عارضی شادیاں

میر انیس

لائبریرین
کیا اس قسم کی دھوکے بازی اسلام میں جائز ہے ؟ کیا اسکی کوئی بھی مثال حضور (ص) کے دور سے یا صحابہ کے دور سے دی جاسکتی ہے متعہ کے بارے میں تو کافی کچھ موجود ہے اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے آدھے دور تک یہ ہوتا رہا اور کئی صحابہ نے متعہ کیا بھی تھا یہاں تک کے حضرت عمر نے اسکو حرام قرار دیا
 

ساجد

محفلین
زواج (شادی) کی کتنی اقسام ابھی مزید ظہور پذیر ہوں گی یہ تو خدا ہی جانے لیکن زواج مسیار کے تحت انجام پانے والی شادیوں کا تو میں چشم دید گواہ ہوں اور مختصر و نرم ترین الفاظ میں اس قبیل کی شادیوں کو جنسی عیاشی پہ مذہب کا پردہ ڈالنا ہی کہوں گا۔
یہ شادیاں شریعت میں جائز ہیں یا نہیں میں اس بحث میں نہیں پڑ رہا لیکن جس طریقہ سے ان کو فروغ دیا جا رہا ہے وہ انتہائی غلط ہے۔
 

اشتیاق علی

لائبریرین
میرے خیال سے تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی پر نظر ڈالنی چاہيے اور ان کی زندگی کے مطابق اپنی زندگی گذارنے کی کوشش کرنی چاہيے۔ اللہ عزو جل ہمیں شیطان کے شر سے محفوظ فرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے مطابق زندگی گذارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

ابھی اور بھی کتنی شادیاں ہیں جن کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتا کیونکہ مشکل یہ ھے کہ ہر عمر کا ممبر فارم میں موجود ہوتا ھے اور کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ کچھ ممبران کی سوچ کے سطح‌‌ پیمانے سے اونچی ہوتی ہیں اور وہ سنتے ہیں ایک عجیب سے حالات پیدا کر دیتے ہیں۔

والسلام

 

شمشاد

لائبریرین
کعنان بھائی اب خیر سے ان کا رُخ چین کی طرف ہو گیا ہے۔ اور دھڑا دھڑ چین کے چکر لگا رہے ہیں۔
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم شمشاد بھائی

لولز ایک سمائل کے ساتھ جب میں گلف میں تھا تو اس وقت فلپائن پر بہت زور تھا۔

والسلام
 

ساجد

محفلین
خدا ان کو ہدایت نصیب فرمائے۔ یہ مذہب کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
 

ملنگ

محفلین
کیا اس قسم کی دھوکے بازی اسلام میں جائز ہے ؟ کیا اسکی کوئی بھی مثال حضور (ص) کے دور سے یا صحابہ کے دور سے دی جاسکتی ہے متعہ کے بارے میں تو کافی کچھ موجود ہے اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے آدھے دور تک یہ ہوتا رہا اور کئی صحابہ نے متعہ کیا بھی تھا یہاں تک کے حضرت عمر نے اسکو حرام قرار دیا

جناب یہ ان علاقوں‌ میں‌ہوتا رہا تھا جہاں‌تک اسکے حرام کی خبر نہیں‌پہنچی تھی ۔۔۔ اگر آپ بغور مطالعہ کریں‌تو جب حضرت عمر کو پتا چلا تو انہوں نے اس سے منع کر دیا تھا ۔۔۔ متع کی اصل حرمت تو قرآن میں‌موجود ہے
 

مہوش علی

لائبریرین
جناب یہ ان علاقوں‌ میں‌ہوتا رہا تھا جہاں‌تک اسکے حرام کی خبر نہیں‌پہنچی تھی ۔۔۔ اگر آپ بغور مطالعہ کریں‌تو جب حضرت عمر کو پتا چلا تو انہوں نے اس سے منع کر دیا تھا ۔۔۔ متع کی اصل حرمت تو قرآن میں‌موجود ہے

