محمد عمر
لائبریرین
۲۱۸
سلطنت دی، دو پائیں۔ یہ دونوں بدبَخْت جو لالچی تھے، اِنہوں نے جانیں گنوائیں۔ قِیامت تک مَطْعونِ خَلائِق رہیں گے۔ جتنے نیک ہیں؛ یہ قِصّہ سُن کر، بد کہیں گے۔ رنڈی اِن باتوں سے بَرسَر رحم ہوئی، بندر کی تسکین کی، کہا : تو خاطر جمع رکھ، جب تک کہ جیتی ہوں، تجھے بادشاہ کو نہ دوں گی، فاقہ قبول کروں گی۔ پھر اُسے رُوٹی کھِلا، پانی پِلا، کِھنّڈری میں لِٹا، سُو رہی۔
صبح کو چِڑیمار اُٹھا، بندر کے لے جانے کا قَصْد کیا۔ عورت نے کہا : آج اَور قسمت آزما، پھر جانور پکڑنے جا۔ جو رُوٹی مُیسّر آئے تو کیوں اِس کی جان جائے؛ ہم پر ہَتیا لگے، بد نامی آئے۔ نہیں تو کل لے جانا۔ وہ بولا : تو اِس کے دَم میں آ گئی۔ بندر نے کہا : ماشاء اللہ! رنڈی تُو خدا پر شاکِر ہے، تو مرد ہو کر مُضْطَر ہے؟ پاجی تُو زَن مُرید ہوتے ہی ہیں، پھر وہ پَٹَک جھٹک؛ جال، پھَٹکی اُٹھا؛ لاسا، کَمپالے؛ ٹَٹّی کندھے سے لگا گھر سے نِکلا۔ یا تو دن بھر خراب ہو کر دو تین جانور لاتا تھا؛ اُس رُوز دو پَہَر میں پچاس ساٹھ ہاتھ آئے، پھَٹکی بھر گئی۔ خوش خوش گھر پھرا۔ کئی روپے کو جانور بیچے۔ آٹا، دال، نُون، تیل، لکڑی خرید، تھوڑی مٹھائی لے، بھَٹّی پر جا کے ٹکّے کا ٹھرّا پیا۔ ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ جھومتے، گیت گاتے گھر کا راستہ لیا، مُفلسی کا غم بچّہ بھول گئے۔ جُورو سے آتے ہی کہا : اَری ! بَنومان جی کے کدم
۲۱۹
بڑے بھگوان ہیں۔ بھگوان نے دَیا کی، آج رُپیّا دلوائے، اِتنے جانور ہاتھ آئے۔ وہ گھر بَسی بھی بہت ہنسی۔ پہلے مٹھائی بندر کو کھلائی؛ پھر روٹی پکا، آپ کھا، کچھ اُسے کھِلا، پڑ رہی۔ بندر بِیچارا سمجھا : چَندے پھر جان بچی، جو فلک نہ جل مرے اور اِس کا بھی رشک نہ کرے۔ مُؤلِّف :
کیا شاخِ گُل پہ پھول کے بیٹھی ہے عَنْدِلیب
ڈرتا ہوں مَیں، چشمِ فلک کو بُرا لگے
جب لایا، بارِ یاس ہی لایا یہ، اے سُرور
گاہے نہ نَخلِ غم میں ثَمَر اِس سِوا لگے
اب روز بہ روز چِڑیمار کی ترقّی ہونے لگی۔ تھوڑے دنوں میں گھر بار، کپڑا لَتَّہ، گہنا پاتا درست ہو گیا۔ قَضارا، کوئی بڑا تاجِر سَرا میں اُس بھٹیاری کے گھر میں اُترا، جس کی دیوار تلے چِڑیمار رہتا تھا۔ ایک روز بعد نمازِ عِشا سوداگر وظیفہ پڑھتا تھا؛ نا گاہ آوازِ خوب، صدائے مرغوب، جیسے لڑکا پیاری پیاری باتیں کرتا ہے، اُس کے کان میں آئی۔ بھٹیاری سے پوچھا: یہاں کون رہتا ہے؟ وہ بولی : چِڑیمار۔ سوداگر نے کہا : اُس کا لڑکا خوب باتیں کرتا ہے۔ بھٹیاری بولی : لڑکا بالا تو کوئی بھی نہیں، فقط جُورو خَصَم رہتے ہیں۔ سوداگر نے کہا : اِدہر آ، یہ کس کی آواز آتی ہے؟ بھٹیاری جو آئی، لڑکے کی آواز پائی۔ وہ بولا : اِس صدا سے بڑے درد
۲۲۰
پیدا ہے؛ اِس کو میرے پاس لا، باتیں کروں گا۔ کچھ لڑکے کو دوں گا اور تیرا بھی مُنہ میٹھا کروں گا۔
بھٹیاری چِڑیمار کے گھر گئی۔ دیکھا : بندر باتیں کرتا ہے۔ اِسے دیکھ چُپ ہو رہا۔ وہ دونوں بھٹیاری کے پاؤں پر گر پڑے، مِنّت کرنے لگے، کہا : ہم نے اِسے بچّوں کی طرح پالا ہے، اپنا دُکھ ٹالا ہے۔ شہر پُر آشُوب ہو رہا ہے، بندر کُش بادشاہ اُترا ہے، ایسا نہ ہو، یہ خبر اُڑتے اُڑتے اُسے پہنچے؛ بندر چھِن جائے، ہم پر خرابی آئے۔ وہ بولی :مجھے کیا کام جو ایسا کلام کروں۔ سَرا میں آ کے سوداگر سے کہا : وہاں کوئی نہ تھا۔ اُس نے کہا: دیوانی! ابھی وہ آواز کس کی تھی؟ یہ غَور سُنیے کہ کیا معقول جواب وہ نامعقول دیتی ہے : بَلَیّاں لوں، بھلا مجھے کیا غَرضَ جو کہوں : بندر بولتا ہے۔ سوداگر خوب ہنسا، پھر کہا : تو سِڑَن ہے، اری بندر کہیں بولا ہے! پھر بولی : جی گریب پَروَر! صد کے گئی؛ اِسی سے تو مَیں بھی نہیں کہتی ہوں کہ بندر بولتا ہے، اور چِڑیمار کی جورو نے بتانے کو منع کیا ہے۔ سوداگر کو سخت خَلْجان، بہ مرتبہ خَفْقان ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے! مکان قریب تھا، خود چلا گیا۔ دیکھا تو فِی الْحقیقت ایک عورت، دوسرا مردِ مُچھَنْدَر، تیسرا بندر ہے۔ یقینِ کامل ہوا یہی بندر بولتا تھا۔ بھٹیاری سچّی ہے، گُو عقْل کی کچّی ہے۔ وہ سوداگر کو دیکھ کے بندر کو چھِپانے لگے، خوف سے تھرّانے لگے۔ اِس نے کہا : بھید کھُل گیا، اب پوشیدہ کرنا اِس کا لا حاصل ہے۔ مَصلَحت یہی ہے، بندر
