُرائی ہے

مگر اس کے باوجود۔ ‘بیٹا۔ جہاں رہو۔ شاد و آباد رہو۔" مافی الضمیر یہ کہ پیچے بھیجتے رہنا" میں اس اندازِ شفقت کا مخالف تو بے شک نہیں لیکن اسے پیار سمجھ لو؟ یہ بھی ناممکن قطعی ناممکن! چونکہ پیار میری لغت میں نام ہے جسم اور سائے کی طرح ساتھ رہنے کا۔ اعادہ فضول!

گرمی کے دن یاد آ جائیں
موسم اتنا سرد نہیں!
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱

خوش ہوں کہ تمھیں حسن سوز کا یہ شعر بے حد پسند آیا۔ اچھا، تو اب اپنی ایک تازہ غزل کے چند شعر تمہاری نذر کرتے ہوئے رخصت ہوتا ہوں۔

خلش دیدہ تر باقی ہے
غالباً خونِ جگر باقی ہے

آپ آئیں تو کچھ اندازہ ہو
مل چکی ہے کہ نظر باقی ہے

دوست صورت ہے یہ سایہ نہ مثال
طلبِ دوست مگر باقی ہے

تجھ سے مل کر ہی یہ معلوم ہوا
زندگی ختم، سفر باقی ہے

قدرِ اربابِ ادب اے انجمؔ
نہیں باقی ہے، مگر باقی ہے

بھئی یہ چار چھ شعر بھی تازہ بتازہ ہیں کیوں نہ انھیں بھی تمہاری نذر کر دوں۔

چوٹ کھائیں، نظر نہیں بدلے
ہم ابھی اسقدر نہیں بدلے

کس کے شام و سحر نہیں بدلے
تیرے آشفتہ سر نہیں بدلے

آپ آئینہ بن کے نکھرے ہیں
آئینہ دیکھ کر نہیں بدلے

ہم کہ آنکھوں میں رات کاٹ چکے
تیرگی کے سفر نہیں بدلے

میں نے خود سعئ تازگی کی ہے
خواب میں بال و پر نہیں بدلے

میری تقدیر کو بدلنا تھا
تم مجھے دیکھکر نہیں بدلے

کچھ نہ کچھ فرق سب میں ہے انجمؔ
آپ ہی خاص کر نہیں بدلے

تم کبھی محمد فاروقؔ فرشوری یا مہتاب ظفر بدایونی کو خط لکھو تو میرے اس شعر کی تخلیقی وجہ اِن حضرات سے ضرور پوچھنا۔ چونکہ میں نے "سفر" قصداً کہا ہے۔

ہم کہ آنکھوں میں رات کاٹ چکے
تیرگی کے سفر نہیں بدلے

الیاسؔ، التجائیں بے زثر، حاکم بے مہر، زمانے کی اس روش کے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۲

باوجود محبی جلیل فریدی کی پیشانی پر موجِ مروت اور اُن کی آنکھوں میں محبت کے سُرخ سُرخ ڈورے پائے جاتے ہیں۔ یہی کیفیت شفیقؔ میاں اور محمد شریفؔ صاحب دہلوی کی بھی ہے جو ان دنوں میرے میزبان بھی ہیں اور میرے لئے نزولِ رحمت بھی۔

ارشاد انجمی، یوسف جاوید، محمود اختر اور بزم پونوی صاحبان کے اشعار اگلے خط میں لکھوں گا۔ فی الوقت جناب شہید بدایونی کے اس شعر سے محظوظ ہو رہا ہوں۔

میری بے مائیگی تماشا ہے
اور تجھے شرمِ آگہی بھی نہیں

اسی کے ساتھ خود اپنا بھی یہ شعر بار بار ذہن میں آتا ہے۔

جب فرق نہیں ہے کاموں میں، تخصیص بھی کیوں انعاموں میں؟
کچھ گود کو رونق ہم نے دی، کچھ گود نے ہم کو پالا ہے