عقد متعہ ہمیشہ کا اختلافی مسئلہ ہے۔ بہرحال ۔۔۔

ملنگ برادر، آپ جو بات کر رہے وہ عقل کے میزان پر پوری نہیں اتر سکتی۔ یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سن 7 ہجری میں عقد متعہ کو حرام قرار دیں، مگر صحابہ اس سے اسقدر بے خبر رہیں کہ رسول اللہ ص کا پورا دور ختم ہو جائے، پھر حضرت ابو بکر کے دو سالہ خلافت کا دور ختم ہو جائے، پھر حضرت عمر کی طویل خلافت کے آدھے دور کے بعد بھی لوگوں کو پتا نہ ہو کہ عقد متعہ حرام ہو چکا ہے (اور معاذ اللہ معاذ اللہ وہ عقد متعہ کے نام پر برائی میں مبتلا رہیں)۔

اور پھر لوگ بھی کیسے؟
جی ہاں لوگ بھی ایسے اکابر صحابہ جیسے جابر بن عبداللہ انصاری اور ابن عباس وغیرہ۔
یہ ایک ناممکن بات ہے۔

دیکھئے، جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو پورے مدینہ کی گلیوں میں شراب بہہ رہی تھی۔ اسی طرح اگر عقد متعہ حرام ہوا ہوتا تو یہ اتنی اہم بات ہے کہ جس کے بعد فورا تمام جوڑوں کو الگ کر دیا جانا لازمی و واجب تھا ورنہ یہ بہت بڑی برائی کی بات ہے۔

بہرحال یہ ایک لمبی بحث ہے۔ میرے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عمر نے وقت کے حالات کے مطابق اس سے منع فرمایا تھا جیسا کہ انہوں نے تین نشتوں کی طلاق کے قرآنی حکم میں حالات کے تحت اپنے رائے سے تبدیلی کی تھی۔

والسلام۔
 

صرف علی

محفلین
السلام علیکم
میرے خیال سے جس چیز پر بات ہورہی ہے اس میں رہ کر بات کی جائے تو اچھا ہوگا۔
والسلام
 

طالوت

محفلین
یہ ایک فضؤل بات ہے کہ رسول اللہ متعہ کو جائز قرار دیں اور صحابہ کے ادوار میں ہوتا رہے حتٰی کہ سیدنا عمر اسے حرام قرار دیں ۔۔ ایسی باتوں‌سے ایک طرف تو متعہ کو جائز ٹھہرانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے اور دوسری طرف سیدنا عمر سے اپنا بغض نکالا جاتا ہے ۔۔ پتا نہیں کیوں ہم میٹھے زہر کو پہچاننے سے قاصر ہیں
وسلام
 

میر انیس

لائبریرین
یہ ایک فضؤل بات ہے کہ رسول اللہ متعہ کو جائز قرار دیں اور صحابہ کے ادوار میں ہوتا رہے حتٰی کہ سیدنا عمر اسے حرام قرار دیں ۔۔ ایسی باتوں‌سے ایک طرف تو متعہ کو جائز ٹھہرانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے اور دوسری طرف سیدنا عمر سے اپنا بغض نکالا جاتا ہے ۔۔ پتا نہیں کیوں ہم میٹھے زہر کو پہچاننے سے قاصر ہیں
وسلام
ظہیر صاحب کوئی بھی بات صرف اپنے نظریات کے مطابق صحیح یا غلط کہ دینا ناانصافی ہے ۔ اگر متعہ حضرت ابوبکر کے دور تک جائز نہیں تھا تو دلائل دیں اور قران کی اس آیت کی تشریح بھی کریں کہ ترجمہ" اور جن عورتوں کے ساتھ تم نے متعہ کیا ہے انکو مہر ادا کردو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے" اور اگر یہ آیت منسوخ ہوگئی ہے تو جس حکم کے تحت منسوخ ہوئی ہے براہِ کرم اس آیت کا بھی حوالہ دیں
 

طالوت

محفلین
ظہیر صاحب کوئی بھی بات صرف اپنے نظریات کے مطابق صحیح یا غلط کہ دینا ناانصافی ہے ۔ اگر متعہ حضرت ابوبکر کے دور تک جائز نہیں تھا تو دلائل دیں اور قران کی اس آیت کی تشریح بھی کریں کہ ترجمہ" اور جن عورتوں کے ساتھ تم نے متعہ کیا ہے انکو مہر ادا کردو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے" اور اگر یہ آیت منسوخ ہوگئی ہے تو جس حکم کے تحت منسوخ ہوئی ہے براہِ کرم اس آیت کا بھی حوالہ دیں