۲۲۱
ہمیں دو۔ جو اِحتِیاج ہو، اِس کے جِلدو میں لُو۔ نہیں تو بادشاہ سے اِطّلاع کروں گا، یہ بے چارہ مارا جائے گا، چھِپانے کی علّت میں تمھارا سِر اُتارا جائے گا، میرا کیا جائے گا۔ وہ دونوں رُونے پیٹنے لگے۔ بندر سمجھا : اب جان نہیں بچتی، اِتنی ہی زیست تھی؛ چِڑیمار سے کہا : اے شخص! فَلَکِ کَج رفتار، گَردونِ دَوّارنے اِتنی جفا پر صبر نہ کیا، یہاں بھی چَین نہ دیا ؛ مناسب یہی ہے رَضائے اِلٰہی پر راضی ہو، مجھے حوالے کر دو۔ قضا آئی، ٹلتی نہیں۔ تقدیر کے آگے کسی کی تدبیر چلتی نہیں۔ فَردِ بَشَر کو حُکمِ قضا و قَدَر سے چارہ نہیں، اِس کے ٹال دینے کا یارا نہیں۔ إِذَا جَآءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَ۔ْٔخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ ۔
چِڑیمار نے کہا: دیکھو بندر کی ذات کیا بے وفا ہوتی ہے! ہماری محنت و مَشَقَّت پر نظریہ نہ کی، تُوتے کی طرح آنکھ پھیر لی، سوداگر کے ساتھ جانے کو راضی ہو گیا۔ بڑا آدمی جو دیکھا، ہمارے پاس رہنے کا مطلق پاس نہ کیا۔ بندر نے کہا : اگر نہ جاؤں، اپنی جان کھوؤں، تم پر خرابی لاؤں۔ آخر کار بہ ہزار گِریہ و زاری سوداگر سے دونوں نے قسم لی کہ بادشاہ کو نہ دینا، اچھی طرح پَروَرِش کرنا۔ یہ کہہ کر بندر حوالے کیا۔ سوداگر نے اِس کے عوض بہت کچھ دیا۔ بندر کو سَرا میں لا پیار کیا، بہ دل داری و نرمی حال پوچھا۔ بندر نے یہ چند شعر حَسْبِ حال، سودا کے، سوداگر کے رو بہ رو پڑھے، مرزا رفیع:
۲۲۲
نے بلبلِ چمن، نہ گُل نَو دَمیدہ ہوں
میں مَوسَمِ بہار میں شاخِ بُریدہ ہوں (۱)
گِریاں بہ شکل شیشہ و خَنداں بہ شکلِ جام
اِس مَے کدے کے بیچ عَبَث آفریدہ ہوں
میں کیا کہوں کہ کون ہوں سودا! نہ قولِ درد
جو کچھ کہ ہوں سُو ہوں، غرض آفت رسیدہ ہوں
اے عزیز! آتَشِ کارواں، نقشِ پاے یارانِ رَفتَگاں ظاہر ہوں؛ مگر پنہاں ہوں بلبلِ دور اَز گُلزار، گُم کردہ آشِیاں؛ صیّاد آمادۂ بیداد، گھات میں باغباں؛ کیوں کر نہ سرگرمِ فغاں ہوں۔ حضرتِ عشق کی عِنایت ہے، احبابِ زمانہ کی شکایت ہے، طُرفَہ حکایت ہے کہ حاجت رَوائے عالَم، محتاج ہے۔ تخت ہے نہ اَفسر ہے، نہ وہ سِر ہے نہ تاج ہے۔ غریب دِیار، چرخ مؤجِدِ آزار۔ شفیق و مہرباں نہیں، حالِ زار کا کوئی پُرساں نہیں۔ حیرت کا کیوں نہ مُبتَلا ہوں، اپنے ہاتھ سے اَسیرِ دامِ بَلا ہوں۔ خُود گرفتارِ پنجۂ ستم ہوا؛ کبھی مجھے جِن کا اَلَم تھا، اب اُنہیں میرا غم ہوا۔ مرنے سے اِس لیے ہم جی چھِپاتے ہیں کہ ہمدم میرے فراق میں موئے جاتے ہیں۔ مجھے دامِ مکر میں اُلجھایا، دوستوں کو میرے دشمن کے پھندے میں پھنْسایا، گردشِ چرخِ ستم گار سے عجیب سانِحۂ ہُوش رُبا سامنے آیا۔ میر تقی:
سخت مشکل ہے، سخت ہے بیداد
ایک مَیں خوں گِرِفتہ، سَو جلّاد (۲)
کوئی مشفق نہیں جو ہووے شفیق
بے کَسی چھُٹ، نہیں ہے کوئی رفیق
آہ، جو ہمدمی سی کرتی ہے
اب تو وہ بھی کمی سی کرتی ہے
اب ٹھہرتا نہیں ہے پائے ثَبات
ایک مَیں اور ہزار تَصْدیعات
۲۲۳
مصر؏ : گویم، مشکل و کرنگویم، مشکل۔
مگر آج خوش قسمتی سے آپ سا قَدْر داں ہاتھ آیا ہے، اِنتِشارِ طبیعت بَر طَرف ہو تو بہ دِل جَمْعِیِ تمام، آغاز سے تا انجام اپنی داستانِ غم، سانھۂ ستم گُزارِش کروں گا۔ سوداگر کے، اِس مضمونِ درد ناک سے، آنْسو نکل پڑے، سمجھا: یہ بندر نہیں، کوئی فَصیح و بَلیغ، عالیٰ خاندان، والا دودمان سِحر میں پھنس گیا ہے، کہا : اطمینانِ خاطر رکھ، تیری جان کے ساتھ میری جان ہے، اب زیست کا یہی سامان ہے۔ بندر کو تسکینِ کامل حاصل ہوئی۔ غزلیں پڑھیں، نَقْل و حِکایات میں سَر گرم رہا، اپنا حال پھر کچھ نہ کہا۔ تمام شب سوداگر نہ سویا، اِس کے بیانِ جاں کاہ پر خوب رُویا۔
اب بہت تعظیم و تکریم سے بندر رہنے لگا۔ مگر اَمرِ شُدَنی بہ ہر کیف ہُوا چاہے۔ راز فاش ہو، اگر خُدا چاہے۔ سوداگر کا یہ انداز ہوا : جو شخص نیا اِس کی ملاقات کو آتا، اُسے بندر کی باتیں سُنواتا۔ اُس کو اِستِعجاب سے فِکر ہوتا، اِس کا ہر جگہ ذِکر ہوتا۔ آخِرَش، اِس کی گُویائی کا چرچا کوچہ و بازار میں مچا اور یہ خبر اُس کُور نمک، مُحسنِ کُش کے گُوش زَد ہوئی۔ سُنتے ہی سمجھا یہ وہی ہے، بعدِ مُدّت فلک نے پتا لگایا، اب ہاتھ آیا۔ فوراً چُوبدار بندر کے لینے کو، سوداگر کے پاس بھیجا۔ یہ بہت گھبرایا۔ اَور تو کچھ بَن نہ آیا، بہ صَد عَجزو نِیاز عرضْداشت کی کہ غلام صاحبِ اَولاد نہیں، اِس اَندوہ میں