اور ہاں

"بندگی اِک جہل مطلق ہے خدا کر دے مجھے"

جوش کا یہ خیال جوش تک ۔ میں اگر خدا ہوتا تب بھی آدمی بننا پسند کرتا۔

آفتاب احمد جوہر، محمد کامل دہلوی اور جام نوائی صاحبان کا تذکرہ پھر کبھی۔"

مولانا انجم فوقی۔ انتقادی صف میں اکثر پروفیسر امانت اور پروفیسر مجنوں گورکھپوری صاحبان کا ذکر بھی بڑے عمیق انداز میں کرتے ہیں۔ چنانچہ مناسب ہو گا کہ پروفیسر امانت کے یہ دو جملے بھی آپ کے سامنے پیش کر دوں۔

"۔۔۔ حضرت انجم فوقی سراپا گداز ہونے کے باوجود دیدہ ور شاعر اور پُر مغز ادیب ہیں۔۔۔"
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۳

یہیں پر پروفیسر سید احتشام حسین کی یہ رائے بھی کسقدر حقیقی معلوم ہوتی ہے۔

"۔۔۔ انجم فوقی بدایونی حیات و کائنات کے ممتاز ادیب و شاعر ہیں۔ شعر و ادب میں اُن کا تذکرہ ہو رہا ہے اور بار بار ہوتا رہے گا۔ مطالعہ بہت وسیع، فکر و نظر میں اچھوتا پن، اظہار و بیان میں ندرت و نغمگی اور کلام میں گہرائی و گیرائی بھرپور ملتی ہے۔ یہ تمام خوبیاں ایک ادیب و شاعر کو اُس وقت نصیب ہوتی ہیں جب دل کے ساتھ دماغی سوتے بھی جاری ہوں۔ انجم فوقی کا شمار بلاشبہ ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔۔۔"

مختصر یہ کہ ایک طرف مولانا انجم فوقی کی تحریروں میں رندی و سرمستی اور اُن کی قلبی دھڑکنوں کے چند نمونے آپ کے سامنے ہیں جن میں طوفان عشق اور تلاطم اور جذبات کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ دوسری جانب انجم صاحب کی علمی قابلیت اور ان کی انتقادی تحریروں کا تفکر یا پھر یہ معرکتہ الآرا ادبی تصنیف "فکر و فن" ہے۔ جس کا مزاج نیم چڑھا کریلا اور متن بادِ صرصر و سموم سے کہیں زیادہ خشک محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ موضوعِ فکر و نظر۔ "دل ہو یا دماغ"؟ انجم فوقی صاحب کے تبخیر علمی میں ذرہ بھر فرق کہیں نہیں۔ اُن کا علم یقیناً اکتسابی ہے مگر ذہانت و ہمہ رنگی اُن کی فطری میراث ہے۔ چنانچہ لفظی استعمال کی صحیح اور جدید بحث، زبان پر بنیادی نقد و نظر اور علم و ادب کا بہترین تجزیہ جس طرح مولانا انجم فوقی کی تصنیف "فکر و فن" میں پایا جاتا ہے وہ کتبِ سابقہ۔۔۔ حدائق البلاغۃ۔ دریائے لطافت۔ مصباح القواعد۔ آب حیات اور رازَِ عروض وغیرہ میں نہیں ملتا بلکہ انجم صاحب کا یہی وہ مرتبہ علم و نظر ہے جس کے بارے میں بابائے اردو مولوی عبد الحق نے فرمایا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴

"۔۔۔ فکر و فن دیکھ کر مجھے دلی مسرت ہوئی۔ کہ اِتنے اوق موضوع پر اور اس قدر اچھا لکھنے والا پاکستان میں موجود ہے۔ یہ کتاب بلاشبہ نصاب میں داخل ہونا چاہیے۔۔۔"

