شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹۷

شہ زادہ چیخ مار کر لپٹ گیا۔ دونوں مہجور اِس زُور شُور سے رُوئے کہ تمام باغ ہِل گیا، زمین و آسماں دہل گیا۔ جانِ عالم ہنُوز اپنے مصائب، وہاں تک آنے کا حال، فرقت کا درد و ملال کہنے نہ پایا تھا کہ انجمن آرا نے یہ کہا، لا اعلم :

تجھ بِن مری اوقات جو اکثر گزری
وہ حالتِ نزع سے بھی بدتر گزری

تو تو کہے سر گُذشت اپنی ظالم!
میں کس سے کہوں جو کچھ کہ مجھ پر گزری

یہ کہہ کر، پھر دونوں چِلا چِلا، آہ و بُکا سے رُونے لگے۔ دُنیا کے مُعاملے میں ہمیشہ سے کسی کی عقل نہیں لڑی، شِکست ہوئی ہے۔ شعر:

بیک لحظہ، بیک ساعت، بیک دم
وگر گوں می شود احوالِ عالم

مُؤلِف:

اک وضع پر نہیں ہے زمانے کا طور، آہ!
معلوم ہو گیا ہمیں لیل و نہار سے

ہر عُقدۂ مالا ینحلِ ناگُزیر کے واسطے ناخُنِ تدبیر خلق میں خلق کیا ہے۔ اور جہان میں، جہاں تدبیر کا دخل نہ ہو سکا، اُسے تقدیر کے حوالے کر دیا ہے۔ اکثر جس بات میں عقل عاجز آتی ہے، وہی طرفتُہ العین میں خود بہ خود ہو جاتی ہے۔

ناگہاں ایک سفید دیو زبردست، زُور کے نشے سے سرشار، مست، بڑا طاقت دار، رُستم کا یادگار اُدھر سے گزرا۔ نالۂ حزیں،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹۸

صدائے غمگین کان میں آئی۔ بس کہ بہ ایں زُور و طاقتِ خُدا داد، وہ دِیوِ نیک نِہاد رحم دل، غم رسیدُوں کا رنج کا شامل تھا، گریہ و زاری سُن کر دل کو بے قراری ہوئی، سمجھا: کوئی انسان نالاں ہے؛ مگر اِس صحرائے پُرخار، وادِیِ ہمہ تن آزار میں آدمی کا ہونا مُحال ہے۔ اگر ہے، تو حقیقت میں مُبتلاے الم، اسیرِ پنجۂ ستم، خراب حال ہے۔ یہ سوچ کر باغ میں آیا۔ یہاں رُوتے رُوتے دونوں کو غش آ گیا تھا۔ دِیو ڈھونڈھتا ہوا بنگلے میں آیا۔ دیکھا: مِہر و ماہ گردِشِ سِپِہرے بے مِہر سے بُرجِ زمُردیں میں بے ہوش ہیں۔ چہرے کے رنگ اُڑے ہوئے، سکتے کی حالت میں ہم آغُوش ہیں۔ روے یار آئینہ وار درمیاں ہے، فلک بر سرِ اِمتحان ہے۔ سمجھا: مدت کے بعد دونوں کا مقابلہ ہوا ہے، اِس سے کُسؤف و خُسؤف کا رنگ ڈھنگ پیدا ہے۔ سرِ بالینِ بیمارانِ محبت بیٹھ کر، نہر سے پانی لیا، دونوں کے مُنہ پر چِھڑکا۔ آنکھیں کھولیں، ہوش و حواس درست ہوئے۔ دیکھا کہ ایک دِیو سِرھانے بیٹھا ہے۔ سفید دِیو نے اُٹھ کر بہ آئینِ شایِستہ سلام کیا، تسلی کا کلام کیا، کہا: تشویس نہ فرمائیے، بندہ دوست دار، جاں نثار ہے۔

پہلے جانِ عالم اُتھا، بغل گیر ہوا۔ وہ حال پوچھنے لا۔ بس کہ شہ زادہ عالم نسانِ خوش بیاں تھا؛ اپنی رام کہانی چرب زبانی سے کہہ سُنائی۔ دیو ماجراے گُذشتہ سُن کر بے قرار، اشک بار ہوا، عرض کی: آپ بہ دِل جمعِیِ تمام آرام کیجیے: اب وہ قُرمساق
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۹۹

آئے، تو عملِ بد کی سزا پائے۔ جانِ عالم بہ شِدت لگاوٹ باز تھے؛ اُس سے بھائی چارا کیا، صیغۂ اُخُوت پڑھا۔ وہ بیچارہ بندہ بے دام، حلقہ بہ گُوش غلام ہوا۔ وہاں سے اُتھ کر باغ کی سیر کرتے تھے کہ وہ جفا کار بھی آ پہنچا۔ یہاں اور رنگ دیکھا کہ شہ زادی، آدمی زاد کے ہمراہ پھرتی ہے؛ سفید دِیو کا ہاتھ میں ہاتھ ہے، مُصاحبت کرتا ساتھ ہے۔ جل کر جانِ عالم پر جھپٹا۔ دیو سفید نے بہ جلدیِ تمام اُس نُطفۂ حرام کا ہاتھ پکڑا۔ وہ کافِر اُس رحم دِل سے لِپٹا۔ باہم کُشتی ہونے لگی۔ یہ کشمکش ہوئی کہ زمین جا بہ جا شق ہوئی۔ الغرض، بہ مددِ مددگار و قُوتِ پروردگار سفید دیو نے زمین سے لنگر اُکھاڑ کر، سِر اونچا کیا، زمین پر پٹک کے چھاتی پر چڑھ بیٹھا۔ جانِ عالم قریب آیا، زُور و طاقت کی تعریف کرنے لگا، کہا: جنابِ باری نے تجھ مسافروں کے مددگار کی یاری کی، جو ایسے مردؤد پر ایک دم میں تجھے فتح و ظفر حاصل ہوئی؛ اگر ناگوارِ طبع نہ ہو، میں بھی ایک زُور کروں۔ وہ بولا: بِسمِ اللہ۔ شہ زادے نے ایک شانے پر دھر، دوسرے سے گردن اُس سرکش کی مضبوط پکڑ، دھڑ سے کھینچ کر زمین پر دھڑ سے پھینک دی۔ دیوِ سفید یہ طاقت دیکھ کر، سفید ہو گیا، شہ زادے کا چہرہ سُرخ ہوا۔ وہ زرد رؤ، بے دین اسفلۃ السافِلین پہنچا۔

اس عرصے میں سفید دیو کے ملازم بھی حاضر ہوئے۔ دعوت کی تیاری، ضِیافت کی اِضافت کی۔ ایک ہفتہ اکل و شُرب، گانا ناچ خوب رہا۔
 

اوشو

لائبریرین
صفحہ 208
--------------
رنڈی مُوم کی ناک ہوتی ہے؛ جب گھِر گئی، جدھر پھیرا پھر گئی۔ بندر کی باتوں پر کچھ تعجب ، کچھ تَاَسُف کر کے کہنے لگی: ہنو مان جی! وہ کہانی کیسی ہے، سناؤ مہاراج۔
فسانہ سلطانِ یمن۔ سائل کو سلطنت دے کے غریبِ دِیار ہونا، سوداگر کے فریب سے شہہ زادی کا کھونا۔ پھر بیٹوں کی جُدائی، اپنی دشت پَیمائی۔ آخر سلطنت کا مل جانا، بیٹوں کا آنا، بی بی کا پانا، پھر سوداگر کا قتل کرنا۔
بندر نے کہا: سَر زمین یَمَن میں ایک بادشاہ تھا۔ مُلک اُس کا مالا مال، دولت لازَوال۔ بَخشِندہِ تاج و تَخت، نیک سیرت، فَرخُندہ بَخت۔ جد دم سائل کی صدا گُوشِ حق نِیُوش میں دَر آئی، وہیں اِحتِیاج پکاری: میں بَر آئی۔ یہاں تک کہ لَقَب اُس کا نزدیک و دور "خُدا دوست" مشہور ہوا۔ ایک رُوز کوئی شخص آیا اور سوال کیا کہ اگر تو خدا دوست ہے، تو للہ تین دن کو مجھے سلطنت کرنے دے۔ بادشاہ نے فرمایا: بِسمِ اللہ۔ جو اَراکینِ سلطنت، مسند نَشینِ حکومت حاضِر تھے؛ بہ تاکید اُنھیں حُکم ہوا کہ جو اس کی نافرمانی کرے گا، مَورِدِ عِتاب
 

اوشو

لائبریرین
صفحہ 209
-------------------
سُلطانی ہو گا۔ یہ فرما، وہ فرماں رَوا تَخت سے اُٹھا، سائِل جا بیٹھا، حکم رانی کرنے لگا۔
چوتھے روز بادشاہ آیا، کہا: اب قَصد کیا ہے؟ وعدہ پورا ہو چکا ہے۔ سائِل بولا: پہلے تو فَقَط اِمتِحان تھا، اب بادشاہت کا مزہ مِلا، برائے خُدا یہ تاک و تَخت یک لَخت مجھے بخش دے۔ بادشاہ نے فرمایا: بہ رضائے خدا یہ حکومت آپ کو مُبارَک ہو، مَیں بہ خوشی دے چکا۔ بادشاہت دے کر کچھ نہ ہَیہات لیا؛ فَقَط لڑکوں کا ہاتھ میں ہاتھ، بی بی کو ساتھ لیا۔ دل کو سمجھایا: اِتنے دنوں سلطنت، حکومت کی؛ چَنِدے فقیری کی کیفیت، فاقے کی لذّت دیکھیے۔ گُوجاہ و حَشَم مَفقُود ہے، مگر شاہی بہ ہَر کَیف موجود ہے؛ اَلّا اِس شہر میں سے کہیں اور چلنا فَرض ہے۔ حکمِ خُدا قُل سِیرُوا فِی الاَرضِ ہے۔ دُنیا جاے دید ہے۔ عِنایَتِ خالِق سے کیا بَعید ہے جو کوئی اور صورت نکلے۔ ایک لڑکا سات برس کا، دوسرا نو برس کا تھا۔ غَرَض کہ وہ حق پَرَست شہر سے تِہی دَست نکلا؛ بلکہ تکلُّف کا لباس بھی وہ خدا شَناس بار سمجھا، نہ لیا؛ جامہِ عُریانی جسم پر چُست کیا اور چل نکلا۔ نَیرنگیِ سِپہر بوٗ قَلَموٗں، دُنیا سے دوٗں کا یہ نقشہ ہے، مصرع:
کہ ایں عَجوزہ عَروسِ ہزار داماد است 1
کل وہ سلطنت، ثَروَت، کَرّ و فَر، اَفسر و تاج؛ آج یہ مصیبت، اَذِیَّت، دہ بہ در، پیادہ پا سفر، محتاج۔ کبھی دو کوس، گاہ چار کوس، بے نَقّارہ و کُوس، بہ ہزار رنج و تَعَب چلتا۔ جو کچھ مُیَسَّر
 

اوشو

لائبریرین
207 اور 206 تقسیم نہیں ہوئے یا نامعلوم
-------------
صفحہ 206
-----------------
کے لالے پڑے ہیں۔ مُصحفی:
مَرَضُ الموت سے کچھ کم نہیں آزار اپنا
دل میں دشمن کے بھی یا رب نہ چُبھے خار اپنا
اور جس کے واسطے آوار و سرگشتہ ہوئے، یہ صدمے سہے، نحوستِ بختِ نافَرجام، گردِشِ اَیّام سے اُسے کھو بیٹھے، وطن سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اب رَضینا بہ قَضا۔ مرضیِ مَولٰی اَز ہمہ اَولٰی۔ ناسخ:
مجھے فرقت کی اسیری سے رہائی ہوتی 1
کاش عیسیٰ کے عِوَض موت ہی آئی ہو تی
ابرِ رحمت سے تو محروم رہی کِشت مری
کوئی بجلی ہی فلک تو نے گرائی ہوتی
ہوں وہ غم دوست کہ سب اپنے ہی دل میں بھرتا
غمِ عالَم کی اگر اِس سے میں سمائی ہوتی
یہاں تو یہ باتیں تھیں؛ اُدھر چڑیمار کی جُورو چراغ لے کر بندر کو دیکھنے لگی۔ بندر سوچا: وہ کم بَخت بِر سَرِ رَحم نہ ہوا؛ کیا عَجَب یہ رنڈی ہے؛ اگر نَرم زَبانی سے مذکورِ آفتِ آسمانی سُنے اور مہربانی کرے۔ اِس خیال سے پہلے سلام کیا۔ وہ ڈری، تو یہ کلام کیا: اے نیک بَخت! خوف نہ کر، دو باتیں میری گُوشِ دل سے سُن لے۔ گنواریاں جی کی کڑی بھی ہوتی ہیں؛ بندر کو بولنا اَچنبھا سمجھ کر کہا: کہہ۔ وہ بو لا: ہم غریبُ الوَطَن، گِرِفتارِ رنج، مُبتلاے محن
-------------------
صفحہ 207
--------------------
گھر سے دور، قید میں مجبور ہیں۔ ماں باپ نے کس کس ناز و نِعَم سے پالا۔ فلکِ تَفِرقَہ پَرداز نے کون کون سی مصیبت دِکھانے کو گھر سے نکالا۔ یہاں تک دَر بہ دَر حیران پریشان کر کے پردیس میں بُرے دن دکھائے کہ تیرے پاس گِرِفتار ہو کر آئے۔ اُستاد:
پیدا کیا خدا نے کو کو نہیں عَبَث 1
لایا مجھی کو یاں یہ جہاں آفریں عَبَث
اب صُبح کو جب ہم گردن مارے جائیں گے، تب سَو روپے تمھارے ہاتھ آئیں گے۔ خونِ بے گناہ کی جَزا حَشر کو پاو گی۔ بَینکُنٹھ چھوڑ نَرَک میں جاؤ گی۔ پَیسہ روپیہ ہاتھ کا مَیل ہے؛ اِس پر جو مَیل کرتی ہو، کتنے دن کھاؤ گی؟ اگر ہمارے حال پر رحم کرو، خُدا اور کوئی صورت کرے گا۔ سو روپے کے بدلے تمھارا گھر اَشَرفیوں سے بھرے گا۔ ہمارے قَتل میں گُناہِ بے لذّت یا ایک موذی کی حسرت نکلنے کے سِوا اور کیا فائدہ ہے؟ اگرچہ ایسا جینا، مرنے سے بُرا ہے؛ لیکن خُدا جانے اِرادہِ اَزَلی، مَشِیّتِ اِیزَدی کیا ہے! ہماری تقدیر میں کیا کیا لکھا ہے! جو خدا کے نام پر نِثار ہے، اللہ اُس کا ہر حال میں مُمِد و مددگار ہے۔ تو نے بادشاہِ یَمَن کا قصّہ سُنا نہیں: ایک سلطنت للہ دی، دو پائیں، لالچیوں کی قضا آئی، جانیں گنوائیں۔
-----------------------
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
صفحہ 107

بگڑے جو دل تھے ،انکی کی چھولداریاں تنیں۔

جانِ عالم نے ان سے پوچھا : اس شہر کا نام کیا ہے اور حاکم یہاں کا کون ذی احترام ہے؟ اُنہوں نے دیکھا : اک جوان سرو قامت،قمر طلعت، خُسوف سفر، خاک رہ گذر میں نہاں ہے؛ مگر دبدبہ ِ شوکت و صولت، نشانِ جُرات چہرہ ء انور سے عیاں ہے۔ وہ خود کہنے لگے : آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ شہزادے نے کہا: بھائی سوال دیگر، جواب دیگر۔ آخر ایک شخص نے کہا : اس ملک کو زرنگار کہتے ہیں،بڑی چمک دمک کے لوگ اس میں رہتے ہیں۔ سنتے ہی ، چہرہ بشاشت سے کندن کی طرح دمکنے لگا۔ جو ریت کا ذرہ تھا، افشاں کی صورت منہ پر چمکنے لگا۔ دل سے کہا : یہ خواب ہے یا بیداری ! طالعِ گردش ِدہ سے امیدِ یاری و مددگاری نہ تھی ۔ایسی قسمت رہ بر ہماری نہ تھی ۔ پھر کچھ نہ پوچھا ، یہ کہتا چلا مولف :
للہ الحمد ٹھکانے لگی محنت میری
طے ہوئی آج کی منزل میں مسافت میری

دروازے سے آگے بڑھا ، شہر دیکھا قطع دار، ہموار، قرینے سے بازار۔کُرسی ہر دکان کی کمر برابر۔ مکان ایک سے ایک بہترو برتر ۔بیچ میں نہر جا بجا فوارے۔ سب عمارات شہر پناہ کے میل کی ،جواہر نگار ، سانچے کی ڈھلی ۔ہاتھ کا کام معلوم نہ ہوتا تھا ، کام اسکا معمارِ عقل کے ہوش کھوتا تھا ۔ نہ کہیں بَلندی نہ پستی ،ہموار بَسی ہوئی بستی ۔ایک کا جواب دوسری طرف ۔اِدھر
 

