فکر و فن صفحہ 1 تا 30

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۱

یہ غزلیں بھی ملاحظہ ہوں جو انجم فوقی صاحب کی انقلابی و تعمیری فکر کا آئینہ ہیں۔

پُھونک دو میرے آشیانے کو
روشنی تو ملے زمانے کو

ہم تو بھٹکے قدم قدم لیکن
راستہ دیدیا زمانے کو

لوگ کیوں ایک دوسرے سے ملیں
سن رہے ہیں مرے فسانے کو

اتنے ٹھہراؤ سے نہ دیکھ مجھے
رُخ بدلنا پڑے زمانے کو

مصلحت ساز، رو بھی لیتے ہیں
وقت کیساتھ مسکرانے کو

اپنی تصویر سامنے رکھکر
دیکھتا ہوں ترے زمانے کو

لوگ سبکی خوشی سمجھتے ہیں
چند کلیوں کے مسکرانے کو

ہر طرف ہے اب ایک سناٹا
اور آواز دو زمانے کو

خود نہ تاریخِ وقت بن انجمؔ
اپنی تاریخ دے زمانے کو

ذرا ان سلگتے ہوئے تیوروں پر بھی ایک نگاہ۔

جبتک موسم بیت نہ جائے
چہروں پر کیا سُرخی آئے

دل اب اُن کے ناز اُٹھائے
پیار کیا ہے چوٹ بھی کھائے

لوٹ، جہاں تک لوٹا جائے
شاید پھر یہ دور نہ آئے

آب بھی برسے، ابر بھی چائے
موسم کیا جو تنہا آئے

عشق میں یہ لمحات بھی آئے
سمٹی دھوپ نہ پھیلے سائے

پہلے دُنیا چوٹ تو کھائے
پھر دیکھیں غم راس نہ آئے

در در اُنکو ڈھونڈنے والا
ہو سکتا ہے خود کھو جائے

سایہ تو ہے دھوپ کا ٹکڑا
چھاؤں کہاں جو ٹھہرا جائے

اب تک منزل ایک تصور
آگے جو کچھ وقت بتائے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۲

اپنی چھاؤں میں چلنے والا
پہلے ہر دیوار گرائے

انجمؔ کوئی تو اپنا ہو گا؟
سوچا لیکن سوچ نہ پائے

مگر کیا بے سوچے سمجھے بھی یہ بات کہی جا سکتی ہے؟

فاصلوں میں کسی تفریق کا احساس نہ تھا
ایک ہوتے ہی یہ سمجھے کہ جُدا ہے کوئی
(انجم فوقی)

ارے پناہ، کیا شعر کہا ہے۔ دراسل انجم فوقی صاحب کا سارا معاملہ ہہئ بندوں کے ساتھ۔ ثبوت میں خود اُنھیں کی شوخی تحریر ملاحظہ ہو جو نہایت بلیغ اور بڑی نفسیاتی بھی ہے۔

عظیم ساتھی ڈاکٹر یوسف جاویدؔ
میں کلمہ کا بھی عامل ہوں

قرآن کا بھی چنانچہ سید شہید حسین کو دیکھتے ہی دل چپکے سے کہتا ہے۔

لا اِلٰہ الا اللہ

اور جب شہید و شفیق دونوں بیت وقت ملتے ہیں تو دل بے اختیار پکار اُٹھتا ہے۔

لا اِلٰہ الا اللہ
محمد رسول اللہ

لیکن قرآنِ حکیم کی یہ آیت

۔۔۔ رَضِیَ اللہ عَنہُم و رضو عنہ۔۔۔

رگ و پے میں خون کی مانند اُس وقت دوڑنے لگتی ہےہ جب محمد شفیق، شہید حسین، محمود اختر اور افضال احمد خان یہ چاروں صاحبان ایک جگہ نظر آتے ہیں۔ اسی طرح پورے قرآن کی تلاوت کا جذبہ بھی عود کر آتا ہے جب کبھی نیک آدمیوں کی بہت وسیع اجتماع دیکھتا ہوں یا جلیل فریدی، نور احمد میرٹھی، حسن سوز، شروانی، منور بالاتی، رشید اثر، محمد شریف
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۳

