ایس فصیح ربانی
محفلین
غزل
پھول ہیں یا کہ خار ہیں ہم لوگ
آبروئے بہار ہیں ہم لوگ
ہیں اسی اعتبار پر زندہ
زیست کا اعتبار ہیں ہم لوگ
ختم ہونے کو ہے حرارتِ زیست
اختتامی شرار ہیں ہم لوگ
منزلوں کی نوید جان ہمیں
راستوں کا غبار ہیں ہم لوگ
کیسی عجلت ہے، کیسی جلدی ہے
کیوں ہوا پر سوار ہیں ہم لوگ
سوچ سکتے ہیں، کر نہیں سکتے
کتنے بے اختیار ہیں ہم لوگ
عکس بننے سے بچ نہیں سکتے
آئنوں کا شکار ہیں ہم لوگ
صرف کتبے نہیں ہیں چہروں پر
حسرتوں کے مزار ہیں ہم لوگ
کوئی سنتا نہیں توجہ سے
مفلسی کی پکار ہیں ہم لوگ
دیکھیے تو بس ایک دو ہیں ہم
سوچیے تو ہزار ہیں ہم لوگ
اس کو دیکھا تھا ایک بار فصیحؔ
آج تک بے قرار ہیں ہم لوگ
شاہیں فصیحؔ ربانی
پھول ہیں یا کہ خار ہیں ہم لوگ
آبروئے بہار ہیں ہم لوگ
ہیں اسی اعتبار پر زندہ
زیست کا اعتبار ہیں ہم لوگ
ختم ہونے کو ہے حرارتِ زیست
اختتامی شرار ہیں ہم لوگ
منزلوں کی نوید جان ہمیں
راستوں کا غبار ہیں ہم لوگ
کیسی عجلت ہے، کیسی جلدی ہے
کیوں ہوا پر سوار ہیں ہم لوگ
سوچ سکتے ہیں، کر نہیں سکتے
کتنے بے اختیار ہیں ہم لوگ
عکس بننے سے بچ نہیں سکتے
آئنوں کا شکار ہیں ہم لوگ
صرف کتبے نہیں ہیں چہروں پر
حسرتوں کے مزار ہیں ہم لوگ
کوئی سنتا نہیں توجہ سے
مفلسی کی پکار ہیں ہم لوگ
دیکھیے تو بس ایک دو ہیں ہم
سوچیے تو ہزار ہیں ہم لوگ
اس کو دیکھا تھا ایک بار فصیحؔ
آج تک بے قرار ہیں ہم لوگ
شاہیں فصیحؔ ربانی