"فکر و فن" گیارہ ابواب پر مشتمل ہے جن میں سے بعض یہ ہیں۔

عروضی اصطلاحات، اصولِ تقطیع، اصطلاحات علم ہجا، اصطلاحاتِ علمِ معانی، اصطلاحاتِ علمِ صرف، اصطلاحاتِ علمِ نحو، اصطلاحاتِ علمِ بدیع، علمِ بیان و قافیہ اور فن تنقید و غیرہ۔

مولانا انجم فوقی نے علوم و فنون کے تمام سابقہ اصولوں پر بحث کرتے ہوئے ہر باب میں کچھ جدید اضافے بھی کئے ہیں۔ اور اجتہادی نکات بھی سمجھائے ہیں۔ جیسے حافظ شیرازی کے اس مطلعے میں استعمالِ قافیہ پر

صلاح کا کُجا دمن خراب کجا
ببیں تفاوتِ رہ از کجا ست تا بہ کجا

"رات کرنی یا رات کرنا" – پر جو مختصر تنقید ہے وہ بھی عالمانہ نکات سے خالی نہیں۔ غیر مناسب نہ ہو گا کہ فکر و فن کے چند نمونے یہاں پیش کر دیئے جائیں۔ چنانچہ انجم صاحب کا اندازِ تنقید ملاحظہ ہو۔

"۔۔۔ بعض اہل زبان ‘رات کرنی‘ بھی لکھتے ہیں۔ چونکہ اُن کے نزدیک رات مؤنث ہے لہذا فعل کو بھی تانیث لکھنا چاہیے مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ کرنا فعل مصدری ہے اور علامت مصدری نا ہے، نی نہیں ہے۔ اسی طرح بعض کا خیال ہے کہ امر کی صورت میں ‘رات کرنا‘ ہی لکھنا زیادہ فصیح ہے۔ باقی حالات میں ‘رات کرنی‘ لکھنا چاہیے۔ یہاں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ امر میں نا نہیں پایا جاتا ہے۔ بلکہ مصدر کا نا دور کرنے سے امر ہو جاتا ہے۔ اور جب امر میں نا ہو گا تو وہ امر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵

نہیں رہے گا۔۔۔"

سوا اور علاوہ کے فرق پر بھی یہ اشارہ دیکھئے۔

"۔۔۔ سوا نفی کے موقع پر استعمال ہوتا ہے۔ جیسے میرے سوا کوئی نہیں۔ یہاں علاوہ لکھنا غلط ہے۔۔۔"

اسی طرح یہ علمی نکتہ بھی ملاحطہ ہو۔

"۔۔۔ چونکہ اور کیونکہ ایک حد تک قریب المعنی ہیں مگر کیونکہ بنان سبب کے لئے آتا ہے مثلاً

ہم کھٹائی نہیں کھا سکتے کیونکہ بیمار ہیں

چونکہ حرفِ شرط ہے۔ جیسے

ہمارا فرض ہے کہ سب کے ساتھ انسانیت سے پیش آئیں چونکہ ہم آدمی ہیں۔ واضح ہو کہ چوں حرفِ شرط ہے۔ اور کاف (کہ) بیانیہ لہذا اسکے ساتھ ایک جملے کے بعد دوسرا جملہ اور آنا چاہیے۔ ازروئے قواعد پہلے کو شرط دوسرے کو جزا کہتے ہیں۔۔۔"

‘نہ اور نہیں‘ کا فرق بھی علمی بصیرت سے خالی نہیں۔

"۔۔۔ امر کے صیغوں میں جب نا بڑھایا جاتا ہے تو امتناعی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور جب دوسرے افعال کے ساتھ آتا ہے تو نفی کے معنی دیتا ہے۔ جیسے ‘نہ جا‘ یہ صورت امتناعی ہے اور ‘نہیں ملتے‘ یا ‘نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں‘، یہ نفی کے معنی میں ہے۔۔۔"

اصولِ تقطیع میں – "بسم اللہ الرحمن الرحیم" اور "بلغ العلا بکمال" کے چاروں مصرعوں کی تقطیع کے ساتھ ہی خلطِ زحاف کی سیر حاصل بحث نئی معلومات بہم پہنچاتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۶