مقدس

لائبریرین
109

اونچا. برج ہرایک جہاں نما، خورشید سا چمکتا. لیکن جو لوگ درباری یا ملازم سرکاری آتے جاتے دیکھے، سب سیاہ پوش، خم خانہ الم کے جرعہ نوش. اس کا ماتھا ٹھنکا، پاؤں ہر ایک کئی من کا ہو گیا. ہر شخص کا منہ تکتا تھا، قدم اٹھ نہ سکتا تھا، گویا سکتہ تھا. کہتا: خدا خیر کرے! شگون بد ہے، دل کو بےقراری ازحد ہے. چند قدم اور بڑھا. سواری کا سامان سامنے آیا "بچو، بڑھائیو" کا شور بلند پایا۔ دیکھا: ایک خواجہ سرا پرانا، زیرک ودانا، محبوب علی خان نام، نواب ناظر سرا پردہ شاہی بااحترام؛ وہ بھی باخاطر حزیں، غمگین، سیہ پوش، حواس باختہ، ہوش فراموش، اندوہ یاد، رنج سے ہم آغوش۔
جان عالم نے سلام کیا۔ وہ جواب دے کر شہزادے کو دیکھنے لگا، حیران و ششدرمتحیر سا؛ اور سواری روکی، کہا: سبحان اللہ و بحمدہ! کیا تیری قدرت کی شان ہے! جنس بشر میں کس کس طرح کا پری پیکر خلق کیا ہے کہ چشم کوتاب جمال، زبان کی صفت کی مجال نہیں۔ نہایت متوجہ ہو کر پوچھا کہ اے شمشاد نو رستہ چمن جہاں بانی و سرو نوخیز بوستان سلطنت و حکم رانی! حضور کہاں سے رونق بخش اس شہر نحوست اثر کے ہوئے؟
شہہ زادے نے کہا: میاں صاحب، خیر ہے! ہم فقط اس شہراور یہاں کے شہریار کے شوق دید میں وطن سے بعید ہو، خستہ و خراب، بادل مضطروجان بےتاب یہاں پہنچے ہیں۔ برائے خدا، یہاں ی نحوست، اپنی سیہ پوشی کی علت بیان کیجیئے۔ خواجہ سرا نے
 

محمد عمر

لائبریرین
۲۳۶


کچھ چھپا اب نہیں رہا، یہ راز

ہے جہاں اِس سے س۔ خُن پَرواز

بو تغافُل نہ کر، تَرَحُّم کر

گوشِ دل جانِبِ تکلُّم کر


شعر:


قسمت تو دیکھنا کہ کہاں ٹوٹی ہے کمند

دو تین ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا


افسوس! يار نے عیّاری کی، دغا سے یہ نوبت ہماری کی۔ جس کا رُونا ہمیں ناگوار تھا؛ وہ ہمارے لہو کا پیاسا، قتْل کا رَوا دار تھا۔ یہ مَثَل سچ ہے : تیرھویں صَدی ہے، نیکی کا بدلا بدی ہے۔ محبوبوں کی تمنؔا دل میں رہی۔ وطن جانے کی حسرت آب و گِل میں رہی۔ دوستوں کا کہا نہ مانا؛ وہ آگے آیا، پچھتانا پڑا۔ بے اَجَل جلّاد کے فَریب سے ذَبَح ہوئے۔ طالِب و مطلوب جان جُوکھُوں میں پھنسے، زندہ دَر گُور ہوئے۔ اَلْحَقْ، دنیا دم مارنے کی جا نہیں۔ راز کسی سے کہنا اچھّا نہیں۔ منصور حَلّاج نے کلمۂ حق کہا تھا، نا حق لوگوں نے دار پر کھینچا۔ غَرَض جو بولا، وہ مارا گیا، جان سے بے چارہ گیا۔

کہتے تو کہا، پَر کچھ سوچ کر بات بنائی۔ جی میں دہشت کی کہ مَبادا یہ خبر اُس اَکْفَر کو پہنچے، تو یقینِ کامل ہو، جان دَشنَہ ظلم سے نہ بچے۔ کہا : اے ملکہ! کوئی کسی کمال سے دُنیا میں نِہال ہوتا ہے؛ یہ بے گناہ، گویائی کے سبب، ناحق حرام زادے کی بدولت


۲۳۷

حلال ہوتا ہے۔ مُؤلِّف:

کمالِ شَے، زَوالِ شَے ہے، اِس پر لاکھ حاسد ہوں

بھلا نازاں نہ ہوں کیوں کر میں اپنی بے کمائی کا

خدا جانے کہ دیکھا، دیکھ کر یہ چاند، مُنْہ کس کا

ہوئی ہے عید غَیروں کو، ہمیں ہے چاند خالی کا

میں نے دانِستہ اپنے ہاتھ سے پاؤں میں کُلھاڑی ماری، فلک نے بنا کر بات بگاڑی۔ مصرع :

اے روشنیِّ طَبْع! تو برمن بلا شدی


شعر:

گُل و گُلچیں کا گِلہ بلبلِ خوش لہجہ نہ کر (۱)


تو گِرِفتار ہوئی اپنی صدا کے باعث اب سَرِ دست کچھ تدبیر بن نہیں آتی ہے۔ صورتِ مَرْگِ آئینۂ چشم میں مَدِّ نظر ہے، ہماری ہمیں کو خبر ہے، کوئی گھڑی میں مُفت جان جاتی ہے۔ جو جانتا ہے، وہ دیکھتا ہے، جسے خبر نہیں، اُس سے کہہ دو: تمھارے واسطے غَریبِ دِیار ہوئے اور تمھارے سبب سے قَتْل کے سَزا وار ہوئے۔ شعر:

بجرمِ عشقِ توام می کُشند و غَوغائیست (۲)

تو نیز برسَرِ بام آ کہ خوش تماشائیست


اِن باتوں سے رہے سہے شک ملکہ کے بَرطَرَف ہوئے، سمجھی


۲۳۸

جانِ عالم یہی ہے۔ جواب دیا کہ جو جانتے تھے، اُن سے کیا ہو سکا، اَن جان کو تکلیف دینے سے کیا فائدہ! اور تُوتے کی گردن مڑوڑ، پنْجرہ باہر نِکالا۔ بندر کی نگاہ پنْجرے پر پڑی، سمجھا : ملکہ پہچان گئی، یہی فرصت کا وقت ہے۔ ہنگامہ و تَلاطُم تو مچا تھا، کسی نے دیکھا نہ بھالا؛ بندر سوداگر کی گُود میں لیٹ کر توتے کے قالِب میں پرواز کر آیا۔ تُوتا پھَڑکا، ملکہ کا خوشی سے دِل دَھڑکا، پنْجرہ اندر کھینچ لیا۔

سوداگر نے دیکھا : بندر مر گیا۔ چاہا : ہلاک ہو جائے، بدنامی کا قصّہ پاک ہو جائے۔ جو شخص خَواصی میں بیٹھا تھا، سمجھانے لگا :

بندۂ پرور شُکْر کرنے کی جا ہے، شکایت کا موقع کیا ہے۔ حُرمت رہی، جان بچی۔ مرگِ فرزند سے ماں باپ کو چارہ نہیں۔ مر جانا، بجُز حُمَقا عقْل مند کو گوارا نہیں۔ اگر بادشاہ جَبْر سے بندر کو چھین کر مار ڈالتا، جان کھُونے کی جگہ تھی۔ صبر کیجیے، جو خدا کی مرضی۔ اُس کی رَضا میں مجبوری ہے، جاے صَبوری ہے۔ صابِروں کا مرتبہ بڑا ہے، اُن کے حق میں اللہ فرماتا ہے، تم نے سُنا ہے کہ نہیں : اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۔

تماشائیوں پر یہ حال کھُلا، رُونے پیٹنے کا دونا شُور و غُل مچا۔ سب نے مُتَّفِق یہی کہا : بس کہ بندر عَقیل تھا، یہ پیامِ طَلَب، کُوسِ رَحیل تھا۔ سامنے جانے کی نوبت نہ آئی، سوداگر کی گُود خالی کر کے جان گنوائی۔ اپنا قتل جو ثابت ہوا، خوف سے مر گیا، داغِ تقریر


۲۳۹

ہمارے صَفْحۂ دل پر دَھر گیا۔ یہ خبر اُس کافِرِ اَکْفَر کو پہنْچی۔ اِس پر بھی چَین نہ آیا؛ لاس منْگا، جلا کے دل ٹھنڈا کیا۔ خاک تک برباد کی، جب تسکین ہوئی۔

وہاں ملکہ مہر نگار پنجرہ لے بیٹھی، لوگوں کو پاس سے سَرکا دیا۔ میاں مِٹھّو نے ھُوَ ھُوَ اِبتِدا سے اِنتِہا تک مُفَضَّل سب حال سُنا دیا کہ اِس طَرَح نشے کی حالت میں اُس کے رُونے پر عَمَل بتایا، وہ ہمیں پر عَمَل میں لایا، بندر بنایا۔ پھر چڑیمار کے جال میں پھنْسے، دوست روئے، دشمن ہنسے۔ وہاں سے سوداگر مَتاعِ خوبی سمجھ کر، اپنے پاس لایا۔ فلک نے بعدِ خرابیِ بِسیار آج تم سے مِلایا۔ ملکہ نے کہا : خاطِر پریشاں جمع رکھیے، اِنْشاءَ اللّٰہ تعالیٰ جلد کوئی صورت ہوئی جاتی ہے۔ یہاں یہ گفتگو تھی کہ اُس نُطْفَۂ شیطاں کی آمد ہوئی۔ ملکہ باہر نِکل آئی، تعظیم و تَواضُع کرنے لگی۔ ہمیشہ یہ معمول تھا : جب وہ آتا، ملکہ بات نہ کرتی مدارات نہ کرتی؛ طیش میں آتا، خَفیت ہو کر اُٹھ جاتا۔ اُس روز جو گفتگو ہوئی، وہ مَردَک سمجھا: بندر کا مرنا یہ چشم ملکہ نے دیکھا، اِس سے دب گئی، بے اِعتنائی کی بات اب گئی۔ جلدی نہ کرو، اِمْروز فَردا مُقَدَّمہ درست ہو جائے گا؛ لیکن پہلے اِسی سے فیصلہ شرط ہے۔ ملکہ کے باپ کا بہت ڈر تھا، اِس باعِث ملکہ کا پاس کرتا تھا کہ اُن کے باپ سے ہِراس کرتا تھا۔ جب رخصت ہونے لگا، ملکہ نے کہا: ایک بکری کا بچّہ خوب صورت سا ہمیں بھیج دو،



۲۴۰

پائیں گے، رنج کو ٹالیں گے۔ یا تو چُپ رہتی تھی، آج بچّہ مانگا؛ یہ بچّہ بہت خوش ہوئے۔ اُسی وقت ایک بَربَری کا بچّہ تُحفہ، بھجوا دیا۔ دوسرے روز جو آیا، ملکہ کو زیادہ مُتّوجِّہ پایا۔ اُس کے رو بہ رو بچّے سے کھِیلا کی۔ دو تین روز یہی صُحبت رہی۔

ایک روز ملکہ نے بچّے کو دبا کر اَدھ مُوا کر دیا اور چُوبدار دوڑایا کہ شہ زادے کو جلد بُلا لا، عرض کرنا : اگر دیر لگاؤ گے، جیتا نہ پاؤ گے۔ یہ خبر سُن کر وہ محل سَرا کا عازِم ہوا۔ ملکہ نے پنجرہ اُس ہُماے اَوجِ سلطنت کا پلنگ کے پاس رکھ لیا۔ جب وہ نابکار رو بہ رو آیا، ملکہ نے بچّہ گود میں اُٹھا کے اِس زُور سے دبایا کہ وہ مر گیا۔ اُس کا مرنا، اِس کا نالہ و فریاد کرنا۔ گِریباں چاک کرنے کی، بَکھِیڑا پاک کرنے کی تدبیر کی۔ وہ بے قرار ہو کر بہ مِنّت بولا : ملکہ ! ہزار بچّہ اِس سے اچھّا بھی موجود ہوتا ہے، تم کیوں روتی ہو، جی کھُوتی ہو۔ ملکہ نے اُسی حالت میں کہا: میں کچھ نہیں جانتی، تم اِسے ابھی جِلا دو، جو میری خوشی چاہتے ہو۔ وہ بولا : مُردہ کہیں جِیا ہے؟ بھی کِسی نے، سِوائے مَسیح، ایسا کیا ہے؟ ملکہ نے رُو کر کہا : واہ! تم نے میری مَینا جو جِلائی تھی، جب میں بِلبِلائی تھی۔ یہ دل میں سمجھا : شاید شہ زادے نے یہ حرکت کی ہو گی! کارخانے مُسَبِّب الْاَسباب کے مشہور و معروف ہیں۔ دُنیا میں، مَثَل ہے : کہ کرد کہ نیافت۔ جس نے جیسا کیا، ویسا


۲۴۱

پایا۔ ہر فرعونے را موسیٰ۔ رُباعی :

اے یار! جو کوئی کسی کع کلپاوے گا

یہ یادرہے، وہ بھی نہ کل پاوے گا

اِس دارِ مُکافات میں، سُن کے غافل!

بیداد کرے گا آج، کل پاوے گا

وہ بدحواس پوچھنے لگا : ہم نے مَینا کیوں کر جِلائی تھی؟ ملکہ بولی : تم پلنگ پر لیٹ رہے تھے، وہ جِی اُٹھی تھی۔ یہ پتا بھی درست پایا اور قضا کا زمانہ قریب آیا، کہا : بچّہ گُود سے رکھ دو۔ ملکہ نے پھینک دیا۔ وہ پلنگ پر لیٹا، اپنی روح بچّے کے قالِب میں لایا، وہ اُٹھ کر کودنے لگا۔ ملکہ مہر نگار نے گُود میں لیا، پیار کیا۔ وہ سُوچا، دو گھڑی ملکہ کی طبیعت بہل جائے، پھر روح قالِب میں لے جاؤں گا، مطلب تو نکل آئے۔ یہ نہ سمجھا فلک کی گھات ہے، فریب کی بات ہے؛ چرخ کو کچھ اور چکّر منظور ہے، اب اُس جسم کے نزدیک جانا بہت دور ہے۔ شہ زادہ جانِ عالم یہ سب مُعاملے پنجرے سے دیکھ، سُن رہا تھا؛ قالب کو خالی پایا، فوراً اپنی روح اپنے جسم میں لایا، مُنْہ سے اِلّا اللّٰہ کہا، اُٹھ کھڑا ہوا۔ وہ بُزْدِلا جانِ عالم کو دیکھ کہ تھرَّا گیا، خون چھا گیا۔ سمجھا قسمت اب بُری ہے، کوئی دم کو گلا ہے اور چھُری ہے۔ ملکہ نے جلد دو اَنچھَر وہ پڑھ کر پھونک دیے کہ وہ اَور کے قالِب میں روح لے جانا بھول گیا۔

پھر انجمن آرا کو بلایا، کہا : لُو صاحِب مبارک ہو! اللّٰہ تعالیٰ نے تمھاری ہماری حُرمت و آبرو کو بچایا، بِچھرے سے مِلایا۔ یہ


۲۴۲

آپ کا اَحْمَقُ الَّذی شہ زادہ ہے۔ وہ بکری کا بچّہ؛ بے دین، حرام زادہ وزیر زادہ ہے۔ یہ کہ کر تینوں عاشق و معشوق گلے مِل مِل خوب روئے۔ جو جو مَحرمِ راز تھیں، دوڑیں، مبارک سلامت کی دھوم ہوئی، بَشَّاش ہر ایک مغموم ہوئی۔ جانِ عالم نے اُسی وقت سوداگر کو طلب کیا، اپنی سَرگزشت سے آگاہ سب کیا۔ بعد اداے شکرِ نعمت، خِلعتِ مُکلَّف اور انعام ہر اَقسام کا مع ہاتھی، پالکی عنایت کیا۔ وطن آنے کا وعدۂ حَتْمی لیا۔ پھر چڑیمار اور اُس کی جورو کو بلایا۔ روپیہ اشرفی، زر و جواہِر دے کر فِکرِ دُنیا سے بری کر دیا اور مَشورَہْ غضنفر شاہ اُس مَمْلِکَت کے چڑیماروں کا چودھری کر دیا۔ پھر لشکرِ ظَفَر پَیکر کو حکم تیّاریِ سامانِ سفر فرمایا، آپ رخصت ہونے کو غضنفر شاہ پاس آیا۔ آخِر کار بہ دِقّتِ تمام و طولِ كلام، درازِیِ اَیَّامِ مُفارَقَتِ والِدَین کہہ کر اُسے راضی کیا۔ پِیش خَیمہ اُسی دن لَد گیا۔ دو چار دن رخصت کی دعوتوں میں گُزرے۔ اخیر جلسے خوب دھوم دھڑکّے کے ہوئے۔ اپنے عِمَل تک غضنفر شاہ ساتھ آیا۔ تمام لشکر نے اۃس کی سرحد تک پکّا پکایا پایا۔ پھِر رُخصت ہوئے۔ وہی دو چار کوچ، ایک دو مُقام کرتے بہ راحت و آرام چلے۔

