غزل -یہ جو اک سیل فنا ھے مرے پیچھے پیچھے (احمد فرید)

یہ جو اک سیل فنا ھے مرے پیچھے پیچھے
مرے ھونے کی سزا ھے مرے پیچھے
آگے آگے ھے مرے دل کے چٹخنے کی صدا
اور مری گرد انا ھے مرے پیچھے پیچھے
زندگی تھک کے کسی موڑ پر رکتی ھی نہیں
کب سے یہ آبلہ پا ھے مرے پیچھے پیچھے
اپنا سایہ تو میں دریا میں بہا آیا تھا
کون پھر بھاگ رہا ھے مرے پیچھے پیچھے
پاؤں پر پاؤں کو رکھتا ھی چلا آتا ھے
مرا نقش کف پا ھے مرے پیچھے پیچھے
مری تنہائی سے ٹکرا کر پلٹ جائے گی
یہ جو خوشبوئے قبا ھے مرے پیچھے پیچھے
چھوڑتا ھی نہیں مجھے تنہا معبود مرا
یہ مری ماں کی دعا ھے مرے پیچھے پیچھے
میں تو دوڑا ھوں خود اپنے ھی تعاقب میں فرید
چاند کیوں بھاگ پڑا ھے مرے پیچھے پیچھے
 
Top