اور تمؔ میرے سامنے ہوتے ہو۔

خدا کی بے نیازی ہائے مومن
ہم ایمان لائے ہیں نازِ بتاں سے

لیکن یہاں تو مشکل یہ ہے کہ "نازِ بُتاں" اُٹھانیکے بعد بھی ایمان میں پوری قوت محسوس نہیں ہوتی۔ بلکہ چشمکِ فکر و نظر اور بڑھ جاتی ہے۔

صورت تو ہے نہیں جو اُسے ڈھونڈھ لائیں ہم
ایسا نہ ہو کہ اپنی طرف لوٹ آئیں ہم

اُمید کہ تم میرے اس شعر پر غور کرو گے۔

سُرور محمد صدیقی، منصور ویراگی اور مہر فوقی بھی مجھے بے حد عزیز ہیں مگر چونکہ یہ سب فرشتہ خصلت زیادہ ہیں، آدمی صفت کم، اس لئے

دُور ہی سے انھیں سلام اپنا

پیارے جاوید

آج سے عشق کی تاریخ بدل جائیگی
آیئنہ لاؤ، مجھے دیکھ رہا ہے کوئی

تم نے میرا یہ شعر دُوہرا کر جو قیامت مجھ پر توڑ دی ہے شاید اس کی تلافی خدائی بھر میں کوئی نہ کر سکے۔

شارہ، حاضرہ اور عینا مجھے تینوں عزیز مگر بھتیجیوں کے ناتے سے زیادہ صلاحیتوں کی بناء پر ۔۔۔۔"

مولانا انجم فوقی کے نظریہ عشق و عافیت کی نشاندہی اُن کے یہ چند شعر اور نثر کے دو چار جملے بھی کرتے ہیں۔

اُن کے لب ہیں، مری شکایت ہے
کتنا بدلا ہے وقت؟ حیرت ہے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴

آدمی بارِ آدمیت ہے
حادثے کی اشد ضرورت ہے

میں جہاں ہوں کفیل ہوں اپنا
تم جہاں ہو، مری ضرورت ہے

آدمیت کا ارتقاء میں ہوں
آدمی سے مجھے محبت ہے

آؤ اک دوسرے کو پیار کریں
پیار کرنا بڑی عبادت ہے

اب مرے روبرو نہیں کوئی
اب مجھے آپ کی ضرورت ہے

روشنی ہو کہ تیرگی انجمؔ
مجھے سے دونوں کی قدر و قیمت ہے

اور اس میں کوئی شبہ نہیں چونکہ

کس کی تلاس، کیسا تجسس، کہاں کا راز؟
انسان ہی تو فخرِ دو عالم ہے دوستو
(انجم فوقی)

لہذا انسان و انسانیت، کے صحیح نقطہ عروج تک پہنچنے کے بعد فرماتے ہیں۔

"۔۔۔ بھئی، محمود اختر، اللہ یہ چھیڑ چھاڑ بند کرو۔ بھلا، "مشرکین" بھی کوئی نفرت کی چیز ہیں؟ مردِ خدا، ان پر تو مجھے ہنسی آتی ہے۔ البتہ "منافقین پر ہنستا نہیں روتا ہوں۔"

شارجہ سے واپسی کے جواب میں پھر خاموش ہو۔ اخترؔ یقین کرو کہ میرے ذہن میں آسرے نام کی کوکئی چیز نہیں تھی۔ مگر بچھڑے تو معلوم ہوا کہ آسرا تریاقِ حیات بھی ہے، سِلو پائزن بھی۔۔۔"

حاصل کلام یہ کہ انجم فوقی صاحب کے ادبی وقار اور اُن کی ہر عظمت کو یوں بھی تسلیم کرنا ہو گا۔ کہ بدایوں جیسی شاعرانہ زرخیز زمین پر وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ۱۹۵۲ء؁ سے مقامی مشاعروں میں اپنا شعری نذرانہ دس روپے مقرر کیا تھا اور اسے انبائے وطن و اہلِ ادب کی قدر دانی کہئے کہ وہ ہر مشاعرہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵

پر انجم صاحب کو دس روپیہ پیش کرتے رہے یہاں تک کہ بدایوں میں جب سرکاری طور پر آل انڈیا مشاعرہ منعقد ہوا تو بدایونی شعراء میں تنہا انجم فوقی کی شخصیت تھی جسے سو روپیہ نذرانہ بے لاگ پیش کیا گیا۔ دراصل اس پذیرائی کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ انجم صاحب کا رنگِ کلام قدیم روایاتِ فکر و سخن سے کافی حد تک علٰحدہ ہے۔ چونکہ اُن کا قیام زیادہ تر بدایوں سے باہر رہا، لہذا گھاٹ گھاٹ کے پانی، مطالعہ کی وسعت اور مزاج و شعور کی رنگا رنگ قدروں نے مولانا انجم فوقی کی نظر و نظم دونوں میں گہرائی و گیرائی پیدا کر دی ہے۔

انجم صاحب مختلف ماہناموں وغیرہ کے سرپرست و نگراں بھی رہے ہیں اور خود بھی موصوف نے ایک خاص ادبی پرچے ماہنامہ سنگم کا اجرا ۱۹۴۸ء؁ میں کانپور انڈیا سے کیا تھا۔ ۱۹۵۳ء؁ میں مولانا انجم فوقی کا مجموعہ غزلیات اُجالے بدایوں سے شائع ہوا۔ اور ۱۹۵۵ء؁ میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بدایوںؔ نے سنٹرل گورنمنٹ کو انجم صاحب کے شاعرانہ وٖظیفے کے لئے بطورِ خاص متوجہ کیا مگر آہ وہ ساعتِ عجیب یا کششِ آب و دانہ کہ مولانا انجم فوقی بدایوں انڈیا سے کراچی پاکستان آ گئے۔ اور یہاں پہنچ کر تھوڑے ہی عرصہ بعد گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ تاہم وہ تصنیف و تالیف سے غافل نہ رہے نہ اب تک ہیں۔ مخاطبات، مکاشفات، ملاحظات اور فکر و فن یہ چار کتابیں یہیں پہنچ کر لکھیں اور یہیں چھپ کر یہ چاروں کتابیں مقبول بھی ہوئیں۔ اب کافی عرصہ کے بعد مخاطبات، مکاشفات اور ملاحظات کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہو کر بنام وژن طبع ہو گیا ہے۔ جس پر پہلا تبصرہ مدیر ماہنامہ فاران، کراچی نے مئی ۱۹۷۴ء؁ کے شمارہ میں کیا ہے۔ لہذا ایک نگاہ اس پر بھی۔

"،،، انگریزی ادب کے لئے وژن ایک اچھوتے انداز کی کتاب ہے۔ اسے پڑھ کر ذہن و فکر چونک پڑیں گے اور پڑھنے والے ایسے محسوس کریں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۶

جیسے وہ کسی نئی دنیا میں آ گئے ہیں۔۔۔"

"فکر و فن" مراحلِ طباعت سے گزر کر آپ کے روبرو ہے جو اُردو زبان و ادب کے لئے "جدید انسائیکلو پیڈیا" سے کم نہیں۔

آخر آخر یہ کہ فکر و فن کے تبصرہ میں جن اسناد کے ساتھ میں نے گفتگو کی ہے۔ اُن کا پورا تاریخی ریکارڈ، اُردو، انگریزی دونوں زبانوں کے ساتھ وژن میں موجود ہے۔

(سید) شہید حسین، شہیدؔ فون ۴۱۸۹۹۵
کراچی (پاکستان)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۷

بہ قدرِ شوق نہیں مجھکو تنگنائے غزل
کُچھ اور چاہئے وسعت مرے بیاں کیلئے
(غالب)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹

عروضی اصطلاحات

ایقاع : (عربی) بروزن ایثار – لغوی معنی واقع کرنا، جنگ میں ڈالنا، موسیقی میں علم ایقاع آواز کی حرکت اور سکون کا نام ہے۔ اصطلاحاً اصواتِ مزامیر کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع ایقاعات ہے۔ ماہرین فن نے اس کی تقسیم دو طرح کی ہے۔ نقرات اور سُکونات۔

لُغت (ء) بروزن گزر – زبانِ قوم کو کہتے ہیں۔ اصطلاح عربی میں وہ الفاظ جن کے معنی مشہور نہ ہوں۔ مجازاً وہ کتاب جس میں لفظ کے معنی و حیلہ درج ہوں۔

موسیقی (سُریانی) بروزن خوگری۔ علم سرود کو کہتے ہیں۔ یونانی میں بمعنی لحن ہے۔ کبھی بحذف چہارم کہ یائے تحتانی ہی استعمال کرتے ہیں۔ مگر آج کل موسیقی کوئی نہیں بولتا۔ اس کا موجد حکیم فیثا غورث ہے۔ بعض کے نزدیک اس کی ابتدا آواز ققنس سے ہے۔ اس کو موسیقار بھی کہتے ہیں۔ موسیقی میں وزن بھی پایا جاتا ہے۔

وزن (ء) بروزن شمس۔ اس کی جمع اوزان ہے۔ موسیقی میں نقرات متتابع اور سکنات متناسب کے مخصوص التزام کو کہتے ہیں۔ علمِ عروض میں بھی حرکات و سکنات کی ترتیب پائی جاتی ہے۔ اس کی تین قسمیں ہیں۔

وزن حرفی، وزن عروضی، اوزان موسیقی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۰

وزن : اس میں نقرات متتابع اور سکنات متناسب کی تعداد یکساں ہوتی ہے۔

حرفی : جیسے وطن اور چمن میں حرکات مفتوحہ برابر ہیں اور دونوں لفظوں کے آخر میں نون ساکن ہے۔

وزن عروضی : اس میں حرکات و سکونات کی تعداد تو پائی جاتی ہے مگر زیر، زبر، پیش کی کوئی قید نہیں۔ چنانچہ کتے اور بلی کا وزن فعلن بسکونِ عین ہو گا۔

وزن موسیقی : علم ایقاع سے مختص ہے۔ اس میں آواز کے زیر و بم سے مراد ہوتی ہے۔ جس میں تتابع اور تناسب پایا جاتا ہے۔

نقرات : (ء) بروزنِ سردار۔ اس کا واحد نقرہ ہے جس کے معنی انگشت زدن کے ہیں۔ اصطلاح موسیقی میں وہ آوازیں جو ناخن زدن پے در پے سے پیدا ہوں عروض میں اس کو حروفِ مُصوت کہتے ہیں۔

مُصوت (ء) بروزن مصور۔ متحرک حروف کو کہتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ مقصور، ممدود

مقصور (ء) بروزن منصور۔ زیر، زبر اور پیش کی حرکت کو کہتے ہیں۔ گویا متحرک حروف، جیسے دل میں دال مفتوح ہے۔

ممدود (ء) بروزن مجبور۔ یہ اشباعی حروف ہیں۔ یعنی الف، واؤ، ی

اِشباع (ء) بروزن اصلاح۔ وہ حروف جو زیر، زبر اور پیش کے ساتھ کھینچ کر پڑھے جائیں۔ یہ لکھنے میں ایک اور وزن میں دو شمار ہوتے ہیں۔ پہلا حرف متحرک، دوسرا ساکن، جیسے ذَلک، لٰ سے لہو اور بہ سے بہی وغیرہ۔

سُکُونات (ء) بروزن کمالات۔ ساکن کی جمع ہے۔ موسیقی میں آواز کے ٹھہراؤ کو کہتے ہیں۔ عروض میں حروفِ مُصمت سے مراد ہوتی ہے۔
 
Top