ناقہ بِٹھانا تقدیر کا پھر اُسی دشتِ پُر خوف و خطر میں۔

لبِ حوض خِیامِ شاہی ہونا، ساحرہ کا آنا، تمام لشکر کو

نصف پتھّر بنانا۔ سب کا رونا، پھر ملکہ کے باپ کا آنا۔


۲۴۳

آفت سے چھُڑانا صُفوف آرائی افواجِ شاہی۔ جادوگر اور جادو گرنیوں کی لڑائی شَہپال کا قتل، لشکر کی رہائی۔


نظم :

نِگارِ ندہ داستانِ عجب

یہ لکھتا ہے پھر ماجرائے غَریب

طِلِسمِ جہاں دید کا ہے مکاں

پھنسے اِس میں رہتے ہیں پیر و جواں

و لیکن ہنسا جو کوئی غُنچۂ ساں

ہُوا مثلِ گُل دِست بُرد خزاں

جسے ہم نے دیکھا، وہ تھا دِل حَزیں

خوشی کی جگہ، سچ ہے، دُنیا نہیں

مُحَرّانِ جادو نِگار و سِحْرساز

راقِمانِ فَسانۂ ہوش رُبا ا حیرت پَرداز

نے لکھا ہے کہ جانِ عالم ہر صُبْح مِثّلِ مِہرِ دَرَخشاں قَطْعِ مَنازِل و مَراحل یعنی کوچ، و ہر شام مانِندِ ماہِ تاباں مُقام کرتا؛ چند عرصے میں پھر اُسی دَشتِ اِدْبار و صحراے خار خار، جہاں حَوض میں کود پڑا تھا، وارِد ہوا۔ حَوض کے مُتّصِل سَرا پردۂ خاص نَصْب ہوئے۔ گِرْد لشکرِ نُصرت اثر اُترا۔ انجمن آرا اور ملکہ مہر نگار کو وہ چشمہ دکھایا، ماجرا گُذَشتہ زَبان پر لایا۔ جب دن تمام ہوا، نمازِ شام کے واسطے جُدا خَیمے میں تشریف لایا۔ بعدِ اداے فریجۂ باری، راہ کے کَسَل سے لیٹنے کی تیّاری کی۔ پَلنگڑی جواہِر نِگار بچھی تھی، اُس پر اِستراحت فرمائی۔ سُستی کے باعث غُنودگی سی تھی کہ دَفعتہً ایک خَواصِ خاص انجمن آرا کی بد حواس دوڑی آئی، کہا : شہ زادۂ عالم


۲۴۴

کی عُمر دراز ہو، قضا مُطیع، قَدَر دم ساز ہو، نصیبِ دُشمناں شہ زادی کی طبیعت نا ساز ہے، سب کی عقْل کو پرواز ہے۔ شدّت سے کلیجے میں درد ہوتا ہے، چھوٹا بڑا محل کا روتا ہے۔ وہ نقشِ سُلَیمانی اور لَوح دیجیے، دُھو کر پلا دیں۔ یا اور کوئی تَجْرِبے کی چیر عنایت ہو کہ کھلا دیں۔

عارِضۂ مِزاج مطلوب، بَد مزگیِ طبیعتِ محبوب سُن کے بے قرار ہوا۔ عقْل اُڑ گئی، حواس فرار ہوا۔ کچھ نینْد کا خُمار، کُچھ طبیعت کا اِنتشار، دیکھا نہ بھالا، نہ وقفہ کیا نہ ٹالا، لَوح و نقش حوالے کیا۔ نقش دیتے ہی نقشہ بگڑ گیا، مُقَدَّمہ سب خراب ہوا، ثواب کے بدلے عذاب ہوا۔ ایک آوازِ مُہیب پیدا ہون کہ اے جانِ عالم! بہت دِنوں اُڑا پھِرا، مدّت کے بعد پھنسا، خبردار ہو جا! ایسی آواز ہولناک تھی کہ سب لشکر ڈر گیا، شُجاعوں کے دل تھرّا گئے، محل میں رنڈیوں کو غَش آ گئے۔ گھبرا کر شہ زادے نے اُٹھنے کا قَصْد کیا، جگہ سے ہِلا نہ گیا۔ غور جو کیا تو آدھا جِسم پتھّر کا تھا۔ پھر تو جہاں بیٹا تھا بیٹھا رہ گیا۔ جو کھڑا تھا، وہ زمین میں گڑا تھا، اَینْٹھا رہ گیا۔ ہر طرف غُل اور شُور تھا۔ جو پڑا تھا، زندہ دَر گُور تھا۔ کچھ دُکھ، کُچھ ہنسی تھی۔ تمام فوج آفَتِ ناگَہانی میں پھنسی تھی۔ عجب کھَل بَلی مچی، نا مَردوں کی بانی پَچی۔ کپل لشکر انسان سے حیوان تک نیچے کا دَھڑ پتھّر کا، اوپر کا جِسم بہ دستور۔ آہ و نالہ، فرياد و بُکا سب لشکر میں بَپا تھا۔ اور محل سَرا میں بھی یہی ہنگامہ مچا تھا، ہر ایک گِرِفتارِ بلا تھا۔ وہ رنڈیوں کی زاری، انجمن آرا کی بے قراری! عَلَی الْخُصوص ملکہ کے بیان سے زمین و آسماں کانْپتا تھا، جب وہ یہ کہتی تھی، شعر:

ہر دم زمانہ داغِ دگرگونہ در دہد

یک داغ نیک ناشدہ داغِ دگر دہد
 
رہا ہونا جادوگرنی کے جال سے اور ملاقات ہونی ملکہ مہرنگاہ سے۔ پھر ملکہ کے باپ سے ملنا ، لوح لے کے چل نکلنا

ص 72
قرار پاتی نہیں جانِ زار بِن تیرے
ستا رہا ہے دلِ بے قرار، بِن تیرے
گھمنڈ تھا مجھے جن جن کا، سب وہ بھاگ گئے
حواس و ہوش ، شکیب و قرار ، بِن تیرے
سُرورِ کُشتۂ محبوب، خاک شَرْح کرے
بَسرَ جو کرتا ہے لَیل و نہار بِن تیرے

خُلاصۂ کار یہ کہ اسی حالِ خراب اور دلِ بے تاب سے ہر روز سَر گرمِ منزل تھا، دیٖدَۂ دیٖدار طَلَب سے رواں خونابَۂ دِل تھا۔

رِہا ہونا اس گِرِفتار ِدامِ سِحر کا جادو گرنی کے جال سے، اور ملاقات ہونی ملکہ مہر نگار صاحبِ حسن و جمال سے، ملکہ کی طبیعت کا لگاؤ، تازہ شمشیرِ الفت کا گھاؤ، باہم کی چھیڑ چھاڑ، بناؤ کا بگاڑ، پھر ملکہ کے باپ سے ملنا، لَوح لے کے چل نکلنا۔

عشق ہے تازہ کار تازہ خَیال
ہر جگہ اِس کی ایک نئی ہے چال

کہیں آنسو کی یہ سِرایَت ہے
کہیں یہ خوں چِکاں حِکایت ہے

گَہ نمک، اِس کو داغ کا پایا
گہ پَتَنگا ،چراغ کا پایا

کہیں طالب ہوا کہیں مطلوب
اِس کی باتیں غرض ہیں دونوں خوب

یہاں سے دَشْت نَوَرْدان ِوادِیِ سُخََن، جگِر اَفگار و غُربَت زَدَگانِ پُر مِحَن و سینہ ریش با پائے زخم دار و دلِ خار خار، بیان کرتے ہیں کہ وہ مسافِر ِصَحرائے اَندُوہ و حِرماں ، عازِمِ سِمتِ جاناں؛ بے تُوشَہ و

صفحہ 73
-

صفحہ 74
کی فرشتوں کی راہ، ابر نے بند
جو گناہ کیجئے، ثواب ہے آج

ندیاں نالے چڑھے، دریا بڑھے، جھیلیں، تالاب لبِ ریز، ڈبرے موجِ خیز، پپیہے کا کا مستوں سے مخاطِب ہونا، پی پی کہہ کہ آپی جان کھونا، کوئل کی کوکو اور توتو کی کلیجا منہ کو آتا تھا، مور کا شور، برق کی چمک، رعد کی کڑک، ہوا کا زور زور رنگ دکھاتا تھا، شام کا وقت غروبِ آفتاب کا عالم، جانوروں کا درختوں پر بیٹھنا باہم، زمین پر فرش زمرویں یکسر بچھا، جہاں تک نظر جاتی، دھان لہریں لے رہا، آسمان میں رنگا رنگ کی شفق پھولی، شام اودھ کی سیر بھولی، ایک سمت قوس قزاح جسے دھنک کہتے ہیں، یہ صد جلوہ و شان، فلک پر نمایاں ، سُرخ، سبز، زرد، دھانی لکیریں عیاں، بلبل کے چہچہے، درخت سر سبز، لہلہے، کوسوں تک سبزہ زار، پھولوں کی بہار، کہیں ہرن چرتے، کہیں پرند سیر کرتے، کسی جا طاوسانِ طنَّاز، سرگرم رقص ناز، لب ہر چشمہ آب، مرغ آبی و سرخاب، کبھی نمود ہونا ماہ کا، چکور کا دوڑنا، بھرنا آہ کا، دونوں وقت ملتے، اس دید کی خراش سے دل پاش پاش، زخم جگر چھلتے، یہ سیر جو ہجر جاناں میں نظر سے گزر جائے، کیوں کر دل ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو، بھاری نہ بھر آئے، استاد۔۔

کار اخگر کرتی ہے بند تن پر یار بن
کیا عجب،گر ہوں ہرے داغِ جگر برسات میں

75
قاعدہ ہے جب آدمی کو سامانِ عیش و نَشاط، اِس طرح کی سَیرِ فرحت و اِنبساط مُیَسّر ہوتی ہے؛ جسے پیار کرتا ہے، وہ یاد آتا ہے۔ شہزادے نے مُدّت کے بعد یہ فرحت و فِضا جو دشت میں پائی، یار کی یاد آئی؛ آنکھیں بند کر کے کہا، شعر:

میں وہ نہیں جو کروں سَیرِ بُوستاں تنہا
بہشت ہو تو نہ مُنّہ کیجے باغباں، تنہا

اِس سوچ میں بیٹھا تھا، ایک طرف سے سواری کا سامان نظر آیا۔ "ادب" اور "ملاحظہ" کا غُل، "تَفاوُت" اور "قرینے"، "نگاہ رو بہ رو" کا شُور بَلند ہوا۔ غور جو کیا، رنڈیوں کا غُول سامنے آیا۔ یہ گھبرایا؛ دھوکا پا چکا تھا، جنگل میں غُوطہ کھا چکا تھا۔ سَنبَھل بیٹھا اور اَسمائے رَدّ سِحر پڑھنے لگا، بہ موجِبِ مَثَل: دودھ کا جَلا چھاچھ پھونک پھونک پیتا ہے۔ جب وہ آگے بڑھیں، غَور سے دیکھا: چار پانچ سَے عورت ہری زاد، حور وَش، غیرتِ سَرد، خَجلت دِہِ شَمشاد، زَرّیٖں کمر، نازک تَن، سیٖم بَر، چُست و چالاک، کم سِن، اَلَّڑھ پنے کے دن، اچھلتی کودتی، مردانہ وار پیادہ؛ اور جَواہِر نِگار ہَوا دار پر ایک آفتابِ مَحشر سوار، گِرد پریوں کی قَطار، تاجِ مُرَصَّع کَج سِر پر، لباسِ شاہانہ پُر تکلُّف دَر بَر، نیٖمچَۂ سُلَیمانی اُس بلقیس وَش کے ہاتھ میں، سیٖماب وَشی بات بات میں، صید کرنے کی گھات میں۔ اور بندوقِ چَقماقی خاص لندن کی، طائِرِ خَیال گِرانے والی برابر رکّھے؛ شکار کھیلتی، سَیر کرتی چلی آتی ہے۔ حُسنِ خدا داد بے مِثال، کاہِشِ بَدر، غَیرتِ ہِلال، عجب سِن و سال۔ مِیر حَسَن:

برس پندرہ یا کہ سولہ کا سِن
جوانی کی راتیں، مُرادوں کے دن

طالِعِ بِیدار آوَر، اِقبال دَم ساز۔ غَمزہ و عِشوَہ جِلَو میں۔ انداز و ادا رَو میں۔ آفتِ جانِ عاشِق، سرمایۂ ناز۔ جانِ عالم نے بہ آوازِ بَلند کہا،

76
میرتقی میر:
کیاتنِ نازک ہے،جاں کو بھی حسد جس تَن پہ ہے
کیابدن کا‌رنگ ہے، تَہ جس کی پیراہن پہ ہے

یہ صدا، جو اہتمام سواری آگے آگے کرتی تھی، ان کے کان میں پڑی اور نگاہ جمالِ جان عالم سے لڑی ؛دفعۃً سب کی سب لڑ کھڑا کر ٹھٹھک گئیں۔ کچھ،سکتے کے عالم میں سہم کر جھجھک گئیں۔کچھ بولیں:ان درختوں سے چان٘د نے کھیت کیا ہے۔کوئی بولی: نہیں ری سورج چھپتاہے۔کسی نے کہا: غور سے دیکھ ماہ ہے۔ایک جھانک کر بولی: باللّٰہ مگر چودہویں کا چاند ہے۔ دوسری نے کہا:اس کے روٗبہ روٗ وہ بھی مان٘د ہے۔ ایک نے غمزِےسے کہا چان٘د نہیں تُو تارا ہے۔ دوسری چٹکی لے کر بولی: اچھال چھکّا!تو بڑی خام پارا ہے۔ایک بولی:سَرْو ہے یا چَمنِ حُسن کا شمشاد ہے۔ دوسری نے کہا: تیری جان کی قَسَم پَرِستان کا پری زاد ہے۔ کوئی بولی: غضب کا دلدار ہے۔ کسی نے کہا: دیوانیوں! چپ رہو! خدا جانے کیا اِسْرار ہے۔ ایک نے کہا: چلو! نزدیک سے دیکھ، آنکھ سین٘ک کر دل ٹھنڈا کریں۔ کوئی کھلاڑن آئی کہہ اٹھی:دور رہو، ایسا نہ ہو اسی حسرت میں تمام عُمْر جل جل مریں۔ایک نے خوب جھانک تاک کے کہا:خدا جانے تم سب کے دیٖدوں میں چربی کہاں کی چھ گئی ہے۔کیا ہواہے! یہ تو بھلا چنگا،ہٹّاکٹّا مردُوا ہے۔
سواری جورُکی، ملکہ نے پوچھاخیر ہے۔ سب نے ڈرتے ڈرتے دست بستہ عرض کی: قربان جائیں، جان کی امان پائیں تو زبان پر لائیں؛ہمیشہ

77
سواری حضور کی اِس راہ سے جاتی ہے، مگر آج خلافِ معمول اِن درختوں سے ایک شکلِ دل چسپ ایسی نظر آتی ہے کہ، فرد:
سنا یوسف کو، حسینانِ جہاں بھی دیکھے
ایسا بے مثلِ طرح دار نہ دیکھا نہ سنا

