صبیح الدین شعیبی
محفلین
ایک اور غزل اصلاح کےلیے لے کر حاضرہوا ہوں،،،،
میں نے دیکھا ہے کیسا یہ سپنا نیا رات کے اس پہر
مجھ سے بچھڑا ہوا کوئی اپنا ملا رات کے اس پہر
نیند کیوں اڑگئی چین کیوں کھوگیا رات کے اس پہر
یہ اچانک مرے ساتھ کیا ہوگیا رات کے اس پہر
پھر اچانک یہ موسم سہانا ہوا رات کے اس پہر
پھر تمہاری گلی سے چلی ہے ہوا رات کے اس پہر
دل میں جاگی ہے کیسی تمنا نئی خود میں حیران ہوں
اک نئی آرزو نے مجھے چھولیا رات کے اس پہر
ایک منزل بسی تھی نگاہوں میں جانے و ہ کیا ہوگئی
اورپھر خود بخود ایک گلشن بسا رات کے اس پہر
اس کے ماتھے پہ اک لٹ تھی جس سے پریشاں ہوا میں بہت
کتنا چاہا مگر میں ہٹانہ سکا رات کے اس پہر
اورکیا کیجئے گا صبیح اس کی اب آپ منظر کشی
پل جوآیا اورآکر چلابھی گیا رات کے اس پہر
میں نے دیکھا ہے کیسا یہ سپنا نیا رات کے اس پہر
مجھ سے بچھڑا ہوا کوئی اپنا ملا رات کے اس پہر
نیند کیوں اڑگئی چین کیوں کھوگیا رات کے اس پہر
یہ اچانک مرے ساتھ کیا ہوگیا رات کے اس پہر
پھر اچانک یہ موسم سہانا ہوا رات کے اس پہر
پھر تمہاری گلی سے چلی ہے ہوا رات کے اس پہر
دل میں جاگی ہے کیسی تمنا نئی خود میں حیران ہوں
اک نئی آرزو نے مجھے چھولیا رات کے اس پہر
ایک منزل بسی تھی نگاہوں میں جانے و ہ کیا ہوگئی
اورپھر خود بخود ایک گلشن بسا رات کے اس پہر
اس کے ماتھے پہ اک لٹ تھی جس سے پریشاں ہوا میں بہت
کتنا چاہا مگر میں ہٹانہ سکا رات کے اس پہر
اورکیا کیجئے گا صبیح اس کی اب آپ منظر کشی
پل جوآیا اورآکر چلابھی گیا رات کے اس پہر