غزل برائے اصلاح

ایک اور غزل اصلاح کےلیے لے کر حاضرہوا ہوں،،،،
میں نے دیکھا ہے کیسا یہ سپنا نیا رات کے اس پہر
مجھ سے بچھڑا ہوا کوئی اپنا ملا رات کے اس پہر

نیند کیوں اڑگئی چین کیوں کھوگیا رات کے اس پہر
یہ اچانک مرے ساتھ کیا ہوگیا رات کے اس پہر

پھر اچانک یہ موسم سہانا ہوا رات کے اس پہر
پھر تمہاری گلی سے چلی ہے ہوا رات کے اس پہر

دل میں جاگی ہے کیسی تمنا نئی خود میں حیران ہوں
اک نئی آرزو نے مجھے چھولیا رات کے اس پہر

ایک منزل بسی تھی نگاہوں میں جانے و ہ کیا ہوگئی
اورپھر خود بخود ایک گلشن بسا رات کے اس پہر

اس کے ماتھے پہ اک لٹ تھی جس سے پریشاں ہوا میں بہت
کتنا چاہا مگر میں ہٹانہ سکا رات کے اس پہر

اورکیا کیجئے گا صبیح اس کی اب آپ منظر کشی
پل جوآیا اورآکر چلابھی گیا رات کے اس پہر
 

قیصرانی

لائبریرین
اچھی کاوش ہے۔ لیکن جوں جوں‌ نیچے کی طرف آتے ہیں تو مصرعوں کی لمبائی فرق ہوتی جاتی ہے۔ اس کی کوئی خاص‌ وجہ؟
 

الف عین

لائبریرین
قیصرانی نے کہا:
اچھی کاوش ہے۔ لیکن جوں جوں‌ نیچے کی طرف آتے ہیں تو مصرعوں کی لمبائی فرق ہوتی جاتی ہے۔ اس کی کوئی خاص‌ وجہ؟
بحر تو درست ہی ہے منصور۔ ان مصرعوں میں ایسے حروف ہیں جو کم جگہ گھیرتے ہیں۔
صبیح۔ اچھی غزل ہے، کچھ برائے نام اصلاح کے ساتھ بعد میں حاضر ہوتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
صبیح
تین تین مطلعے اچھے نہیں لگتے، اور اس دہرانے (repetition)کو مٹانے کی خاطر ایک اور مصرعہ لگا رہا ہوں
رُت خزاں کی تھی، لیکن فضاء خوشبوؤں سے مہکنے لگی
پھر کسی کی گلی سے چلی ہے ہوا۔۔۔۔
تمھاری گلی کی بہ نسبت کسی کی گلی کے ابہام سے حسن بڑھ جاتا ہے۔
اس شعر میں
کتنا چاہا مگر میں ہٹانہ سکا رات کے اس پہر
نہ سکا ’نا سکا‘ بحر میں آتا ہے جو درست نہیں۔ اور پہلا مصرعہ بھی یوں ہو تو بہتر لگتا ہے, پورا شعر ایسا کر دیں تو۔۔!:
اس کی بکھری ہوئی لٹ پریشان کرتی رہی ساری رات
کتنا چاہا ہٹا دوں مگر یہ نہ ممکن ہوا رات کے اس پہر
باقی سارے اشعار ٹھیک ہیں، اصلاح کی ضرورت نہیں۔
 
جناب اعجاز صاحب!
ایک بار پھر نوازش،،،،دوبارہ حاضری میں تاخیرکی معذرت،،،وجہ یہ تھی کہ پاس ورڈبھول گیا تھا،،،کئی تُکے لگائے تب جاکر ایک درست رہا،،،،،ذرا ایک نظر دیکھ کر بتائیے گا کہ جو تبدیلیاں کی ہیں درست ہیں یا مزید درستی کی گنجائش موجود ہے،،،،


میں نے دیکھا ہے کیسا یہ سپنا نیا رات کے اس پہر
مجھ سے بچھڑا ہوا کوئی اپنا ملا رات کے اس پہر

نیند کیوں اڑگئی چین کیوں کھوگیا رات کے اس پہر
یہ اچانک مرے ساتھ کیا ہوگیا رات کے اس پہر

یوں لگا مجھ کو جیسے فضاء خوشبووں سے مہکنے لگی
پھر کسی کی گلی سے چلی ہے ہوا رات کے اس پہر

دل میں جاگی ہے کیسی تمنا نئی خود میں حیران ہوں
اک نئی آرزو نے مجھے چھولیا رات کے اس پہر

ایک منزل بسی تھی نگاہوں میں جانے و ہ کیا ہوگئی
اورپھر خود بخود ایک گلشن بسا رات کے اس پہر

‌‌
اس کی بکھری ہوئی لٹ نے الجھائے رکھا مجھےاورمیں
چاہتا تھاہٹا دوں نہ ممکن ہوا رات کے اس پہر


اورکیا کیجئے گا صبیح اس کی اب آپ منظر کشی
پل جوآیا اورآکر چلابھی گیا رات کے اس
 

الف عین

لائبریرین
پریشاں زلف کی طرح الجھی زلف کی مناسبت سے الجھا رہا بھی اچھی ترکیب ہے۔ یہ تبدیل شدہ شعر بھی اچھا ہے۔ میری اصلاح واپس!!(مذاق)
 
Top