ملکہ متعجّب ہوکے پوچھنے لگی: کہاں؟ ایک نے عرض کی: وہ حضور کے سامنے۔ جیسے ملکہ کی نگاہ چہرۂ بے نظیر، صورتِ دل پذیر جانِ عالَم پر پڑی، دیکھا: ایک جوان، رشک مہِ پیرِ کنعاں، رعنا، سر وقامت، سہی بالا، بحرِ حسن وخوبی کا دُر یکتا، کاسۂ سر سے فَرِّ شاہی نمایاں، بادۂ حسنِ دل فریب سے معمور ہے۔ دماغِ کِشوَرِستانی ہے، اٹھتی جوانی ہے، نشۂ شباب سے چَکناچُور ہے۔ خمِ ابرو محراب حسیناں سجدہ گاہِ پردہ نشیناں۔ چشمِ غزالی سرمہ آگیں ہے۔ آہوئے رَم خوردۂ کِشورِ چیں ہے۔ چِتوَن سے رمیدَگی پیدا ہے۔ مستِ مےِ محبت ہے، اِس پر چوکنّا ہے۔ دیدے کی سفیدی اور سیاہی لیل ونہار کو آنکھ دکھاتی ہے۔ سوادِ چشم پر حور سُوَیدائے دل صدقے کیا چاہتی ہے۔ حلقۂ چشم میں کتنے ہموار مَردُمِ دیدہ دھرے ہیں۔ صانعِ قدرت نے موتی کُوٹ کُوٹ کے بھرے ہیں۔ مِژَہ نُکیلی اس کماں ابرو کی دل میں دوسار ہونے کو لَیس ہے۔ رشکِ لیلیٰ یہ غیرتِ قیس ہے۔ ناوَکِ نگاہ سے سِپَرِ چرخ تک پناہ نہیں۔ دل دُوزی بے گناہوں کی اِس کی ملت میں صواب ہے، گناہ نہیں۔ لَوحِ پیشانی، تختۂ سیمیں یا مَطلعِ نُور ہے، یا طباشیرِ صُبح یا شمࣿعِ طُور ہے۔ کاگُلِ مُشکیں سے

صفحہ 78
زلفِ سنبل کو پریشانی ہے، بوباس سے خُتَّن والوں کے ہوش خطا ہوتے ہیں، حیرانی ہے، عنبریں مویوں کی زندگی وبال ہے، بال بال پر پیچ و خم دار ہے، رو سے تاباں بسان چشمہ حیواں ظلمت سے نمودار ہے، ہما اپنے پرو بال سے اس صاحب اقبال کا مگس راں ہے، رخ تابندہ کی چمک سے نیرِ اعظم کا لرزاں ہے، لب گل برگ تر پر سبزے کی نمود ہے، یا دھواں دھار مشتاقوں کے دل کا دور ہے، نظر جھپکتی ہے، تجلی قدرت رب ودود ہے، ہر حلقہ گیسوئے معنبر کا کمند گرہ گیر ہے، مگر بالوں کے الجھنے سے کھلتا ہے کہ کسی کے زلفِ پیچاں کا خود بھی اسیر ہے، خندہ ونداں نما ہے، ہونٹ لعل بدخشاں کا رنگ ہٹاتا ہے،دانتوں کی چمک سے گوہر غلطاں بے آب ہوکر ٹوٹا جاتا ہے،معشوقوں کا ان پر دانت ہے،دل و جاں وارتے ہیں، جو نظر سے پنہان ہوں، داڑھیں مارتے ہیں، دم تقریر درج وہاں جو کھولتا ہے، سامع موتی رولتا ہے، ہر کلمہ اعجاز نما ہے، بیمار محبت کا مسیحا ہے، دونوں ہاتھ نہال الفت کی شاخ بردار ہیں، دل کی دست بردی کو اور خزانہ قاروں کو بانٹ دینے کو سر دست تیار ہیں، کف دست کی لکیر میں، دست آویز محبت ید قدرت سے تحریر ہے، سر نوشت سے یہ کھلتا ہے کہ سلسلہ الفت میں کسی کے رگ و پے بستئہ زنجیر ہے، مزآت سینہ میں عکس افگن کوئی صاحب جمال ہے، مد نظر کسی کا خیال ہے، کمر نازک جستجو پر چست باندھی ہے، گو بیٹھا سست ہے، چلنے کو مثل صبا آندھی ہے، پاؤں وادی تلاش میں سر گرمِ رفتار

79
ہیں۔ زِیرِ قدم دَشت و کُہسار ہیں۔ مگر قسمت اپنی بَر سَرِ یاری ہے کہ ہمارے دام میں یہ ہُمائے اَوجِ شَہر یاری ہے۔
یہ تصوّر دل میں تھا کہ کار پَردازانِ محکمۂ ناکامی حاضر ہوئے اور مُشّاطۂ حُسن و عشق نے پیش قدمی کر مَتاعِ صبر و خِرَد، نَقدِ دل و جاں، اَثاثِ ہُوش و حَواس، تاب و تَوانِ ملکۂ جگر فِگار اَرمَغانِ رونُمائی میں نَذرِ شہ زادۂ والا تَبار کیا۔ عقل و دانش گُم، صُّمٌّ بُکمٌ کا نقشہ ہوا۔ حضرتِ عشق کی مدد ہوئی، سب بلا رَد ہوئی۔ شوقِ وصل دل میں پیدا ہوا، جی شیدا ہوا۔ دَفعَۃً کیا تھا، کیا ہوا۔ میر تقی :

تھی نظر، یا کہ جی کی آفت تھی
وہ نظر ہی وَداعِ طاقت تھی
ہُوش جاتا رہا نگاہ کے ساتھ
صبر رخصت ہوا اک آہ کے ساتھ
دل پہ کرنے لگا تَپیٖدن ناز
رنگ چہرے سے کر گیا پرواز

ملکہ تَھر تَھرا کر ہَوا دار پر غَش ہوئی۔ خَواصوں نے جلد جلد گُلاب اور کیوڑا، بِید مُشک چِھڑکا۔ کوئی نادِ علی پڑھنے لگی۔ کوئی سورۂ یوسف دَم کرنے کو آگے بڑھنے لگی۔ کسی نے بازو پر رومال کھینچ کر باندھا، تَلوے سَہلانے لگی۔ کوئی مِٹّی پر عِطر چِھڑک کر سُنگھانے لگی۔ کوئی بِید مُشک سے ہاتھ مُنھ دھوتی تھی۔ کوئی صدقے ہُو ہُو روتی تھی۔ کوئی بولی: چِہلِ کُنجی کا کَٹورا لانا۔ کسی نے کہا: یَشب کی تختی دُھو کے پِلانا۔ کسی نے کہا: بِلا رَیب آسیب ہے۔ کوئی بولی: اُسی کے دیکھنے سے دل نا شَکیب ہے۔ کوئی بولی: یہ تو عجب چمک کا ماہ پارہ ہے؛ اِس کا دیکھنا یہ رنگ لایا، گویا چاندنی نے مارا ہے۔ کوئی سمجھی: یہ شخص ہم جِنس نہیں، قِسمِ جِن سے ہے۔ کوئی بولی: دیوانیو ! یہ غَشی

80
تقاضائے سِن سے ہے۔
غَرَض کہ دِیر میں ملکہ کو اِفاقہ ہوا؛ مگر دل مُضطرِب، تَپاں۔ خواہِش اُسی طرف کَشاں۔ جَذبِ عشق سے مَقناطیٖس و آہَن کا عالَم۔ کَشِشِ مَحبت سے کاہ و کَہرُبا اُسی دَم ہو گئی۔ رنگِ رو طائرِ پَریٖدہ۔ صبر و ضَبط دامن کَشیدہ۔ مَشوَرہ ہوا سواری اِدھر سے پھیرو، ملکہ کو بیچ میں گھیرو؛ لیکن تابِ تَحمّل، یاراے جَبر ملکہ کو بالکل نہ رہا، اُس بدحواسی میں کہا تو یہ کہا: دیوانیاں ہو؛ یہ کوئی مسافر بے چارہ، خانُماں آوارہ، غُربت کا مارا تھک کر بیٹھ رہا ہے، اِس سے ڈرنا کیا ہے! قریب چلو، حال پوچھو۔ ناچار، وہ سب فرماں بردار چلیں؛ مگر جِھچَکتی، ایک دوسرے کو تَکتی۔ جوں جوں سوادج قریب جاتی تھی، ملکہ کی چھاتی دَھڑکتی تھی، دل میں تڑپ زیادہ پائی جاتی تھی۔ اگر چہ جمالِ پری تمثالِ ملکہ مہر نگار بھی سِحرِ سامری کا نمونہ، مَہ و مِہر سے چمک دمک میں دونا، عابدِ کُش، زاہدِ فریب تھا؛ جانِ عالم بھی بے چین ہوا، مگر دامنِ ضبط دَستِ اِستقلال سے نہ چھوڑا۔ جس طَرَح بیٹھا تھا، جُنبِش نہ کی، تِیور پر میل نہ آیا۔

ایک خَواصِ خاص بہ اِشارۂ ملکہ آگے بڑھی، پوچھا: کیوں جی میاں مُسافر! تمھارا کدھر سے آنا ہوا؟ اور کیا مصیبت پڑی ہے جو اکیلے، سوائے اللہ کی ذات، ہَیہات، کوئی سنگ نہ ساتھ، اِس جنگل میں وارد ہو؟ شہ زادے نے مسکرا کر کہا: مُصیبت، خَیلا، تجھ پر پڑی ہوگی۔ معلوم ہوا یہاں آفت زٓدے آتے ہیں، ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ کہو تم سب کی کیا کم بَختی، اَیّاموں کی گَردِش، نصیبوں کی سختی ہے؛ جو خاک پھانکتی، مسافروں کو تاکتی جھانکتی، چُڑیلوں کی طرح ناکام سرِ شام

صفحہ 81
پھرتی ہو! سوکھے میں مسافروں پر پھسل پھسل کے گرتی ہو۔
ملکہ یہ کلمہ سُن کے پھڑک گئی اور ہوا دار آگے بڑھا، خود فرمانے لگی: واہ وا صاحب! تم بہت گرما گرم، تُند مزاج، حاضر جواب، پا بہ رَکاب ہو۔ حال پوچھنے سے اِتنا درہم برہم ہوئے، کڑا فقرہ زبان پر آیا۔ اِس مُردار کے ساتھ، تھوتھو، مجھ چُھٹ سب کو پِچھل پائیاں بنایا۔ جانِ عالم نے کہا: اپنا دستور نہیں کہ ہر کس و ناکس سے ہم کلام ہوں۔ دوسرے، مُردار سے بات کرنا مکروہ ہے؛ مگر خیر، دھوکے میں جیسا اُس نے سوال کیا، ویسا ہم نے جواب دیا۔ اب تمھارے منہ سے مُردار نکلا؛ ہم سمجھ گئے، چُپ ہو رہے۔ ملکہ نے ہنس کر کہا: خوب! یک نہ شُد دو شُد۔ صاحب! چونچ سنبھالو، ایسا کلمہ زبان سے نہ نکالو۔ کیا میرے دشمن دَر گور مُردار خور ہیں؟ آپ بھی کچھ زور ہیں! بھلا وہ تو کہ کے سن چکی، میں آپ سے پوچھتی ہوں: حضور والا کس سِمت سے رونق افروز ہوئے، دولت سَرا چھوڑے کَے روز ہوئے؟ اور قُدوم مَیمَنت لُزوم سے اِس دشتِ پُر خار کو کیوں رشکِ لالہ زار کیا، بارِ گرانِ سفرِ غربت کب سے سر پر لیا؟
جان عالم نے کہا: چہ خوش! آپ در پردہ بناتی ہیں، بگڑ کر طنز سے یہ سناتی ہیں۔ ہم حضور کاہے کو، مزدور ہیں۔ آپ اپنے نزدیک بہت دور ہیں۔ جیتے جی چار کے کاندھے چڑھی کھڑی ہو، بے شک حضور ہو۔ عارضی جاہ و حَشَم پر مغرور ہو۔ جو جو جلیسیں تھیں، بولیں: ملکۂ عالم! آپ کس سے گفتگو دو بدو کرتی ہیں! یہ مردُوا تو لٹھ ہے، سخت منہ پھٹ ہے۔ ملکہ بولی: چپ رہو، اِن باتوں میں دَخل نہ دو۔ اگر یہ بدمزہ ہو جائے گا تو صَلواتیں سنائے گا۔ وہ سب ہٹیں، آپس میں کہا: خدا خیر کرے! آج جنگل میں گُل پھولا چاہتا ہے، یہ پردیسی پنچھی راہ

صفحہ 82
بھولا چاہتا ہے۔ پھر ملکہ بولی: اے صاحب! خدا کے واسطے کچھ منہ سے بولو، سر سے کھیلو۔ نذر، بھینٹ جو درکار ہو، لے لو۔ جان عالم نے کہا: امرائیت کو کام نہ فرماؤ، نیچے آؤ۔ یہ ہمیں معلوم ہوا تم بڑی آدمی ہو۔ سواری مانگے کی نہیں۔ خواصیں بھی تمھاری ہیں، جو ہمراہِ سواری ہیں۔ خاک نشینوں کی ہَم بِستَری اختیار کرو، تکلف تہ کر رکھو۔ طبیعت حاضر ہوگی تو تمھارے بیٹھنے سے، کچھ کہہ اٹھیں گے۔ آپ ہوادار کیا، ہوا کے گھوڑے پر سوار؛ فقیر بسترِ خاک پر سایہ وار۔ حافظ؎:
بَبیں تفاوُتِ رہ از کُجا ست تا بکُجا
ملکہ نے کہا: مدت العمر میں ایسا مسافر جَریدہ، دَہن دَریدہ تمھارے سوا، بہ خدا، نہ دیکھا نہ سنا۔ اُستاد:
زباں سنبھالو، یہ منہ زوریاں غریبوں پر
خدا کی سو کوئی تم سا بھی بد لگام نہیں

زور چیز ہو، کتنے بے تمیز ہو۔ یکّہ و تنہا، ٹٹّو نہ گھوڑا؛ پیادہ پائی میں لحاظ پاس نہیں، سب کو چھوڑا۔ گٹھری نہ بُقچَہ، ننگا لُچّا۔ وہی مَثَل ہے: رہے جھونپڑے میں، خواب دیکھے محلوں کا۔ ہر بات میں ٹھنڈی گرمیاں کرتے ہو۔ جو یہی خوشی ہے تو لو؛ یہ کہہ کے ہوادار سے اتر، زمین میں شہ زادے کے برابر بیٹھ گئی۔
خواصوں نے بہت بھیانک ہو کے کہا: لو بی بی، یہ مُوا کیا سحر بیاں، جادو کا انسان ہے! ملکہ سی پری کو، گالیاں دے دے کے، کیسا شیشے میں اُتار لیا! بیٹھے بٹھائے میدان مار لیا۔ ایک بولی: تجھے اپنے دیدوں کی قسم، سچ بولیو؛ ایسا جوان رنگیلا، سَجدار، نُکیلا، ٹھٹھول،

صفحہ 83
طرّار، آفت کا پَرکالہ، دنیا سے نرالا؛ تو نے یا کبھی تیری ملکہ نے دیکھا بھالا تھا؟ اری دیوانی، نادان! خوب صورتی عجب چیز ہے۔ اِس کا دوست طالِب، دشمن کا مطلوب ہے۔ حُسنِ خوب سب کو مرغوب ہے، جہان کو عزیز ہے۔ غرض کہ جب ملکہ بیٹھی، جانِ عالم دمِ سرد بھر کے بول اُٹھا، لا اَعلم:

چہ گویم از سر و سامانِ خود، عمریست چوں کاکُل
سیہ بختم، پریشاں روزگارم، خانہ بردوشم
مولف:
سراسر دل دُکھاتا ہے، کوئی ذکر اور ہی چھیڑو
پتا خانہ بدوشوں سے نہ پوچھو آشیانے کا

گِرِفتارِ رنج و اَلَم، خوشی سے دور، مُبتلائے غم، بے یار و مددگار، دوست نہ غم خوار، آفت کا مارا، خانماں آوارہ، ہمہ تن یاس، باختہ حواس۔ توشۂ راہ بجُز غمِ جاں کاہ نہیں۔ اور رہبر سِوائے دلِ مُضطر ہمراہ نہیں۔ گو پاؤں میں طاقتِ رفتار نہیں، لیکن ایڑیاں رَگڑنا بھی اِس راہ میں ننگ و عار نہیں۔ یہ حال ہے، وہ سب نام ہیں؛ کوہ و دَشت اپنے مَسکَن، مقام ہیں۔ آدمی مجھ سے رَم کرتے ہیں، جانور رام ہیں۔ اور حال یہ ہے، میر سوزؔ؎:
ظاہر میں گرچہ بیٹھا لوگوں کے درمیاں ہوں
پر، یہ خبر نہیں ہے میں کون ہوں، کہاں ہوں
اے ساکِنانِ دُنیا! آرام دوگے اک شب
بچھڑا ہوں دوستوں سے، گُم کردہ کارواں ہوں

صفحہ 84
ہاں اہلِ بزم! آؤں میں بھی، پر ایک سُن لو
تنہا نہیں ہوں بھائی، با نالہ و فغاں ہوں
سوراخ، چاک لاکھوں، داغوں کی کون گنتی
گلشن دل و جگر ہے، گو صورتِ خِزاں ہوں
نام و نشاں نے یا رب، رسوا کیا ہے مجھ کو
جی چاہتا ہے، حق ہو، بے نام و بے نشاں ہوں
سر مانگتا ہے قاتل، قاصد شتاب لے جا
اتنی سبک ساری پر کا ہے کو سَر گراں ہوں
قاتل پکارتا ہے، ہاں کون کُشتَنی ہے!
کیوں سوز چُپ ہے بیٹھا، کچھ بول اٹھا نا ہاں ہوں