۲۲۴
دل مُضطر شاد نہیں۔ طبیعت بہلانے کو اِسے بچّہ سا لے کر فرزندوں کی طرح بڑی مَشقّت سے پالا ہے، رات دن دیکھا بھالا ہے۔ بندر ہے، مگر عَنْقا ہے۔ مُفارَقت اِس کی خانہ زاد کی جان لے گی، آیِندہ جو حضور کی مرضی۔
چُوبدار یہاں سے خالی پھِرا، وہ ظالِم اَظْلَم غَضَب میں بھَرا، وہاں کے بادشاہ کو لکھا کہ اگر سلطنت اور آبادیِ مَمْلکَت اپنی منظور ہو، سوداگر سے جلد بندر لے کر یہاں بھیج دو۔ نہیں تو اپنٹ سے اینٹ بجا دوں گا، نام و نشاں مِٹا دوں گا۔ یہ خَبْرِ وحشت اَثَر سُن کے غَصَنْفر شاہ مُتردِّد ہوا۔ مُشیرانِ خوش تدبیر، امیر وزیر سمجھانے لگے کہ خُداوندِ نعمت! ایک جانور کی خاطر آدمیوں کا کُشْت و خوں زَبوں ہے۔ حکم ہوا : کچھ لوگ سرکاری وہاں جائیں؛ جس طرح بَنے، سوداگر سے بِگڑ کر، بندر اُس کی ڈیوڑھی پر پہنچائیں۔ جب بادشاہی خاص دستہ سَرا میں آیا؛ بندر دست بَسْتَہ یہ زبان پر لایا کہ اے مؤنسِ غم گُسار، وفا شِعار! اِس اَجَل رَسیدَہ کے باب میں کَدو کوشش بے کار ہے، سَراسَر بیجا ہے۔ قضا کا زمانہ قریب پہنچا، دَرِ ناکامی وا ہے۔ مَبادا، کسی طرح کا رنج میری دوستی میں تمھارے دشمنوں کو پہنچے؛ تو مجھے حَشْر تک حِجاب و نَدامت رہے، خلقِ خُدا یہ ماجرا سُن کے بُرا بھلا کہے۔ سوداگر نے کہا : اِسْتَغْفِرُاللّٰہ یہ کیا بات ہے! جو کہا، وہ سِر کے ساتھ ہے۔
۲۲۵
جب بادشاہ کے لوگوں کا تقاضاے شَدید ہوا اور دن بہت کم رہا؛ بعدِ دَدّ و قدح، بہ مَعذِرَتِ بِسیار و مِنَّت بے شُمار، ہزار دینار دے کے اُس شب مُہلت لی اور صُبْح کے چلنے کی ٹھہری، بہ مؤجِبِ مَثَل، مصرع :
زر برسَرِ فولاد نہی، نرم شود
اِس عرصے میں یہ حال تباہ، ماجراے جان کاہ گلی کوچے میں زَبان زَدِ خاص و عام ہوا کہ ایک بندر کِسی سوداگر کے پاس باتیں کرتا تھا، وہ بھی کل مارا جائے گا۔ نہ حَدِّے کہ اُس کُشتَۂ اِنتِظار، مایوسِ دل فِگار یعنی ملکہ مہر نگار کو بھی معلوم ہوا۔ وہ شیداے جانِ عالم سمجھی کہ یہ بندر نہیں، شہ زادہ ہے۔ افسوس! صد ہزار افسوس! اب کون سی تدبیر کیجیے جو اِس بے کس کی جان بچے! دل کو مَسُوس، وزیر زادے کو کُوس، لوگوں سے پوچھا : دَمِ سَحَر کدھر سے وہ سوداگر جائے گا؟ یہ تماشا ہمارے دیکھنے میں کیوں کر آئے گا؟ لوگوں نے عرض کی : حضور کے جھَروکے تلے شاہراہ ہے، یہی ہر سِمت کی گُذَرگاہ ہے۔ یہ سُن کے تمام شب تڑپا کی، نیند نہ آئی۔ دو گھڑی رات سے برآمدے میں برآمد ہوئی اور ایک تُوتا پنْجرے میں پاس رکھ لیا۔ گَجَر سے پِیش تر بازار میں ہُلّڑ، تماشائیوں کا مِیلا سا ہو گیا۔ جس وقت تاجِرِ ماہ نے مَتاعِ انجم کو نِہاں خانۂ مغرب میں چھپایا اور خُسروِ رنگیں کُلاہ نے بندرِ مشرق سے نکل کر تخت، زَنگاری پر جُلوس فرمایا ؛ سوداگر نمازِ صُبْح پڑھ کر ہاتھی پر سوار
۲۲۶
ہوا ۔ کمر میں پِیش قَبض رکھ، گُود میں بندر کو بِٹھا، مرنے پر کمر مضبوط باندھ کر مجبور چلا۔ بندر سے کہا : پریشان نہ ہو، جب تقریر سے اور اِصرافِ کثیر سے کام نہ نکلے گا؛ جُو کچھ بَن پڑے گا، وہ کروں گا۔ اپنے بچے جی تجھے مرنے نہ دوں گا۔ قولِ مَرداں جان دارد۔ اور، مصرع :
بعد از سَرِ من کُن فَیَکوْں شُد، شُدہ باشد
سوداگر کا سَر اسے سَراسیمَہ آگے بڑھنا کہ خَلقت نے چار طرف سے گھیر لیا۔ بندر لوگوں سے مُخاطِب ہو کے یہ کہنے لگا، میر سوز :
برقِ تَپیدہ، یا شَرَرِ بَر جَہیدہ ہوں
جس رنگ میں ہوں مَیں، غرض از خودر میدہ ہوں (۱)
اے اہلِ بزم! مَیں بھی مُرَقّع میں دَہْر کے
تصویر ہوں، وَلے لَب حسرت گُزیدہ ہوں
صیاد! اپنا دام اُٹھا لے کہ جوں صبا
ہوں تو چمن میں، پر گُلِ عشرت نچیدہ ہوں
اے آہ و نالہ! مجھ سے نہ آگے چلو کہ مَیں
بِچھڑا ہوں کارواں سے، مسافر جَریدہ ہوں
غم ہوں، الم ہوں، درد ہوں، سوز و گداز ہوں
سب اہلِ دل کے واسطے مَیں آفریدہ ہوں
صاحِبو! دُنیاے دؤں، نَیرنگیِ زمانۂ سِفْلَہ پَروَر، بو قَلَمؤں
۲۲۷
