عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین

ہم سے بڑھ چڑھ کے داد پائیں گے
وہ ہمیں خستگی دکھائیں گے

اللہ اللہ عظیم الفت میں
خون رونے پہ مسکرائیں گے

چاہے جانا ہے کس بلا کا نام
ہم تمہیں چاہ کر بتائیں گے

ہم وہ مجنون ہیں خرد والے
راستہ پوچھنے کو آئیں گے

کھو دیا ہے قرار اِس دل کا
جان باقی رہے گنوائیں گے

ہم نہ کہتے تھے عشق میں تیرے
دو جہانوں کو بھول جائیں گے

مٹنے والے ہیں آپ کے صاحب
آپ ہی پھر ہمیں بنائیں گے





 

شانزہ خوشی

محفلین
بری بات ہے اس طرح کا لہجہ نہیں اختیار کرنا چاہیے۔

یہ شاعری اصلاحِ سخن کے ذمرے میں ہے اور اصلاحِ سخن میں شاعری سیکھنے کی غرض سے پوسٹ کی جاتی ہے اور یہاں ندرتِ بیان اور معنی آفرینی کے بجائے مشق پر زور ہوتا ہے۔ جب یہاں سے شعراء سیکھ جاتے ہیں تو پھر یہی لوگ مقدار سے زیادہ معیار پر توجہ دیتے ہیں اور اچھے شاعر کہلاتے ہیں۔
آئیں ں
اچھا بھائی
 
مدیر کی آخری تدوین:

عظیم

محفلین
عشق میں آرام بھی آتا ہے کیا
خاصیت میں عام بھی آتا ہے

یاد رکھتے ہو زمانے بھر کو تُم
یاد میرا نام بھی آتا ہے کیا

چل پڑا جو راہِ الفت پر وہ شخص
لوٹ کر ناکام بھی آتا ہے کیا

دیکھتے ہیں بیٹھ بزمِ یار میں
ہم پہ دورِ جام بھی آتا ہے کیا

تُم کہو ناصح نصیحت کے سوا
اور کوئی کام بھی آتا ہے کیا




 

عظیم

محفلین

حالِ دل رو رو سناتے جائیں گے
ہم غموں میں مسکراتے جائیں گے

اپنے بارے جان لینے دیجئے
آپ کے بارے بتاتے جائیں گے

ہم وہ ضدی ہیں زمانے کے عظیم
شوق میں یُوں سر کھپاتے جائیں گے

وہ ہمیں چاہے بلائیں قتل کو
ہمیں اُنہیں دل سے لگاتے جائیں گے

اور کُچھ کرنے کو کب ہے اِس جہاں
درد کے قصے سناتے جائیں گے

پھینک دیں گے پھول بھی اک دن جناب
کب تلک پتھر اُٹھاتے جائیں گے

یُوں کہیں گے داستانِ غم عظیم
لوگ خوشیوں کو چھپاتے جائیں گے




 

عظیم

محفلین



زندگی کیا ہے بتاتے جائیں گے
ہست کا پردہ اُٹھاتے جائیں گے

ہوں مبارک آپ کو خوشیاں تمام
ہم تو دل پر چوٹ کھاتے جائیں گے

مسکرا لیجے گا جی بھر کر جناب
چشمِ تر سے خوں بہاتے جائیں گے

عقل کے آنے پہ بھی مجنوں ہیں وہ
ہم جنوں کو آزماتے جائیں گے

چھیڑئیے مت شیخ جی رندوں کو آپ
ورنہ منبر سے بھی جاتے جائیں گے

کیا کوئی ہو گا عظیم اپنا بھی دوست
یا یونہی دشمن بناتے جائیں گے

دل جلوں سے کیوں رہا جائے گا چُپ
عشق والے گیت گاتے جائیں گے








 

گل زیب انجم

محفلین
OTE="عظیم, post: 1332349, member: 7507"]
عشق کے حوالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
درد کی مثالوں سے اُن کو خوف آتا ہے


میں کہوں محبت میں جان بھی لٹا دونگا
میرے ان خیالوں سے اُن کو خوف آتا ہے


عاجزی تو لازم ہے پر اَنا کے عادی ہیں
سر جھکانے والوں سے اُن کو خوف آتا ہے


پوچھ لوں کبھی اُن سے ساتھ کب تلک دینگے
میرے ان سوالوں سے اُن کو خوف آتا ہے


بوجھ اپنے کاندھے پہ میں اُٹھاوں صدیوں کا
گزرے چند سالوں سے اُن کو خوف آتا ہے


کیوں عظیم آئیں وہ تجھ سے ملنے اس گھر میں
اُجڑے گھر کے جالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
[/QUOTE]
شاید آپ کی انہی نئ چالوں سے اُن کو خوف آتا ہے ۔ہا ہا (مذاق ) ماشاءاللہ بہت پیاری غزل
 