یہ پڑھ کر چُپ ہو رہا، ملکہ سمجھی : یہ مُقَرر شاہ زادۂ عالی تَبار ہے،
مگر کسی کا عاشقِ زار ہے، بات میں یہ تاثیر ہے کہ ہر کلمہ، ناوَک کا تیر ہے، دل میں آیا کسی طرح گھر لے چلیے، پھر مُفَصَ٘ل حال معلوم ہو جائے گا،
کہاں تک چِھپائے گا، بہ مِنت و سَماجت کہا: اے عزیز! یہ سَر زمیں ہمارے علاقہ میں ہے، تم مسافرانہ، اتفاقاتِ زمانہ سے وارد ہو، مہمانی ہم پر واجب ہوئی، چندگام اور قَدَم رَنجَہ کیجئے، غریب خانہ قریب ہے، آج کی شب استراحت فرمائیے، نانِ خشک کھائیے صبح اختیار باقی ہے، اتنی مشتاقی ہے،
جانِ عالم تبسم کرکے کہا : پھر در پردہ کی لی یعنی ہم تو

صفحہ 85
یہاں کے مالک ہیں، آپ بھوکے پیاسے سالک ہیں۔ چلو، یہ فقرہ کسی فقیر کو سناؤ۔ محتاج کو کرّ و فَر، جاہ و حَشَم سے دَبکاؤ۔ جادۂ اعتدال سے زبان کو باہر گام فرسا نہ فرماؤ۔ یہاں طبیعت اپنی اپنے اختیار میں نہیں۔ اور رَوارَوی سے فُرصت قلیل ہے۔ مکان پر جانا، دعوت کھانا جَبر ہے؛ آنے جانے کی کون سی سبیل ہے۔ ملکہ نے افسردہ خاطِری سے کہا: دعوت کا رد کرنا منع ہے؛ آیندہ آپ مُختار ہیں، ہم مجبور و ناچار ہیں۔ جانِ عالم نے دل میں خَیال کیا: برسوں کے بعد ہم جِنسوں کی صُحبت مُیَسَّر آئی ہے اور یہ بھی شاہ زادی ہے؛ اِس کا آزُردہ کرنا، نِری بے حیائی ہے۔ آدمیّت کا لحاظ، انسانیت کا پاس، اپنی بے اِعتنائی کا حِجاب کرکے کہا: کھانے پینے، سونے بیٹھنے کی ہَوَس دل سے اٹھ گئی ہے؛ مگر دل شِکنی کسی کی، اپنے مذہب میں گناہِ عظیم ہے، خدا اِس بات کا علم ہے۔ شعر:

عِوض ہے دل شکنی کا بہت مُحال، اے یار
جو شیشہ ٹوٹے، تو کیجے جواب شیشے کا
لیکن اتنی رُکھائی اور یہ کج ادائی جو ظہور میں آئی؛ معاف کیجیے، اِس کا یہ سبب تھا، شعر:
در محفلِ خود راہ مدہ ہمچو مَنے را
افسردہ دل، افسردہ کند انجمنے را
دل فِگاروں کی صحبت سے انسان کو ملال حصول ہوتا ہے۔ غمگیں کا ہم نشیں ہمشیہ مَلول ہوتا ہے۔ میر دردؔ:
نہ کہیں عیش تمھارا بھی مُنَغَّض ہووے
دوستو! دردؔ کو محفل میں نہ تم یاد کرو
 
آخری تدوین:
ص 86
اور جو یوں ہی مرضی ہے،تو بسم اللہ۔ یہ کہہ کے اٹھا۔ساتھ ساتھ، ہاتھ میں ہاتھ، پیادہ پا باتیں کرتا چلا۔بس کہ شاہزادہ لطیف وظریف تھا؛ کوئی فقرہ نُوک چُوک ، رَمزوکِنایہ، ذوٗمعنی سےخالی زبان پرنہ لاتا تھا۔ملکہ کا ہربات پر دل پگھلاجاتا تھا؛مگر دل سے کہتی تھی کہ اے ناکام وبخت نافرجام ! ایسا نہ کرنا کہ ہاتھ ننگ وناموٗس سے دھونا پڑے ۔ بیٹھے بٹھائے اَلمِ مُفارَقت میں رُونا، جان کھوناپڑے۔ظاہر ہے یہ کسی کاعاشِقِ زار ہے۔ نَشَۂ محبت میں سرشار ہے۔ دوسرے، غریب الوطن۔ بقول میر حسن:

مسافر سے کوئی بھی کرتاہے پیت
مثل ہے کہ جوگی ہوئے کس کے میت

مگر تَپِشِ دل مستقل ترقی میں تھی۔ خواہِش، جی کی کاہِش میں۔ بے قراری کو اس پر قرار تھاکہ خدا‌کے کارخانے میں کسی کو دَخْل نہیں ہوا۔اے نادان! جو دمِ وَصْل ہے، اسے غنیمت جان ۔ آغاز عشق میں‌انجامِ کار سوچنا سراسر خلاف ہے۔اس میں شرع کی تکلیف معاف ہے۔مؤلف:
غنیمت جان لے یہ صُحبتیں آپَس کی ناداں
دِگرگوٗں حال ہوتاہے اک دم میں زمانے کا

القِصّہ تادرِباغ باخاطرِ فراغ پہنچے۔ دروازہ کھلا، اندر قدم رکھا۔جہاں فِضائے صَحرا وہ تھی،وہاں کے باغ کا کیا کہنا!اگر ایک تختے کی صفت تحریرکروں،ہزار تختۂ کاغذ پر بہ خَطِّ رَیحاں اس گلزار کی تعریف نہ لکھ سکوں۔دمِ تسطیر

صفحہ 87
قلم میں برگ نکلتے، لکھنا بار ہوتا ہے۔ ہاتھ پاؤں بالکل پھولتے ہیں، صفحۂ قِرطاس پر گُل پھولتے ہیں؛ حاسِد شاخسانے نکالتا ہے، خار ہوتا ہے۔ صریرِ خامہ میں بلبل کے چہچہے پیدا ہوتے ہیں، باغبان کو حالت حال کی ہوتی ہے۔ اور سطرِ پیچاں میں طائرِ مضموں پھنستے ہیں، بِعَینِہ کیفیت صیّاد کے جال کی ہوتی ہے۔ بہت آراستہ و پَیراستہ۔ عرض مربّع میں۔ چاروں کونوں پر چار بنگلے، گِرد سبزۂ نو خاستہ۔ دروازہ عالی شان۔ نفیس مکان۔ زیرِ دیوار خندق پر کیلے؛ اکیلے نہیں، قطار در قطار۔ تختہ بندی کی بہار۔ رَوِش کی پَٹرِیاں قَرینے کی۔ مِنہدی کی ٹٹیوں میں رنگت مینے کی۔ گُل منہدی سرخ، زرد پر افشاں۔ عبّاسی کے پھولوں سے قدرتِ حق نمایاں۔ نرگس دیدۂ منتظِر کی شکل آنکھیں دکھاتی تھی۔ گُلِ شَبّو سے بھینی بھینی بو باس آتی تھی۔ میوہ دار درخت یک لَخت جُدا۔ بار کے بار سے ٹَہنِیاں جُھکیں، درخت سَرکشیدہ۔ پھل لطیف و خوش گوار۔ پھول نازک و قَطع دار۔ رَوِشیں بِلّور کی۔ نہریں نور کی۔ حوض و نہر میں فوّارے جاری۔ چمنوں میں بادِ بہاری۔ موسَم کی تاک میں، تاک کا مستوں کی روش جھومنا۔ غُنچۂ سربَستہ کا منہ تاک تاک کے، نسیم کا چومنا۔ انگور کے خوشوں میں دلِ آبلہ دار کا پتا۔ زَربَفت کی تھیلیاں چڑھیں، نگہبانی کو گوشوں میں باغبانِیاں اَلمَست کھڑیں۔
ہر تختہ ہرا بھرا۔ رَوِش کے برابر چینی کی ناندوں میں درختِ گُل دار مُعنبر و مُعطّر۔ بیلا، چنبیلی، موتیا، موگرا، مَدَن بان، جوہی، کیتکی، کیوڑا، نسرین و نَستَرَن کی نِرالی آن بان۔ ایک سِمت تختوں میں لالہ خوفِ خزاں سے با دِلِ داغ دار؛ گِرد اُس

صفحہ 88
کے نافرمان کی بہار۔ سَرو، شمشاد لبِ ہر جو؛ فاختہ اور قُمری کی اُس پر کوکو، حق سِرّہ۔ شاخِ گل ہر بلبلِ شوریدہ کا شور۔ چمن میں رقصاں مور۔ کہیں خندۂ کبکِ دَری، کہیں تَدرو بر سرِ جلوہ گری۔ نہروں میں قاز بلند آواز، تیز پرواز۔ کسی جا بَط اپنے ولولے میں خود غَلَط۔ ایک طرف قَرقَرے۔ دو رویہ درخت گل و بار سے بھرے۔ سیب سے زَنخِ گُلِ عِذاروں کی کیفیت نظر آتی۔ ناشپاتی اور بِہی آسیبِ دستِ باغباں سے بَری۔ ہر شاخ ہری۔ سُنبُلِ مُسلسل میں پیچ و تابِ زُلفِ مَہ وَشاں کا ڈھنگ۔ سوسَن کی اُداہٹ مِسی لَب خوب رویوں کا جوبن دکھاتی۔ داؤدی میں صنعتِ پروردگار عیاں صد برگ میں ہزار جلوے نہاں۔ آم کے درختوں میں کیریاں زمرد نگار۔ مولسری کے درخت سایہ دار۔ باغبانیاں خوب صورت سرگرمِ کار۔ خواجہ سَرا اَمرَد اُن کے مددگار۔ حور و غِلماں کا عالَم۔ بیلچے، کُھرپیاں جواہر نگار، مرصع ہاتھوں میں باہم۔ درخت اور روشوں کو دیکھتی بھالتی، گل و بار چمن سے چُنتی؛ گلا برگ، سڑا بار، جھڑا پڑا خار صحنِ چمن سے نکالتی پھرتی تھیں۔
بیچ میں بارہ دری پر شوکت و بارِ رِفعت و شان، پرستان کا سا مکان۔ ہر کمرا سجا سجایا، صَنّاعِ نادِر دست کا بنایا۔ غُلام گردش کے آگے چبوترا سنگِ مرمر کا۔ حوض مُصفّیٰ پانی سے چھلکتا۔ فرش یک لخت افشاں پتھر کا۔ شامیانہ تمامی کا تنا۔ سفید بادلے کی جھالر، کلابتون کی ڈوریاں، سراسر مُغَرّق بنا۔ چودھویں رات، ابر کُھلا، آسمان

صفحہ 89
صاف، شبِ ماہ؛ سامان اِس کا تکلف کا، برسات کی چاندنی، سبحان اللہ! فواروں کے خزانے میں بادلا کَٹا پڑا، ہزارے کا فوارہ چڑھا۔ پانی کے ساتھ بادلے کی چمک، ہوا میں پھولوں کی مہک۔ فوارے نے زمین کو ہمسرِ آسماں بنایا تھا؛ ستاروں کے بدلے، بادلے کے تاروں کو بِچھایا تھا۔ بڑی چمک دمک سے ملکہ کے مکان پر چاندنی دیکھنے کا سامان تھا۔ شہ زادے کے آنے کا کسے گُمان تھا۔
غرض کہ جانِ عالم کو لے جا، شامیانے کے تلے مسندِ جواہر نگار پر بٹھایا۔ شرابِ ارغوانی و زعفرانی کی گُلابیاں کشتیوں میں لے کر، وہ وہ زَنِ پری پیکر زیب دِہِ انجمن ہوئی کہ بطِ مے رشک و خَجالت سے بحرِ ندامت میں غوطہ زن ہوئی۔ ایک طرف جام و سَبو، ایک سِمت نغمہ سرایانِ خوب رو و خوش گُلو۔ سفید سفید صوفیانی پوشاک، سر سے پاؤں تک الماس کا زیور، دو رویہ صف باندھ کر کھڑی ہوئیں۔ اِن کے بیٹھتے ہی گانا ناچ شروع ہوا۔ سارنگی کے سُر کی زوں ٹوں کی صدا چرخ پر زہرہ کے گوش زَد ہوتی تھی۔ طبلے کی تھاپ، بائیں کی گُمک خُفتَگانِ خاک کا صبر و قرار کھوتی تھی۔ ہر تان اُپَج تان سین پر طعن کرتی۔ باربَد اور نِکیسا کے ہوش پَرّاں تھے۔ چھجّو خاں کو غش تھا، غلام رسول حیراں تھے۔ زَمزَمے اور تحریرِ کِٹگِری پر شوری زور شور سے ہاتھ ملتا تھا۔ ہر پسے فقرے اور سُر

ص 90
کے پلٹے پر الہی بخش پوربی کا جی نکلتا تھا۔
ناچنے کو ایسے ایسے برق وَش آئے اور اِس تال و سَم سے گُھنگرو بجائے کہ للّوجی شرما ئے ، کَتَھک جو بڑے استاد اَتھَک تھے ، انہوں نے سَم کھائے، ٹھوکر ، مردہ دلوں کی مسیحائی کرتی تھی، گَت کے ہاتھ پر یہ گَت تھی کہ مجلس کَفِ افسوس ملتی تھی، اور دمِ سَرد بھرتی تھی۔
جب ہنگامۂ صُحبت بایٖں نوبت پہنچا کہ راجہ اِندَر کی محفل کا جلسہ نظر سے گِر گیا،بہشت کا سامان پیش ِچشم پھِر گیا، اُس وقت ملکہ مہر نگار نے گلاس شراب سے بھر کر شہزادے کو دیا، کہا: اِسے اُلُش کر دیجئے، تاریخِ سفر خاطرِ انور سے دور ہو، مجھے استفسارِ حال ضرور ہے، جان ِعالم نے باَسبابِ ظاہر انکار کیا، مہر نگار نے کہا: آپ دلشِکَنی بُری جانتے ہیں، اِس پہلو تِہی کرنے میں ملالِ خاطر کے سوا کیا متصوِّر ہے؟ شہزادے نے مسکرا کر ساغَر ہاتھ میں لیا، یہ شعر پڑھ کر باطبع ِشِگُفتہ پِیا، انشا:

گر یار مے پلائے تو پھر کیوں نہ پیجئے
زاہد نہیں میں، شیخ نہیں، کچھ ولی نہیں

پھر جانِ عالم نے جام لَبالَب اپنے ہاتھ سے بھر کر ملکہ کو دیا، دَورِ جام بے دَغدغہ نیرنگئ ایام چل نکلا، دو چار ساغَر آبِ آتَش رنگ جوانی کی ترنگ میں پیَہَم و متواتر جو پئے،دونوں کو گونہ سرور ہوا،رنج ِسفر اِدھر سےتمیز و خیالِ خیر وشر اُدھر سے ہوا، اُس وقت
 
صفحہ 92
لیا تھا؛ بہت طرار،سحر گفتار۔ اس کی زبان سے شہرۂ حسنِ انجمن آرا سن کے؛ نادیدہ دیوانہ وار بے قرار، بیاباں مرگ، آوارہ وطن، موردِ رنج و محن ہوا ہوں۔ پھر توتے کا راہ میں اڑ جانا، وزیر زادے کا پتا نہ پانا، شِمّہ بیانِ گرفتاری طلسم اور اپنی خواری، جادوگرنی کا نقشِ سلیمانی دینا اور اپنا رستہ لینا کہہ کر، کہا: بے ملکِ زرنگار پہنچے نہ جان کو چین ہے نہ دل کو قرار ہے، زیست بےکار ہے۔ اور یہ غزل پڑھی،

مؤلف:
بہ سوزِ شمع رویاں، اِس طرح کا سینہ سوزاں ہوں
کہ رفتہ رفتہ آخر جلوۂ سروِ چراغاں ہوں
نسیمِ صبح ہوں، یا بوے گل، یا شمعِ سوزاں ہوں
میں ہوں جس رنگ میں پیارے، غرض دم بھر کا مہماں ہوں
نہ پھل پایا لگانے کا، بجز افسوس و حسرت کے
میں نخلِ بے ثمر کس مرتبہ مردودِ دہقاں ہوں
عبث تدبیر ہے گور و کفن کی اس کے کوچے میں
میں ننگِ دو جہاں، ننگے ہی رکھ دینے کا شایاں ہوں
نہ مرتے مرتے منھ پھیرا محبت سے کبھی میں نے
جفائیں جس قدر جھیلیں، وفا پر اپنی نازاں ہوں
تنی رہتی ہے اکثر چادرِ مہتاب تربت پر
کہ تا معلوم ہو سب کو، قتیل مہ جبیناں ہوں