ہر چند کہ "ادبِ جدید" نے ہمیں بامعنی کلام کے نئے رُخ بھی دیئے ہیں، فکر و نظر کے اچھوتے انداز بھی مگر اس کے باوجود جدید شعراء کی اکثریت علمی نکات اور لسانی اجتہاد سے کما حقہ، واقف نہیں۔ ذہانت بروئے کار اُسی وقت آ سکتی ہے جب علم بھی علم کی طرح حاصل کا جائے۔ یہ اس لئے بھی کہ ہمارے بدبختیوں میں ‘لسانی عصیبت‘ اور اس کے شاخسانوں کا دخل آج تک ہے۔ بلکہ ہمیشہ رہے گا۔ دراصل زبان کا مسئلہ ہی عجیب ہے۔ دنیا بھر میں کوکئی زبان آپ کو کنواری نہیں ملے گی اور خصوصاً اُردو کے گٹھ جوڑ کی تو انتہا نہیں۔ لہذا شدید ضرورت ہے کہ ہمیں لسانی ضوابط سے واقفیت ہونا چاہییے۔ ہم یہ بھی سمجھ سکیں کہ امالہ کسے کہتے ہیں، یہ بھی معلوم ہو کہ استحالہ کیا ہے۔ اس کی بھی خبر ہو کہ لفظ بچپن کس طرح مروج ہوا، یہ بھی محسوس کریں کہ دن بدن کی ترکیب غلط ہے تو کیوں اور صحیح ہے تو کیسے؟ خبر و مبتدا کا استعمال بھی سمجھیں اور دونوں کا فرق بھی۔ مضاف سے مضاف الیہ بھی بنا سکیں۔ اور صفت سے صفتِ موصوف تک نگاہ بھی ہو۔ ورنہ ہمارے بولی ہماری زبان اور ہمارے علمی سوجھ بوجھ درندوں، پرندوں، چرندوں جیسی تو ہو سکتی ہے۔ آدمیوں، انسانوں یا افہام و تفہیم کے معیار پر دلالت نہیں کر سکتی۔

آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ ہندوستانی زبان کی گرامر سب سے پہلے ایک یورپین مصنف "ڈچ سفیر جان جوشواکٹلر" نے ۱۷۱۵ء؁ میں لکھی۔ اس کے بعد دیگر علماء یورپ بھی لکھتے رہے لیکن ۱۸۱۳ء؁ میں مسٹر جان شکسپیر نے لندن سے خالص اُردو صرف و نحو پر ایک تصنیف پیش کی اور اس کےبعد ہندوستان
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۷

میں بھی اس موضوع پر متعدد کتابیں لکھی گئیں۔ چنانچہ تاریخی حیثیت سے اُردو زبان کی ہمہ گیر عظمت بھی نمایاں ہے اور یہ بات بھی کہ اُردو کی تدوین میں ہر قوم کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مشترک زبان صرف اُردو ہے جس کو آج بعض ناواقفوں میں مسلمانوں کی زبان سمجھا جاتا ہے۔ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ پاکستان میں اُردو صرف مہاجرین کی زبان تصور کی جاتی ہے۔ دراں حالانکہ اُردو امتیاز رنگ و نسل اور تفریقِ مقام و وطن سے بالکل علاحدہ ہے۔ اسی لئے یہ زبان پھولی پھلی اور ہمیشہ پھولتی پھلتی رہے گی۔ بہرکیف ایوانِ اُردو کے بالغ نگاہ معماروں میں مولانا انجم فوقی بدایونی کا نام بھی آتا ہے اور بار بار آتا رہے گا۔ بلکہ میں تو بلا خوفِ تردید یہ بھی کہوں گا کہ انسانیت و اخلاص اور شعر و ادب کے آفاقی شعبوں میں بھی ہمیں انجم فوقی صاحب کی کُشادہ قلبی اور طہارتِ فکر و نظر بار بار یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ رجعت پسندی و تنگ نظری اور جذباتیت کی تیرہ و تاریک فضاء میں ایسے لوگ کہاں سے آ جاتے ہیں۔ جن کے ساتھ ارتقائے علم و ادب کا ہر اُجالا قدم قدم پر پایا جاتا ہے۔ غالباً مولیناٰ انجم فوقی کے اسی منصبِ تخلیق و وسیع النظری سے متاثر ہو کر گرامی حبیب احمد (ام، اے) نے کہا تھا۔