عبرت و دید کی جا ہے۔ گرما گرم آیِندہ رَوِند کا بازار ہے۔ کَس و ناکَس جِنْسِ نا پایدار، لَہْو و لَعْب کا خریدار ہے۔ اپنے کام میں مصروف قضا ہے۔ جُو شَے ہے، ایک روز فنا ہے۔ مُعاملاتِ قضا و قَدَر سے ہر ایک ناچار ہے، یہی مَسْئَلَۂ جَبْرو اِختیار ہے۔ کوئی کسی کی عداوت میں ہے، کوئی کسی کا شیدا ہے۔ جسے دیکھا، آزاد نہ پایا؛ کسی نہ کسی بَکھیڑے میں مُبتَلا ہے۔ ایک کو اَتنا سوجھتا نہیں کیا لِین دین ہو رہا ہے۔ سُود کی اُمّید میں سَراسَر زِیاں ہے؛ سِڑی ہونے کا سودا ہے۔ اُس کی قُدرتِ ناطِقَہ دیکھو: مجھ سے نا چیز، بے زَباں کو یہ تکلُّفِ گویائی عنایت کیا؛ تم سب کا سامِعُوں میں چِہرہ لکھ دیا، باتیں سُننے کو ساتھ چلے آتے ہو ۔ جُدائی میری شاق ہے، جو ہے وہ مشتاق ہے، حالِ زار پر رحم کھا آنسو بہاتے ہو۔ یہ رَحیمی کی صفت ہے؛ شانِ قَہّاری دیکھو: اُسی تقریر کی دھوم سے، ایک ظالِم شوم سے مجھ مظلوم کا مُقابلہ ہوتا ہے۔ یقینِ کامل ہے کہ وہ قتل کرے گا، بے گُناہ کے خون سے ہاتھ بھرے گا۔ سَوَادُ الْوَجہِ فَی الدَّارَين ہو گا، تب اُسے آرام اور چَین ہو گا۔ یہ گُویائی، گُویا پیامِ مرگ تھا۔
دُنيا جاے آزمایِش ہے۔ سَفیہ جانتے ہیں یہ مُقام قابلِ آرام و آسایِش ہے۔ دو رُوزہ زیست کی خاطر کیا کیا ساز و ساماں پیدا کرتے ہیں۔ فرعونِ با ساماں ہو کے زمین پر پاؤں نہیں دھرتے
۲۲۸
ہیں۔ جب سِر کو اُٹھا آنکھ بند کر کے چلتے ہیں، خاکساروں کے سِر کُچلتے ہیں۔ آخِر کار حسرت و ارماں فَقَط لے کر مرتے ہیں۔ جان اُس کی جُستُجو میں کھُوتے ہیں جو شَے ہاتھ آئے ذِلّت سے، جمع ہو پریشانی مَشقّت سے، پاس رہے خِشَّت سے، چھوٹ جائے یاس و حسرت سے۔ پھر سِر پر ہاتھ دھر کر رُوتے ہیں۔ صُبح کو کوئی نام نہیں لیتا ہے، جو کسی اور نے لیا تو گالیاں دیتا ہے۔ ناسخ :
دُنیا اک زا لِ بِیسوا ہے
بے مہر و وفا و بے حیا ہے(۱)
مَردوں کے لیے یہ زن ہے رہِ زن
دنیا کی عدو ہے، دیں کہ دشمن
رہتی نہیں ایک جا پہ جم کر
پھرتی ہے بہ رنگِ نَرْد گھر گھر
انجامِ شاہ و گدا دو گز کَفَن اور تختۂ تابوت سے سوا نہیں۔ کسی نے اَدَھر سا، یا محمودی کا دیا، یا تحریرِ کربلا؛ کسی کو گَزی گاڑھا مُیسّر ہوا بہ صد کرب و بَلا۔ اُس نے صندل کا تختہ لگایا، اِس نے بِیر کے چَیلُوں میں چھِپایا۔ کسی نے بعد سنگِ مَرمَر کا مَقبَرہ بنایا، کسی نے مَرمَر کے گُور گڑھا پایا۔ کسی کا مزار مُطَلّا، مُنَقّش، رنگا رنگ ہے۔ کسی کی، مانِندِ سینۂ جاہِل، گُور تنگ ہے۔ حسرتِ دنیا سے کَفَن چاک ہوا، بستر دونوں کا فرشِ خاک ہوا۔ نہ امیر سَمْور و قاقُم کا فرش بِچھا سکا، نہ فقیر پھٹی شَطْرنْجی اور ٹوٹا بُوریا لا سکا۔ بعدِ چَنْدِے، جب گردشِ چرخ نے گُنبد گرایا، اینٹ سے اینٹ کو بجایا تو ایک نے یہ بتایا کہ دونوں میں یہ گُورِ شاہ ہے، یہ لَحَدِ فقیر ہے۔ اِس کو مَرگِ جوانی نصیب ہوئی، یہ اُسْتُخوانِ بُوسیدَۂ پیر ہے۔ سُو یہ بھی
۲۲۹
خوش نصیب، نیک کمائی والے گُور گڑھا، کَفَن پاتے ہیں؛ نہیں تو سیکڑوں ہاتھ رکھ کر مر جاتے ہیں، لوگ "دَر گُور" کہ کر چلے آتے ہیں۔ کُتّے بِلّی، چیل کوّے بُوٹیاں نوچ نوچ کر کھاتے ہیں۔ دامنِ دَشتِ عُریاں کَفَن، گُور بے چراغ، صَحرا کا صَحْن ہوتا ہے۔ یاس و حسرت کے سوا کوئی نہ سِرھانے رُوتا ہے۔ تمنّا چھُٹ کوئی پائِنْتی نہ ہوتا ہے۔
سالہا مَقْبروں کی عِماراتِ عالی اور ساز و ساماں کی دیکھ بھالی میں سریع السَّیر رہے، ہزاروں رنج گُورِ بے چراغِ غَریباں کی دید میں بیٹھے بِٹھائے سہے؛ طُرفۂ نَقْل ہے کہ والی وارث اُن کے سَریرِ سلطنت، مسندِ حکومت پر شب و رُوز جلوہ اَفروز رہے، مگر تنبیِہہ غافِلوں کو، قُدرتِ حق سے، گُنبدوں میں آشِیانۂ زاغ و زَغَن، میناروں پر مَسکَنِ بومِ شُوم، قبروں پر کُتّے لُوٹتے دیکھے۔ میر:
مزارِ غریباں تَاَسّف کی جا ہے
وہ سُوتے ہیں، پھِرتے جو کل جا بہ جا دیکھا رنگِ چمن صَرفِ خِزاں دیکھا۔ ڈَھلا ہوا حُسنِ گُل رُخاں دیکھا۔ اگر گُلِ خنداں پر جُو بن ہے، بہار ہے؛ غور کیا تو پہلوے نازنیں میں نَشتر سے زیادہ خَلِشِ خار ہے، گِریاں اُس کے حال پر بُلبلِ زار ہے۔ دُنیا میں دن رات زَق زَق بَق بَق ہے۔ کوئی چَہچہے کرتا ہے، کِسی کو قَلَق ہے۔ نُوش کے ساتھ گُزَندِ نیش ہے۔ ہر رہ رَو کو کڑی منزل در پیش ہے۔ ایک فقیر کے اِس نُکتے نے بہت جی کُڑھایا، مگر سب کو پسند آیا کہ بابا! دن تھوڑا، سَر پر بوجھ بھاری، منزل دور ہے؛ مسافر کے پاؤں میں حرص کے چھالے، ہوس کی بِیڑیاں، غفلت کا نشہ،