جناب والا ۔ میں نے ایک عقلی دلیل دی ہے اگر آپ سمجھ نہیں پائے تو مزید وضاحت کر دیتا ہوں ۔ معاملہ متعہ میں اگر رسول اللہ نے اسے جائز رکھا تو کوئی صحابی یہ جرات نہیں رکھتے کے ایک حلال کو حرام میں بدل دیں یہ حق تو رسول اللہ بھی نہیں رکھتے کجا کہ کوئی صحابی ۔ اور صحابہ کا معاملہ اطاعت کیسا تھا وہ ہر فقہ/فرقہ کے کم سے کم علم افراد بھی بخوبی جانتے ہیں کیونکہ اللہ رب العزت نے ان حامیان رسول کو "رضی اللہ" کا سرٹیفیکیٹ دیا ہے ۔
آپ نے جو مذکورہ آٰٰیت اپنے مراسلے میں‌شامل فرمائی ہے ازراہ کرم اس کا حوالہ عربی و ترجمہ درج فرما دیں کیونکہ بدقسمتی سے کچھ عرصہ سے میں قران سے اپنی سستی کے باعث دور ہوں اور مجھے یاد نہیں پڑتا کہ یہ آٰیت کہاں ہے اور اس کا سیاق و سباق کیا ہے ۔
اور دوسری انتہائی ضروری بات کہ میں ناسخ و منسوخ قائل نہیں ہوں‌۔
وسلام
 

کعنان

محفلین
میں آپ کی اس گفتگو میں شامل نہیں لیکن قرآن کی آیت پیش کر دیتا ہوں۔


فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا

سورت النسا 4، آیت نمبر 24

پھر جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے ا نکا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو البتہ طے کرنے کے بعد آپس میں رضا مندی سے مہر میں کمی بیشی کرو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یقینا اللہ بڑا جاننے والا حکمت والاہے
 

میر انیس

لائبریرین
آپ نے بالکل بجا ارشاد فرمایا حرام ِمحمد(ص) قیامت تک حرام رہے گا اور حلالِ محمد(ص) قیامت تک حلال رہے گا۔ اسمیں ردو بدل کا حق نہ ہی کسی صحابہ کو ہے چاہے وہ کتنا بڑے اور جید صحابی ہی کیوں نہ ہوں۔نہ ہی کسی خلیفۃالمسلمین کو ہے۔ اسی لیئے حضرت ابوبکر کے زمانے تک متعہ حلال تھا۔اور یہ میں نہیں کہتا بلکہ اسلامی مورخین اور محدثین لکھتے ہیں کہ بہت جید صحابہ اکرام نے بھی متعہ کیا تھا۔اور ان میں سے اکثر کتابوں کا تعلق میرے مسلک سے نہیں ہے۔ باقی رہی آیت تو پانچویں پارے کے شروع میں ہی دیکھ لیں آیتِ متعہ موجود ہے۔ ترجمہ:
"جو عورتیں کفار سے جہاد میں تمہارے قبضے میں آجائیں وہ تم پر حرام نہیں ہیں یہ اللہ کا تحریری حکم ہے جو تم پر فرض کیا گیا ہے۔اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں بھی تمہارے لیئے جائز ہیں بشرطیکہ بدکاری اور زنا نہیں بلکہ تم عفت اور پاکدامنی کی غرض سے اپنے مال کہ بدلے ان سے نکاح کرو۔ اور جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے انکو انکا مہر جو تم نے مقرر کیا ہے دے دو مگر اگر بعد میں کم و بیش پر راضی ہوجائو تو اسمیں کوئی گناہ نہیں ہے"
سورۃالنساء آیت کا نشان 123،124
 