عظیم

محفلین
OTE="عظیم, post: 1332349, member: 7507"]
عشق کے حوالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
درد کی مثالوں سے اُن کو خوف آتا ہے


میں کہوں محبت میں جان تک لٹا دوں گا
میرے ان خیالوں سے اُن کو خوف آتا ہے


عاجزی تو لازم تھی پر اَنا کے عادی ہیں
سر جھکانے والوں سے اُن کو خوف آتا ہے


پوچھ لوں کبھی اُن سے ساتھ کب تلک دیں گے
میرے ان سوالوں سے اُن کو خوف آتا ہے


بوجھ اپنے کاندھوں پر میں اُٹھاؤں صدیوں کا
گزرے چند سالوں سے اُن کو خوف آتا ہے


کیوں عظیم آئیں وہ تجھ سے ملنے اس گھر میں
اُجڑے گھر کے جالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
شاید آپ کی انہی نئ چالوں سے اُن کو خوف آتا ہے ۔ہا ہا (مذاق ) ماشاءاللہ بہت پیاری غزل[/QUOTE]


عشق کے حوالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
درد کی مثالوں سے اُن کو خوف آتا ہے

عاجزی تو لازم ہے پر اَنا کے عادی ہیں
سر جھکانے والوں سے اُن کو خوف آتا ہے

میں کہوں محبت میں جان تک لٹا دوں گا
میرے ان خیالوں سے اُن کو خوف آتا ہے

پوچھ لوں کبھی اُن سے ساتھ کب تلک دو گے
میرے ان سوالوں سے اُن کو خوف آتا ہے

بوجھ اپنے کاندھوں پر میں اُٹھاؤں صدیوں کا
گزرے چند سالوں سے اُن کو خوف آتا ہے

کیوں عظیم آئیں وہ تجھ سے ملنے اس گھر میں
اُجڑے گھر کے جالوں سے اُن کو خوف آتا ہے


 

عظیم

محفلین


دل پہ گزری بیان کرتے ہیں
اور کیا بدگمان کرتے ہیں

بادشاہوں کے سر جهکے دیکهے
ہم غریبی پہ مان کرتے ہیں

اپنی خوشیوں کو بهی چهپائیں لوگ
اور ہم اشک دان کرتے ہیں

کس قیامت کی گریہ زاری ہم
تیری محفل میں آن کرتے ہیں

دل کے پیچهے ہی کیوں پڑے ہو آپ
پیش قدموں میں جان کرتے ہیں





 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
عرق شبنم کو پھول سمجھا تھا
عِرِق۔۔ ع اور ر دونوں پر زبر۔ درست ہے۔ ’ر‘ پر جزم نہیں

میرے گریے کو میرے نالے کو
عقل والا فضول سمجھا تھا

خوش ہوں اس بات پر کہ میں دل کو
تیری خاطر ملول سمجھا تھا
یہ تک بندیاں ہیں، ہٹاؤ ان کو!!

اپنی آوارگی کو میں اپنی
زندگی کا حصول سمجھا تھا
واہ، یہ شعر اچھا نکالا ہے!!

کیسا بد بخت ہوں کہ صاحب میں
عشق اپنے کو بھول سمجھا تھا
روانی سخت متاثر ہے۔ ’اپنے عشق کو ‘ کی بجائے ’عشق اپنے کو‘ کہنا۔ یہ تو میر کی زبان بھی نہیں ہے!!
اپنی الفت کو۔۔۔ ہو سکتا ہے
 

عظیم

محفلین
عرق شبنم کو پھول سمجھا تھا
عِرِق۔۔ ع اور ر دونوں پر زبر۔ درست ہے۔ ’ر‘ پر جزم نہیں

میرے گریے کو میرے نالے کو
عقل والا فضول سمجھا تھا

خوش ہوں اس بات پر کہ میں دل کو
تیری خاطر ملول سمجھا تھا
یہ تک بندیاں ہیں، ہٹاؤ ان کو!!

اپنی آوارگی کو میں اپنی
زندگی کا حصول سمجھا تھا
واہ، یہ شعر اچھا نکالا ہے!!