"۔۔۔ انجم فوقی بدایونی ایک خاموش فطرت انسان۔ ایک ٹھہرے ہوئے مزاج کا شخص، بہت غیور، حد درجہ خود اعتماد اور ایک بلند پایہ شاعر و مفکر ہے کہ اُسے مٹی کی بھی ضرورت ہو تو پہاڑ کی چوٹی سے لاتا ہے۔۔۔"

(ایک نجی خط میں) بقول مولانا ماہرؔ القادری

۔۔۔ انجم صاحب کا وجدان شاعرانہ ہے نظر حکیمانہ ۔۔۔"

ضرورت ہے کہ ان دو جملوں کی وضاحت بھی آپ کے سامنے پیش کرتا چلوں۔

چنانچہ ابھی کچھ ہی روز کی بات ہے کہ مجھ سے فرمایا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۸

"زحمت نہ ہو تو اپنے تازہ کلام سے نوازیئے۔"

میں نے غزل شروع کی۔ جب یہ شعر پڑھا

آ دیکھ لیں اک رات کوئی خوابِ جواں اور
یہ بعد میں سوچیں گے خدا ہے کہ نہیں ہے

تو دفعتاً انجم صاحب کی کیفیت بدل گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ اُن کا قلب بے اختیار جاری ہے۔ چہرے پر ایک رنگ آ رہا ہے۔ ایک جا رہا ہے۔ بدن میں کپکپی ہے اور آنکھوں میں سُرخ سُرخ ڈورے اُبھر رہے ہیں۔ مجھ سے بار بار یہ شعر پڑھوایا اور خود بھی گنگنانے لگے۔ غرض طرح طرح بہمہ کیف و مستی لطف اندوز ہوتے رہے۔ ایسا ہی اتفاق یہ کہ برسرِ تذکرہ میں نے ایک مرتبہ فراقؔ کا یہ شعر سنایا۔

تیرے چھونے سے جو دُکھتا ہو
کون اُس دل کی پھانس نکالے

بس پھر کیا تھا۔ مولانا انجم فوقی پر قیامت ہی ٹوٹ پڑی۔ ہفتوں متاثر رہے ہفتوں۔ آخر میری تحریک پر خود اسی زمین میں غزل کہی تب کہیں اُن کے دل کا بوجھ ہلکا ہوا۔ چاہتا ہوں کہ انجم صاحب کہ وہ غزل آپ بھی سنئے۔

کس کے دل کی پھانس نکالے؟
اپنا دل جو آپ دُکھا لے

اُن سے اور پیمانِ محبت؟
دل اپنے تو ناز اُٹھا لے

شاید گھر ویران پڑا ہے
چُپ ہیں پتھر پھینکنے والے

ابتو آنکھیں بند نہیں ہیں
اب تو پھوٹیں دل کے چھالے

اپنے دُکھ پر آپ ہی رو لیں
اتنے نرم کہاں دُکھ والے

دل کا تو یہ کام نہیں ہے
پتھر ہو تو چوٹ بھی کھا لے

انجم یہ ماحول بھی کبتک
دل پر پہرے، لب پر تالے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۹

