شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۱۵۶
چُناں چہ یہ نقل، ضربُ المثل ہے اور حقیقت میں اصل ہے۔ چشمِ عبرت ہیں اور گُوشِ شنوا اس کے دیکھنے اور سُننے کو درکار ہے، نیرنگیِ عشق کا اظہار ہے۔
نقل سوداگر کی بیٹی کی۔ انگریز کا آنا، فریفتہ ہو جانا؛ آخر کو جان دینا دونوں کا۔
کلکتے میں ایک سوداگر تھا عالی شان۔ متاعِ ہر دِیار، تُحفۂ جوار جوار دُکان میں فراواں۔ اُس کی بیٹی تھی حسین، مہر طلعت، ماہ جبیں، سیمیں تن، کافِرِ فرنگ، غارت گرِ لندن۔ غرض کہ اور تو اسباب سب طرح کا دُکان میں تھا؛ مگر گھر میں وہ زُور رقم، طُرفہ ٹوم تھی۔ فرنگ سے ہند تک اُس کے حُسن کا چرچا تھا۔ روم سے شام تک اور بنبئی سے سؤرت تک اُس کی صورت کی دھوم تھی۔ اُستاد :
ہے رخنہ سازِ ایماں وہ زادۂ فرنگی (۱)
اِسلام اب کہاں ہے؛ عاصی، فرامِشن ہے
ہزاروں انگریز، بِرِیز بِرِیز کرتے، اُس پر شیفتہ و بے تاب تھے۔ لاکھوں مسلمان سرگرداں، خستہ و خراب تھے۔ جب ہوا کھانے کو سوار ہو کر آتی تھی؛ راہ میں دو رویہ خلقت کی جان، اُس کی ہوا خواہی میں برباد جاتی تھی۔ گبرو ترسا اُس کا کلمہ پڑھتے تھے، یہود و نصاریٰ اُ س کا دم بھرتے تھے، مسلمان دل و جاں نذر کرتے تھے۔ مُؤلف :
چُناں چہ یہ نقل، ضربُ المثل ہے اور حقیقت میں اصل ہے۔ چشمِ عبرت ہیں اور گُوشِ شنوا اس کے دیکھنے اور سُننے کو درکار ہے، نیرنگیِ عشق کا اظہار ہے۔
نقل سوداگر کی بیٹی کی۔ انگریز کا آنا، فریفتہ ہو جانا؛ آخر کو جان دینا دونوں کا۔
کلکتے میں ایک سوداگر تھا عالی شان۔ متاعِ ہر دِیار، تُحفۂ جوار جوار دُکان میں فراواں۔ اُس کی بیٹی تھی حسین، مہر طلعت، ماہ جبیں، سیمیں تن، کافِرِ فرنگ، غارت گرِ لندن۔ غرض کہ اور تو اسباب سب طرح کا دُکان میں تھا؛ مگر گھر میں وہ زُور رقم، طُرفہ ٹوم تھی۔ فرنگ سے ہند تک اُس کے حُسن کا چرچا تھا۔ روم سے شام تک اور بنبئی سے سؤرت تک اُس کی صورت کی دھوم تھی۔ اُستاد :
ہے رخنہ سازِ ایماں وہ زادۂ فرنگی (۱)
اِسلام اب کہاں ہے؛ عاصی، فرامِشن ہے
ہزاروں انگریز، بِرِیز بِرِیز کرتے، اُس پر شیفتہ و بے تاب تھے۔ لاکھوں مسلمان سرگرداں، خستہ و خراب تھے۔ جب ہوا کھانے کو سوار ہو کر آتی تھی؛ راہ میں دو رویہ خلقت کی جان، اُس کی ہوا خواہی میں برباد جاتی تھی۔ گبرو ترسا اُس کا کلمہ پڑھتے تھے، یہود و نصاریٰ اُ س کا دم بھرتے تھے، مسلمان دل و جاں نذر کرتے تھے۔ مُؤلف :