عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
یہ ردیف "مَیں" ۔۔۔ اس میں کئی مسائل پیش آتے ہیں۔
ایک تو یہ مضامین کو محدود کرتی ہے (اپنی ذات تک) اور شاعر ہر تیسرے چوتھے شعر میں کوئی مضمون دہرانے پر مجبور ہوتا ہے
دوسرے اس کی صوتیت عام طور پر گراں ہوتی ہے، ہاں کوئی قادر الکلام شاعر اس کو سبک بنا لے تو بنا لے۔
تیسرے اس کا پہلا حصہ "کس کو" سوال اسے اور بھی مشکل بنا دیتا ہے۔
چوتھے قافیہ بھی آپ نے بہت کسا ہوا رکھا ہے: دکھاؤں، بتاؤں، سکھاؤں
۔۔۔ اتنی ساری مشکلات !!؟

مجھے یہی کہنا تھا۔ بہت شکریہ

بہت شکریہ جناب کا -
 
یہ ردیف "مَیں" ۔۔۔ اس میں کئی مسائل پیش آتے ہیں۔
ایک تو یہ مضامین کو محدود کرتی ہے (اپنی ذات تک) اور شاعر ہر تیسرے چوتھے شعر میں کوئی مضمون دہرانے پر مجبور ہوتا ہے
دوسرے اس کی صوتیت عام طور پر گراں ہوتی ہے، ہاں کوئی قادر الکلام شاعر اس کو سبک بنا لے تو بنا لے۔
تیسرے اس کا پہلا حصہ "کس کو" سوال اسے اور بھی مشکل بنا دیتا ہے۔
چوتھے قافیہ بھی آپ نے بہت کسا ہوا رکھا ہے: دکھاؤں، بتاؤں، سکھاؤں
۔۔۔ اتنی ساری مشکلات !!؟

مجھے یہی کہنا تھا۔ بہت شکریہ

صدفی صد متفق
مر گیا ہوں عظیم کب کا مَیں
اب یہ جینا سکھاؤں کس کو مَیں


مر گیا ہوں عظیم کب کا
اب یہ جینا سکھاؤں کس کو
 

الف عین

لائبریرین
میں عظیم سے یہی کہتا آیا ہوں کہ کچھ خیال آفرینی پیدا کرو۔ اس قسم کی تک بندی تو سبھی کر لیتے ہیں۔ ویسے یہ غزل کافی بہتر ہے لیکن غور سے دیکھو تو محض اس شعر کی وجہ سے
جانتا ہوں جواب لیکن میں
ہوں سوالی سوال کرتا ہوں
 

عظیم

محفلین
میں عظیم سے یہی کہتا آیا ہوں کہ کچھ خیال آفرینی پیدا کرو۔ اس قسم کی تک بندی تو سبھی کر لیتے ہیں۔ ویسے یہ غزل کافی بہتر ہے لیکن غور سے دیکھو تو محض اس شعر کی وجہ سے
جانتا ہوں جواب لیکن میں
ہوں سوالی سوال کرتا ہوں

جی بابا - - -
 

عظیم

محفلین


جب محل شیش کا بنائیں گے
لوگ پتهر نہ کیوں اٹهائیں گے

رحم آتا نہیں اسے ہم پر
ہم بهی شکوہ نہ لب پہ لائیں گے

سوچتا ہوں وہ آسماں والے
اس زمیں زاد کو مٹائیں گے

یہ جہاں کیا تمام عالم کو
آپ کہئے تو بهول جائیں گے

زندگی بن عظیم وہ میرے
بعد مرنے کے خاک آئیں گے



 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
وہ ہمیں خوں رلائے جاتے ہیں
اور ہم مسکرائے جاتے ہیں

راہ عشق بتاں میں ہم دل پر
روز اک چوٹ کهائے جاتے ہیں

جا کروں کس کے آگے اپنا بین
لوگ نغمے سنائے جاتے ہیں

کب زمانے سے تیرے شیدائی
تیرے در سے اٹهائے جاتے ہیں

کل یہ دنیا وہ روگ پالے گی
روگ جو ہم لگائے جاتے ہیں

جانے کس جستجو میں ہم کھو کر
آپ سے دور جائے جاتے ہیں

صاحب ایسے بھی ہیں ستائے کیا
صاحب ایسے ستائے جاتے ہیں



 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

چاہ کر مسکرا نہیں سکتے
ہم ترا غم بهلا نہیں سکتے

ان فقیروں سے دوستی صاحب
آپ سے سب نبها نہیں سکتے

ہم وہ ناداں ہیں اپنی دانائی
ٹهیک سے جو چهپا نہیں سکتے

کیا ستم ہم پہ اس نے ڈهائے ہیں
مر کے بهی ہم بتا نہیں سکتے

جا تو سکتے ہیں چهوڑ دنیا کو
آپ کے در سے جا نہیں سکتے

ہو گئے ہیں عظیم پتهر کے
لوگ ہم کو رلا نہیں سکتے

کون کہتا ہے عشق میں صاحب
جان اپنی گنوا نہیں سکتے






 

عظیم

محفلین

کسی کا ذکر دل کو بھا گیا ہے
مجھے مر مر کے جینا آ گیا ہے

مرا ہی شوق میری آگہی کو
خرد میرا جنوں کو کھا گیا ہے

ہوا بیٹھا تھا دنیا سے خفا میں
کسی کا روٹھنا سمجها گیا ہے

نہیں اک پل کو تھوڑا چین آیا
سکوں سا جب سے دل کو آ گیا ہے

کروں کیسے اگر ہو صبر ممکن
یہ مجنوں ضبط سے گھبرا گیا ہے

عظیم آئے نہ باز اپنی کہی سے
زمانہ آپ سے اکتا گیا ہے

سرکنے پر ذرا اُس رُخ سے چادر
زمیں کا چاند بھی شرما گیا ہے

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

ایک دهوکا سا زمانے کو دِئے جاتے ہیں
ہم جو مرنے کی تمنا میں جِئے جاتے ہیں

سامنے رکھ کے وہ ساغر کو ہمارے بولے
جام الفت کے نِگاہوں سے پِئے جاتے ہیں

ہم کہاں ڈهونڈتے پهرتے ہیں رفو گر اپنا
ایسے بهی زخم زمانے میں سِئے جاتے ہیں

شہرتیں عام ہیں دنیا میں نہ جانے کیونکر
خود کو رسوا سرِ بازار کِئے جاتے ہیں

شعر کہنے کے ہی آداب نہ آئے صاحب
اور تو اور بہت کام کئے جاتے ہیں


 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اور تو کوئی نہ اپنا نہ پرایا اپنا
ایک ہی نام صبح و شام لئے جاتے ہیں

صبح و شام بابا ؟
 
آخری تدوین:
ایک دهوکا سا زمانے کو دِئے جاتے ہیں
ہم جو مرنے کی تمنا میں جِئے جاتے ہیں

سامنے رکھ کے وہ ساغر کو ہمارے بولے
جام الفت کے نِگاہوں سے پِئے جاتے ہیں

ہم کہاں ڈهونڈتے پهرتے ہیں رفو گر اپنا
ایسے بهی زخم زمانے میں سِئے جاتے ہیں

شہرتیں عام ہیں دنیا میں نہ جانے کیونکر
خود کو رسوا سرِ بازار کِئے جاتے ہیں

اور تو کوئی نہ اپنا نہ پرایا اپنا
ایک ہی نام صبح و شام لئے جاتے ہیں

شعر کہنے کے ہی آداب نہ آئے صاحب
اور تو اور بہت کام کئے جاتے ہیں


واہ واہ بہت داد
 
Top