غزل ۔ اُس سمت چلے ہو تو بس اتنا اُسے کہنا ۔ سرور مجاز

محمداحمد

لائبریرین

غزل


اُس سمت چلے ہو تو بس اتنا اُسے کہنا
اب کوئی نہیں حرفِ تمنا اُسے کہنا

اُس نے ہی کہا تھا تو یقیں میں نے کیا تھا
اُمید پہ قائم ہے یہ دُنیا اُسے کہنا

دُنیا تو کسی حال میں جینے نہیں دیتی
چاہت نہیں ہوتی کبھی رسوا اُسے کہنا

زرخیز زمینیں کبھی بنجر نہیں ہوتیں
دریا ہی بدل لیتے ہیں رستہ اُسے کہنا

وہ میری رسائی میں نہیں ہے تو عجب کیا
حسرت بھی تو ہے عشق کا لہجہ اُسے کہنا


سرور مجاز
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
خوب غزل ہے۔
اور یہ شعر بھی شاید اسی غزل کا ہے کہ

کچھ لوگ سفر کے لیے موزوں نہیں ہوتے
کچھ راستے کٹتے نہیں تنہا، اُسے کہنا
 

ظفری

لائبریرین
بہت خوب محمد احمد بھائی ۔
اس غزل کا یہ شعر کچھ دنوں سے ذہن میں جاگا :
زرخیز زمینیں کبھی بنجر نہیں ہوتیں
دریا ہی بدل لیتے ہیں رستہ اُسے کہنا
بہت عرصے قبل پاکستان میں صبح کی نشریات میں کسی خاتون سنگر ( شاید مہناز) نے یہ غزل گائی تھی ۔ پتا نہیں آج ذہن میں کیسے یہ شعر جاگ گیا ۔ گوگل پر اس شعر کی بدولت تلاش شروع کی تو اس نے مجھے واپس محفل میں پہنچا دیا ۔ بہت بہت شکریہ
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب محمد احمد بھائی ۔
اس غزل کا یہ شعر کچھ دنوں سے ذہن میں جاگا :
زرخیز زمینیں کبھی بنجر نہیں ہوتیں
دریا ہی بدل لیتے ہیں رستہ اُسے کہنا
بہت عرصے قبل پاکستان میں صبح کی نشریات میں کسی خاتون سنگر ( شاید مہناز) نے یہ غزل گائی تھی ۔ پتا نہیں آج ذہن میں کیسے یہ شعر جاگ گیا ۔ گوگل پر اس شعر کی بدولت تلاش شروع کی تو اس نے مجھے واپس محفل میں پہنچا دیا ۔ بہت بہت شکریہ

شکریہ ۔۔۔!

اردو ادب کے حوالے سے اکثر تلاش اردو محفل پر ہی لے آتی ہے۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
دُنیا تو کسی حال میں جینے نہیں دیتی
چاہت نہیں ہوتی کبھی رسوا اُسے کہنا

واہ سدا بہار کلام ہے۔۔۔۔ بہت عمدہ۔۔۔۔
 
Top