طالوت

محفلین
طالوت ویسے یار کب مفتی عالم کا دعوی کرنے والے ہو۔
لگتا ہے ابن رشد کی روح تم میں حلول کر گئی ہے :)
مگر ابن رشد مفتی ٹائپ کی چیز تو نہ تھے:drooling: ویسے میرا ایسے کسی دعوے کا کوئی ارادہ نہیں کہ میں تو طفل مکتب ہوں اور طفل مکتب ہی رہوں گا;)
وسلام
 

طالوت

محفلین
میں آپ کی اس گفتگو میں شامل نہیں لیکن قرآن کی آیت پیش کر دیتا ہوں۔

فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
سورت النسا 4، آیت نمبر 24
پھر جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے ا نکا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو البتہ طے کرنے کے بعد آپس میں رضا مندی سے مہر میں کمی بیشی کرو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یقینا اللہ بڑا جاننے والا حکمت والاہے
اگرچہ یہ ایک مسلسل بیان ہے جس میں قانون وراثت محرم نا محرم سبھی کا ذکر مسلسل ہو رہا ہے ۔ مگر یہ آیت "والمحصنت من النساء الا ما ملکت ایمانکم" سے شروع ہو رہی ہے اور مسلسل بیان کی صورت میں "ان اللہ کان علیما حکیما" پر اس کا اختتام ہو رہا ہے ۔اور فما استمتعتم بہ سے پہلے محصنین غیر مسفحین کا بھی ذکر ہے جس سے بات واضح ہوتی ہے کہ محض تفریحا ان عورتوں کو اختیار نہیں کیا جا سکتا بلکہ خاندان بسانے کے طور پر یا قید (نکاح) میں لایا جائے گا اور مہر مقرر ادا کیا جائے گا جو طے کیا جائے گا آپس میں جس سے پہلے جو کچھ کیا جا چکا اس کا گناہ جاتا رہے گا۔
آپ نے بالکل بجا ارشاد فرمایا حرام ِمحمد(ص) قیامت تک حرام رہے گا اور حلالِ محمد(ص) قیامت تک حلال رہے گا۔ اسمیں ردو بدل کا حق نہ ہی کسی صحابہ کو ہے چاہے وہ کتنا بڑے اور جید صحابی ہی کیوں نہ ہوں۔نہ ہی کسی خلیفۃالمسلمین کو ہے۔ اسی لیئے حضرت ابوبکر کے زمانے تک متعہ حلال تھا۔اور یہ میں نہیں کہتا بلکہ اسلامی مورخین اور محدثین لکھتے ہیں کہ بہت جید صحابہ اکرام نے بھی متعہ کیا تھا۔اور ان میں سے اکثر کتابوں کا تعلق میرے مسلک سے نہیں ہے۔ باقی رہی آیت تو پانچویں پارے کے شروع میں ہی دیکھ لیں آیتِ متعہ موجود ہے۔ ترجمہ:
"جو عورتیں کفار سے جہاد میں تمہارے قبضے میں آجائیں وہ تم پر حرام نہیں ہیں یہ اللہ کا تحریری حکم ہے جو تم پر فرض کیا گیا ہے۔اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں بھی تمہارے لیئے جائز ہیں بشرطیکہ بدکاری اور زنا نہیں بلکہ تم عفت اور پاکدامنی کی غرض سے اپنے مال کہ بدلے ان سے نکاح کرو۔ اور جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے انکو انکا مہر جو تم نے مقرر کیا ہے دے دو مگر اگر بعد میں کم و بیش پر راضی ہوجائو تو اسمیں کوئی گناہ نہیں ہے"
سورۃالنساء آیت کا نشان 123،124
غالبا آپ سورۃ النساء آیت نمبر 24 لکھنا چاہ رہے ہیں کیونکہ 123-124 اس موضوع سے متعلق ہرگز نہیں ۔ بہرحال ترجمہ خوب کیا ہے"ولا جناح علیکم فیما تراضیتم بہ من بعد الفریضۃ" کا "مگر اگر بعد میں کم و بیش پر راضی ہوجائو تو اسمیں کوئی گناہ نہیں ہے"۔ اگر ایسی ہی چند مثالیں اور سامنے آئیں تو میں محب کے "بے حد اصرار" پر مفتی کا دعوہ کر دینے والا ہوں‌. اور باقی تحریر کا کیا لکھوں "غاصبوں" میں فرق اچھی بات نہیں ۔
وسلام
 

