غزل: اپنے رب کا نشان چاہتا ہوں (مہدی نقوی حجاز)

غزل

اپنے رب کا نشان چاہتا ہوں
خود پر اس کا گمان چاہتا ہوں

اپنا ماضی سمیٹنے کے لیے
ایک اندھیرا مکان چاہتا ہوں

اتنا بےلوث خیر میں بھی نہیں
میں بھی تیرا دھیان چاہتا ہوں

میں کوئی کانچ کا پرندہ نہیں
میں حقیقی اڑان چاہتا ہوں

میرا موقف خدا شناسی ہے
اپنے حق میں بیان چاہتا ہوں

اپنا پیغام عام کرنے کو
میں بھی منہ میں زبان چاہتا ہوں

اہل گردانتا ہوں خود کو حجازؔ
کچھ مزید امتحان چاہتا ہوں

مہدی نقوی حجازؔ
 
آخری تدوین:

امر شہزاد

محفلین
اپنا ماضی سمیٹنے کے لیے
ایک اندھیرا مکان چاہتا ہوں

یہ مصرع کہہ رہا ہے ، "میں بھی تیرا دھیان چاہتا ہوں"

اتنا بےلوث خیر میں بھی نہیں
میں بھی تیرا دھیان چاہتا ہوں


واہ!
 

الف عین

لائبریرین
اندھیرا درست باندھا ہے، اس مین غنہ ہی ہوتا ہے۔ البتہ ’دھیان‘ غلط ہے، اسے محض ’دان‘ باندھنا تھا، ’بع وزن فعول نہیں
دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر
کوئی چپکے سے پاؤں دھرتا ہے
 
Top