صفحہ 93
سرورِ غم رسیدہ ہوں، مجھے طوفان محشر میں
ترانا تو ہی خاوندا! غریق بحر عصیاں ہوں

ملکہ نے جب سنا کہ یہ فریفتہ جمال پری تمثالِ انجمن آرا ہے؛ آہ دل دوز، نعرۂ جاں سوز کھینچ کر رونے لگی، امید قطع ہوئی ۔ جان عالم نے بے قرار ہو کے کہا کہ ایں ملکہ مہرنگار، خیر باشد! ملکہ نے اسی بےتابی میں جواب دیا، استاد :

مائل جو اس فتنہ عالم پہ کیا جو مجھ کو
سوئے بیداد مگر مرضیِ دَوراں آئی
چاک دل تک تو کچھ اے دست جنوں، پردہ تھا
یہ کھلا اب تو کہ نوبت بہ گِرِیباں آئی

اے شہزادہ والا تَبار، غارت گرِ کشور دل، عاشق زار! میرا حال سن، مصرع
عجیب واقعہ و طُرفہ ماجرائے ہست

باپ میرا بھی شہنشاہ تھا، بہت سے تاج دار باج گزار تھے؛ مگر ابتدا سے طبیعت مُتَوَجِّہِ فَقر، اور عبادت کی عادت تھی ۔ آخِرکار، کارخانہ دنیائے دوں ہیچ و پُوچ جان کے، عزمِ وارستگی ٹھان کے بَرزَباں ہر آن تھا،
سوز : جب ہیچ ہی ہم بوجھ چکے وضعِ جہاں کو
غم ہِیچ، الم ہِیچ، طرب ہِیچ، عطا ہِیچ

اور حکومت کا بکھیڑا چھوڑا ۔ معاملہ سلطنت بےکار جان اور بےثَباتی جہانِ گذراں مدنظر کر؛ دنیا سے ہاتھ اٹھایا، بادشاہت کو مٹایا، آبادی سے منہ موڑا، اس صحرائے پُرخار میں مکان بنا کے بیٹھ رہا ۔

صفحہ 94
ہر چند مجھے شادی کو ارشاد کیا، میں نے بہ سببِ مفارقت ، انکار کیا، اب دفعۃً آفتِ آسمانی، بلائے ناگہانی مجھ پر ٹوٹ پڑی کہ بیک نگاہ عاشق کیا، دیوانی ہوگئی، ہوش و حواس سے بے گانی ہو گئی- میر :
رسوا ہوا، خراب ہوا، مبتلا ہوا
کیا جانیئے کہ دیکھتے ہی مجھ کو کیا ہوا

اور تو اس کا عاشق و طلب گار ہے، جس کا نظیر اِس زمانے میں ہاتھ آنا بہت دشوار ہے۔
میر:
مَحمِل نشیں ہیں کتنے خدامِ یار میں یہاں
لیلیٰ کا ایک ناقہ، سُوکس قطار میں یہاں

اب بَجُز مَرگ کیا چارہ ! میں ننگ خانُماں ، خراب کُنِندَۂ خانداں فقط ذلت و خواری ماں باپ کی اور گِریہ و زاری اپنی چاہتی تھی، صبح تو کہاں، میں کہاں؟
یہ صحبتِ شب خواب ہو جائے گی نَمودِ سحر مفارقت شام غُربت کا رنگ دکھائے گی،

دامنِ سحر کی طرح گریبانِ صَبر چاک ہوگا، ہمارے سر پر آفت و خرابی آئے گی، انصاف کیجیئے، کس سے کہوں گی، بے قراری ستاتی ہے، جانِ عالم کی جدائی سے روح بدن سے جدا ہوتی ہے، جان جاتی ہے، ہم صحبتیں طعنے دیں گی، انیسیں چھیڑ چھاڑ کر جان لیں گی، جب لونڈیوں پر خفا ہوں گی، بَڑبڑائیں گی، زبان کے پر یہ کلمہ لائیں گی، ملکہ عاشقی

ص 95
کا رنج و ملال یوں درپردہ ٹالتی ہیں۔ شہ زادہ چلا گیا، نہ رک سکا؛اُس سے تو بس نہ چلا ؛ہم جو بے بس ہیں، بس غصے کی جھانجھ ہم پر نکالتی ہیں۔باپ پر حال کُھلا تو خَجالت ہو گی۔ماں نے سنا تو ندامت سے کیاحالت ہوگی! رسوائی کے خَوف سے دل کُھول کر رُو نہ سکوں گی ۔ بدنامی کے ڈر سے جی نہ کُھو سکوں گی۔ جب دلِ بے تاب ہِجر سے گھبرائے گا، فرمایئے کون تسکین فرمائے گا؟کیا کہہ کے سمجھائے گا؟آپ اُدھر تشریف لے جائیں گے ، ہم اِدھر غمِ فرقت سے گُھٹ گُھٹ کر مر جائیں گے۔ہماری سَرنَوِشْت پر رونا رواہے۔ماجرا ہمارا عبرت اور حیرت افزا ہے۔ ہر چند ظِلِّ سبحانی عامِلِ بے بدل ، ساحرِبے مِثْل ہیں؛عُلوی، سِفلی سب کچھ پڑھالکھا؛ ہماری پیشانی اور لوحِ جبیٖں کی تحریر نہ دیکھی کہ کیا پیش آنی ہے! اور خطِّ شکستہ سے ایسے نستعلیق نے کیابُرا لکھا ہے! افسوصَد افسوس !مؤلف :

وہ بھی ہوگا کوئی، امید برآئی جس کی
اپنے مطلب تو نہ اس چَرخِ کُہَن سے نکلے

یہ باتیں کر، دل پر ہاتھ دھررُونے لگی۔ دامن وگِرِیباں آنسوؤں سے بھگونے لگی۔ شہزادے کو ثابت کیا، یقین ہوا: ملکہ بہ شِدّت فِرِیفتہ وشَیْدا ہے، بات سے حزن وملال پیدا ہے۔ دل دُکھنے کے مزے سے زَبان لذت پاچکی تھی، جان ہِجر کے صدمے اٹھا چکی تھی؛بے چین ہوکر بولا؛ زَبان کو تسکین کی باتوں میں کھولا،کہا:

صفحہ 96
آپ کا کدھر خیال ہے، بندہ فرماں بردار بہر حال ہے، جو کہو گی بجا لاؤں گا، بات اطاعت سے سر نہ اٹھاؤں گا، برائے چندے صبر، دل پر جبر ضروری ہے، اگر اس کی جستجو میں نہ جاؤں گا تمیں میری کیا امید ہوگی، ہم چشموں سے آنکھ کیوں کر ملاؤں گا؟
سبحان اللہ! وہ وقت دیکھا چاہیےکہ معشوق، عاشق کی تسکین کرے، اپنی اطاعت اس کے ذہن نشین کرے، خوش قسمتوں کو ایسے بھی مل جاتے ہیں کہ عاشق کے رنج کا غم کھاتے ہیں، دل داری کرکے سمجھاتے ہیں، اس کا لوگ رشک کرتے ہیں، آتش حسد سے جل مرتے ہیں،
ملکہ یہ سن کر دل میں شاد، بندِ فکرِغم سے آزاد ہوئی، یہ بات امتحان کی ہے، جیسے جی پیار کرتا ہے، وہ اگر جھوٹ بھی بولے، عاشق کو سچ کیا، بہ منزلہ حدیث و آیت ہوجاتا ہے،مگر یہ کہا مصحفی۔۔:
عاشق سے بھی ہوتا ہے کہیں صبر و تحمل
وہ کام تو کہتا ہے جو آتا نہیں مجھ کو

لیکن خیر، ہم تو اسے بھی جھیل لیں، یہ کھیل بھی کھیل لیں، اگر ہماری یاد تمہیں فراموش نہ ہو، وحشت کا جوش نہ ہو، جان عالم نے قسمیں شدید کھائیں، اختلاط کی باتیں درمیان میں آئیں کہ اس میں سر مو فرق نہ ہوگا، اور مژدۂ وصل سے مسرور کیا، خیال مفارقت ملکہ کے دل سے دور کیا، کہا۔ اب ہنسی خوشی کی باتیں کرو، یہ بکھیڑا

صفحہ 97
جانے دو، جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے، رات تھوڑی، کہانی بڑی ہے، فلکِ سِفلَہ پرور جفا کش ہے، عاشق و معشوق کا بد اندِیش ہے استاد :
بہ شب وصل شکوہ ہا مکنید
شب کوتاہ و قصہ بسیار است

مگر شبِ وصْل ازل سے کوتاہ ہے، خدا گواہ ہے، دو کلمے ہنسی کے خوشی سے نہ ہونے پائے، فلک نے رونے کے سامان دکھائے، یکایک مرغ سحر "بیدار باش" پکارا، زاہد ندائے 'اللہ اکبر' سنا کے للکارا، گجر کی آواز بھی دونوں کے کان میں آئی، یسادلان سلطان خادر نے صبح کی دھوم مچائی، ملکہ پریشان ہو کر بولی۔ مؤلف؛

وصل کی شب چونک اٹھے ہم، سن کے زاہد کی صدا
یا دمِ تکبیر ہی اللہ اکبر ہوگیا
ولہٗ ؛
زاہد بھی تیسرا ہے شب وصل میں حریف
مشہور گو جہان میں صبح و خروس ہے

جان عالم نے نماز صبح پڑھ کر، کمر بہ عزمِ سفر چست کی، ملکہ سہم کر آبدیدہ ہو کر یہ شعر پڑھنے لگی، جرأت ؛
نہ آیا اور کچھ اس چرخ کو، آیا تو یہ آیا
گھٹانا وصل کی شب کا، بڑھانا روزِ ہجراں کا

98
جب شہ زادے نے چلنے کا قَصد کیا، ملکہ نے کہا: اگر حَرَج مُتَصَوِّر نہ ہو، میرے والد سے ملاقات کر لو۔ یہ اَمر فائدے سے خالی، لا اُبالی نہ ہوگا۔ جانِ عالم نے کہا: بہتر ہے۔ پھر وہی خَواص ہمراہ ہوئی۔ جب قریب پہنچا، دیکھا: مکان پاکیزہ، بُورِیاے بے رِیا بچھا ہے؛ مُصلّے پر ایک مرد مَہَذَّب، بہ ذِکرِ حق مشغول، با دلِ مَلول بیٹھا ہے۔ یہ رسمِ سلام بجا لایا۔ اُس نے دعاے خیر دے کر ہاتھ بڑھایا، چھاتی سے لگایا۔ قریب بِٹھا کے فرمایا: ماجراے شبِ تیٖرۂ ملکہ، فقیر پر روشن ہے۔ ایسی بد قسمت دوسری، خَلق میں خَلق نہیں ہوئی۔ ہمارے کہنے سے انکار کیا؛ بڑے بول کا سِر نیچا ہوا، تو تم سے کیا کیا دار و مَدار کیا۔ جو تم اِتنی تسکین نہ کرتے، اُس کا زندہ رہنا مُحال تھا، اِسی طرح کا دل پر صدمہ اور ملال تھا۔ اگر ایٖفاے وعدہ کروگے، اللہ بھلا کرے گا؛ وگرنہ یہ رنج بُرا ہے، دیکھیے اُس کا حال کیا کرے گا۔ دِل داری جگر فِگاروں کی، عَیادت مَرَضِ مَحبّت کے بیماروں کی جواں مردوں پر فرض ہے۔ یہ سمجھنا: ساحل را از خَس و خاشاک گُذار و گُل را از صحبتِ خار ننگ و عار نمی باشد۔
شہ زادے نے سِر جُھکا عرض کی: آپ کیوں مَحجوب فرماتے ہیں، مجبور ہوں۔ اِس عزم میں گھر چھوڑا، عزیزوں یَگانوں سے ترک کر شہر سے مُنہ موڑا۔ نہ جانے وہ جانیں گے: سخت کم ہمّت و بے جُرأت تھا، راہ میں آسایش ملی، بیٹھ رہا۔ خوف سے جا نہ سکا، جھوٹا تھا،

صفحہ 99
ناحق عشق کا دم بھرا. پیر مرد نے فرمایا : مرحبا! جزاک اللہ!

یہی شرط جواں مردی وثابِت قدمی کی ہے. ہمیں بھی' تمھارے اس عزم سے ' ایفائے وعدہ کی امید ہوئ. پھر ایک لوح عنایت کی اور کہا : جب کوئ مُہِمِّ سخت رو بہ کار ہو؛ بہ طرزِ فال، اُس حال میں اِسے دیکھنا_ جو نکلے، اُس پر عمل کرنا_ اللہ تعالٰی وہ مشکلِ سخت ایک آن میں آسان کرے گا_ لُو، بہ حِفظِ حافِظِ حقیقی سِپُردم_ وَاللهُ مَعَكُمْ أينَ مَا كُنْتُمْ_ فَرْد :
بسفر رَفتَنَت مبارک باد
بسلامت رویّ و باز آیی

شہ زادہ رخصت ہوا_ لَوح لے کے ملکہ کے پاس آیا، اُس رُوشن ضمیر کا ارشاد سُنایا اور یہ زَبان پر لایا، مُؤَلِّف :
کوچ کی اپنے اب تیاری ہے
تیرا حافظ جنابِ باری ہے

ملکہِ ناکام گردِشِ اَیّام دیکھ اور یہ کلمہ جاں کاہ سن کر؛ کلیجا تھام، سرِ شُوریدہ کو دُھن کر یہ شعر پڑھنے لگی، استاد :
میں مر گئ، سُن اُس کے سَر انجام سفر کا
آغاز ہی دیکھا نہ کچھ انجام سفر کا
کہتے ہیں کہ اب جاتا ہے، ایسی ہی دُعا کر
مسدود ہو رستہ دل ناکام، سفر کا

100
مت جا ن نکمّا مجھے اے جان، لیے چل کرتی چلوں گی ساتھ ترے کام سفر کا میں کِشورِ ہستی ہی سے اب کوچ کروں گی آگے نہ مرے لیجیو تو نام سفر کا چلنے کی صلاح اس کے ٹہرتی نہیں اب ساتھ موقوف نوازش ؔ ہوا آرام سفر کا آخر جبراً قہراً رخصت کیا۔ کہا: خدا حافظ، امام ضامنِ ثامن کے حفظ میں سونپا۔ مصرع: ترا موسیٰ رضا ضامن ، ترا اللہ والی ہے جس طرح پیٹھ دکھاتے ہو، اسی صورت اللہ تمھارا منہ دکھائے، غمِ دوری ہمارا دور ہو جائے۔ جانِ عالم یہ سن کر روانہ ہوا۔ یہاں تپشِ دل کو بہانہ ہوا۔ دریائے سرشک چشم خوں پالا سے موج زن ہوا، غریق لُحجہ مفارقت جان و تن ہوا۔ جلیس بولیں: ملکہ ! کیوں جی کھوتی ہو! کس واسطے بلک بلک کر روتی ہو!مسافر کے پیچھے رونا زبوں از حد ہے۔ بی بی خیر ہے! یہ شگوں، بد ہے۔ وہ دن بھی اللہ دکھائے گا، جو وہ پردیسی صحیح سلامت خیر سے پھر آئے گاَ تو ان کو وہ غم کی ماری یہ سمجھاتی، سوز: چشم کا کام، اشک باری ہے چشمہٗ فیض ہے کہ جاری ہے مُولِف: بے درد کوئی اتنا سمجھتا نہیںہے ہے! دل دکھے تو کس طرح سے فریاد نہ ہووے۔
 
ص 110 - 119
یہ سُن کر نعرہ مارا، بے چَین ہو کر پکارا کہ اے جوانِ رَعنا! تو نے یہ قِصّہ سُنا ہو گا: زینت تختِ سلطنت، رونقِ شہر، مؤجِدِ آبادی، صاحبِ جاہ و حشمت، مالکِ عِفّت و عصمت انجمن آرا یہاں کی شہزادی تھی۔ شہرۂ جمال بے مِثال اس حور طَلعَت، پری خِصال کا اَز شَرق تا عرب اور جَنوب سے شِمال تک زَبانِ زَد خلقِ خُدا تھا۔ اور ایک جہانِ حُسن کا بیان سُن کر، نادیدَہ اُس کا مُبتَلا تھا۔ آج تک چشم و گُوشِ چَرخِ کَج رفتار نے، بہ ایں گردشِ لَیل و نَہار، ایسی صورت دیکھی نہ سُنی تھی۔ مُرقّعِ دَہر سے وہ تصویر چُنی تھی۔ بہت سے شاہ اور شَہْریار، اُس کے وادِیِ طَلَب میں قدم رکھ کر تھوڑے عرصے میں آوارۂ دَشْتِ اِدْبار، پتھّروں پر مار مار، مصرع: رہ رَوِ اِقلیمِ عَدَم ہو گئے۔