کعنان

محفلین
کیا اس قسم کی دھوکے بازی اسلام میں جائز ہے ؟ کیا اسکی کوئی بھی مثال حضور (ص) کے دور سے یا صحابہ کے دور سے دی جاسکتی ہے متعہ کے بارے میں تو کافی کچھ موجود ہے اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے آدھے دور تک یہ ہوتا رہا اور کئی صحابہ نے متعہ کیا بھی تھا یہاں تک کے حضرت عمر نے اسکو حرام قرار دیا

ظہیر صاحب کوئی بھی بات صرف اپنے نظریات کے مطابق صحیح یا غلط کہ دینا ناانصافی ہے ۔ اگر متعہ حضرت ابوبکر کے دور تک جائز نہیں تھا تو دلائل دیں اور قران کی اس آیت کی تشریح بھی کریں کہ ترجمہ" اور جن عورتوں کے ساتھ تم نے متعہ کیا ہے انکو مہر ادا کردو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے" اور اگر یہ آیت منسوخ ہوگئی ہے تو جس حکم کے تحت منسوخ ہوئی ہے براہِ کرم اس آیت کا بھی حوالہ دیں

آپ نے بالکل بجا ارشاد فرمایا حرام ِمحمد(ص) قیامت تک حرام رہے گا اور حلالِ محمد(ص) قیامت تک حلال رہے گا۔ اسمیں ردو بدل کا حق نہ ہی کسی صحابہ کو ہے چاہے وہ کتنا بڑے اور جید صحابی ہی کیوں نہ ہوں۔نہ ہی کسی خلیفۃالمسلمین کو ہے۔ اسی لیئے حضرت ابوبکر کے زمانے تک متعہ حلال تھا۔اور یہ میں نہیں کہتا بلکہ اسلامی مورخین اور محدثین لکھتے ہیں کہ بہت جید صحابہ اکرام نے بھی متعہ کیا تھا۔اور ان میں سے اکثر کتابوں کا تعلق میرے مسلک سے نہیں ہے۔ باقی رہی آیت تو پانچویں پارے کے شروع میں ہی دیکھ لیں آیتِ متعہ موجود ہے۔ ترجمہ:
"جو عورتیں کفار سے جہاد میں تمہارے قبضے میں آجائیں وہ تم پر حرام نہیں ہیں یہ اللہ کا تحریری حکم ہے جو تم پر فرض کیا گیا ہے۔اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں بھی تمہارے لیئے جائز ہیں بشرطیکہ بدکاری اور زنا نہیں بلکہ تم عفت اور پاکدامنی کی غرض سے اپنے مال کہ بدلے ان سے نکاح کرو۔ اور جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے انکو انکا مہر جو تم نے مقرر کیا ہے دے دو مگر اگر بعد میں کم و بیش پر راضی ہوجائو تو اسمیں کوئی گناہ نہیں ہے"
سورۃالنساء آیت کا نشان 123،124


السلام علیکم جناب انیس صاحب

جیسا کہ آپ نے اوپر کچھ مراسلے پوسٹ کئے ہوئے ہیں‌ ان کی مد نظر رکھتے ہوئے میں آپ سے کچھ گفتگو کروں گا اگر اجازت ہو تو۔
کچھ مسائل ایسے ہیں‌‌ جو فقہی لحآظ‌ سے بڑے سٹرونگ ہوتے ہیں‌‌ اس پر مجھ جیسا بندہ کو کچھ بھی لکھتے ہوئے پرہیز کرنا چاہئے،

انیس صاحب ایک وقت کے لئے آپ یہ بھول جائیں‌‌‌‌ کہ آپ کا کسی فقہ سے تعلق ھے اور میں بھی یہ بھول جاتا ہوں، جو قرآن مجید کی آیت آپ نے پیش کی ھے جس سے آپ متعہ کا ہونا جائز قرار دے رہے ہیں اس پر علمی طور سے بات کر لیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد آپ اس پر روشنی ڈالنا،


