غزل ۔ دُھوپ کو اوڑھ کر چھاؤں سے نکل کر آتے ۔ سید آلِ احمد

محمداحمد

لائبریرین
غزل

دُھوپ کو اوڑھ کر چھاؤں سے نکل کر آتے
اپنے قدموں سے میرے گھر کبھی چل کر آتے

ذہن، نایافت بشارت کا سمندر ہوتا
حرف، تہذیب کی خوشبو میں جو پَل کر آتے

اس الاؤ سے مجھے خوف بہت آتا ہے
اجنبی، پیار کے کپڑے تو بدل کر آتے

سہل فردا کے تقاضوں کی مسافت ہوتی
غمِ دیروز سے باہر جو نکل کر آتے

جانے کس خواب کی تعبیر سے ٹکرائے ہو
اتنے زخمی تو نہ ہوتے جو سنبھل کر آتے

حوصلہ مند ہی احمدؔ یہ ادا رکھتا ہے
سوئے مقتل کبھی مُجرم نہیں چل کر آتے

سید آلِ احمد
 

کاشفی

محفلین
بہت ہی عمدہ انتخاب ہے آپ کا ماشاء اللہ شاعر بھائی۔۔۔

اس الاؤ سے مجھے خوف بہت آتا ہے
اجنبی، پیار کے کپڑے تو بدل کر آتے

اور یہ مصرعہ تو ۔۔۔۔ سوئے مقتل کبھی مُجرم نہیں چل کر آتے ۔۔۔بہت ہی خوب!
 
Top