غزل: نشور واحدی

فہد اشرف

محفلین
غزل

کبھی سنتے ہیں عقل و ہوش کی اور کم بھی پیتے ہیں
کبھی ساقی کی نظریں دیکھ کر پیہم بھی پیتے ہیں

کہاں تم دوستوں کے سامنے بھی پی نہیں سکتے
کہاں ہم رو بہ روئے ناصحِ برہم بھی پیتے ہیں

خزاں کی فصل ہو روزے کے ایام مبارک ہوں
طبیعت لہر پر آئی تو بے موسم بھی پیتے ہیں

طوافِ کعبہ بے کیفیتِ مے ہو نہیں سکتا
ملا لیتے ہیں تھوڑی سی اگر زمزم بھی پیتے ہیں

کہاں کی توبہ کیسا اتّقا عہدِ جوانی میں
اگر سمجھو تو آؤ تم بھی چکّھو ہم بھی پیتے ہیں

نشورؔ آلودۂ عصیاں سہی پر کون باقی ہے
یہ باتیں راز کی ہیں قبلۂ عالم بھی پیتے ہیں

(نشور واحدی)
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
خزاں کی فصل ہو روزے کے ایام مبارک ہوں
طبیعت لہر پر آئی تو بے موسم بھی پیتے ہیں
زبردست۔۔۔

لیکن ایک سوال بھی تھا۔۔۔ خیر کوئی اور سیانا پوچھ لے گا کہ بے موسم تو ٹھیک مگر روزے کے ایام۔۔۔ تو افطاری کے اوقات کا بھی خیال رکھا جاتا ہو گا یا نہیں ۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
زبردست۔۔۔

لیکن ایک سوال بھی تھا۔۔۔ خیر کوئی اور سیانا پوچھ لے گا کہ بے موسم تو ٹھیک مگر روزے کے ایام۔۔۔ تو افطاری کے اوقات کا بھی خیال رکھا جاتا ہو گا یا نہیں ۔
یہاں پر تمام استعارے استعمال کیے گئے ہیں، گو کہ ہمیں ایسے استعارے اچھے نہیں لگتے
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر چہ در جزیہ ز گبراں، مئےِ ناب آوردند
بشبِ جمعۂ ماہِ رمضانم دادند
غالب
آتش پرستوں سے جو شراب جزیے کے طور پر لی گئی، وہ ماہ رمضان کی شبِ جمعہ کو مجھے عنایت ہوئی۔
 
Top