یہ قرآن مجید کی سورت النسا ترتیب سے 4 اور آیت نمبر 24 ھے پہلے آپ اپنی یہ غلطی ٹھیک کر لیں۔

"جو عورتیں کفار سے جہاد میں تمہارے قبضے میں آجائیں وہ تم پر حرام نہیں ہیں یہ اللہ کا تحریری حکم ہے جو تم پر فرض کیا گیا ہے۔اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں بھی تمہارے لیئے جائز ہیں بشرطیکہ بدکاری اور زنا نہیں بلکہ تم عفت اور پاکدامنی کی غرض سے اپنے مال کہ بدلے ان سے نکاح کرو۔ اور جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے انکو انکا مہر جو تم نے مقرر کیا ہے دے دو مگر اگر بعد میں کم و بیش پر راضی ہوجائو تو اسمیں کوئی گناہ نہیں ہے"
4:24

میری اتنی اوقات نہیں کہ میں قرآن مجید کی تشریح پیش کروں مگر میرے ناقص علم کے حساب سے مجھے جو سمجھ آ رہی ہے وہ پیش کرتا ہوں آپ کے لئے جسے آپ متعہ کا ہونا جائز قرار دے رہے ہیں۔ ان آیات کو اگر علماء کرام سے ہی سمجھا جائے تو اچھا ہوتا ھے کیونکہ ان کے پیچھے حالات اور واقعات بھی موجود ہوتے ہیں جس سے پتہ چلتا ھے کہ اللہ سبحان تعالی کو کونسے عمل ہر کونسا حکم دینا پڑا اس کی کیا وجوہات تھیں۔
آپ خود ہی کوئی بھی قرآن مجید کی آیت دکھا کر خود کچھ بھی سمجھ سکتے ہیں اور دوسرں کو دکھا کر آپ اپنی رائے دے سکتے ہیں مگر حکم نہیں دے سکتے۔ اس کے لئے آپ کو ثابت کرنا پڑے گا۔


سورت النسا کی آیت نمبر 24 کو پورا پڑھیں تو پتہ چلتا ھے کہ کہ کسی جنگ/جہاد کے دوران یا ختم ہونے کے وقت نازل ہوئی تھی

جو عورتیں کفار سے جہاد میں تمہارے قبضے میں آجائیں وہ تم پر حرام نہیں ہیں یہ اللہ کا تحریری حکم ہے جو تم پر فرض کیا گیا ہے۔
4:24

اس فرمان کا مطلب یہ نہیں ھے کہ کفار کی عورتیں قبضے میں آ جانے سے تم ان کے ساتھ کچھ بھی کرو اب اگلے حکم میں دیکھتے ہیں

اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں بھی تمہارے لیئے جائز ہیں بشرطیکہ بدکاری اور زنا نہیں بلکہ تم عفت اور پاکدامنی کی غرض سے اپنے مال کہ بدلے ان سے نکاح کرو۔
4:24

پہلا حکم ختم نہیں ہوا اس کے بعد "اور" لگا ہوا ھے یہ حکم ابھی جاری ھے پہلے حکم میں کفار عوتوں کا ذکر ھے اور اس میں " اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں" ہو سکتا ھے اھل کتاب والی عورتیں ہوں۔
تو پتہ چلتا ھے کہ اس جنگ میں جو بھی عورتیں تمہارے قبضہ میں آئیں وہ تم پر حرام نہیں ہیں جائز ہیں بشرطیکہ بدکاری اور زنا نہیں کرنا بلکہ انہیں اپنے نکاح میں لانا ھے اب اگلا حکم دیکھتے ہیں



اور جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے انکو انکا مہر جو تم نے مقرر کیا ہے دے دو مگر اگر بعد میں کم و بیش پر راضی ہو جائو تو اسمیں کوئی گناہ نہیں ہے
4:24


اللہ کا فرمان جاری ھے اور اس فرمان سے صاف ظاہر ہو رہا ھے کہ جنگ و جہاد میں اس آیت کے اترنے سے پہلے جس نے متعہ جیسا فعل کیا اس پر جو انہوں نے اس کی شرط کے مطابق جو مہر مقرر کیا تھا وہ انہیں ادا کر دیں اگر وہ عورتیں تھوڑے میں بھی راضی ہو جائیں تو کوئی گناہ نہیں،
اس جنگ کے دوران جو بھی اس وقت جنگ سے پہلے تک کا قانون تھا جس میں متعہ کیا جاتا تھا اس آیت کے بعد وہ متعہ کرنا منسوخ ہو گیا۔