سلطنت دی، دو پائیں۔ یہ دونوں بدبَخْت جو لالچی تھے، اِنہوں نے جانیں گنوائیں۔ قِیامت تک مَطْعونِ خَلائِق رہیں گے۔ جتنے نیک ہیں؛ یہ قِصّہ سُن کر، بد کہیں گے۔ رنڈی اِن باتوں سے بَرسَر رحم ہوئی، بندر کی تسکین کی، کہا : تو خاطر جمع رکھ، جب تک کہ جیتی ہوں، تجھے بادشاہ کو نہ دوں گی، فاقہ قبول کروں گی۔ پھر اُسے رُوٹی کھِلا، پانی پِلا، کِھنّڈری میں لِٹا، سُو رہی۔
صبح کو چِڑیمار اُٹھا، بندر کے لے جانے کا قَصْد کیا۔ عورت نے کہا : آج اَور قسمت آزما، پھر جانور پکڑنے جا۔ جو رُوٹی مُیسّر آئے تو کیوں اِس کی جان جائے؛ ہم پر ہَتیا لگے، بد نامی آئے۔ نہیں تو کل لے جانا۔ وہ بولا : تو اِس کے دَم میں آ گئی۔ بندر نے کہا : ماشاء اللہ! رنڈی تُو خدا پر شاکِر ہے، تو مرد ہو کر مُضْطَر ہے؟ پاجی تُو زَن مُرید ہوتے ہی ہیں، پھر وہ پَٹَک جھٹک؛ جال، پھَٹکی اُٹھا؛ لاسا، کَمپالے؛ ٹَٹّی کندھے سے لگا گھر سے نِکلا۔ یا تو دن بھر خراب ہو کر دو تین جانور لاتا تھا؛ اُس رُوز دو پَہَر میں پچاس ساٹھ ہاتھ آئے، پھَٹکی بھر گئی۔ خوش خوش گھر پھرا۔ کئی روپے کو جانور بیچے۔ آٹا، دال، نُون، تیل، لکڑی خرید، تھوڑی مٹھائی لے، بھَٹّی پر جا کے ٹکّے کا ٹھرّا پیا۔ ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ جھومتے، گیت گاتے گھر کا راستہ لیا، مُفلسی کا غم بچّہ بھول گئے۔ جُورو سے آتے ہی کہا : اَری ! بَنومان جی کے کدم
۲۱۹
بڑے بھگوان ہیں۔ بھگوان نے دَیا کی، آج رُپیّا دلوائے، اِتنے جانور ہاتھ آئے۔ وہ گھر بَسی بھی بہت ہنسی۔ پہلے مٹھائی بندر کو کھلائی؛ پھر روٹی پکا، آپ کھا، کچھ اُسے کھِلا، پڑ رہی۔ بندر بِیچارا سمجھا : چَندے پھر جان بچی، جو فلک نہ جل مرے اور اِس کا بھی رشک نہ کرے۔ مُؤلِّف :
کیا شاخِ گُل پہ پھول کے بیٹھی ہے عَنْدِلیب
ڈرتا ہوں مَیں، چشمِ فلک کو بُرا لگے
جب لایا، بارِ یاس ہی لایا یہ، اے سُرور
گاہے نہ نَخلِ غم میں ثَمَر اِس سِوا لگے
اب روز بہ روز چِڑیمار کی ترقّی ہونے لگی۔ تھوڑے دنوں میں گھر بار، کپڑا لَتَّہ، گہنا پاتا درست ہو گیا۔ قَضارا، کوئی بڑا تاجِر سَرا میں اُس بھٹیاری کے گھر میں اُترا، جس کی دیوار تلے چِڑیمار رہتا تھا۔ ایک روز بعد نمازِ عِشا سوداگر وظیفہ پڑھتا تھا؛ نا گاہ آوازِ خوب، صدائے مرغوب، جیسے لڑکا پیاری پیاری باتیں کرتا ہے، اُس کے کان میں آئی۔ بھٹیاری سے پوچھا: یہاں کون رہتا ہے؟ وہ بولی : چِڑیمار۔ سوداگر نے کہا : اُس کا لڑکا خوب باتیں کرتا ہے۔ بھٹیاری بولی : لڑکا بالا تو کوئی بھی نہیں، فقط جُورو خَصَم رہتے ہیں۔ سوداگر نے کہا : اِدہر آ، یہ کس کی آواز آتی ہے؟ بھٹیاری جو آئی، لڑکے کی آواز پائی۔ وہ بولا : اِس صدا سے بڑے درد
۲۲۰
پیدا ہے؛ اِس کو میرے پاس لا، باتیں کروں گا۔ کچھ لڑکے کو دوں گا اور تیرا بھی مُنہ میٹھا کروں گا۔
بھٹیاری چِڑیمار کے گھر گئی۔ دیکھا : بندر باتیں کرتا ہے۔ اِسے دیکھ چُپ ہو رہا۔ وہ دونوں بھٹیاری کے پاؤں پر گر پڑے، مِنّت کرنے لگے، کہا : ہم نے اِسے بچّوں کی طرح پالا ہے، اپنا دُکھ ٹالا ہے۔ شہر پُر آشُوب ہو رہا ہے، بندر کُش بادشاہ اُترا ہے، ایسا نہ ہو، یہ خبر اُڑتے اُڑتے اُسے پہنچے؛ بندر چھِن جائے، ہم پر خرابی آئے۔ وہ بولی :مجھے کیا کام جو ایسا کلام کروں۔ سَرا میں آ کے سوداگر سے کہا : وہاں کوئی نہ تھا۔ اُس نے کہا: دیوانی! ابھی وہ آواز کس کی تھی؟ یہ غَور سُنیے کہ کیا معقول جواب وہ نامعقول دیتی ہے : بَلَیّاں لوں، بھلا مجھے کیا غَرضَ جو کہوں : بندر بولتا ہے۔ سوداگر خوب ہنسا، پھر کہا : تو سِڑَن ہے، اری بندر کہیں بولا ہے! پھر بولی : جی گریب پَروَر! صد کے گئی؛ اِسی سے تو مَیں بھی نہیں کہتی ہوں کہ بندر بولتا ہے، اور چِڑیمار کی جورو نے بتانے کو منع کیا ہے۔ سوداگر کو سخت خَلْجان، بہ مرتبہ خَفْقان ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے! مکان قریب تھا، خود چلا گیا۔ دیکھا تو فِی الْحقیقت ایک عورت، دوسرا مردِ مُچھَنْدَر، تیسرا بندر ہے۔ یقینِ کامل ہوا یہی بندر بولتا تھا۔ بھٹیاری سچّی ہے، گُو عقْل کی کچّی ہے۔ وہ سوداگر کو دیکھ کے بندر کو چھِپانے لگے، خوف سے تھرّانے لگے۔ اِس نے کہا : بھید کھُل گیا، اب پوشیدہ کرنا اِس کا لا حاصل ہے۔ مَصلَحت یہی ہے، بندر