اب پانچ چار روز سے ہمارے طالِعِ بیدار جاگتے جاگتے دَفْعتہً سُو گئے۔ ایک ساحِرِ مکّار، جفا کار، بہ زُورِ سِحْر اُسے محل سے اُٹھا لے گیا۔ داغِ غمِ فرقت دے گیا۔ ہنوز یہ جُملۂ غم نا تمام تھا کہ جانِ عالم کا کام تمام ہوا۔ آہِ سرد کھینچ کر بہ حالِ خستہ و پریشاں، مِثالِ قالِبِ بے جاں زمین پر گر کے یہ حسرت و یاس پُکارا، شعر:

جی کی جی ہی میں رہی، بات نہ ہونے پائی (۱)
حَیف ہے، اُس سے ملاقات نہ ہونے پائی

اے گردوُنِ جفا پَرداز و اے فَلَکِ عَزبَدہ جو! یہ کیا تیرہ خُو ہے! اِتنی دور لا کر ناکام رکھّا۔ مُؤلِّف:

عشرت کدے میں ہوئے، سیکڑوں، وَلے
اک دِل ہمارا تھا کہ وہ ماتم سَرا رہا
تاثیرِ آہ دیکھی، نہ گِریے میں کچھ اثر
ناحق مَیں اِس اُمّید پہ کرتا بُکا رہا
کیا دیکھتا ہے سینے کو میرے تو اے سُرور
جُز یادِ یار، اِس میں نہیں دوسرا رہا
شعر: یہ کہ کر وہ اس طرح غش کر گیا کہے تو کہ جیتے ہی جی مر گیا (۱)

خواجہ سَرا سخت گھبرایا، سمجھا : یہ شخص بھی گرفتارِ مُحبّت، اَسیرِ دامِ اُلفت اُسی کا ہے۔ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی، دَفْعتہً خَبَرِ بَد سُنائی نہ تھی، آفت اِس کی جان پر جان کر لانی نہ تھی۔ ہر چند گلاب، کیوڑا چھِڑکا، ہوش نہ آیا۔ بد حواس، بادشاہ کے حُضور میں حاضر ہوا، رُو کر عرض کی: آج ماتَمِ انجمن آرا تازہ ہوا۔ بادشاہ نے فرمایا : کیا ماجرا ہے؟ اُس نے عرض کی: کِسی مُلک کا شہزادہ اُس کی مُحبّت میں سلطنت سے ہاتھ اُٹھا، فقیرانہ سَج بنا یہاں تک پہنچا ہے۔ مجھ سے جادوگر کے اُٹھائے جانے کی خبر سُن کر، آہ کھینچ زمین پر گرا ہے۔ اب تک ہوش نہیں آیا تھا۔ عجب صدمہ دِل پر دَھر گیا ہے! خدا جانے جیتا ہے یا مر گیا ہے! خلق کا اَنبُوہ اُس کے سر پر ہے، بازار لوگوں کی کثرت سے بھر گیا ہے۔ کیا عرض کروں! غلام کی نظر سے اِس سَج دَھج کا پری پَیکر آج تک اَز قِسْمِ بَشَر نہیں گُذرا۔
اگر اِن دونوں کی صورت آئینۂ چشم میں بَہَم نظر آتی، قِرانُ السَّعدَین کی کیفیت کھُل جاتی۔ حُضور ملاحظہ فرمائیں گے، شہ زادی کو بھول جائیں گے۔
بس کہ بادشاہ غمِ مُفارَقَت انجمن آرا سے بے قرار تھا، اَركانِ سلطنت سے کہا : جلد جاؤ، جس طرح ہو اُسے لاؤ۔ لوگ دَوڑے، مُردے کی صورت اُٹھا لے گئے۔ اِس عرصے میں شام ہوئی۔ بادشاہ نے ہاتھ مُنْہ دُھلوا، بِید مُشک چھِڑکا، کیوڑا مُنْہ میں چُوایا، لَخلَخہ سُنگھایا۔ جانَ عالم کو ہوش آیا، گھبرا کر اُٹھ بیٹھا۔ دیکھا : ایک شخص تاجِ خُسروانہ بَر سَر، چارقُبِ مُلؤکانہ دَر بَر، سِن رَسیدہ، لَیل و نَہار دیدَہ، بڑے کَرّوفر سے تخت پر جلوہ گر ہے۔ اور چار ہزار غلامِ زَرّیں کمر با شمشیر و خنجر، اُونچی بنا، دَست بَستَہ رو بہ رو کھڑا ہے۔ گِرد امیر، وزیر، سپہ سالار، پہلوان، گُردانِ گَردن کَش، ایک سے ایک بہتر جوان اپنے اپنے قَرینے سے زِیب دہِ کُرسی و دَنگل ہے۔ تَہمَتُوں کا جنگل ہے۔ جانِ عالم اُٹھا، بہ طَورِ شاہ و شَہْریار و شہ زادہ ہائے عالی تَبار رسمِ سلام بجا لایا۔ سب تعظیم کو اُٹھے۔ بادشاہ نے گلے لگا پاس بِٹھایا۔ جب سے بادشاہ کی نظر پڑی تھی، مَحْوِ حُسن دل فَریب، مَفتُونِ چہرۂ مِہر وَش و صورتِ پُر زِیب ہو گیا تھا۔ اور حُضّارِ مجلس بھی سب دنگ تھے، سَکتے کے ڈھنگ تھے۔ سب کو صدمۂ تازہ یہ ہوا کہ ایسا وارثِ تاج و تخت ہاتھ آئے اور محروم پھر جائے۔ اُس وقت کا رنج و قَلَق شہ زادے کا کوئی فراق کَشیدَہ سمجھے، بقول مرزا حسین بیگ صاحب، شعر:

حسرت پر اُس مسافرِ بے کس کی رُوئیے
جو تھک گیا ہو بیٹھ کے منزل کے سامنے (۱)

مگر باعثِ شرم و حیا کہ لازِمۂ شُرفا و نُجَبا ہے، خاموش، سینے میں غم کا جُوش و خَروش۔ بادشاہ نے اِستفسارِ وطن اور نامِ جَدّ و آبا کیا۔ یہاں فرطِ اَلَم ، کثرتِ غم سے گلا گھُٹ رہا تھا، مگر ضَبط کو کام کر کے، حَسَب و نَسَب اور مُلک کا پتا بتایا۔ پھر سِر جھُکا شہ زادی کا حال پوچھا۔
بادشاہ نے فرمایا : اے گِرامی اخترِ سِپہرِ شَہریاری! مُدّت سے ایک جادوگر اِس فکر میں تھا۔ یہاں بہ مرتبہ نگہبانی ہوتی تھی، لیکن وہ دُھوکا دے کر لے گیا۔ آج تک محل میں نہیں گیا ہوں۔ وہ محل، جو عِشرت کَدَہ خاص تھا، ماتَم سَراے عام ہے۔ ہر سو، شُورِ رِقّت، ہر سِمت نالۂ پُر آفت بَلند ہے۔ کھانا پانی حرام، چھُوٹا بڑا مُبتَلاے آلام ہے۔ جانِ عالم نے کہا: کچھ یہ بھی ثابِت ہوا کہ کدھر لے گیا۔ بادشاہ نے فرمایا: پانچ کُوس تک پتا ملتا ہے۔ آگے قلعہ ہے سَر بہ فلک کَشیدہ، آگ سے بھری ہے، شُعلہ سَر گرم تا چَرخِ چَنبری ہے اور انگاروں کا اَنبار تا کُرۂ نار ہے۔ وہاں کا حال نہیں کھُلتا ہے، عقل بے کار ہے؛ مگر قَرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سِحر کا کارخانہ ہے۔ آگ کا بہانہ ہے، ہمیں سُلگا کے جلانا ہے۔ شہ زادے نے کہا: خَیر۔ اگر حَیاتِ مُستَعار باقی ہے، بہ مددَ اِیزَد کہاں جانے پاتا ہے؛ اُس ملعون کو جہنّم واصل کر کے، شہ زادی کو فدوی زندہ لاتا ہے۔

یہ کہہ کر اُٹھا کہ قبلہ، خُدا حافظ! بادشاہ لپٹ گیا، کہا : بابا! خُدا کے واسطے اِس خَیالِ مُحال سے در گُزر۔ طائرِ خَیال کے اُس دَشت میں پَر جَلتے ہیں۔ پیکِ صبا کے پاؤں میں چھالے نکلتے ہیں۔

دوسرے، مجھے مُفارَقَت تیری کب گوارا ہے۔ ایک کو دُھوکے میں کھُویا، تُجھے دیدہ و دانِستہ جانے دینے کا کہاں یارا ہے۔ ایسی آفت میں تجھ سے جوان کو جانے دوں! بُڑھاپے میں بدنامی لوں! سلطنت حاضر ہے، بِسْمِ اللہ حُکم رانی کر۔ میں ضعیف ہوں، گوشے میں بیٹھ اللہ اللہ کروں۔ شہزادے نے عرض کی: یہ تخت و سلطنت حُضور کو مُبارَک

رہے۔ بندہ آوارہ خانُماں، ننگِ خانداں، گھر کی حُکومت و ثَروَت چھُوڑ، عزیزوں سے مُنہ موڑ، خراب و خستہ، سَر گَرداں در در حیران و پریشان ہو یہاں تک پہنچا، اب یہ کلمہ ہَتک اور ذِلّت کا سُننے کو جیتا رہوں، مُلک بیگانے میں بادشاہت کروں۔ لوگ کہیں : جادوگر تو شہ زادی کو لے گیا؛ یہ شخص بے غَیرت تھا، جیتا رہا، سلطنت کرنے لگا۔ جواں مردی سے بعید ہے۔ عاشق و معشوق کی راہ میں جان دینا عید ہے۔ لا اَعْلَم :

تا سَر ندہم، پا نکشم از سَرِ کویش
نامردی و مردی قدمے فاصلہ دارد

پَگ آگے، پَت رہے اور ایک پَگ پاچھے، پَت جائے ۔ قَدَمِ عشق بیشتر بہتر۔ جس مددگار نے ہزار بلا سے بچا کے یہاں تک زندہ و سالِم پہنچایا ہے وہی وہاں سے بھی مُظفّر و منصور آپ سے ملائے گا۔ نہیں تو یہ صورتِ نَجس لوگوں کو دکھانی کیا ضرور ہے۔ گو بَشَر مجبور ہے؛ لیکن اِس زیست سے آدمی مرنا گوارا کرے، بے مَوت مرے۔ پہلے جب عقل و عشق سے مُعرکہ اَٹکا تھا، میرا دل کھٹکا تھا۔ عَقْل کہتی تھی : ماں باپ کی مُفارَقَت اختبار نہ کرو، سلطنت سی شَے نہ چھوڑو۔ عشق کہتا تھا : ماں باپ کس کے! آزاد ہو، بادشاہت کیسی! سَر رِشتۂ اُلفتِ غیر توڑو۔ کوچۂ دل دار کی گدائی، سلطنتِ ہَفت اِقلیم ہے، اگر مُیسّر آئے۔ بے یار خدا کسی کی صورت نہ دِکھائے۔ عقل کہتی تھی : آبرو کا پاس کرو، ننگِ خانداں نہ ہو۔ غریبُ الوَطَنی سے عار کرو، صَحرا نَوَردی نہ اِختیار کرو۔ عشق کہتا تھا : یار کے ملنے میں عزّت ہے، بادِیَہ پَیمائی میں بہار ہے۔ تَشنۂ خونِ آبلا پا مُدّت سے صَحرا کا خار ہے۔ عقل کہتی تھی : یہ لباسِ شاہی، قَباے فرماں رَوائی چاک نہیں کرتے۔ دانِش مند جادَۂ راستی سے خلاف قدم نہیں دَھرتے۔ عشق کہتا تھا : لباس، عُریانی ہے۔ عقل دیوانی ہے۔ یہ وہ جامہ ہے جسے اِحتیاجِ شُست و شو نہیں۔ کیسی ہاتھا پائی ہو، چاک نہ ہو، کسی آلایِش سے نا پاک نہ ہو؛ اَصْلا کارِ سُوزَن و رَفو نہیں۔ نہ بار برداری اِس کو چاہیے، نہ چُور کا ڈر، نہ راہ زَن سے خَطَر ہے۔ پانی سے بھیگے نہ آگسے جلے، سڑے نہ گلے، گلے سے کبھی جدا نہ ہو۔ نہ بند بندھے، نہ واہو۔ نہ کوئی اِس کو لے سکے، نہ خود کسی کو دے سکے۔ نہ دستِ وحشت میں اِس کا تار آئے، نہ اِس کے دامن تک سِرِ خار آئے۔ نہ اِس کا جسم لاغَر پر بوجھ ہو، نہ کسی کے بدن پر بار ہے۔ مسافرِ صَحراے مُحبّت کو یہی درکار ہے۔ آتش :

تن کی عُریانی سے بہتر نہیں دُنیا میں لباس
یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں سیدھا اُلٹا

آخرِ کار بہ صَد تکرار عقل کو شِکستِ فاش ہوئی، کوچۂ دِلبر کی تلاش ہوئی۔ نام سے نفرت، ننگ سے تنگ ہو، نشانِ ہوش و حواس مِٹایا۔ سلسلۂ دیوانگی ہاتھ آیا۔ طبیعت عشق کی محکوم ہوئی۔ وحشت کی ترقی میں سِر اور پتھّر کا مقابلہ ہوا، لڑکوں کی دھوم ہوئی۔ دامانِ غیرت، گِریبانِ حیا چاک ہوا۔ ننگ و ناموس کا قصّہ بکھیڑا پاک ہوا۔ ایک پرندہ، کہ تُوتا تھا، رَہ بَر و مددگار ہوا۔ دوسرا دَوِنْدہ، وہ وزیر زادہ تھا، تنہائی میں غم گُسار ہوا۔ پھر تو سلطنت اور وطن چھُوڑ، عزیز اور یگانوں سے رشتۂ مُحبّت تُوڑ، رہ نَوَردِ بادیَۂ حِرماں اور گام فرساے دشت اِدبار ہوا؛ لیکن اُن کا ساتھ بھی نہ سَزا وار ہوا، فلک دَر پَےِ آزار ہوا۔ پہلی بسم اللہ یہ غلط ہوئی کہ منزلِ اوّل میں تُوتا اُڑ گیا۔ وزیر زادہ ہِرَن کے ملنے سے چھُٹ گیا۔ وہ جو اَثاث ظاہِر کی دل لگی کا تھا، لُٹ گیا۔ تنہائی ہمراہ ہوئی۔ مُمِدّ دَم گرم سرد آہ ہوئی۔ کچھ دنوں کے بعد طِلِسم میں پھنسایا ۔ ہمیں رُلا کے دشمنوں کو ہنسایا۔ تھوڑی سی آفت اُٹھا کے رِہائی پائی۔ سِمتِ مطلوب کی راہ ہاتھ آئی؛ مگر نہ سنگِ نِشاں دیکھا، نہ میل نظر آیا۔ نہ گَردِ کارواں دیکھی، نہ صداے زَنگ و جَرَس سُنی۔ نہ راہ بَر ملا، نہ کفیل نظر آیا۔ سواری چھُٹی، پِیادہ پائی ملی، فکرِ غیر سے رِہائی ملی۔

جب اِس منزل میں حضرتِ عشق نے آزمایا، باوُجودِ آبلہ پائی اور خَلِشِ خارِ صَحرا ثابِت قدم پایا؛ دوسرے مَرحَلے میں امتحان مَدِّنظر ہوا، پریوں کے اَکھاڑے میں گُزر ہوا۔ ایک مَہ سیما کو اِس جانِب مَیلان ہوا، پھر وہی عیش و نِشاط کا سامان ہوا۔ بہت سے نَیرنگ دِکھائے، ہر شب عجب دن آگے آئے۔ لِلّٰلہِ الحَمْد کہ شیشۂ عِصمت سنگِ ہَوا و ہَوَس سے سالِم رہا۔ وحشتِ دل کا یہ دستور عالَم رہا۔ رخصت میں مَصلَحَت جانی، جوان و پیر کی بات نہ مانی۔ اب گھر پہنچ کر دُھوکا کھانا، جان بوجھ کر بھول جانا کِس مِلّت میں روا ہے؟ یہ ذرا وَسْوَسَہ ہے۔ مجھ سے وحشیِ بے خود سے ایسی ہوشیاری دور ہے۔ جیتے جی مرگ منظور ہے۔