انیس صاحب کے بیان کے مطابق انہی کی پیش کی ہوئی آیت کے مطابق متعہ کا حکم اللہ سبحان تعالی کی طرف سے ہی اسی آیت سے منسوخ ھے جو کہ اس جنگ سے پہلے تک کیا جاتا تھا۔ انیس صاحب پوری آٰیت پڑھیں حکم ہو رہا ھے کہ جہاد میں کفار عورتیں اور دوسری عورتیں جو تمہارے قبضے میں‌ آئی ہیں وہ جائز ہیں مگر ان کے ساتھ نکاح پڑھو


انیس صاحب اب آپ اس آیت سے کیسے ثابت کرتے ہیں‌‌ کہ اس میں‌‌ متعہ کا حکم دیا جا رہا ھے۔ آپکی آسانی کے لئے ایک بار پھر اسی آیت کا ترجمہ یہاں‌ پر نقل کر دیتا ہوں

"جو عورتیں کفار سے جہاد میں تمہارے قبضے میں آجائیں
وہ تم پر حرام نہیں ہیں
یہ اللہ کا تحریری حکم ہے
جو تم پر فرض کیا گیا ہے۔
اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں بھی تمہارے لیئے جائز ہیں
بشرطیکہ بدکاری اور زنا نہیں
بلکہ تم عفت اور پاکدامنی کی غرض سے اپنے مال کہ بدلے ان سے نکاح کرو۔

اور جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے
انکو انکا مہر جو تم نے مقرر کیا ہے دے دو
مگر اگر بعد میں کم و بیش پر راضی ہو جائو
تو اسمیں کوئی گناہ نہیں ہے"

4:24


والسلام
 

dxbgraphics

محفلین
عقد متعہ ہمیشہ کا اختلافی مسئلہ ہے۔ بہرحال ۔۔۔

ملنگ برادر، آپ جو بات کر رہے وہ عقل کے میزان پر پوری نہیں اتر سکتی۔ یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم سن 7 ہجری میں عقد متعہ کو حرام قرار دیں، مگر صحابہ اس سے اسقدر بے خبر رہیں کہ رسول اللہ ص کا پورا دور ختم ہو جائے، پھر حضرت ابو بکر کے دو سالہ خلافت کا دور ختم ہو جائے، پھر حضرت عمر کی طویل خلافت کے آدھے دور کے بعد بھی لوگوں کو پتا نہ ہو کہ عقد متعہ حرام ہو چکا ہے (اور معاذ اللہ معاذ اللہ وہ عقد متعہ کے نام پر برائی میں مبتلا رہیں)۔

اور پھر لوگ بھی کیسے؟
جی ہاں لوگ بھی ایسے اکابر صحابہ جیسے جابر بن عبداللہ انصاری اور ابن عباس وغیرہ۔
یہ ایک ناممکن بات ہے۔

دیکھئے، جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو پورے مدینہ کی گلیوں میں شراب بہہ رہی تھی۔ اسی طرح اگر عقد متعہ حرام ہوا ہوتا تو یہ اتنی اہم بات ہے کہ جس کے بعد فورا تمام جوڑوں کو الگ کر دیا جانا لازمی و واجب تھا ورنہ یہ بہت بڑی برائی کی بات ہے۔

بہرحال یہ ایک لمبی بحث ہے۔ میرے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عمر نے وقت کے حالات کے مطابق اس سے منع فرمایا تھا جیسا کہ انہوں نے تین نشتوں کی طلاق کے قرآنی حکم میں حالات کے تحت اپنے رائے سے تبدیلی کی تھی۔

والسلام۔

میں ایران میں انٹری ایگزٹ کرنے کے لئے گیا تو وہاں سڑکوں بازاروں میں جومنظر تھا میری سمجھ سے باہر تھا۔
 
Top