۲۲۱
ہمیں دو۔ جو اِحتِیاج ہو، اِس کے جِلدو میں لُو۔ نہیں تو بادشاہ سے اِطّلاع کروں گا، یہ بے چارہ مارا جائے گا، چھِپانے کی علّت میں تمھارا سِر اُتارا جائے گا، میرا کیا جائے گا۔ وہ دونوں رُونے پیٹنے لگے۔ بندر سمجھا : اب جان نہیں بچتی، اِتنی ہی زیست تھی؛ چِڑیمار سے کہا : اے شخص! فَلَکِ کَج رفتار، گَردونِ دَوّارنے اِتنی جفا پر صبر نہ کیا، یہاں بھی چَین نہ دیا ؛ مناسب یہی ہے رَضائے اِلٰہی پر راضی ہو، مجھے حوالے کر دو۔ قضا آئی، ٹلتی نہیں۔ تقدیر کے آگے کسی کی تدبیر چلتی نہیں۔ فَردِ بَشَر کو حُکمِ قضا و قَدَر سے چارہ نہیں، اِس کے ٹال دینے کا یارا نہیں۔ إِذَا جَآءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَ۔ْٔخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ ۔
چِڑیمار نے کہا: دیکھو بندر کی ذات کیا بے وفا ہوتی ہے! ہماری محنت و مَشَقَّت پر نظریہ نہ کی، تُوتے کی طرح آنکھ پھیر لی، سوداگر کے ساتھ جانے کو راضی ہو گیا۔ بڑا آدمی جو دیکھا، ہمارے پاس رہنے کا مطلق پاس نہ کیا۔ بندر نے کہا : اگر نہ جاؤں، اپنی جان کھوؤں، تم پر خرابی لاؤں۔ آخر کار بہ ہزار گِریہ و زاری سوداگر سے دونوں نے قسم لی کہ بادشاہ کو نہ دینا، اچھی طرح پَروَرِش کرنا۔ یہ کہہ کر بندر حوالے کیا۔ سوداگر نے اِس کے عوض بہت کچھ دیا۔ بندر کو سَرا میں لا پیار کیا، بہ دل داری و نرمی حال پوچھا۔ بندر نے یہ چند شعر حَسْبِ حال، سودا کے، سوداگر کے رو بہ رو پڑھے، مرزا رفیع:
۲۲۲
نے بلبلِ چمن، نہ گُل نَو دَمیدہ ہوں
میں مَوسَمِ بہار میں شاخِ بُریدہ ہوں (۱)
گِریاں بہ شکل شیشہ و خَنداں بہ شکلِ جام
اِس مَے کدے کے بیچ عَبَث آفریدہ ہوں
میں کیا کہوں کہ کون ہوں سودا! نہ قولِ درد
جو کچھ کہ ہوں سُو ہوں، غرض آفت رسیدہ ہوں
اے عزیز! آتَشِ کارواں، نقشِ پاے یارانِ رَفتَگاں ظاہر ہوں؛ مگر پنہاں ہوں بلبلِ دور اَز گُلزار، گُم کردہ آشِیاں؛ صیّاد آمادۂ بیداد، گھات میں باغباں؛ کیوں کر نہ سرگرمِ فغاں ہوں۔ حضرتِ عشق کی عِنایت ہے، احبابِ زمانہ کی شکایت ہے، طُرفَہ حکایت ہے کہ حاجت رَوائے عالَم، محتاج ہے۔ تخت ہے نہ اَفسر ہے، نہ وہ سِر ہے نہ تاج ہے۔ غریب دِیار، چرخ مؤجِدِ آزار۔ شفیق و مہرباں نہیں، حالِ زار کا کوئی پُرساں نہیں۔ حیرت کا کیوں نہ مُبتَلا ہوں، اپنے ہاتھ سے اَسیرِ دامِ بَلا ہوں۔ خُود گرفتارِ پنجۂ ستم ہوا؛ کبھی مجھے جِن کا اَلَم تھا، اب اُنہیں میرا غم ہوا۔ مرنے سے اِس لیے ہم جی چھِپاتے ہیں کہ ہمدم میرے فراق میں موئے جاتے ہیں۔ مجھے دامِ مکر میں اُلجھایا، دوستوں کو میرے دشمن کے پھندے میں پھنْسایا، گردشِ چرخِ ستم گار سے عجیب سانِحۂ ہُوش رُبا سامنے آیا۔ میر تقی:
سخت مشکل ہے، سخت ہے بیداد
ایک مَیں خوں گِرِفتہ، سَو جلّاد (۲)
کوئی مشفق نہیں جو ہووے شفیق
بے کَسی چھُٹ، نہیں ہے کوئی رفیق
آہ، جو ہمدمی سی کرتی ہے
اب تو وہ بھی کمی سی کرتی ہے
اب ٹھہرتا نہیں ہے پائے ثَبات
ایک مَیں اور ہزار تَصْدیعات
۲۲۳
مصر؏ : گویم، مشکل و کرنگویم، مشکل۔
مگر آج خوش قسمتی سے آپ سا قَدْر داں ہاتھ آیا ہے، اِنتِشارِ طبیعت بَر طَرف ہو تو بہ دِل جَمْعِیِ تمام، آغاز سے تا انجام اپنی داستانِ غم، سانھۂ ستم گُزارِش کروں گا۔ سوداگر کے، اِس مضمونِ درد ناک سے، آنْسو نکل پڑے، سمجھا: یہ بندر نہیں، کوئی فَصیح و بَلیغ، عالیٰ خاندان، والا دودمان سِحر میں پھنس گیا ہے، کہا : اطمینانِ خاطر رکھ، تیری جان کے ساتھ میری جان ہے، اب زیست کا یہی سامان ہے۔ بندر کو تسکینِ کامل حاصل ہوئی۔ غزلیں پڑھیں، نَقْل و حِکایات میں سَر گرم رہا، اپنا حال پھر کچھ نہ کہا۔ تمام شب سوداگر نہ سویا، اِس کے بیانِ جاں کاہ پر خوب رُویا۔
اب بہت تعظیم و تکریم سے بندر رہنے لگا۔ مگر اَمرِ شُدَنی بہ ہر کیف ہُوا چاہے۔ راز فاش ہو، اگر خُدا چاہے۔ سوداگر کا یہ انداز ہوا : جو شخص نیا اِس کی ملاقات کو آتا، اُسے بندر کی باتیں سُنواتا۔ اُس کو اِستِعجاب سے فِکر ہوتا، اِس کا ہر جگہ ذِکر ہوتا۔ آخِرَش، اِس کی گُویائی کا چرچا کوچہ و بازار میں مچا اور یہ خبر اُس کُور نمک، مُحسنِ کُش کے گُوش زَد ہوئی۔ سُنتے ہی سمجھا یہ وہی ہے، بعدِ مُدّت فلک نے پتا لگایا، اب ہاتھ آیا۔ فوراً چُوبدار بندر کے لینے کو، سوداگر کے پاس بھیجا۔ یہ بہت گھبرایا۔ اَور تو کچھ بَن نہ آیا، بہ صَد عَجزو نِیاز عرضْداشت کی کہ غلام صاحبِ اَولاد نہیں، اِس اَندوہ میں