مقطع پڑھ کر فرمانے لگے۔

"شہید صاحب فراق نے تو ایک شعر کی خاطر غزل کہی ہے۔ مجھے آپ نے ایسی بنجر زمین میں خواہ مخواہ بھڑا دیا لیکن خیر اسی سوچ بچار میں ایک اور غزل ہو گئی۔ وہ سنئے۔" یہ کہہ کر پھر جو مولانا انجم فوقی نے غزل سنائی تو نہ پوچھئے کہ مجھ پر کیا گزری۔ پہلی ہی شراب کیا کم تھی کہ اُس پر دو آتشہ بھی ۔۔۔ نہیں چاہتا مگر چاہتا ہوں کہ اپنے درد کو دردِ مشترکہ بنا دوں۔ لہذا سنئے انجم صاحب کی غزل آپ بھی سنئے۔

لمحہ لمحہ خدا یاد آئے ہمیں
آپ اتنا کہاں بھول پائے ہمیں

کون ڈھونڈے ہمیں کون پائے ہمیں
دھوپ سے کم نہیں اپنے سائے ہمیں

سایہ تیرگی کیا لُبھائے ہمیں
روشنی ہو تو کچھ نیند آئے ہمیں

اب نہ رہبر نہ منزل نہ گردِ سفر
راستے کس طرف موڑ لائے ہمیں

بے ارادہ نظر آئینہ پر گئی
تم بہت دیر تک یاد آئے ہمیں

رات دن ہر طرف ایک خوشبو تو ہے
زندگی اور کتنا بسائے ہمیں

خود کو دیکھیں تو ہم دیکھتے ہی رہیں
آپ اتنا کہاں دیکھ پائے ہمیں

صبح، کیوں اپنے جلووں پہ مغرور ہے
ایک چہرہ تو اُجالا دکھائے ہمیں

دوستو! بند کلیوں میں خوشبو کہاں
دل نہ دھڑکیں تو کیا چین آئے ہمیں

چاند تارے ابھی سے پریشان ہیں
ایسے کے دن ہوئے جگمگائے ہمیں

سارے جھگڑے ہیں انجمؔ اسی بات پر
زندگی خود سجے یا سجائے ہمیں

"خود سجے یا سجائے" کا دوسرا رُخ بھی دیکھئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۰

مزاجِ یار سے نالاں ہو انجم
تمہیں شاید غزل کہنا نہیں ہے

اگرچہ کہنا بھی اس کے سوا اور کیا تھاِ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔

یہ کیا شکوہ کہ وہ اپنا نہیں ہے
محبت خون کا رشتا نہیں ہے

بہت پہلے میں اسکو پڑھ چکا ہوں
مری قسمت میں جو لکھا نہیں ہے

گُھٹا رہتا ہے دل میں کچھ دھواں سا
یہ بادل آج تک برسا نہیں ہے

وفا میں راحتیں کیا ڈھونڈتے ہو؟
وفا دیوار ہے سایا نہیں ہے

یہ کس ماحول میں ہم آ گئے ہیں
کوئی اپنا یہاں اپنا نہیں ہے

یہ غزل کافی طویل ہے لہذا اور دو ایک شعر سُنا کر رخصت ہوتا ہوں۔

وہ میرا عکس بھی ہے یا نہیں ہے
ابھی تک میں نے یہ سوچا نہیں ہے

جو میں نے کہہ دیا ہو کر رہے گا
مرا مشرب غم فردا نہیں ہے

اُنھیں کیا واسطہ تم سے کہ انجم
جنون و عقل میں رشتا نہیں ہے

مولانا انجم فوقی کے رنگ تغزل میں "غم جاناں و غم دوراں" بہ جدت و احتیاط سموئے ہوئے ہیں۔ مگر اُن کا تصوف بھی جدید قدروں سے علیٰحدہ نہیں۔ ملاحظہ ہو۔

کون مجھ تک بارہا آیا گیا
میں نے یہ سوچا تو خود شرما گیا

غالبؔ کی زمین میں بھی انجم صاحب کا یہ شعر دیکھئے۔

کوئی تم سا ملا تو سوچیں گے
ہم ابھی کیا کہیں خدا کیا ہے؟

بھلا اس اشاریت، ندرتِ فکر اور وسعتِ معنی کی داد کیا ہو سکتی ہے۔
 
Top