اِس گُفتگو کی خبر محل میں پہنچی کہ آج اِس طرح کا مَہ جَبیں، حَسیں، انجمن آرا کا عاشق وارِد ہوا تھا، وہ بھی حَرارَتِ مُحبّت سے اُسی آگ میں جلنے جاتا ہے۔ جو دیکھتا ہے آنسو بہاتا ہے۔ انجمن آرا کی ماں دَرِ دَولت سَرا پر چلی آئی۔ خواجہ سَرا دوڑے، بادشاہ سے عرض کی : جلد شہ زادے کو لے کر محل میں رونق فرما ہو جیے۔ بادشاہ جانِ عالم کو ہمراہ لے آرام گاہ میں تشریف لایا۔ وہ بھی ہزار جان سے نِثار ہو، دیر تک پروانہ وار اُس شمْعِ انجمنِ سلطنت کے گِرد پھِری۔ رنڈیوں نے گھیر لیا، سب کو قَلَق ہوا۔

غرض کہ بہ ہزار سَعی بادشاہ نے بہ منّت صُبح کی رُخصت پر اُس شب رُوکا۔ پَہَر بجے خاصَہ طلب ہوا۔ شہ زادے نے اِنکار کیا۔ وہی نوّاب ناظِر حاضر تھا؛ پاؤں پر گِرا، گِرد پھِرا، سمجھایا : پیر و مُرشد! کئی دن سے محل میں کھانا پانی سب کو حرام ہے، جو آپ کچھ بھی نُوش فرمائیں گے، تو یہ سب کھائیں گے۔ ناچار با خاطِرِ فِگار دو چار نِوالے پانی کے گھونٹ سے حَلَق میں اُتارے۔ پھر ہاتھ مُنْہ دُھو، نینْد کا بہانہ کر پلنگ پر جا لیٹا؛ مگر نینْد کِس کی اور سُونا کیسا؟ مُؤلِّف :

وا دَرِ دیدہ سدا رہتا ہے تیری یاد میں
آنکھ جب سے لگ گئی، رُوتے ہیں سُو جانے کو ہم

پھر لیٹے لیٹے انجمن آرا کا تصّور کر، دمِ گرم و آہِ سرد سینے سے بھر کر، یہ پڑھنے لگا، اَبْیات :

تُجھ بِن ہے خراب زندگانی
ہے مجھ کو عذاب زندگانی (۱)
اِتنا تو نہ چھُپ، کہ لے کفن کا
گھبرا کے نقاب، زندگانی

جب کروٹیں بدلتے بدلتے پَسْلیاں دُکھ جاتیں اور بے قراریاں ستاتیں؛ تو دلِ بے تاب کو مُستعِدِ ضبط، آمادۂ جَبْر و صَبر کر یہ کہتا، نظم :

کمالِ ضبط کو عاشق کرے اگر پیدا
کہاں کی آہ، کرے بات بھی اثر پیدا (۲)
ہزار رنگ زمانے نے بدلے، پر افسوس
کہیں ہوئی نہ شبِ ہجر کی سحر پیدا
کرے گی ہمسری نالے کی میرے تو بُلبُل!
شعور اِتنا تو کر جا کے جانور پیدا
ہمیشہ ہاتھوں سے اِن کے رہا ہوں میں جلتا
یہ زُور گرم ہوئے تھے دل و جگر پیدا
یہ دل میں ذوقِ اسیری ہے جو قَفَس میں مُدام
میں نوچتا ہوں، جو ہوتے ہیں بال و پر پیدا

آخِرشِ بہ صد نالہ و آہ، کراہ کراہ صُبْح کی۔ بعدِ فَراغِ نمازِ پُر سُوز و گُداز مرنے پر کمر باندھی۔ شب کو یہ خبر عام ہوئی تھی کہ کل جادوگر کی لڑائی کو، شہ زادہ آمادہ ہو جائے گا۔ دیکھیے فلک کیا تماشا دکھائے گا! پہر رات رہے سے مجمعِ عام دَرِ دیوانِ خاص پر تھا۔ یکایک روشنی آئی، بادشاہ تخت پر سوار برابر شاہ زادۂ والا تَبار، برآمد ہوا۔ چشمِ مُشتاقاں میں نورِ طور نزدیک و دور تَجلّی کر گیا۔ ہر شخص رو بہ قِبلہ ہو، دُعائے فتح و ظَفَر اُس ماہ پَیکر کی مانگنے لگا۔ اَلقِصّہ جہاں تک لوگ آتے جاتے تھے، بادشاہ ساتھ آیا، آگے بڑھنے کی تاب نہ لایا۔ جانِ عالم نے قسمیں دے کر رُخصت کیا۔ ناچار، بادِلِ داغ دار و خاطِرِ فِگار قَلعے میں داخل ہوا؛ مگر وہاں سے ڈیوڑھی تک صَد ہا بَرکارۂ صبا دَم مُتَعَیّن کیا کہ ہر دم کی خبر حُضور میں پُہنْچے۔ جانِ عالم پھر اکیلا با حسرت و یاس رہا۔ غمِ دلبر رفیقِ قدیم پاس رہا۔ یہ شعر پڑھتا آگے چلا، مُصحفی :

اے غمِ یار! میں بندہ ہوں رفاقت کا تری
نہ کیا تو نے گوارا مری تنہائی کو

آگ کا قلعہ سامنے تھا۔ آسمان سے تاز میں بجر شعلۂ جَوّالہ یا بُرجِ آتَشیں اور کچھ نظر نہ آتا تھا۔ شہ زادہ غور سے دیکھنے لگا۔ ایک ہِرن اُس آگ سے نکلا، اُچھل کود کر پھر اُس میں غائب ہوا۔ جب مُکرّر آمَد و رَفْت کی، جانِ عالم نے لَوح پیر مرد کی دیکھی۔ اُس میں معلوم ہوا : اگر یہ اِسم پڑھ کے کچھ بڑھ کے ہِرن کو تیر مارا اور خطا نہ کی، طِلِسم ٹوٹ جائے گا۔ اگر نشانہ چوکا، خود آماج گاہِ خَدَنگِ قضا ہوا؛ کوئی راکھ کے سِوا پتا نہ پائے گا۔ شہ زادے نے کہا: جو ہِرن مارا، تو میدان مارا، لطفِ زندگی ہے۔ نہیں، حیلۂ مرگ خوب ہے۔ بے یار جينا مَعیوب ہے۔

یہ سوچ، لَبِ سوفار چِلّے سے جُوڑ، شِست و مُشت برابر کر اِسم شُروع کیا۔ اُدھر ہِرن نکلا، اِدھر تیر کمان سے سَرگوشی کر کے چلا۔ بس کہ یہ قَدَر انداز تھا، اُس کی قضا دامن گیر؛ تیر دوسار ہوا۔ فِردوسی:
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۰

اُس جگر فِگار، کُشتۂ انتظار ملکہ مہر نگار کا۔

شرح جگر خراشیِ مصائب دیدۂ روزگار، یعنی ملکہ مہر نگار کی۔ تڑپ، بے قراری، نالۂ نیم شبی اور اشک باری اُس مصیبت شِعار کی۔ دو ایک جملۂ مُعترضۂ پُر شکایت، کششِ محبت کی حکایت۔ نظم :

کدھر ہے تو اے ساقیِ بے خبر!
نہ کی لطف وے غم زادوں پر نظر

ہوا حال شادی کا سب اختتام
مگر غم کا قصہ ہے وہ ناتمام

تپش سے، تڑپ سے تو کر دے بہم
کہ لکھتا ہوں پھر داستانِ الم

خوشی سے، مجھے رنج مرغوب ہے
یہ مونس ہے، ہم دم بہت خوب ہے

یہی ساتھ دیتا شب و رُوز ہے
یہ غم، عاشقوں کا غم اندُوز ہے

نالہ نوازانِ بزمِ ماتم و تفتہ جگرانِ کُلبۂ غم، حاکیانِ حکایتِ حُزن و ملال و نثارانِ دل خوں، آشُفتہ حال لکھتے ہیں کہ اُس بے سر و ساماں، کُشتۂ ہجراں، دور از دِل دار وہم قرین غم، رونا دیدۂ شادی، بُوریا نجشینِ ماتم، دِل رِیش، سینہ فِگار یعنی ملکہ مہر نگار کا فُرقت میں یہ حال ہوا، اُستاد :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۱

یاں تک کہ اُٹھانے کا وقت اپنے، قریب آیا
اِس پر، مرے بالیں پر تم اُٹھ کے نہ آ بیٹھے (۱)

میں نام ترا لے لے دن رات جو چِلاؤں
اُو سُنتے ہوئے بہرے! کیوں کر نہ گلا بیٹھے

جو کوئی کہتا: خیر ہے ملکہ! گُھلی جاتی ہو، کیوں اتنا رنج و غم کھاتی ہو! تو یہ کہتی، مُصحفیؔ :

غم کھاتی ہوں لیکن مری نیت نہیں بھرتی (۲)
کیا غم ہے مزے کا کہ طبیعت نہیں بھرتی

مُؤلف :

نہ پوچھو کچھ مری حالت کہ اس دل کے لگانے سے
پریشاں، سینہ سُوزاں، مُنفعل، سر در گریباں ہوں

ایسی باتیں درد آمیز، وحشت انگیز کرتی کہ سُننے والوں کی چھاتی پھٹتی۔ وہ کہتیں: نظر بہ خدا رکھو۔ حسنؔ :

اُسے فضل کرتے، نہیں لگتی بار (۳)
نہ ہو اُس سے مایوس، اُمیدوار

سُوزؔ :

پھر بہار آتی ہے تجھ میں، اے گلستاں! غم نہ کھا (۴)
وہ چلی آتی ہے فوجِ عند لیباں، غم نہ کھا

گو کہ شب آخر ہوئی، اے شمع! تو زاری نہ کر
پھر وہی محفل، وہی تیرا شبستاں، غم نہ کھا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۲

وہ سُن کر یہ کہتی کہ میں چراغِ سحری ہوں؛ یقین ہے کہ تاصُبح بزمِ جہاں سے، جل کے، سفری ہوں۔ خسروؔ :

پس از انکہ من نمانم، بچہ کار خواہی آمد (۱)

مُؤلف :

ہمارے جان کے جانے میں جب عرصہ رہا تھوڑا
تب اُس کے دل میں آیا دھیان میرے پاس آنے کا

آج تک اُس غفلت شعار، فرامُوش کار کی کچھ خبر نہ آئی؛ ہم نے غمِ جدائی میں مفت جان گنوائی۔ مُؤلف :

تپِ جُدائی سے اس طرح اب نزار ہوں میں
اجل کے مُنہ سے بھی، غالب ہے، شرمسار ہوں میں

کیا ہے رنجِ جُدائی نے ایسا کہ ہیدہ
نظر میں خلق کی، رشکِ خطِ غُبار ہوں میں

جو تو وہ گُل ہے کہ عالم کے دل میں ہے تری جا
تو سب کی آنکھ میں کھٹکا کیا، وہ خار ہوں میں

قرار می برد از خلق آہ و زاریِ ما
سُرورؔ! رنج میں کس کے یہ بے قرار ہوں میں

یہ معمول تھا: جب چار گھڑی دن رہتا، سوار ہو کر؛ اُن درختوں میں، جہاں جانِ عالم سے ملاقات ہوئی تھی، جاتی اور جو جو شریکِ راحت و رنج تھیں، اُن سے مخاطب ہو یہ کہتی، اہلیؔ شیرازی :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۳

خوش آنکہ تو باز آیی و من پای تو بوسم
در سجدہ فُتم، خاکِ قد مہای تو بوسم (۱)

ہر جا کہ تو روزے نفسے جای گرفتی
آنجا روم و گریہ کُناں جای تو بوسم

روی تو تصور کنم و لالہ و گل را
در حسرتِ رخسارِ دل آزای تو بوسم

ہر جا کہ غزا لیست، چو منجوں سر و چشمش
در آرزوی نرگسِ شہلای تو بوسم

من اہلیؔ درویش، توآں شاہِ بُتانی
دستیکہ ببوسم، بہ تمنای تو بوسم

اور کبھی صُبح سے پھرتے پھرتے، قریبِ شام بادلِ ناکام اُسی جنگل میں پھر آتی، یہ غزل زبان پر لاتی، جُرأتؔ :

بہ شکلِ مہر ہے گردش ہی ہم کو سارے دن
جو تم پھر آؤ تو پیارے، پھریں ہمارے دن

نہیں ہے تیرے مریضانِ ہجر کا چارہ
اب اپنی زیست کے بھرتے ہیں یہ بچارے، دن

بہ وصل کیونکے مُبدل ہوں ہجر کے ایام
مکگر خدا ہی یہ بگڑے ہوئے سنوارے دن

رہے تھا جب کہ ہم آغوش مجھے سے وہ پیارا
عجب مزے کی تھیں راتیں، عجب تھے پیارے دن

کب اُس سے ہو گی ملاقات، میں یہ پوچھوں ہوں
ذرا تو دیکھ نجومی! مرے ستارے، دن

لگایا رُوگ جوانی میں کیوں میاں جُرأتؔ
ابھی تو کھیل تماشے کے تھے تمہارے دن
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۴

رات کو بہ حالِ بے قرار وہ سُگوار ناچار گھر آتی۔ تمام شب کراہ کراہ، سب کو جگاتی اور یہ سُناتی، اُستاد :

حرام نیند کی، اقرارِ وصلِ جاناں نے (۱)
الٰہی! کوئی کسی کا اُمیدوار نہ ہو

وہ رات جسے شبِ فُرقت کہتے ہیں، بے چینی سے پہاڑ ہو جاتی؛ تو وہ غم کی ماری سخت گھبراتی، یہ لب پر لاتی، اُستادؔ :

جیسا شبِ عشرت کو فلک! تو نے گھٹایا (۲)
کہ جلد نہ فرقت کی، ستم گر، سحر ایسی!

ہے ہے! آج نہ صداے مُرغِ سحر آئی، نہ مُوذِن نے ندائے اللہُ اکبر سُنائی۔ نہ خواب غفلت سے پاسبان کم بخت چونکا اور نیند کی جُھونک میں، گھڑیالی بھی گجر کا بجانا بھول گیا۔ جُرأتؔ :

تھے شبِ وصل یہ سب جان کے کھانے والے (۳)
آج کیا مر گئے گھڑیال بجانے والے!

شب کو نالہ تھا، دن کو زاری تھی؛ دن رات اُس پر سخت بھاری تھے۔ لوگ کہتے تھے: ملکہ! اللہ کو یاد کرو، کبھی تو دل کو شاد کرو۔ شافی مُطلق تمہارے مرض مُفارقت کو بہ صحتِ وصل بدل کرے؛ اب رُوزِ وِصال، عنایتِ ذُوالجلال سے قریب ہے؛ تو اُس وقت بہ حسرت یہ کہتی، اُستاد :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۵۵

شبِ وِصال جو قسمت ہے ہے، تو ہووے گی (۱)
دُعا کرو، شبِ فرقت تو یہ سحر ہووے

نظم:

مریضِ ہجر کو صحت سے ات تو کام نہیں
اگرچہ صبح کو یہ بچ گیا تو شام نہیں (۲)

رکھو ویا نہ رکھو مرہم اس پہ، ہم سمجھے
ہمارے زخمِ جُدائی کو اِلتیام نہیں

کیا جو وعدۂ شب اُس نے، دن پہاڑ ہوا
یہ دیکھیو مری شامت کہ ہوتی شام نہیں

وہی اُٹائے مجھے، جس نے مجھ کو قتل کیا
کہ بہتر اس سے مرے خوں کا انتقام نہیں

اُٹھایا داغِ گُل، افسوس، تم نے دل پہ سُرورؔ
میں تم سے کہتا تھا، گلشن کو کچھ قیام نہیں

اُستاد :

آخر شبِ وصال کی جا، پیش کی وہی (۳)
ہر دن تھا اے فلک مجھے جس رات کا خیال

مُعاملاتِ عشق دیکھیے : وہاں شہ زادے کو غم سے فراغ، کیفیتِ باغ، گُل عذار بغل میں، راحت و آرام؛ یہاں ملکہ آتشِ فراق سے بادلِ پُر داغ، آشُفتہ دماغ، خارِ غم جگر میں گرفتارِ رنج و آلام۔ لیکن دردِ دلِ بے قرار، نالۂ جگر افگار رایگاں نہیں جاتا۔ جب تڑپ بلبل کے دل میں زیادہ ہوتی ہے، موسمِ گُل آتا ہے۔ اسی طرح سُوزِ دلِ عاشق جو حد سے فُزؤں ہو، معشوق رحم کھاتا ہے۔ بھولا ہو، یاد آئے۔ وگر ہجر میں پھڑک کر مر جائے، مطلوب کو نعش پر لائے، اُس کی بھی جان گنواتا ہے۔ حضرتِ عشق دشمنِ جانِ عاشق و معشوق ہیں، ان کا حال کیا کہیں؛
 
Top