کیسا بد بخت ہوں کہ صاحب میں
عشق اپنے کو بھول سمجھا تھا
روانی سخت متاثر ہے۔ ’اپنے عشق کو ‘ کی بجائے ’عشق اپنے کو‘ کہنا۔ یہ تو میر کی زبان بھی نہیں ہے!!
اپنی الفت کو۔۔۔ ہو سکتا ہے

جی بابا - اب تو میں خود بهی تهک گیا تک بندیوں سے یہ قوافی استعمال کرنا چاہتا تها اسی لئے - قبول بهی آ رہا تها ذہن میں -
 

عظیم

محفلین
اس اندھیرے میں پھر دعا مانگوں
جلتے سورج کا سامنا مانگوں

پاؤں میں حلقۂ جنوں چاہوں
چہرے پر چشمِ خواب زا مانگوں

سر کا سودا تو رائیگاں ٹھہرا
پیر میں کوئی سلسلہ مانگوں

پا شکستہ کھڑا ہوں تیرے حضور
اب ہتھیلی میں آبلہ مانگوں

کیا خبر کوئی معجزہ ہو جائے
آج میں ننگے سر دعا مانگوں

کچھ بجز خود میں دے سکوں نہ تجھے
تجھ سے میں کیا ترے سوا مانگوں

سخنِ خوں چکاں ہی لکھوں ”عظیم“
عشق کی اور کیا سزا مانگوں

بابا اسے بھی دیکھ لیجئے گا مجھے تو اچھی لگی ۔
 
آخری تدوین:

گل زیب انجم

محفلین
QUOTE="عظیم, post: 1633164, member: 7507"]

دل پہ گزری بیان کرتے ہیں
اور کیا بدگمان کرتے ہیں

بادشاہوں کے سر جهکے دیکهے
ہم غریبی پہ مان کرتے ہیں

اپنی خوشیوں کو بهی چهپائیں لوگ
اور ہم اشک دان کرتے ہیں

کس قیامت کی گریہ زاری ہم
تیری محفل میں آن کرتے ہیں

دل کے پیچهے ہی کیوں پڑے ہو آپ
پیش قدموں میں جان کرتے ہیں





[/QUOTE]
ماشاء اللہ بہت خوب برادرم
 

الف عین

لائبریرین
اس اندھیرے میں پھر دعا مانگوں
جلتے سورج کا سامنا مانگوں

پاؤں میں حلقۂ جنوں چاہوں
چہرے پر چشمِ خواب زا مانگوں

سر کا سودا تو رائیگاں ٹھہرا
پیر میں کوئی سلسلہ مانگوں

پا شکستہ کھڑا ہوں تیرے حضور
اب ہتھیلی میں آبلہ مانگوں

کیا خبر کوئی معجزہ ہو جائے
آج میں ننگے سر دعا مانگوں

کچھ بجز خود میں دے سکوں نہ تجھے
تجھ سے میں کیا ترے سوا مانگوں

سخنِ خوں چکاں ہی لکھوں ”عظیم“
عشق کی اور کیا سزا مانگوں

بابا اسے بھی دیکھ لیجئے گا مجھے تو اچھی لگی ۔
اس کو کہتے ہیں چوری اور سینہ زوری!!!
چلو معاف کیا، کہو تو تم کو بخش دوں؟
 

عظیم

محفلین
اس کو کہتے ہیں چوری اور سینہ زوری!!!
چلو معاف کیا، کہو تو تم کو بخش دوں؟

جی نہیں بابا بس ایسے ہی شرارت کرنے کا موڈ تها - اور ایسا کرنے سے اک اور بات سیکهنے کو ملی -

اور بابا اس گستاخی کے لئے ضرور بخش دیجئے گا -
 

عظیم

محفلین


جب کبھی زندگی سے پیار کِیا
موت کا ہم نے انتظار کِیا

اور تو کچھ نہیں تھا کرنے کو
چاک دامن کو تار تار کیا

ہم نے راہوں میں بیٹھ تیری یار
آپ اپنا ہی انتظار کیا

عشق ہی دو جہاں میں افضل تھا
عشق ہی ہم نے اختیار کیا

ذکر اُن کا ہم ایک بار کریں
اک نہیں سو ہزار بار کیا

بے وفا ہم کہیں گے کیوں اُن کو
جن کی الفت پہ انحصار کیا

ہم نے جا جا کے اُن کی محفل میں
آپ تنہا ہیں اعتبار کِیا






 

عظیم

محفلین


کب تک غموں کا بھار اُٹھاتا رہوں گا مَیں
دنیا سے اپنا آپ چھپاتا رہوں گا مَیں

سنتے نہیں وہ آہ مری التجا مگر
رو رو کے دل کا حال سناتا رہوں گا میں

جب تک ہے جاں میں جان تری چاہتوں پہ میں
یونہی خُود اپنی جان گنواتا رہوں گا میں

تنہائیوں میں بیٹھ کے اپنی تمام عمر
محفل کو تیری آن سجاتا رہوں گا میں

جی کر دکھاؤں گا میں زمانے کو اس طرح
جینے کے کُچھ آداب سکھاتا رہوں گا


 
Top