۲۲۴
دل مُضطر شاد نہیں۔ طبیعت بہلانے کو اِسے بچّہ سا لے کر فرزندوں کی طرح بڑی مَشقّت سے پالا ہے، رات دن دیکھا بھالا ہے۔ بندر ہے، مگر عَنْقا ہے۔ مُفارَقت اِس کی خانہ زاد کی جان لے گی، آیِندہ جو حضور کی مرضی۔
چُوبدار یہاں سے خالی پھِرا، وہ ظالِم اَظْلَم غَضَب میں بھَرا، وہاں کے بادشاہ کو لکھا کہ اگر سلطنت اور آبادیِ مَمْلکَت اپنی منظور ہو، سوداگر سے جلد بندر لے کر یہاں بھیج دو۔ نہیں تو اپنٹ سے اینٹ بجا دوں گا، نام و نشاں مِٹا دوں گا۔ یہ خَبْرِ وحشت اَثَر سُن کے غَصَنْفر شاہ مُتردِّد ہوا۔ مُشیرانِ خوش تدبیر، امیر وزیر سمجھانے لگے کہ خُداوندِ نعمت! ایک جانور کی خاطر آدمیوں کا کُشْت و خوں زَبوں ہے۔ حکم ہوا : کچھ لوگ سرکاری وہاں جائیں؛ جس طرح بَنے، سوداگر سے بِگڑ کر، بندر اُس کی ڈیوڑھی پر پہنچائیں۔ جب بادشاہی خاص دستہ سَرا میں آیا؛ بندر دست بَسْتَہ یہ زبان پر لایا کہ اے مؤنسِ غم گُسار، وفا شِعار! اِس اَجَل رَسیدَہ کے باب میں کَدو کوشش بے کار ہے، سَراسَر بیجا ہے۔ قضا کا زمانہ قریب پہنچا، دَرِ ناکامی وا ہے۔ مَبادا، کسی طرح کا رنج میری دوستی میں تمھارے دشمنوں کو پہنچے؛ تو مجھے حَشْر تک حِجاب و نَدامت رہے، خلقِ خُدا یہ ماجرا سُن کے بُرا بھلا کہے۔ سوداگر نے کہا : اِسْتَغْفِرُاللّٰہ یہ کیا بات ہے! جو کہا، وہ سِر کے ساتھ ہے۔
۲۲۵
جب بادشاہ کے لوگوں کا تقاضاے شَدید ہوا اور دن بہت کم رہا؛ بعدِ دَدّ و قدح، بہ مَعذِرَتِ بِسیار و مِنَّت بے شُمار، ہزار دینار دے کے اُس شب مُہلت لی اور صُبْح کے چلنے کی ٹھہری، بہ مؤجِبِ مَثَل، مصرع :
زر برسَرِ فولاد نہی، نرم شود
اِس عرصے میں یہ حال تباہ، ماجراے جان کاہ گلی کوچے میں زَبان زَدِ خاص و عام ہوا کہ ایک بندر کِسی سوداگر کے پاس باتیں کرتا تھا، وہ بھی کل مارا جائے گا۔ نہ حَدِّے کہ اُس کُشتَۂ اِنتِظار، مایوسِ دل فِگار یعنی ملکہ مہر نگار کو بھی معلوم ہوا۔ وہ شیداے جانِ عالم سمجھی کہ یہ بندر نہیں، شہ زادہ ہے۔ افسوس! صد ہزار افسوس! اب کون سی تدبیر کیجیے جو اِس بے کس کی جان بچے! دل کو مَسُوس، وزیر زادے کو کُوس، لوگوں سے پوچھا : دَمِ سَحَر کدھر سے وہ سوداگر جائے گا؟ یہ تماشا ہمارے دیکھنے میں کیوں کر آئے گا؟ لوگوں نے عرض کی : حضور کے جھَروکے تلے شاہراہ ہے، یہی ہر سِمت کی گُذَرگاہ ہے۔ یہ سُن کے تمام شب تڑپا کی، نیند نہ آئی۔ دو گھڑی رات سے برآمدے میں برآمد ہوئی اور ایک تُوتا پنْجرے میں پاس رکھ لیا۔ گَجَر سے پِیش تر بازار میں ہُلّڑ، تماشائیوں کا مِیلا سا ہو گیا۔ جس وقت تاجِرِ ماہ نے مَتاعِ انجم کو نِہاں خانۂ مغرب میں چھپایا اور خُسروِ رنگیں کُلاہ نے بندرِ مشرق سے نکل کر تخت، زَنگاری پر جُلوس فرمایا ؛ سوداگر نمازِ صُبْح پڑھ کر ہاتھی پر سوار
۲۲۶
ہوا ۔ کمر میں پِیش قَبض رکھ، گُود میں بندر کو بِٹھا، مرنے پر کمر مضبوط باندھ کر مجبور چلا۔ بندر سے کہا : پریشان نہ ہو، جب تقریر سے اور اِصرافِ کثیر سے کام نہ نکلے گا؛ جُو کچھ بَن پڑے گا، وہ کروں گا۔ اپنے بچے جی تجھے مرنے نہ دوں گا۔ قولِ مَرداں جان دارد۔ اور، مصرع :
بعد از سَرِ من کُن فَیَکوْں شُد، شُدہ باشد
سوداگر کا سَر اسے سَراسیمَہ آگے بڑھنا کہ خَلقت نے چار طرف سے گھیر لیا۔ بندر لوگوں سے مُخاطِب ہو کے یہ کہنے لگا، میر سوز :
برقِ تَپیدہ، یا شَرَرِ بَر جَہیدہ ہوں
جس رنگ میں ہوں مَیں، غرض از خودر میدہ ہوں (۱)
اے اہلِ بزم! مَیں بھی مُرَقّع میں دَہْر کے
تصویر ہوں، وَلے لَب حسرت گُزیدہ ہوں
صیاد! اپنا دام اُٹھا لے کہ جوں صبا
ہوں تو چمن میں، پر گُلِ عشرت نچیدہ ہوں
اے آہ و نالہ! مجھ سے نہ آگے چلو کہ مَیں
بِچھڑا ہوں کارواں سے، مسافر جَریدہ ہوں
غم ہوں، الم ہوں، درد ہوں، سوز و گداز ہوں
سب اہلِ دل کے واسطے مَیں آفریدہ ہوں
صاحِبو! دُنیاے دؤں، نَیرنگیِ زمانۂ سِفْلَہ پَروَر، بو قَلَمؤں
۲۲۷
عبرت و دید کی جا ہے۔ گرما گرم آیِندہ رَوِند کا بازار ہے۔ کَس و ناکَس جِنْسِ نا پایدار، لَہْو و لَعْب کا خریدار ہے۔ اپنے کام میں مصروف قضا ہے۔ جُو شَے ہے، ایک روز فنا ہے۔ مُعاملاتِ قضا و قَدَر سے ہر ایک ناچار ہے، یہی مَسْئَلَۂ جَبْرو اِختیار ہے۔ کوئی کسی کی عداوت میں ہے، کوئی کسی کا شیدا ہے۔ جسے دیکھا، آزاد نہ پایا؛ کسی نہ کسی بَکھیڑے میں مُبتَلا ہے۔ ایک کو اَتنا سوجھتا نہیں کیا لِین دین ہو رہا ہے۔ سُود کی اُمّید میں سَراسَر زِیاں ہے؛ سِڑی ہونے کا سودا ہے۔ اُس کی قُدرتِ ناطِقَہ دیکھو: مجھ سے نا چیز، بے زَباں کو یہ تکلُّفِ گویائی عنایت کیا؛ تم سب کا سامِعُوں میں چِہرہ لکھ دیا، باتیں سُننے کو ساتھ چلے آتے ہو ۔ جُدائی میری شاق ہے، جو ہے وہ مشتاق ہے، حالِ زار پر رحم کھا آنسو بہاتے ہو۔ یہ رَحیمی کی صفت ہے؛ شانِ قَہّاری دیکھو: اُسی تقریر کی دھوم سے، ایک ظالِم شوم سے مجھ مظلوم کا مُقابلہ ہوتا ہے۔ یقینِ کامل ہے کہ وہ قتل کرے گا، بے گُناہ کے خون سے ہاتھ بھرے گا۔ سَوَادُ الْوَجہِ فَی الدَّارَين ہو گا، تب اُسے آرام اور چَین ہو گا۔ یہ گُویائی، گُویا پیامِ مرگ تھا۔
دُنيا جاے آزمایِش ہے۔ سَفیہ جانتے ہیں یہ مُقام قابلِ آرام و آسایِش ہے۔ دو رُوزہ زیست کی خاطر کیا کیا ساز و ساماں پیدا کرتے ہیں۔ فرعونِ با ساماں ہو کے زمین پر پاؤں نہیں دھرتے
۲۲۸
ہیں۔ جب سِر کو اُٹھا آنکھ بند کر کے چلتے ہیں، خاکساروں کے سِر کُچلتے ہیں۔ آخِر کار حسرت و ارماں فَقَط لے کر مرتے ہیں۔ جان اُس کی جُستُجو میں کھُوتے ہیں جو شَے ہاتھ آئے ذِلّت سے، جمع ہو پریشانی مَشقّت سے، پاس رہے خِشَّت سے، چھوٹ جائے یاس و حسرت سے۔ پھر سِر پر ہاتھ دھر کر رُوتے ہیں۔ صُبح کو کوئی نام نہیں لیتا ہے، جو کسی اور نے لیا تو گالیاں دیتا ہے۔ ناسخ :
دُنیا اک زا لِ بِیسوا ہے
بے مہر و وفا و بے حیا ہے(۱)
مَردوں کے لیے یہ زن ہے رہِ زن
دنیا کی عدو ہے، دیں کہ دشمن
رہتی نہیں ایک جا پہ جم کر
پھرتی ہے بہ رنگِ نَرْد گھر گھر
انجامِ شاہ و گدا دو گز کَفَن اور تختۂ تابوت سے سوا نہیں۔ کسی نے اَدَھر سا، یا محمودی کا دیا، یا تحریرِ کربلا؛ کسی کو گَزی گاڑھا مُیسّر ہوا بہ صد کرب و بَلا۔ اُس نے صندل کا تختہ لگایا، اِس نے بِیر کے چَیلُوں میں چھِپایا۔ کسی نے بعد سنگِ مَرمَر کا مَقبَرہ بنایا، کسی نے مَرمَر کے گُور گڑھا پایا۔ کسی کا مزار مُطَلّا، مُنَقّش، رنگا رنگ ہے۔ کسی کی، مانِندِ سینۂ جاہِل، گُور تنگ ہے۔ حسرتِ دنیا سے کَفَن چاک ہوا، بستر دونوں کا فرشِ خاک ہوا۔ نہ امیر سَمْور و قاقُم کا فرش بِچھا سکا، نہ فقیر پھٹی شَطْرنْجی اور ٹوٹا بُوریا لا سکا۔ بعدِ چَنْدِے، جب گردشِ چرخ نے گُنبد گرایا، اینٹ سے اینٹ کو بجایا تو ایک نے یہ بتایا کہ دونوں میں یہ گُورِ شاہ ہے، یہ لَحَدِ فقیر ہے۔ اِس کو مَرگِ جوانی نصیب ہوئی، یہ اُسْتُخوانِ بُوسیدَۂ پیر ہے۔ سُو یہ بھی
۲۲۹
خوش نصیب، نیک کمائی والے گُور گڑھا، کَفَن پاتے ہیں؛ نہیں تو سیکڑوں ہاتھ رکھ کر مر جاتے ہیں، لوگ "دَر گُور" کہ کر چلے آتے ہیں۔ کُتّے بِلّی، چیل کوّے بُوٹیاں نوچ نوچ کر کھاتے ہیں۔ دامنِ دَشتِ عُریاں کَفَن، گُور بے چراغ، صَحرا کا صَحْن ہوتا ہے۔ یاس و حسرت کے سوا کوئی نہ سِرھانے رُوتا ہے۔ تمنّا چھُٹ کوئی پائِنْتی نہ ہوتا ہے۔
سالہا مَقْبروں کی عِماراتِ عالی اور ساز و ساماں کی دیکھ بھالی میں سریع السَّیر رہے، ہزاروں رنج گُورِ بے چراغِ غَریباں کی دید میں بیٹھے بِٹھائے سہے؛ طُرفۂ نَقْل ہے کہ والی وارث اُن کے سَریرِ سلطنت، مسندِ حکومت پر شب و رُوز جلوہ اَفروز رہے، مگر تنبیِہہ غافِلوں کو، قُدرتِ حق سے، گُنبدوں میں آشِیانۂ زاغ و زَغَن، میناروں پر مَسکَنِ بومِ شُوم، قبروں پر کُتّے لُوٹتے دیکھے۔ میر:
مزارِ غریباں تَاَسّف کی جا ہے
وہ سُوتے ہیں، پھِرتے جو کل جا بہ جا دیکھا رنگِ چمن صَرفِ خِزاں دیکھا۔ ڈَھلا ہوا حُسنِ گُل رُخاں دیکھا۔ اگر گُلِ خنداں پر جُو بن ہے، بہار ہے؛ غور کیا تو پہلوے نازنیں میں نَشتر سے زیادہ خَلِشِ خار ہے، گِریاں اُس کے حال پر بُلبلِ زار ہے۔ دُنیا میں دن رات زَق زَق بَق بَق ہے۔ کوئی چَہچہے کرتا ہے، کِسی کو قَلَق ہے۔ نُوش کے ساتھ گُزَندِ نیش ہے۔ ہر رہ رَو کو کڑی منزل در پیش ہے۔ ایک فقیر کے اِس نُکتے نے بہت جی کُڑھایا، مگر سب کو پسند آیا کہ بابا! دن تھوڑا، سَر پر بوجھ بھاری، منزل دور ہے؛ مسافر کے پاؤں میں حرص کے چھالے، ہوس کی بِیڑیاں، غفلت کا نشہ،